عم پارہ ۔ اردو ترجمہ و تفسیر

جمعرات، 25 مئی، 2023

سورۃ البلد:13، عم پارہ

سورۃ البلد 

 اسماء سورة

بلد کا معنی  شہر ہے۔ اس سورت کی پہلی آیت میں   اللّٰہ  تعالیٰ نے  شہر مکہ کی قسم کھائی  ہے اس مناسبت سے اسے ’’سورۂ بلد‘‘ کہتے ہیں ۔ بیس آیات پر مشتمل اس مکی سورة کو    “سورة لا اقسم”  بھی کہا جاتا ہے۔

ربط سورة

پچھلی سورة “الفجر”سے ربط یہ ہے کہ الفجر کی طرح اس سورة میں بھی اعمال کی جزا و سزا کا بیان ہے البتہ وہاں  زیادہ توجہ برے اعمال کی سزا پر تھی اور اس سورة میں خاص طور پر نیک اعمال کی جزا کو بیان کیا گیا ہے۔

لَا أُقْسِمُ بِهَـٰذَا الْبَلَدِ ﴿١

میں قسم کھاتا ہوں اس شہر کی ۔

۔۔۔۔۔

ان آیات میں تین چیزوں کی قسم کھا کر الله تعالی جواب قسم کے مضمون کو پختہ کر رہے ہیں۔

پہلی قسم : لا اقسم ۔ لا سے دو معنی مراد ہو سکتے ہیں ۔

۱- حرف لا زائدہ  ہے۔ 

۲- عرب بول چال میں  حرف “لا”مخاطب کے  خیال کو  غلط ثابت کرنے کے لئے،  قسم کے شروع میں لایا جاتا ہے، جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ جو تمہارا خیال ہے وہ صحیح نہیں ہے، بلکہ ہم قسم کھا کر کہتے ہیں کہ حقیقت وہ ہے جو ہم بیان کر رہے  ہیں۔ 

 البلد سے مکہ مکرمہ مراد ہے جیسا کہ “سورة والتین” میں بھی شہر مکہ کی قسم کھائی ہے۔  مکہ کی قسم کھانا اس کی فضیلت اور بزرگی  کی وجہ سے ہے۔

وَأَنتَ حِلٌّ بِهَـٰذَا الْبَلَدِ ﴿٢﴾ 

جبکہ ( اے پیغمبر ) تم اس شہر میں مقیم ہو 

۔۔۔۔۔۔۔

حلٌّ کے معنی میں مفسرین کے مختلف اقوال  ہیں۔ 

١۔ حل” کے معنی کسی شیء کے اندر سمانے،  رہنے اور اترنے کے آتے ہیں. اس اعتبار سے حلّ کے معنی اترنے والے اور رہنے والے کے ہوں گے،اور  آیت  سے مراد یہ ہوگی کہ شہر مکہ  خود بھی محترم اور مقدس  ہے اور  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  بھی اس شہر میں رہتے ہیں،  اس لیےاس  شہر کی عظمت و حرمت آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس میں رہنے  سے دوہری ہوگئی ہے۔

۲۔حل کے معنی کسی چیز کے حلال ہونے کے بھی  ہیں. اس اعتبا ر سے لفظ حل کے دو معنی ہوسکتے ہیں۔

ایک یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خون کو کفار مکہ نے حلال سمجھ لیا ہے اور  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لیے تیار  ہیں  حالانکہ وہ خود  شہر مکہ میں کسی شکار کو بھی حلال نہیں سمجھتے تھے۔

دو سرے معنی حل کے یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کیلئے حرم مکہ میں کافروں سے قتال حلال ہونے والا ہے۔ جیسا کہ فتح مکہ کے موقع پر  ایک روز کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے احکامِ حرم اٹھا لئے گئے تھے اور کفار کا قتل حلال کردیا گیا تھا۔ 

آیت کے الفاظ میں تینوں معانی کی گنجائش ہے۔

وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَ ﴿٣

اور قسم ہے باپ کی اور اولاد کی

۔۔۔۔

دوسری اور تیسری قسم والد اور اولاد کی ہے۔ 

باپ سے مراد حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور چونکہ تمام اِنسان انہیں کی اولاد ہیں، اس لئے اس آیت میں تمام نوعِ اِنسانی کی قسم کھائی گئی ہے۔ 

لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي كَبَدٍ ﴿٤

۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ ہے وہ بات جس کے لیے قسم کھائی گئی ہے۔ کبد کے لفظی معنی مشقت کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ دُنیا میں اِنسان کو اِس طرح پیدا کیا گیا ہے کہ وہ کسی نہ کسی مشقت میں لگارہتا ہے، چاہے کوئی کتنا بڑا حاکم  یا دولت مند شخص ہو، اُسے زندہ رہنے کے لئے مشقت اُٹھانی ہی پڑتی ہے۔ محنت اور مشقت انسان کی فطرت میں ڈال دی گئی ہے۔ اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ اُسے دُنیا میں کبھی کوئی محنت نہ کرنی پڑے تو یہ  ممکن نہیں ہے۔مثلا بچے کو پیدائش کی تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے، دودھ پینے کی مشقت، دانت نکلنے یا  بیمار و کمزور ہونے کی تکلیف ، تعلیم و کاروباروغیرہ، بڑھاپا اور موت کی تکلیف پھر قبر و حشر اور اس میں الله تعالی کے سامنے اعمال کی جواب دہی اور سزا و جزا    کی مشقت، غرض انسان  کی زندگی مسلسل جدوجہد ، محنت اور مشقت سے بھرپور ہے۔ ہاں مکمل راحت کی زندگی جنّت کی زندگی ہے جو دُنیا میں کی ہوئی محنت کے نتیجے میں ملتی ہے۔ ہدایت یہ دی گئی ہے کہ اِنسان کو دُنیا میں جب کسی مشقت کا سامنا ہو تو اُسے یہ حقیقت یاد کرنی چاہئے۔

سوال:محنت ومشقت صرف انسان کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ سب جانور بھی اس میں شریک ہیں پھر اس حال کو صرف انسان کے لئے کیوں خاص کیا گیا؟

جواب: ۱ - انسان سب جانوروں سے زیادہ عقل و شعور  رکھتا ہے اور محنت کی تکلیف بھی شعور کے حساب سے زیادہ محسوس ہوتی ہے۔

 ۲-  آخری اور سب سے بڑی محنت محشر میں دوبارہ زندہ ہو کر عمر بھر کے اعمال کا حساب دینا ہے وہ دوسرے جانوروں میں نہیں ہے۔

 بعض علماء نے فرمایا کہ کوئی مخلوق اتنی مشقتیں نہیں جھیلتی جتنی انسان برداشت کرتا ہے حالانکہ  وہ جسم اور طاقت میں اکثر جانوروں کی نسبت ضعیف اور کمزور ہے،  چونکہ انسان کی دماغی قوت سب سے زیادہ ہے اس لئے اس لیے اس کو خاص کیا گیا ہے۔


 أَيَحْسَبُ أَن لَّن يَقْدِرَ عَلَيْهِ أَحَدٌ ﴿٥﴾ 

کیا وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس پر کسی کا بس نہیں چلے گا؟

۔۔۔۔۔

مقصد یہ ہے کہ انسان کو چاہیے تھا ان تکلیفوں اور مصیبتوں پر غور کرتا اور عاجزی اختیار کرتا،لیکن وہ غرور اور تکبر کرتا ہے، طاقت کے نشے میں کہتا ہے کہ کون مجھے پکڑ سکتا ہے؟

ان آیات کا شانِ نزول یہ ہے کہ  یہ آیات یا تو عام کافروں کے بارے میں نازل ہوئیں یا پھر ولید بن مغیرہ یا  ابو الاشد  کلاہ بن اسید کے بارے میں نازل ہوئیں، جو بڑا طاقتور پہلوان تھا اور کہتا تھا کہ عذاب کہ فرشتے میرے قریب آئیں تو انہیں پٹخ دوں گا، وہ مجھ پر قابو نہیں پا سکیں گے۔  

يَقُولُ أَهْلَكْتُ مَالًا لُّبَدًا ﴿٦﴾ 

کہتا ہے کہ : میں نے ڈھیروں مال اڑا ڈالا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور ریا کاری کرتے ہوئے کہتا ہے میں نے لوگوں پر بہت سامال خرچ کیا۔ یا یہ مراد ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے کہنے پر یا ان کی مخالفت میں بہت سا مال برباد کر دیا، حالانکہ وہ بالکل جھوٹ بولتا ہے۔

أَيَحْسَبُ أَن لَّمْ يَرَهُ أَحَدٌ ﴿٧﴾ 

کیا وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کو کسی نے دیکھا نہیں؟

۔۔۔۔۔۔

مطلب یہ ہے کہ انسان احمق ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ اس کے برے اعمال، ریاکاری و مکاری، فخر، غرور اور تکبر  کو کوئی نہیں دیکھ رہا حالانکہ اس کا خالق اس کے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے۔

ربط آیات: 

پچھلی آیات میں انسان کی اس غفلت و جہالت پر تنبیہ تھی کہ وہ سمجھتا ہے کہ میرے اوپر اللہ تعالیٰ کو بھی قدرت نہیں، اور یہ کہ اس کے اعمال و افعال کو کوئی دیکھنے والا نہیں۔ اس آیت میں چند  نعمتوں کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے وجود میں ایسی عطا فرمائی ہیں کہ  اگر صرف ان کی  حکمت پر ہی غور کرلے  تو الله  تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ  کو مان لے۔

أَلَمْ نَجْعَل لَّهُ عَيْنَيْنِ ﴿٨﴾ 

کیا ہم نے اس کے ( نفع کے لیے ) دونوں آنکھیں عطا نہیں فرمائی ہیں۔

۔۔۔۔

پہلے دو آنکھوں کا ذکر فرمایا کہ آنکھ کے نازک پردے میں  باریک اور نازک رگیں، جن میں قدرتی روشنی سے ہر چیز کی تصویر  بنائی،  آنکھ کی بناوٹ ایسی ہے  کہ جسم کا نازک ترین حصہ ہے اور  اس کی حفاظت کا ایسا زبردست انتظام ہے کہ  اس کے اوپر ایسے پردے ڈال دیئے کہ  جب بھی کوئی نقصان دہ  چیز سامنے سے آتی دکھائی دیتی ہے  خود کار مشین کی طرح ، خود بخود بغیر کسی تکلف کے بند ہوجاتے ہیں۔ ان پردوں کے اوپر پلکوں کے بال کھڑے کردیئے تاکہ گردوغبار کو روک لیں،پھر اسکے اوپر بھو وں کے بال رکھے کے اوپر سے آنیوالی چیز براہ راست آنکھ میں نہ پہنچے۔

 آنکھ  کو چہرے کے اندر اس طرح فٹ کیا گیا کہ اوپر ماتھے کی سخت ہڈی اور نیچے رخسار کی سخت ہڈی ہے،  آدمی کہیں چہرے کے بل گر جائے یا اس کے چہرے پر کوئی چیز آپڑے تو اوپر نیچے کی ہڈیاں آنکھ کو بچالیتی ہیں۔

وَلِسَانًا وَشَفَتَيْنِ ﴿٩﴾ 

اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دیے؟

۔۔۔۔

دوسری چیز زبان جیسی عجیب و غریب نعمت ہے۔دل کی باتوں اور خیالات  کو بیان کرنے کے لیے ،اس پر اسرار اور خود کار مشین کا طریقہ کس قدر  حیران کن ہے،  ادھر  دل میں ایک خیال  آتا ہے، دماغ  اس پر غور کرتا  اور الفاظ تیار کرتا ہے  اور الفاظ اس مشین سے نکلنے لگتے ہیں۔ یہ اتنا بڑا کام اتنی تیزی  کے ساتھ ہوتا کہ سننے والے کو یہ احساس بھی نہیں ہوتا، ان الفاظ کے زبان پر آنے تک کتنی بڑی مشینری نے کام کیا ہے۔ 

  زبان کو الله نے  ایسی تیز رفتار  مشین بنایا کہ اس سے  ایسا کلمہ بھی کہا جا سکتا ہے جو اس کو دوزخ  سے نکال کر جنت میں پہنچا دے، جیسے کلمہ ایمان ، اور   ایسی بات بھی کی جاسکتی ہے جو  دنیا میں اسے دشمن کی نظر میں محبوب بنا دے، جیسے کسی غلطی  کی معانی۔ اور اسی زبان سے اتنے ہی مختصر وقت  میں ایسا کلمہ بھی بولا جاسکتا ہے جو اس کو جہنم میں پہنچا دے جیسے کلمہ کفر یا دنیا میں اسکے بڑے سے بڑے مہربان دوست کو اس کا دشمن بنا دے جیسے گالی گلوچ وغیرہ،

 جس طرح زبان کے  بےشمار فائدے ہیں اس کی ہلاکت  بھی بہت زیادہ  ہے،گویا یہ ایک تلوار ہے جو دشمن پر بھی چل سکتی ہے اور خود اپنا گلا بھی کاٹ سکتی ہے۔ اس جگہ ہونٹوں کا ذکر کرنا اس طرف اشارہ ہوسکتا کہ جس مالک نے انسان کو زبان دی اس نے اس کو روکنےاور  بند کرنے کے لئے ہونٹ بھی دیئے ہیں، اس لیے  سوچ سمجھ کر اس کا استعمال کرنا چاہیے اور بےموقع  زبان نہیں چلانی چاہیے۔

وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ ﴿١٠﴾ 

اور ہم نے اس کو دونوں راستے بتا دیئے ہیں ۔

۔۔۔۔

تیسری چیز دو راستوں کی ہدایت ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے  خیر  اور شر ، نیک اور بد، بھلے اور برے کی پہچان اور  تمیز   اسکے وجود میں رکھ دی ہے۔اچھائی اور برائی کے  دونوں راستے دِکھادیے  اور اسے اختیار دے دیا  کہ اپنی مرضی سے جو راستہ چاہو چُن لو۔ ابتدائی ہدایت انسان کو خود اس کے ضمیر سے ملتی ہے پھر اس ہدایت کی تائید کے لئے انبیاء علیہم السلام اور آسمانی کتابیں آتی ہیں جو انکو بالکل واضح کردیتی ہیں۔  جاہل اور غافل انسان اور  حق کے منکر  ذرا   اپنے  ہی وجود کی چند نمایاں چیزوں میں  غور کرلے، تو اسے الله تعالی کی قدرت و حکمت  کا مشاہدہ ہوجائیگا۔ 

یعنی آنکھوں سے دیکھو، پھر زبان سے اقرار کرو ، پھر دو راستوں میں سے خیر کے راستے کو اختیار کرو۔

فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ ﴿١١﴾ 

پھر وہ اس گھاٹی میں داخل نہیں ہوسکا ۔

۔۔۔۔

وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُ ﴿١٢﴾ 

اور تمہیں کیا پتہ کہ وہ گھاٹی کیا ہے ؟

۔۔۔۔۔ 

یہ گھاٹی دراصل اطاعت، عبادات اور اخلاق کی بلندیاں ہیں اور ان پر چڑھنے کا راستہ دشوار گزار اس لحاظ سے ہے کہ نیکی و اطاعت کے  راستے عموماً انسان کی خواہش کے خلاف اور طبیعت کے لئے ناگوار ہوتے ہیں اس لیے ان پر چلنامشکل  ہوتا ہے، جبکہ بدی کے راستے آسان اور خواہش نفس کے مطابق ہوتے ہیں اس لیے ان پر چلنا آسان ہوتا ہے۔ وما ادراک سے اس کی عظمت کی طرف اشارہ ہے۔ 

فَكُّ رَقَبَةٍ ﴿١٣﴾ 

کسی کی گردن ( غلامی سے ) چھڑا دینا ۔

۔۔۔

اس میں کئی اقوال ہیں۔

۱- غلام کو آزاد کرنا ، یہ بہت بڑی عبادت ہے۔ ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ جس نے مسلمان غلام آزاد کیا الله تعالی اس کے ہر عضو کے بدلے آزاد کرنے والے کے اسی عضو کو جہنم سے آزاد کر دیتے ہیں۔ 

۲۔ جو قصاص میں گرفتار ہو صلہ رحمی کرکے اس کی طرف سے دیت کا مال ادا کرنا۔

۳- کسی مفلس قرض دار کا قرض ادا کرنا یا معاف کر دینا۔ 

۴- کسی ظالم سے مظلوم کی جان چھڑا دینا، مال سے یا طاقت سے۔ 

۵- حقوق الله اور حقوق العباد ادا کرکے الله کے عذاب و قہر سے خود اپنی گردن چھڑا لینا۔

۶- گناہوں سے توبہ کرکے اپنے نفس کو آزاد کروا لینا۔ 

أَوْ إِطْعَامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ ﴿١٤﴾ 

یا پھر کسی بھوک والے دن میں کھانا کھلا دینا

۔۔۔۔

جب کوئی شخص بھوکا ہو اسے کھانا کھلانا۔ شدید حاجت،جنگ،  سیلاب یا قحط سالی کے دوران جب غلہ بھی کم ہو، ان حالات  میں بھوکے کو کھانا کھلانا دوسری بہت سی نیکیوں سے بڑھ جاتا ہے  اس لیے اس کا بہت اجر ہے۔ 

يَتِيمًا ذَا مَقْرَبَةٍ ﴿١٥﴾ 

یا مسکین کو جو ( بدحالی کی وجہ سے ) مٹی میں مِل گیا ہے۔

۔۔۔۔

پھر بھوکا اگر یتیم بھی ہو تو اور زیادہ ثواب ہے کیونکہ وہ اور زیادہ شفقت کا حقدار ہے اور اگر رشتہ دار بھی ہو تو دوہرا ثواب ہےکیونکہ کھانا کھلانے کے ساتھ صلہ رحمی بھی ہے۔ 

أَوْ مِسْكِينًا ذَا مَتْرَبَةٍ ﴿١٦﴾ 

یا کسی مسکین کو جو مٹی میں رل رہا ہو ۔

۔۔۔۔

یا پھر ایسے شخص  کو کھانا کھلانا جو انتہائی مسکین ہو،  فقر و فاقہ اور غربت کی وجہ سے مٹی میں رُل رہا ہو،  اس کے پاس اسباب معاش میں سے کچھ بھی نہ ہو یہ بھی بہت ثواب کا کام ہے۔ 

ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ ﴿١٧﴾ 

پھر وہ ان لوگوں میں بھی شامل نہ ہوا جو ایمان لائے ہیں ، اور جنہوں نے ایک د وسرے کو ثابت قدمی کی تاکید کی ہے ، اور ایک دوسرے کو رحم کھانے کی تاکید کی ہے ۔

۔۔۔۔۔

یہاں سے ان تمام اعمال کے قبول ہونے کی شرائط  بیان کی جا رہی ہیں ۔

۱- یہ اعمال صرف اس صورت میں قبول ہوں گے جب  ان کا کرنے والا مؤمن ہو ، بغیر ایمان کے کوئی نیکی قبول نہیں۔ جو شخص اللہ اور روز آخرت پر ایمان نہ رکھتا ہو، اس کے اعمال آخرت میں کسی کام نہیں آئیں گے بلکہ برباد ہوجائیں گے ۲- ایمان کے بعد دوسرا فرض یہ بیان کیا کہ   دوسرے مسلمان بھائیوں کو بھی صبر اور رحمت کی تلقین کرنا  ضروری ہے۔ صبر سے مراد نفس کو برائیوں سے روکنا اور بھلائیوں پر عمل کرنا ہے۔

۳- تیسری چیز یہ ارشاد فرمائی کہ   دوسرے لوگوں  پر رحم کرنا ، ان کی پریشانی اور تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھنا یہ بھی بڑا اجر و ثواب کا کام ہے۔ یتیموں پر شفقت کرنا، چھوٹوں پر مہربانی، بیواؤں ، بے کسوں ، بے زبانوں کی مدد ، بھوکوں کو کھانا کھلانا ، بیماروں کا دوا دارو کرنا ننگوں کو کپڑا پہنانا، غریبوں کی امدار کرنا یہ سب رحمت کی شاخیں ہیں۔ 

فائدہ: قرآن مجید میں صبر کا لفظ بہت  وسیع معنی میں  استعمال ہوتا ہے۔مومن کی پوری زندگی صبر کی زندگی ہے ، اور ایمان کے راستے پر  قدم رکھتے ہی آدمی کے صبر کا امتحان شروع ہو جاتا ہے ۔ 

۱- الله تعالی  کی فرض کردہ عبادت کرنے کے لیے  صبر  کی ضرورت ہے ۔ 

۲- الله تعالی کے ہر حکم  کی اطاعت و پیروی میں صبر کی ضرورت ہے ۔

۳-  الله کی حرام کی ہوئی چیزوں سے بچنا صبر کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔

۴-  اخلاقی برائیوں کو چھوڑنا اور پاکیزہ اخلاق اختیار کرنے کے لیے صبر چاہیے ۔ 

۵-   زندگی میں  بہت بار   ایسا ہوتا ہے کہ  اگر  الله  کے قانون کی پیروی کی جائے تو نقصان اٹھانا پڑتا ہے ، تکلیفوں ، مصیبتوں  ، اور محرومیوں سے پالا  پڑتا ہےاور  اگر نافرمانی کی جائے تو فائدے اور لذتیں حاصل ہوتی نظر آتی ہیں۔  کوئی مومن اس مشکل سے صبر کے بغیر عافیت سے  نہیں گزر سکتا ۔

 ۶- ایمان کی راہ اختیار کرتے ہی آدمی کو اپنے نفس اور اس کی خواہشات سے لے کر اپنے اہل و عیال ، اپنے خاندان ، معاشرے ، اپنے ملک و قوم ، اور دنیا بھر کے شیاطین جن و انس کی مزاحمتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، حتی کہ الله کی راہ میں ہجرت اور جہاد کی نوبت بھی آ جاتی ہے ۔ ان سب حالات میں صبر ہی کی صفت آدمی کو ثابت قدم رکھ سکتی ہے ۔ 

اس آیت میں دین کے تقریبا سارے ہی احکام آگئے ہیں۔ 

أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ ﴿١٨﴾ 

یہی وہ لوگ ہیں جو بڑے نصیب والے ہیں 

۔۔۔۔

اور اس کا ایک ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ: ’’وہ دائیں ہاتھ والے ہیں‘‘ اور اِن سے مراد وہ نیک لوگ ہیں جن کا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ لفظ یمن کے معنی خوش بختی کے بھی ہیں۔ اس معنی میں آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ یہ وہ خوش قسمت لوگ ہوں گے جو  ہدایت کے راستے پر چلتے ہوئے  کامیاب ہو گئے۔

وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِنَا هُمْ أَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ ﴿١٩﴾ 

اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا ہے ، وہ نحوست والے لوگ ہیں 

۔۔۔۔

المشئمہ  کا  معنی بدنصیبی اور نحوست ہے اردو میں بھی شومئی قسمت بدنصیبی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اس کا ایک ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ: ’’وہ بائیں ہاتھ والے ہیں‘‘ یعنی  مراد وہ بد کار ہیں جن کا اعمال نامہ بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔

عَلَيْهِمْ نَارٌ مُّؤْصَدَةٌ ﴿٢٠

ان پر ایسی آگ مسلط ہوگی جو جو ان پر بند کردی جائے گی 

۔۔۔۔

آگ ان پر  بند کردی جائے گی کہ پریشر ککر کی طرح اس  کی ساری تپش اندر ہی رہے اور انہیں شدید ترین عذاب ملے گا یا یہ کہ  جہنم کے دروازے بند کردئیے جائیں گے تاکہ   دوزخیوں کے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہ رہے۔

الله کریم جہنم کی آگ سے اپنی پناہ میں رکھے۔

مختصر تفسیر عتیق سورۃ البلد 

سورت کی ابتداء میں مکہ مکرمہ جس میں نبی علیہ السلام رہائش پذیر تھے اور والد و اولاد کی قسم کہ انسان مشقت اور تکالیف کے مراحل سے گزرتا رہتا ہے۔ نیکی کا راستہ اختیار کرنے میں بھی مشقت آتی ہے اور بدی کا راستہ اختیار کرنے میں بھی مشقت آتی ہے مگر فرق یہ ہے کہ نیکی کی راہ میں مشقت اٹھانے والوں کے لئے اجرو ثواب ہے جبکہ بدی کی راہ میں مشقت اٹھانے والوں کو ثواب کی بجائے عذاب ہو گا۔انسان کی ہٹ دھرمی اور اللہ کے راستہ سے روکنے کے جرم کے اعادہ پر فرمایا کہ جو کہتا ہے کہ میں نے بہت مال لگا دیا ہے، کیا اسے معلوم نہیں کہ اسے کوئی دیکھ رہا ہے پھر اللہ نے انسان پر اپنے انعامات ذکر فرما کر انسان کو خدمت خلق کی تلقین کی ہے اور نیک و بد کی تقسیم پر سورت کا اختتام ہے۔

۔۔۔۔۔۔

سورۃ الغاشیہ:11، عم پارہ


سورۃ الغاشیہ 

چھبیس آیات پر مشتمل الغاشیہ   مکی سورۃ ہے۔ اس سورة کا نام  قیامت کے نام پر  “الغاشیہ”رکھا گیا ہے جو اس سورة کی پہلی آیت میں موجود ہے۔اس کے علاوہ اسے “ہل اتاک حدیث الغاشیہ” اور “ہل اتاک” بھی کہا جاتا ہے۔   

فضیلت

نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم  نمازوں  میں خاص طور پر عشاء، جمعہ اور عید کی نمازوں کی پہلی رکعت میں  سورة اعلی  اور دوسری میں سورة الغاشیہ  پڑھتے تھے۔اس سے معلوم ہوا کہ دونوں سورتوں میں خاص نسبت ہے۔ 

ربط: 

پچھلی سورة میں آخرت کی تیاری کا حکم تھا اس سورة میں تیاری کرنے اور  نہ کرنے والوں کی جزا و سزا  کا بیان ہے۔

اس کے علاوہ سورۃ الغاشیہ کا سورة الاعلی  سے لفظی ربط بھی واضح ہے۔ 

سورة الاعلی میں  فذکر کا حکم ہے ۔ الغاشیہ میں بھی فذکر کہا گیا ہے۔

سورة الاعلی میں النار الکبری کا بیان ہے تو الغاشیہ میں نارا حامیة  کا ذکر ہے۔

ہَلۡ اَتٰىکَ حَدِیۡثُ الۡغَاشِیَۃِ ؕ﴿۱﴾

کیا تمہیں اس واقعے ( یعنی قیامت ) کی خبر پہنچی ہے جو سب پر چھا جائے گا؟

۔۔۔۔۔۔۔

مراد یہ ہے کہ کیا آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو غاشیہ کے بارے میں کچھ معلوم ہے؟

غاشیہ کے بارے میں مفسرین کے دو قول ہیں۔

۱-الغاشیہ  سے  مراد دوزخ کی آگ  ہے۔   

۲- بعض کہتے ہیں مراد قیامت ہے کیونکہ غاشیہ کا معنی ڈھانپنے والی ہے اور قیامت بھی اچانک آ کر سب کو ڈھانپ لے 

گی۔   

وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ ۙ﴿۲﴾

بہت سے چہرے اس دن اترے ہوئے ہوں گے ۔

۔۔۔۔۔۔ 

قیامت میں مؤمن اور کافر دونوں گروہ الگ الگ ہو جائیں گے اور اپنے چہروں سے پہچانے جائیں گے۔ ان آیات میں کافروں کے چہروں کی ایک پہچان یہ بتائی ہے کہ وہ خاشعہ ہوں گے۔ خشوع کے معنے جھکنے اور ذلیل ہونے کے ہیں۔ نماز میں خشوع کا یہی مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے  جھکنا  اور عاجزی محسوس  کرنا۔مراد یہ ہے کہ جن لوگوں نے دنیا میں اللہ تعالیٰ کے سامنے سر نہیں جھکایا  اور عاجزی  اختیار نہیں کی،  قیامت کے دن  ان کے چہروں پر ذلت اور رسوائی ڈال دی جائے گی۔

عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ ۙ﴿۳﴾

مصیبت جھیلتے ہوئے، تھکن سے چور۔

۔۔۔۔۔

کافروں کی دوسری پہچان یہ ہو ہوگی کہ ان کے چہرے عاملہ اور ناصبہ ہوں گے۔  عاملہ کے معنی مسلسل کام  اور شدید محنت سے تھک کر چور ہوجانے کے ہیں۔  اور ناصبہ کا معنی بھی تھکنے اور مشقت میں پڑنے کے ہیں۔

اس کی تفسیر میں دو قول ہیں۔

 ۱-کافروں کا یہ حال ان کی دنیا سے تعلق رکھتا ہے۔ بہت سے راہب ،  کافر اور مشرک بتوں کی عبادت میں اور کئی ہندو جوگی وغیرہ  مشرکانہ طور طریقوں  میں انتہائی محنت و مشقت کرتے ہیں؛  چونکہ یہ ساری عبادت  باطل طریقے سے ہوتی ہے اس لیے اس کا کوئی اجر و ثواب نہیں ہوگا۔

۲- بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ کفار کی آخرت کا حال بیان کیا جا رہا ہے جنہوں نے  دنیا میں الله تعالی کی اطاعت و فرمانبرداری سے انکار کیا تھا  آخرت میں  انہیں  مسلسل مشقت میں ڈال دیا جائے گا جس سے وہ تھک کر چُور ہو جائیں گے۔ مثلا کسی کو پہاڑ پر چڑھایا جائے گا ، کسی کو میدان میں دوڑایا جائے گا، کسی کو زنجیریں ڈال کر گھسیٹا جائے گا اور کسی کے گلے میں طوق ڈالا جائے گا۔ جس سے وہ تھکے ماندے ہو جائیں گے۔   

حضرت عمر رضی الله عنہ  جب ملک شام میں تشریف لے گئے تو ایک نصرانی راہب آپ کے پاس آیا جو بوڑھا ہو چکا تھا اور اپنے مذہب کی عبادت میں سخت  محنت کرنے کی وجہ سے اس کا چہرہ بگڑ گیا تھا،  بدن سوکھ گیا تھا اور پھٹا پرانا لباس پہنے ہوئے  تھا۔ اسے دیکھ کر حضرت عمر رضی الله عنہ  کی آنکھوں میں آنسو آ گئے،  لوگوں نے رونے کی وجہ  پوچھی تو آپ  نے فرمایا، مجھے اس بوڑھے کے حال پر رحم آ گیا ہے،  اس بیچارے نے الله کی رضامندی پانے  کے لئے سخت  محنت و مشقت  کی مگر ناکام رہا۔ اس کے بعد حضرت عمر نے اس  آیت کی تلاوت کی۔ 

تَصۡلٰی نَارًا حَامِیَۃً ۙ﴿۴﴾

وہ دہکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے ۔

۔۔۔۔۔

حامیہ کے لفظی  معنے گرم کے ہیں اور آگ  گرم ہی ہوتی  ہے۔ آگ کی اس صفت کو بتانے کا مقصد یہ ہے  کہ اس آگ کی گرمی دنیا کی آگ کی طرح کسی وقت کم یا ختم ہونے والی نہیں بلکہ یہ  ہمیشہ بھڑکتی رہے گی۔

تُسۡقٰی مِنۡ عَیۡنٍ اٰنِیَۃٍ ؕ﴿۵﴾

انہیں کھولتے ہوئے چشمے سے پانی پلایا جائے گا ۔

۔۔۔۔۔

جب کفار جہنم میں پانی مانگیں گے تو ان کو کھولتے ہوئے چشمے کا پانی دیا جائے گا جس کی گرمی انتہاء کو پہنچی ہوئی ہوگی۔پینے کے لیے منہ کے پاس لائیں گے تو چہرہ جھلس جائے گا، پیٹ میں ڈالیں گے تو آنتوں کو کاٹ دے گا۔ 

لَیۡسَ لَہُمۡ طَعَامٌ اِلَّا مِنۡ ضَرِیۡعٍ ۙ﴿۶﴾

ان کے لیئے ایک کانٹے دار جھاڑ کے سوا کوئی کھانا نہیں ہوگا ۔

۔۔۔۔۔

یعنی اہل جہنم کو کھانے کے لئے ضریع کے سوا کچھ نہ ملے گا۔ ضریع ایک خاص قسم کی  کانٹوں والی  گھاس ہے جو زمین پر پھیلتی ہے،  بدبو دار اور زہریلی ہوتی ہے۔ سوائے اونٹ کے اسے کوئی نہیں کھاتا اس کو اونٹ کٹارا کہا جاتا ہے، یہی غذا ان کو دی جائے گی جو حلق میں پھنس جائے گی،  نہ نیچے اترے گی نہ باہر  آئے گی۔ 

سوال: جہنم میں درخت یا گھاس کہاں سے آئیں گے کیونکہ وہ تو آگ سے جل جانے والی چیز ہیں؟

جواب : جس خالق نے انہیں  دنیا میں ہوا اور پانی سے پالا ہے اسے اس بات پر پوری قدرت ہے کہ وہ جہنم میں ایسے درخت اور جھاڑیاں پیدا کردے جو آگ سے پیدا ہوں اور  اسی سے  پھلیں پھولیں۔ 

لَّا یُسۡمِنُ وَ لَا یُغۡنِیۡ مِنۡ جُوۡعٍ ؕ﴿۷﴾

جو نہ جسم کا وزن بڑھائے گا اور نہ بھوک مٹائے گا ۔

۔۔۔۔۔

 ضریع جہنم  والوں کا کھانا ہوگا،    یہ  آیت سن کر مکہ کے بعض کافر کہنے لگے کہ ہمارے اونٹ تو ضریع کھا کر خوب موٹے  ہوجاتے ہیں۔  اس  کے جواب میں فرمایا،  جہنم کی  کانٹے دار گھاس  کو دنیا کی  بدبودار گھاس  نہ سمجھو ۔ وہاں کے ضریع سے نہ  طاقت   ملے گی  اور نہ  بھوک سے نجات ملے گی۔

وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍ نَّاعِمَۃٌ ۙ﴿۸﴾

بہت سے چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے ۔

۔۔۔۔

قیامت کے دن بہت سے چہرے تر و تازہ  اور خوش ہوں گے۔ان پر قیامت کی سختی ، شدت اور ہولناکی کاکوئی اثر نہیں ہوگا۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو دنیا میں خوشی خوشی الله تعالی کے احکام اور شریعت کی پابندیوں پر عمل کرنے کے لیے ہر طرح کی سختی  برداشت کرتے تھے، جیسے حلال روزی کمانے کی محنت کرنا اور اس کے لیے تنگی برداشت کرنا، سود، رشوت،بے حیائی اور معاشرے کی دوسری برائیوں سے بچنے کی تکلیف برداشت کرنا، گرمی سردی کی تکلیف برداشت کرتے ہوئے غیر محرم سے مکمل پردہ کرنا، سردی میں ٹھنڈے اور گرمی میں   پانی سے وضو کرکے ہر حال میں نماز ادا کرنا ، تہجد کے لیے رات کو جاگنا ، دین سیکھنے  کی مشکلات کو برداشت کرنا،  گرمی کے روزے اور جہاد کی سختی و تکلیف وغیرہ وغیرہ۔ 

لِّسَعۡیِہَا رَاضِیَۃٌ ۙ﴿۹﴾

( دنیا میں ) اپنی کی ہوئی محنت کی وجہ سے پوری طرح مطمئن ۔

۔۔۔۔

دنیا میں الله تعالی کی اطاعت و فرمانبرداری کے لیے  محنت و مشقت کرنے والے اپنی کوشش پر خوش و خرم ہوں گے۔قیامت کے دن  ان کی محنت کا بہترین اجر ملے گا۔  

فِیۡ جَنَّۃٍ عَالِیَۃٍ ﴿ۙ۱۰﴾

عالیشان جنت میں ہوں گے

۔۔۔۔

وہ بلند باغوں میں رہیں گے جو دنیا کے باغات سے بہت اعلی ہوں گے۔ یہ ان کی کوشش کا اجر ہوگا ۔ 

لَّا تَسۡمَعُ فِیۡہَا لَاغِیَۃً ﴿ؕ۱۱﴾

جس میں وہ کوئی لغو بات نہیں سنیں گے ۔

۔۔۔۔

جنت میں کوئی شور شرابا  یا بری بات نہیں ہوگی، نہ دکھ اور تکلیف دینے والا  طعنہ ، نہ  گالی گلوچ ، نہ بہتان تراشی، نہ موت یا کسی نقصان کی خبر، نہ نعمتوں اور جوانی کے ختم ہوجانے کا ذکر ہوگا۔ اہل جنت کے کانوں میں کبھی کوئی ایسا کلمہ نہیں پڑیگا جس سے ان کا دل برا اور میلا ہو۔غرض جنت میں  کوئی تکلیف دینے والی بات نہیں ہوگی۔ 

فائدہ: اس سے معلوم ہوا کہ کسی پر الزام لگانا اور خوامخواہ کسی کے متعلق فضول باتیں کرنا تکلیف دینے والی چیز ہے، اس سے بچنا چاہیے اور اسی لیے الله تعالی نے اہل جنت کے حالات  بیان کرتے ہوئے اس بات کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ 

فِیۡہَا عَیۡنٌ جَارِیَۃٌ ﴿ۘ۱۲﴾

اس جنت میں بہتے ہوئے چشمے ہوں گے ۔

۔۔۔۔۔

جنت میں انتہائی خوبصورت  جاری   چشمے ہوں گے جن  سے جنت کے باغوں میں تروتازگی اور نکھار ہوگا۔ 

فِیۡہَا سُرُرٌ مَّرۡفُوۡعَۃٌ ﴿ۙ۱۳﴾

اس میں اونچی اونچی نشستیں ہوں گی ۔

۔۔۔۔۔

یعنی خوبصورت تخت سجے ہوں گے۔اونچی شاہانہ  کرسیاں  لگی ہوں گی،  اہل جنت ان پر بیٹھے نظارا کرتے ہوں گے۔ 

وَّ اَکۡوَابٌ مَّوۡضُوۡعَۃٌ ﴿ۙ۱۴﴾

اور سامنے رکھے ہوئے پیالے ۔

۔۔۔۔

اکواب، کو ب کی جمع ہے۔ کوب پانی پینے کے برتن کو کہا جاتا ہے جس میں نہ سوراخ ہو نہ ہینڈل یعنی  گلاس یا آبخورہ وغیرہ 

گلاس ان چشموں کے قریب کناروں پر  اپنی  جگہ  رکھے  ہوں گے کہ جب بھی ضرورت پڑے استعمال کیے جائیں۔

فائدہ : رہنے سہنے کے آداب  میں یہ بات شامل ہے کہ  پانی پینے کے برتن پانی کے قریب مقررہ جگہ پر رکھنے چاہیں۔   یہ  اچھی بات نہیں کہ  پانی پینے کے وقت پہلے برتن یا گلاس  تلاش کرنا پڑے ۔  اسی طرح استعمال کی عام چیزیں جیسے لوٹے، گلاس، تولیے  وغیرہ  کی جگہ مقرر  کرنی چاہئے اور استعمال   کے بعد ان  کو وہیں رکھنا چاہئے۔ تاکہ دوسروں کو تکلیف نہ پہنچے۔ لفظ موضوعہ سے یہ اشارہ اس لئے نکلا کہ حق تعالیٰ نے اہل جنت کے آرام  و آسائش کے لئے خاص طور پر اس بات  کا ذکر  فرمایا۔

وَّ نَمَارِقُ مَصۡفُوۡفَۃٌ ﴿ۙ۱۵﴾

اور قطار میں لگائے ہوئے گداز تکیے ۔

۔۔۔۔۔

یعنی جنت والوں کے بیٹھنے کے لیے  تکیے صف کی شکل میں بچھے ہوں گے جہاں چاہیں بیٹھ جائیں۔

وَّ زَرَابِیُّ مَبۡثُوۡثَۃٌ ﴿ؕ۱۶﴾

اور بچھے ہوئے قالین

۔۔۔۔۔۔

اور جنت میں نہایت آرام دہ، قیمتی غالیچے بچھائے جائیں گے، ہر طرف قالین ہی قالین ہوں گے  تاکہ جنتی  جہاں چاہیں آرام کریں اور جنت کی نعمتوں کا لطف اٹھائیں۔ 

ربط آیات: ۱۷ تا ۲۶ 

پچھلی آیات میں قیامت کے حالات ، کافروں کی سزا اور مؤمنوں کی جزا کا بیان تھا۔ کیونکہ کافر قیامت کا انکار کرتے  اور دوبارہ زندہ ہونے کو نا ممکن سمجھتے تھے اس لیے الله تعالی نے اپنی قدرت کی چار نشانیاں، اونٹ، آسمان، پہاڑ اور زمین  بیان کرکے غور وفکر کی دعوت دی۔ 

سوال: الله  کی قدرت کی بے شمار نشانیاں ہیں، پھر یہاں انہی چار کا ذکر کیوں کیا گیا؟

جواب: یہ چار نشانیاں عربوں کے حالات کے بالکل مطابق ہیں۔ عام طور پر عرب  صحرا  میں اُونٹوں پر سفر کرتے ہیں جو ان کے لیے ایک قیمتی چیز شمار ہوتی ہے۔   اُونٹ کی تخلیق میں جو عجیب خصوصیات ہیں، ان سے وہ اچھی طرح  واقف تھے۔ اُونٹ  پر سفر کرتے وقت انسان کو اوپر نیچے  آسمان و  زمین اور دائیں بائیں پہاڑ نظر آتے ہیں، اس لیے انہیں چیزوں پر غور و فکر کی دعوت دی گئی۔   

اَفَلَا یَنۡظُرُوۡنَ اِلَی الۡاِبِلِ کَیۡفَ خُلِقَتۡ ﴿۱۷﴾

تو کیا یہ لوگ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ انہیں کیسے پیدا کیا گیا؟ 

۔۔۔۔۔

 اونٹ الله تعالی کی تخلیق اور قدرت کا عجیب  نمونہ ہے۔ 

اونٹ  کی کچھ عجیب عادات اور  فائدے: 

۱۔ اونٹ اپنی جسامت کے لحاظ سے ایک بڑا جانور ہے  اس کے باوجود اس پر سوار ہونے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ الله تعالی نے اس کی ٹانگ کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا ، اونٹ کی ہر ٹانگ میں دو گھٹنے بنائے، جن کی مدد سے  وہ آرام سے بیٹھ جاتا ہے۔ اسی لیے اس پر سوار ہونے یا بوجھ لادنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی۔ 

۲- نہایت فرمانبردار جانور ہے۔ ایک چھوٹا سا  بچہ بھی سو اونٹوں کی قطار کی رسی     پکڑ  کر ادھر  ادھر لے جا سکتا ہے۔ 

۳۔ بھاری  بھرکم سامان آسانی سے اٹھا لیتا ہے۔

۴۔عرب کی گرمی مشہور ہے لیکن اس پر موسم کی سختی اثر نہیں کرتی،  سخت دھوپ یا شدید  گرمی سے نہیں گھبراتا۔

۵۔ سفر کے لیے اونٹ کو ہموار سڑک کی ضرورت نہیں، اونچے، نیچے ، کچے پکے، پہاڑی، پتھریلے ہر طرح کے راستوں پر آسانی سے چل سکتا ہے۔ 

۶۔ دن رات سفر کے لیے تیار رہتا ہے۔ عرب  اس کو سفینة البر( خشکی کا جہاز) کہتے ہیں۔

۷۔ اونٹ کی خوراک بھی بہت سستی  اور کم ہوتی ہے۔ خشک ، تازہ، میٹھا، کڑوا، نرم ، سخت جو مل جائے کھا لیتا ہے۔ اس لیے غریب لوگ بھی آسانی سے اس کی دیکھ بھال  کر سکتے ہیں۔ 

۸۔ عرب کے صحراؤں میں پانی کم اور  دور دراز ہوتاہے۔ الله تعالی نے اس کے پیٹ میں پانی کی ٹینکی لگا دی ہے ، جس میں پانی محفوظ رہتا ہے۔ اگر سات آٹھ دن بھی اونٹ کو پانی نہ ملے تو گزارا کر لیتا ہے۔ 

۹۔ اس کے دودھ میں بڑی برکت اور غذائیت ہے، پورے گھرانے کو کافی ہو جاتا ہے اور اونٹ کا دودھ پینے والا پیاس  کی بیماری سے بے نیاز  ہوجاتا ہے ۔

۱۰۔ اس کا گوشت حلال ہے اور بہت سے لوگوں کو کافی ہو جاتا ہے۔ 

اونٹ الله تعالی کی قدرت کا عجیب نمونہ ہے۔ جس الله نے اسے  پیدا کیا ہے وہ تمہیں بھی دوبارہ زندہ کر سکتا ہے۔ 

وَ اِلَی السَّمَآءِ کَیۡفَ رُفِعَتۡ ﴿۱۸﴾

اور آسمان کو کہ اسے کس طرح بلند کیا گیا؟

۔۔۔۔۔

الله تعالی کی قدرت کا دوسرا نمونہ آسمان ہے۔

آسمان کی چند خصوصیات : 

۱- انتہائی بلند ہے۔  انسان، حیوان، پرندے یا کوئی اور چیز  اس کی بلندی تک نہیں پہنچ سکتے۔ 

۲۔ انتہائی وسیع ہے۔ اس  کے نیچے  انسان ، حیوان ، چرند پرند سب رہتے ہیں۔ 

۳۔ جب سے بنا ہے  ایک  ہی حالت پر ہے۔ اس میں نہ کبھی کوئی سوراخ ہوا ، نہ کہیں سے ٹوٹا اور نہ ہی  پرانا ہوا۔ 

۴۔ الله تعالی نے اس پر سورج ، چاند ، ستارے بنائے ۔ اگر آسمان پر سورج نہ  ہوتا تو زمین پر زندگی نہ ہوتی، حرارت اور روشنی نہ ہوتی، ہر وقت اندھیرا چھایا رہتا اور دنیا کا کاروبار ٹھپ ہو جاتا۔ یہ سب الله کی قدرت کی عظیم نشانیاں ہیں ۔

وَ اِلَی الۡجِبَالِ کَیۡفَ نُصِبَتۡ ﴿ٝ۱۹﴾

اور پہاڑوں کو کہ انہیں کس طرح گاڑا گیا؟

۔۔۔۔۔۔

تیسری عجیب نشانی پہاڑ ہیں۔ 

۱۔ زمین کا حصہ ہونے کے باوجود زمین سے بہت بلند ہیں۔

۲۔ سخت پتھروں سے بنے ہونے کے باوجود انہی پہاڑوں سے چشمے پھوٹتے ہیں اور دریا نکلتے ہیں ۔ مثلا  سندھ، دجلہ ، نیل ، فرات، گنگا ، جمنا وغیرہ  یہ قدرت کی عظیم نشانیاں ہیں۔

وَ اِلَی الۡاَرۡضِ کَیۡفَ سُطِحَتۡ ﴿ٝ۲۰﴾

اور زمین کو کہ اسے کیسے بچھایا گیا؟

۔۔۔۔۔

چوتھی عجیب نشانی زمین ہے۔ 

الله تعالی نے زمین کو اتنا وسیع بنایا کہ اس پر بے شمار انسانوں  کے علاوہ اس کی طرح طرح کی   مخلوقات آرام سے رہ رہی ہیں۔ زمین پر بڑے بڑے مکانات ، گھنے جنگل اور وسیع میدان ہیں۔

یہ لوگ اگر اپنے آس پاس کی چیزوں پر ہی غور کرلیں تو انہیں پتہ چل جائے کہ جس ذات نے کائنات کی یہ حیرت انگیز چیزیں پیدا کی ہیں، اُسے اپنی خدائی میں کسی شریک کی ضرورت نہیں،  جو ﷲ   کائنات کی ان چیزوں کو پیدا کرنے پر قدرت رکھتا  ہے، وہ یقینا اس بات پر بھی قادر ہے کہ وہ اِنسانوں کو مرنے کے بعد دُوسری زندگی عطا کر ے، اور اُن سے اُن کے اعمال کا حساب لے۔ 

فَذَکِّرۡ ۟ ؕ اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُذَکِّرٌ ﴿ؕ۲۱﴾

اب ( اے پیغمبر ) تم نصیحت کیے جاؤ ۔ تم تو بس نصیحت کرنے والے ہو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

 یہ نشانیاں کسی بھی عقلمند شخص  کی نصیحت کے لیے کافی ہیں۔ چنانچہ  اس آیت میں نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ آپ ان کو ادھر متوجہ کرکے نصیحت کریں۔ ہم نے آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو یاد دہانی  کے لیے بھیجا ہے۔ 

لَسۡتَ عَلَیۡہِمۡ بِمُصَۜیۡطِرٍ ﴿ۙ۲۲﴾

آپ کو ان پر زبردستی کرنے کے لیے مسلط نہیں کیا گیا ۔ 

۔۔۔۔۔۔

اگر کوئی آپ کی بات نہیں مانتا اور ہٹ دھرمی کرتا ہے تو چھوڑ دیں۔ ہم نے آپ کو ان پر نگران یا ذمہ دار نہیں بنایا کہ آپ زبردستی انہیں ایمان لانے پر مجبور کریں، بس آپ نصیحت کریں اور باقی کام ہم پر چھوڑ دیں ۔ جو نصیحت قبول کرے گا وہ فائدے میں رہے گا۔ آنحضرت صلی ﷲ علیہ وسلم کو کافروں کی ہٹ دھرمی سے جو تکلیف ہوتی تھی، اُس پر آپ کو یہ تسلی دی گئی ہے  کہ آپ کا فریضہ صرف تبلیغ کر کے پورا ہوجاتا ہے، آپ پر یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ انہیں زبردستی مسلمان بنائیں۔

 اس میں ہر مبلغ اور حق کے دعوت دینے والے  کے لئے بھی یہ اصول بیان کیا گیا ہے کہ اسے اپنا تبلیغ کا فرض ادا کرتے رہنا چاہئے اور کسی کو  زبردستی اپنی بات ماننے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے۔

اِلَّا مَنۡ تَوَلّٰی وَ کَفَرَ ﴿ۙ۲۳﴾

ہاں مگر جو کوئی منہ موڑے گا ، اور کفر اختیار کرے گا ۔

۔۔۔۔۔

بے شک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا کلام اور پیغام اپنی  بہترین  سیرت کی گواہی کے ساتھ امت تک اس انداز میں پہنچا دیا ہے کہ حق کو سمجھنے کے بارے میں کہیں کوئی شک نہیں رہا۔ اب اس کے بعد بھی جو شخص انکار کرے  گا تو  گویا  وہ  جان بوجھ کر  اس کا انکار کرے  گا۔ اس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ اس کے اندر بھلائی اور خیر کی کوئی خواہش نہیں۔ 

فَیُعَذِّبُہُ اللّٰہُ الۡعَذَابَ الۡاَکۡبَرَ ﴿ؕ۲۴﴾

تو اللہ اس کو بڑا زبردست عذاب دے گا ۔

۔۔۔۔۔

ایسے کافر کو الله تعالی انکار کرنے کی سزا کے طور پر  بڑے عذاب کا مزا چکھائے گا۔ 

اِنَّ اِلَیۡنَاۤ اِیَابَہُمۡ ﴿ۙ۲۵﴾

یقین جانو ان سب کو ہمارے پاس ہی لوٹ کر آنا ہے ۔

۔۔۔۔۔

الله تعالی فرماتے ہیں۔ بے شک سب نے مرنے کے بعد ہمارے  پاس ہی آنا ہے۔ 

ثُمَّ اِنَّ عَلَیۡنَا حِسَابَہُمۡ ﴿۲۶﴾

پھر یقینا ان کا حساب لینا ہمارے ذمے ہے ۔

۔۔۔۔۔

پھر ہم ان سے ان کے تکبر ، ضد اور انکار کا خود ہی حساب لے لیں گے۔ ہم  اس بات پر پوری قدرت رکھتے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔

مختصر تفسیر سورة الغاشیہ: 

قیامت کی ہولناکی اور شدت اور کافروں پر اترنے والی مشقت و مصیبت اور مؤمنوں کے لئے جنت کی نعمتوں کے ذکر سے ابتدا کی گئی ہے۔ پھر توحید باری تعالیٰ کے دلائل کا بیان ہے پھر حضور علیہ السلوة والسلام کو انسانیت کے لئے یاد دہانی اور نصیحت کرنے کا حکم ہے اور قیامت کے احتساب کو اپنی نگاہوں کے سامنے رکھنے کی تلقین ہے۔

۔۔۔۔۔

منگل، 22 دسمبر، 2020

سورة الفجر :12، عم پارہ

 سورة الفجر

تیس آیات پر مشتمل یہ سورة بالاتفاق  مکی ہے۔ سورة کا نام “الفجر”  ہے کیونکہ اس سورة کی ابتداء الفجر سے ہو رہی ہے۔

شانِ نزول:

اس سورة میں کفار کے مختلف شبھات کو دور کیا گیا ہے۔ کافروں کا خیال تھا کہ بندوں  کی نیکیوں یا  گناہوں سے الله تعالی کو نہ تو کوئی فائدہ ہے نہ کوئی نقصان ۔ اس لیے قیامت، روز جزا اور حساب کتاب کی کیا ضرورت ہے۔ الله تعالی نے واضح طور پر بتا دیا کہ یہ دنیا دارالعمل ہے۔عمل ختم ہونے کے بعد  اس کا بدلہ ضرور دیا جائے گا۔اس کے لیے قیامت ضرور قائم ہوگی۔ 

ربط : 

سورة الفجر کا ماقبل سورة سے لفظی ربط بھی ہے اور معنوی بھی۔

لفظی ربط: 

پچھلی سورة یعنی الغاشیہ میں تھا۔

لِسعیھا راضیة 

اب سورة الفجر میں ہے۔ 

راضیةً مرضیةً 

سورة الغاشیہ میں تھا۔


فَيُعَذِّبُهُ اللَّهُ الْعَذَابَ الْأَكْبَرَ

الفجر میں ہے۔

لَّا یُعَذِّبُ عَذَابَہٗۤ اَحَدٌ

ربط معنوی 

سورة الغاشیہ کی طرح اس سورت میں بھی قیامت اور جزا و سزا  کا بیان ہے۔ کفار کی عبرت کے لیے بعض سرکش قوموں کے عذاب و سزا کا ذکر ہے اور ایمان والوں کے لیے تسلی اور جنت کا وعدہ ہے۔    

۔۔۔۔۔۔۔۔

سورت کی ابتدا ء پانچ قسموں سے ہو رہی ہے۔ یہ قسمیں جواب قسم کے مضمون کو پختہ کرنے کے لیے ہیں جو محذوف ہے یعنی تم ضرور دوبارہ زندہ کرکے اٹھائے جاؤ گے۔ ہر قسم جوابِ قسم سے مناسبت رکھتی ہے۔

وَ الۡفَجۡرِ ۙ﴿۱﴾

قسم ہے فجر کے وقت کی۔

۔۔۔۔

سب سے پہلی قسم فجر کی ہے۔ اس میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں ۔

۱- روزانہ کی صبح مراد ہے۔

۲- یوم النحر یعنی قربانی کا دن مراد ہے کیونکہ یہ بڑا متبرک دن ہے اور لوگوں کے اکٹھا ہونے کی وجہ سے میدانِ حشر کا نمونہ ہے۔

۳- ماہ ذوالحج کی پہلی صبح مراد ہے۔

۴۔ ماہ محرم کی پہلی صبح مراد ہے کہ اس سے سال کا آغاز ہوتا ہے۔

جمہور مفسرین کے نزدیک والفجر سے روزانہ کی صبح مراد ہے اور جواب قسم کے ساتھ بھی اس کی مکمل مناسبت ہے۔ رات کے وقت ہر طرف سناٹا ہوتا ہے، مخلوق پر نیند اور آرام طاری ہوتا ہے جو بالکل موت کے مشابہ ہے، لیکن جونہی صبح کی ابتداء ہوتی ہے ہر طرف شور برپا ہو جاتا ہے۔

پہلا صور پھونکنے سے دنیا کی ہر چیز فنا ہو جائے گی اور پوری دنیا پر سناٹا چھا جائے گا پھر دوسرا صور پھونکا جائے گا،  لوگ قبروں سے نکلیں گے اور ہر طرف زبردست شور برپا ہو جائے گا۔

    

وَ لَیَالٍ عَشۡرٍ ۙ﴿۲﴾

اور دس راتوں کی۔

۔۔۔۔۔

الله تعالی نے دوسری قسم  دس راتوں  کی کھائی ہے۔ 

دس راتوں سے کیا مراد ہے؟

اس میں مفسرین کے کئی قول ہیں۔

۱۔ اس سے محرم کے مہینے کی پہلی دس راتیں مراد ہیں کیونکہ وہ بڑی بابرکت ہیں ، خاص طور پر دس محرم یعنی عاشورا کی رات۔

۲۔ رمضان المبارک کی پہلی دس راتیں۔

۳۔ رمضان المبارک کی آخری دس راتیں ، کیونکہ ان میں لیلة القدر واقع ہے اور رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم خود بھی عبادت کے لیے جاگتے اور گھر والوں کو بھی بیداری کا حکم دیتے ۔

۴۔ سال کی متفرق راتیں مراد ہیں۔ پانچ وہ راتیں جن میں لیلة القدر کا امکان ہے چھٹی عید الفطر کی رات، ساتویں عرفہ کی رات، آٹھویں یوم النحر کی رات، نویں ستائیسویں رجب، دسویں پندرہویں شعبان کی رات۔

۵۔ اکثر مفسرین کی رائے ہے کہ اس سے مراد ذوالحجہ کی پہلی دس راتیں ہیں کیونکہ حدیث مبارکہ میں ان کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ 

حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ نے آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد نقل کیا ہے جس کا مفہوم ہے کہ عبادت کرنے کے لیے عشرہ ذوالحجہ تمام دنوں سے افضل ہے ۔ہر دن کا روزہ ایک سال کے برابر اور ہر رات کی عبادت لیلة القدر کی عبادت کے برابر ہے۔ 

(معارف)

      

وَّ الشَّفۡعِ وَ الۡوَتۡرِ ۙ﴿۳﴾

اور جفت اور طاق کی۔

۔۔۔

تیسری  قسم شفع کی اور چوتھی الوتر کی ہے۔ 

شفع اور وتر سے کیا مراد ہے؟

شفع کے لغوی معنے جوڑ کے ہیں جس کو اردو میں جفت کہتے ہیں اور وتر کے معنے طاق اور اکیلے کے ہیں۔ قرآن کریم کے الفاظ میں یہ تعین  نہیں کیا گیا کہ اس جفت اور طاق سے کیا مراد ہے۔ اس لیے ائمہ تفسیر کے اس میں   بے شمار اقوال  ہیں۔

البتہ ایک حدیث مرفوع جو ابوالزبیر نے حضرت جابر  رضی الله عنھم سے روایت کی ہے اس کا مفہوم  ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے والفجر ولیال عشر کے متعلق فرمایا کہ فجر سے مراد صبح اور عشر سے مراد عشرہ نحر ہے (اور یہ عشرہ ذی الحجہ کا پہلا ہی عشرہ ہوسکتا ہے جس میں یوم نحر شامل ہے)اور فرمایا کہ وتر سے مراد  عرفہ کا دن اور شفع سے مراد یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) ہے۔

 

وَ الَّیۡلِ اِذَا یَسۡرِ ۚ﴿۴﴾

اور رات کی جب وہ چل کھڑی ہو ۔ ( ٣ ) ( کہ آخرت میں جزا و سزا ضرور ہوگی )

۔۔۔۔۔

پانچویں قسم کا بیان ہے۔ الله تعالی نے ڈھلتی ہوئی رات کی عظمت ظاہر کرنے کے لیے اس کی قسم کھائی ہے کیونکہ جب رات ڈھلتی ہے تو الله تعالی کی رحمت اور تجلی کا نزول ہوتا ہے۔ احادیث میں اخیر شب کے  بہت برکات و فضائل  بیان ہوئے  ہیں۔ 

ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے۔ جب تہائی رات باقی ہوتی ہے تو الله تعالی آسمانِ دنیا پر تشریف لاتے ہیں، فرماتے ہیں کوئی ہے اپنے گناہوں کی معافی مانگنے والا کہ میں اس کے گناہ معاف کروں، کوئی ہے روزی کا طالب کہ میں اسے روزی دوں، کوئی ہے حاجت مانگنے والا کہ میں اس کی حاجت پوری کروں ۔ 


ہَلۡ فِیۡ ذٰلِکَ قَسَمٌ لِّذِیۡ حِجۡرٍ ؕ﴿۵﴾

ایک عقل والے ( کو یقین دلانے ) کے لیے یہ قسمیں کافی ہیں کہ نہیں؟

۔۔۔۔

حجر کے معنی ہیں روکنا اور منع کرنا ہے۔انسانی عقل بھی انسان کو غلط کاموں سے روکتی ہے اس لیے عقل کو بھی حجر کہا جاتا ہے۔ ان پانچ چیزوں کی قسمیں کھانے کے بعد الله تعالی نے ایک خاص انداز سے غافل انسانوں کو غور و فکر کی دعوت دی ہے۔ دنوں اور راتوں کا حوالہ  اس لئے دیا گیا  کہ عرب کے کافر لوگ بھی ان کو مقدس اور بابرکت سمجھتے تھے اور  یہ  برکت   بھی ﷲ تعالیٰ نے پیدا فرمائی۔ یہ تمام اشیاء  ﷲ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کی دلیل  ہیں، اسی قدرت اور حکمت کا تقاضا ہے کہ اعمال کی جزا کے لیے ایک مقرر دن ہو ، جس دن الله تعالی  نیک و فرمانبردار  لوگوں کو اِنعام دے اور   ظالموں، نافرمانوں کو سزا دے۔ چنانچہ اس سورۃ میں انہیں دونوں باتوں کو کھول کر  بیان کیا گیا۔ 

ربط آیات: 

پچھلی آیات میں چند چیزوں کی قسم کھا کر  عقل والوں کو قیامت کے قائم ہونے کا یقین دلایا گیا اب اگلی آیات میں تین قوموں پر الله کے عذاب کا بیان کرکے یہ ثابت کیا گیا کہ الله تعالی دنیا کی طرح  آخرت میں بھی کافروں کو  عذاب  دینے پر قادر ہے 

اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍ ۪ۙ﴿۶﴾

کیا تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے پروردگار نے عاد کے ساتھ کیا سلوک کیا ۔

اِرَمَ ذَاتِ الۡعِمَادِ ۪ۙ﴿۷﴾

اس اونچے ستونوں والی قوم ارم کے ساتھ

۔۔۔

سب سے پہلے قوم عاد پر عذاب کا ذکر ہے۔ ان آیات میں قوم عاد کو ارم بھی کہا گیا ہے۔ ارم ان  کے دادا  کا نام ہے، قوم عاد کے  دو طبقے تھے ایک عاد اولی اور دوسرا عاد اُخری۔ قوم عاد کی جس شاخ کا یہاں ذکر ہے، اُس کو عاد اِرم  یعنی عاد اولی کہا جاتا ہے۔   

بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ ارم سے شہر ارم مراد ہے۔ جو عاد کے بیٹے شداد نے بنایا تھا۔ شداد اپنے زمانے کا ایک زورآور بادشاہ تھا جس نے اپنی طاقت سے بہت سے ممالک پر قبضہ کر لیا تھا۔ طاقت، دولت اور تکبر کے نشے میں اس نے خدائی کا دعوی کر دیا۔ الله تعالی نے ان سرکشوں  کی ہدایت کے انبیاء کو بھیجا ۔ شداد نے جب جنت کا ذکر سنا تو اس نے کہا یہ کونسی بڑی بات ہے ہم دنیا میں جنت تعمیر کر لیتے ہیں ۔ چنانچہ یمن کے جنگلوں میں شہرِ ارم کی بنیاد رکھی اور وہاں  تین سو سال تک جنت کی تعمیر ہوتی رہی۔ سونے چاندی کے محل بنائے گئے جنہیں  یاقوت و جواہرات سے سجایا گیا۔ ہر قسم کے پھل پھول اور باغات لگائے گئے ۔ خوبصورت  نہریں نکالی گئیں۔ جب یہ زبردست جنت تیار ہوگئی تو شداد اپنے وزیروں مشیروں کے ہمراہ اس کے معائنے کو نکلا ۔ ابھی اس میں داخل بھی نہیں ہوا تھا کہ عذاب الہی آسمانی بجلی کی کڑک کی صورت میں آ پڑا اور سب وہیں ہلاک ہو گئے، شہر بھی تباہ ہو گیا۔ شداد کی عمر نو سو سال تھی۔ 

ذات العماد سے کیا مراد ہے؟ اس میں کئی قول ہیں

۱۔وہ خود بہت لمبے،  بلند وبالا قد و قامت رکھتے تھے۔ 

۲- انہوں نے اونچی ستونوں والی بلند و بالا عمارتیں  بنانی  شروع کی تھیں۔

 ۳- جب وہ سفر کرتے تھے تو اپنے خیمے نصب کرنے کے لیے بہت اونچی اور مضبوط لکڑیاں استعمال کرتے تھے جیسے وہ ستون ہیں۔

 

الَّتِیۡ لَمۡ یُخۡلَقۡ مِثۡلُہَا فِی الۡبِلَادِ ۪ۙ﴿۸﴾

جس کے برابر دنیا کے ملکوں میں کوئی اور قوم پیدا نہیں کی گئی ؟

۔۔۔۔

قوم عاد کی دوسری صفت یہ تھی کہ وہ بہت طاقت اور قوت والے تھے۔ یعنی ایسی طویل القامت قومیں  دنیا میں اس سے پہلے پیدا نہیں کی گئیں اور نہ ان کے بعد اتنے لمبے ، مضبوط اور طاقتور لوگ  پیدا کیے گئے۔ الله تعالی  نے انکے لمبے  قد اور ڈیل ڈول ساری قوموں سے زیادہ ہونا تو واضح فرما دیا مگر ان کی  پیمائش  بتانا ضرورت سے زائد کام تھا اس کو چھوڑ دیا۔ 

           

وَ ثَمُوۡدَ الَّذِیۡنَ جَابُوا الصَّخۡرَ بِالۡوَادِ ۪ۙ﴿۹﴾

اور ثمود کی اس قوم کے ساتھ کیا کیا جس نے و ادی میں پتھر کی چٹانوں کو تراش رکھا تھا؟ ( ٥ )

۔۔۔۔۔

دوسری قوم ثمود تھی جسے عاد ثانی بھی کہا جاتا ہے۔یہ بھی بڑی زبردست قوم تھی۔  جن کی طرف  حضرت صالح علیہ السلام کو بھیجا گیا۔  اللہ نے انہیں  پتھر تراشنے کی طاقت دی تھی۔  یہ لوگ پہاڑوں کو تراش کر  نہایت خوبصورت مکان تیار کر لیتے تھے، پہاڑوں کے اندر  پتھر  تراش تراش کر  شہر بنا رکھے تھے۔ ان  کا ٹھکانہ وادی القریٰ تھا جو مدینہ اور تبوک کے راستے میں  ہے۔ یہ بھی آخرت کے منکر اور اللہ کے باغی تھے۔ بدکاری اور بت پرستی کی وجہ سے اللہ تعالی نے انہیں زلزلے اور چیخ کے عذاب سے تباہ کردیا۔ 


وَ فِرۡعَوۡنَ ذِی الۡاَوۡتَادِ ﴿۪ۙ۱۰﴾

اور میخوں والے فرعون کے ساتھ کیا کیا؟

۔۔۔

تیسری قوم جس پر عذاب کا ذکر کیا گیا وہ قوم فرعون ہے جسے الله نے سمندر میں غرق کر دیا تھا۔

ذی الاوتاد  سے کیا مراد ہے؟ 

فرعون کو ذی الوتاد کہنے  میں کئی قول ہیں۔ 

۱-اس سے فرعون کی مضبوط عمارتیں یعنی اہرام مصر  وغیرہ  مراد ہیں۔

۲- فرعون  کی فوجوں کو میخوں سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ انہی کی وجہ سے  اس کی سلطنت مضبوطی سے  قائم تھی۔  

۳- اس سے مراد فوجوں کی کثرت بھی ہو سکتی ہے کیونکہ  لشکر جہاں بھی جا کر ٹھہرتے  تھے وہاں ہر طرف ان کے خیموں کی میخیں ہی لگی نظر آتی تھی۔

۴-فرعون کو میخوں والا اس لئے کہا گیا کہ وہ لوگوں کو سزا دینے کے لئے اُن کے ہاتھ پاوں میں میخیں گاڑ دیا کرتا تھا۔

 

الَّذِیۡنَ طَغَوۡا فِی الۡبِلَادِ ﴿۪ۙ۱۱﴾

یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے دنیا کے ملکوں میں سرکشی اختیار کر لی تھی۔

۔۔۔

اس آیت میں ان قوموں کی سرکشی کا بیان ہے جو الله کی توحید و حاکمیت کے منکر تھے ۔ جن کا  تکبر ، سرکشی ، شہوت پرستی اور عیاشی آخری حدوں کو چھو رہی تھی اور جواسی دنیا کی زندگی کو سب کچھ سمجھتے تھے،  نہ  آخرت پر یقین رکھتے تھے نہ اعمال کی جزا و سزا پر۔ ان  کی ضد اور لاپروائی نے انہیں عدل و انصاف، صداقت و پارسائی سمیت ہر بھلائی سے دور کر دیا تھا۔ انہیں اپنی عقل ، نام نہاد ترقی  اور تدبیر  پر ناز تھا۔   الله کے احکام کی نافرمانی ، انبیاء کی توہین اور شریعت کا مذاق اڑانا ان کے نزدیک معمولی بات تھی۔ 

فَاَکۡثَرُوۡا فِیۡہَا الۡفَسَادَ ﴿۪ۙ۱۲﴾

اور ان میں بہت فساد مچایا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔

ان سب باتوں کو ایک ہی جملے میں بیان کر دیا کہ  ان کا فساد حد سے  بڑھ گیا، یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر و شرک اور اس کی مخلوق پر ظلم و ستم  میں انہوں نے   ساری حدیں توڑ دیں۔ 


فَصَبَّ عَلَیۡہِمۡ رَبُّکَ سَوۡطَ عَذَابٍ ﴿۱۳﴾ۚ ۙ

چنانچہ تمہارے پروردگار نے ان پر عذاب کا کوڑا برسا دیا

۔۔۔۔۔۔ 

الله تعالی نے ان قوموں کو سزا دینے کے لیے ان پر عذاب کا کوڑا برسا دیا۔جس طرح کوڑا جسم کے تمام اطراف پر پڑتا اور چاروں طرف لپٹ جاتا ہے اسی طرح ان پر ہر طرف سے عذاب آیا۔ اپنی سرکشی کی وجہ سے  یہ قومیں عذاب کا شکار ہوئیں اور دنیا سے ان کا نام و نشان مٹ گیا۔


اِنَّ رَبَّکَ لَبِالۡمِرۡصَادِ ﴿ؕ۱۴﴾

یقین رکھو تمہارا پروردگار سب کو نظر میں رکھے ہوئے ہے۔

۔۔۔

مرصاد ، مرصد  کا مطلب ہے انتظار کی جگہ یا گھات لگانے کی جگہ۔ یعنی ایسا بلند مقام جہاں سے چھپ کر کوئی دور دور تک دیکھ سکے اور نگرانی کر سکے۔ یہ تشبیہ کے طور پر ہے، مطلب یہ ہے کہ انسان کے تمام افعال و اعمال اور حرکات و سکنات ہر وقت الله تعالی کی نگاہ میں ہیں۔ وہی  سب کو جزا و سزا دینے والا ہے اور وہ خود انسان کی نگاہ سے اوجھل ہے۔

ربط آیات:

گذشتہ آیات میں مختلف نافرمان قوموں پر عذاب کا ذکر کیا گیا۔ کفار کو چاہیے تھا کہ یہ سن کر واقعات سے عبرت حاصل کرتے اور ایسے کام نہ کرتے جن کی وجہ سے الله کا عذاب نازل ہوتا ہے۔ لیکن وہ سبق  حاصل کرنے کی بجائے مال و دولت کی محبت میں گرفتار ہیں۔ اگلی آیات میں کافروں اور نافرمانوں کے اسی رویے کا بیان ہے۔           

فَاَمَّا الۡاِنۡسَانُ اِذَا مَا ابۡتَلٰىہُ رَبُّہٗ فَاَکۡرَمَہٗ وَ نَعَّمَہٗ ۬ ۙ فَیَقُوۡلُ رَبِّیۡۤ اَکۡرَمَنِ ﴿ؕ۱۵﴾

لیکن انسان کا حال یہ ہے کہ جب اس کا پروردگار اسے آزماتا ہے اور انعام و اکرام سے نوازتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ : میرے پروردگار نے میری عزت کی ہے ۔

۔۔۔

کافر  دنیا  اور مال کی محبت میں اس طرح مبتلا ہیں کہ بس اسی کو اپنی زندگی کا حاصل سمجھتے ہیں، حالانکہ دنیا میں رزق کی کشادگی  اور تنگی اللہ کے نزدیک مقبول یا مردود ہونے کی علامت نہیں ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کسی کو  خوب  مال و دولت اور صحت و تندرستی سے نواز دے  تو شیطان اس کو  خوش فہمی میں  مبتلا کر دیتا ہے۔  وہ سمجھنے لگتا ہے کہ یہ میری ذاتی صلاحیت ،  عقل وفہم، کوشش اور  محنت   کا لازمی نتیجہ ہے جو مجھے ملنا ہی چاہئے اور  میں اسی  کا مستحق ہوں۔

 دوسرے یہ کہ ان چیزوں کے حاصل ہونے سے وہ یہ سمجھنے لگتا ہے  کہ میں اللہ کے نزدیک بھی مقبول اور پسندیدہ  ہوں اگر مردود ہوتا تو وہ مجھے یہ نعمتیں کیوں دیتا۔

وَ اَمَّاۤ اِذَا مَا ابۡتَلٰىہُ فَقَدَرَ عَلَیۡہِ رِزۡقَہٗ ۬ ۙ فَیَقُوۡلُ رَبِّیۡۤ اَہَانَنِ ﴿ۚ۱۶﴾

اور دوسری طرف جب اسے آزماتا ہے اور اس کے رزق میں تنگی کردیتا ہے تو کہتا ہے کہ : میرے پروردگار نے میری توہین کی ہے ۔

۔۔۔

اسی طرح جب کسی انسان پر رزق میں تنگی اور فقر وفاقہ آ جائے  تو وہ الله سے جھگڑنے اور ناراض ہونے لگتا ہے کہ  مجھ پر یہ تنگی کیوں ؟ میں تو  انعام و اکرام کا مستحق تھا مجھے بےوجہ ذلیل و حقیر کردیا۔  حالانکہ دنیا میں مال ودولت اور رزق کی زیادتی بھی آزمائش ہے اور فقر و فاقہ اور رزق کی تنگی بھی آزمائش ہے۔ درحقیقت ہر حال میں یہی دیکھا جاتا ہے کہ انسان نعمتوں پر الله تعالی کا شکر اور مصائب پر صبر کیسے کرتا ہے۔  

   یہاں انسان سے مراد اصل میں تو کافر انسان ہے جو اللہ تعالیٰ کے متعلق جو چاہے خیال باندھ لے مگر  عام  معنی کے اعتبار سے ہر وہ مسلمان بھی اس میں شامل ہے جو  ایسا سوچتا اور سمجھتا ہے۔(المعارف)


کَلَّا بَلۡ لَّا تُکۡرِمُوۡنَ الۡیَتِیۡمَ ﴿ۙ۱۷﴾

ہرگز ایسا نہیں چاہیے ۔  صرف یہی نہیں بلکہ تم یتیم کی عزت نہیں کرتے ۔

۔۔۔

ان آیات میں  فرمایا! “کلا “ یعنی تمہارا یہ خیال بالکل غلط اور بےبنیاد ہے کہ مال و دولت اور دنیا کی آسائش عزت کی وجہ ہے اور مصیبت اور تنگ دستی ذلت کی وجہ ہے،  بلکہ انسان کے اعمال پر اس کی عزت اور ذلت کا دارومدار ہے۔ 

اب یہاں سے ان اعمال کا بیان ہے جو انسان کی ذلت ، مردودیت اور  ناپسندیدہ ہونے کی علامت ہیں اور الله کی ناراضگی اور عذاب کی وجہ ہیں۔

سب سے پہلا عمل جو عزت اور رزق میں کمی کی وجہ  ہے وہ یہ ہے کہ تم یتیم کا اکرام نہیں کرتے، اس کے سر پر شفقت کا ہاتھ نہیں رکھتے۔ چاہیے تھا کہ  ایسا  کمسن جو باپ کے بعد مصیبتوں کا شکار ہے تم  اس  کی  ضروریات کا خیال رکھتے اور اس کے حقوق ادا کرتے، اُلٹا  تم اس سے اس قدر بے نیاز ہو  کہ اسے قابل توجہ ہی نہیں سمجھتے۔     


وَ لَا تَحٰٓضُّوۡنَ عَلٰی طَعَامِ الۡمِسۡکِیۡنِ ﴿ۙ۱۸﴾

اور مسکینوں کو کھانا کھلانے کی ایک دوسرے کو ترغیب نہیں دیتے ۔

۔۔۔

تمہاری دوسری برائی یہ ہے کہ  تم خود بھی یتیموں، مسکینوں کا خیال نہیں رکھتے اور  دوسروں کو بھی اس طرف متوجہ نہیں  کرتے،  بل کہ الٹا یہ کہتے ہو کہ الله نے اسے یتیم کرتے وقت رحم نہیں کیا تو ہم کیوں اس پر شفقت کریں۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو لوگ یتیم اور مسکین کو دینے کی قدرت نہیں رکھتے انہیں چاہیے کہ وہ دوسروں کو ان کی مدد کرنے کی ترغیب دیں۔  

وَ تَاۡکُلُوۡنَ التُّرَاثَ اَکۡلًا لَّمًّا ﴿ۙ۱۹﴾

اور میراث کا مال سمیٹ سمیٹ کر کھا جاتے ہو ۔

۔۔۔

تیسری بری عادت یہ ہے کہ تم بجائے اس کے کہ یتیم اور فقیر کا حق ادا کرو اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دو، الٹا تم ان کا مال کھا جاتے ہو۔ جب تم میں سے کوئی مر جاتا ہے اور اس کے بچے چھوٹے ہوں تو تم ان کا مال ہڑپ لیتے ہو اور معصوم بچوں اور عورتیں کو  وراثت میں  ان کا حصہ نہیں دیتے بلکہ ان کا مال انہیں دینے  کی بجائے خود خوب دل کھول کر عیاشی اور فضول خرچی کرتے ہو۔    

وَّ تُحِبُّوۡنَ الۡمَالَ حُبًّا جَمًّا ﴿ؕ۲۰﴾

اور مال سے بے حد محبت کرتے ہو۔

۔۔۔

چوتھی بری خصلت یہ ہے کہ تم مال سے بہت زیادہ محبت کرتے ہو۔ لالچ میں مبتلا ہو اور  مال کی بہت زیادہ   حرص رکھتے ہو۔  یہی حرص حق تلفی، جھوٹ، چوری ، خیانت، رشوت ، مکرو فریب اور دھوکے کی وجہ ہے۔اسی مال کی محبت میں تم قتل وغارت  سے بھی گریز نہیں کرتے۔ 

مال کو محبوب بنانے کی بجائے اگر تم الله کی فرمانبرداری ، صداقت، امانت، پرہیزگاری ، خیرات اور صلہ رحمی اختیار کرو تو وہ دنیا اور آخرت میں تمہارے لیے عزت کا سبب ہے۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو سمجھ لو کہ عاد و ثمود اور فرعون پر جس عذاب کا کوڑا برسا تھا وہ تمہارے لیے بھی تیار ہے۔ 

  

کَلَّاۤ اِذَا دُکَّتِ الۡاَرۡضُ دَکًّا دَکًّا ﴿ۙ۲۱﴾

ہرگز ایسا نہیں چاہیے ۔ جب زمین کو کوٹ کوٹ کر ریزہ ریزہ کردیا جائے گا ۔

۔۔۔

ہرگز نہیں تم یہ نہ سمجھو کہ تمہیں تمہارے ان برے اعمال کی سزا نہیں دی جائے گی بلکہ ضرور دی جائے گی۔ الله تعالی اس بات پر بالکل قادر ہے۔ 

ان آیات میں عذاب و سزا اور اس کے وقت کا بیان ہے۔ جب زمین ٹکرے ٹکڑے کر کے ریزہ ریزہ کر دی جائے گی۔ یہ پہلے صور کے وقت ہوگا۔ زلزلہ قیامت کی وجہ سے زمین زیر و زبر ہو جائے گی، عمارتیں، پہاڑ اور درخت وغیرہ سب ٹوٹ پھوٹ جائیں گے اور زمین بالکل ہموار کر دی جائے گی۔ دکا دکا تاکید ہے یعنی زلزلہ ایک کے بعد ایک مسلسل آتا رہا گا۔


وَّ جَآءَ رَبُّکَ وَ الۡمَلَکُ صَفًّا صَفًّا ﴿ۚ۲۲﴾

اور تمہارا پروردگار اور قطاریں باندھے ہوئے فرشتے ( میدان حشر میں ) آئیں گے ۔

۔۔۔

یعنی آئے گا آپ کا رب اور فرشتے صف بصف مراد میدان حشر میں آنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے آنے کی کیا شان ہوگی اس کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، یہ متشا بہات میں سے ہے اور فرشتوں کا صف بصف آنا بظاہر ہے۔


وَ جِایۡٓءَ یَوۡمَئِذٍۭ بِجَہَنَّمَ ۬ ۙ یَوۡمَئِذٍ یَّتَذَکَّرُ الۡاِنۡسَانُ وَ اَنّٰی لَہُ الذِّکۡرٰی ﴿ؕ۲۳﴾

اور اس دن جہنم کو سامنے لایا جائے گا ، تو اس دن انسان کو سمجھ آئے گی اور اس وقت سمجھ آنے کا موقع کہاں ہوگا؟ 

۔۔۔

 جہنم کو لائے جانے کا کیا مطلب ہے اور کس طرح میدان حشر میں لائی جائے گی اس کی حقیقت تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ظاہر یہ ہے کہ جہنم جو اب ساتویں زمین کی تہ میں ہے اس وقت وہ بھڑک اٹھے گی اور سمندر سب آگ ہو کر اس میں شامل ہوجائیں گے اس طرح جہنم  محشر کے میدان  میں سب کے سامنے آجائے گی۔

اس جگہ تذکر سے  سمجھ میں آجانا یا نصیحت ہو جانا مراد ہے یعنی کافر کو اس روز سمجھ آئے گی کہ مجھے دنیا میں کیا کرنا چاہئے تھا اور میں نے کیا کیا۔ مگر اس وقت یہ سمجھ میں آنا بے کار ہوگا کیونکہ عمل اور اصلاح  کا زمانہ گزرچکاہوگا۔  آخرت دارالعمل نہیں بلکہ دارالجزا ہے۔


یَقُوۡلُ یٰلَیۡتَنِیۡ قَدَّمۡتُ لِحَیَاتِیۡ ﴿ۚ۲۴﴾

وہ کہے گا کاش میں نے اپنی زندگی کے لیے کچھ آگے بھیج دیا ہوتا۔

۔۔۔

یعنی اس وقت انسان کو معلوم ہوجائے گا کہ میری اصل زندگی تو یہ ہے جو  اَب شروع ہوئی ہے۔ میں خواہ مخواہ دنیا کی زندگی کو اصل زندگی سمجھتا رہا جو اس اصل زندگی کی تمہید تھی۔یہاں اسی نصیحت یا سمجھ میں آ جانے  کا بیان ہے۔  وہ تمنا کرے گا کہ کاش میں دنیا میں کچھ نیک عمل کرلیتا اور آخرت کی زندگی کے لیے اچھے اعمال کرکے ان کا اجر آگے بھیج دیتا جو اس ابدی زندگی میں میرے کام آ جاتے۔


فَیَوۡمَئِذٍ لَّا یُعَذِّبُ عَذَابَہٗۤ اَحَدٌ ﴿ۙ۲۵﴾

پھر اس دن الله کے برابر کوئی عذاب دینے والا نہیں ہوگا۔

۔۔۔

لیکن اب سب بے کار ہے۔ اب جبکہ کفر و شرک کی سزا سامنے آگئی اب اس تمنا سے کچھ فائدہ نہیں اب تو عذاب اور پکڑ کا وقت ہے اور اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے  برابر کوئی پکڑ نہیں ہوسکتی۔


وَّ لَا یُوۡثِقُ وَ ثَاقَہٗۤ اَحَدٌ ﴿ؕ۲۶﴾

اور نہ اس کے جکڑنے کی طرح کوئی جکڑنے والا ہوگا۔

۔۔۔

اس لیے کہ اس روز تمام اختیارات صرف ایک اللہ کے پاس ہوں گے، دوسرے کسی کو اس کے سامنے رائے دینے یا آنکھ اٹھانے کی جرات  نہیں ہوگی۔ حتی کہ اس کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش تک نہیں کرسکے گا۔ ایسے حالات میں کافروں کو جو عذاب ہوگا اور جس طرح وہ اللہ کی قید وبند میں جکڑے ہوں گے، اس کا یہاں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔مطلب یہ ہے کہ جیسا اللہ تعالیٰ کے پاس  مخلوق کو عذاب دینے کا  غلبہ اور قدرت  ہے کسی اور  کو نہیں ہوسکتی۔


یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ ﴿٭ۖ۲۷﴾

( البتہ نیک لوگوں سے کہا جائے گا کہ ) اے وہ جان جو ( اللہ کی اطاعت میں ) چین پاچکی ہے ۔

۔۔۔۔

یہاں مومن کی روح کو نفس مطمئنہ کہہ کر  بلایا   گیا ہے۔ مطمئنہ کے لفظی معنے ساکنہ کے ہیں۔ مراد وہ نفس ہے جو اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی اطاعت سے سکون وقرار پاتا ہے اور  ذکر الله   چھوڑنے  سے بےچینی محسوس کرتا ہے اور یہ وہی نفس ہوسکتا ہے جو ریاضت ومجاہدہ  کرکے اپنی بری عادتیں  اور برے اخلاق   دور کرچکا ہو۔ اطاعت حق اور ذکر اللہ اس کا مزاج اور شریعت اس کی طبیعت بن جاتی ہے ۔


ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً ﴿ۚ۲۸﴾

اپنے پروردگار کی طرف اس طرح لوٹ کر آجا کہ تو اس سے راضی ہو ، اور وہ تجھ سے راضی ۔

۔۔۔۔۔

یعنی لوٹ جاؤ اپنے رب کی طرف، لوٹنے کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا پہلا مقام بھی رب کے پاس تھا اب وہیں واپس جانیکا حکم ہورہا ہے، اس سے اس روایت کی تقویت ہوتی ہے جس میں یہ ہے کہ مومنین کی ارواح انکے اعمالناموں کے ساتھ علیین میں رہیں گی اور علیین ساتویں آسمان پر عرش رحمن کے سایہ میں کوئی مقام ہے۔ کل ارواح انسان کا اصلی ٹھکانہ و مستقر  وہی ہے وہیں سے روح لا کر انسان کے جسم میں ڈالی جاتی ہے اور پھر موت کے بعد وہیں واپس جاتی ہے۔)المعارف(

حضرت عبادہ ابن صامت کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا ہے  جس کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملنے کو پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنے کو پسند کرتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اللہ بھی اس سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے یہ حدیث سن کر حضرت صدیقہ عائشہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا کہ اللہ سے ملنا تو موت ہی کے ذریعہ ہوسکتا ہے لیکن موت تو ہمیں یا کسی کو بھی پسند نہیں، آپ نے فرمایا یہ بات نہیں، حقیقت یہ ہے کہ مومن کو موت کے وقت فرشتوں کے ذریعہ اللہ کی رضا اور جنت کی بشارت دیجاتی ہے جس کو سن کر اس کو موت زیادہ محبوب ہوجاتی ہے۔ اسی طرح کافر کو موت کے وقت عذاب اور سزا سامنے کردی جاتی ہے اسلئے اس کو اس وقت موت سے بڑھ کر کوئی چیز بری اور مکروہ معلوم نہیں ہوتی 

(رواہ البخاری ومسلم، مظہری) 

یہ بات اس سے موت کے وقت بھی کہی جائے گی ، قیامت کے روز جب وہ دوبارہ اٹھ کر میدان حشر کی طرف چلے گا اس وقت بھی کہی جائے گی ، اور جب اللہ کی عدالت میں پیشی کا موقع آئے گا اس وقت بھی کہی جائے گی ہر مرحلے پر اسے اطمینان دلایا جائے گا کہ وہ اللہ کی رحمت کی طرف جا رہا ہے ۔ یہی مفہوم ہے راضیة مرضیہ کا۔ 

فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ ﴿ۙ۲۹﴾

اور شامل ہوجا میرے ( نیک ) بندوں میں ۔

۔۔۔۔۔

وَ ادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ ﴿۳۰﴾

اور داخل ہوجا میری جنت میں ۔

۔۔۔۔

نفس مطمئنہ کو مخاطب کرکے یہ حکم ہوگا کہ میرے خاص بندوں میں شامل ہوجا اور میری جنت میں داخل ہوجا۔

 اس آیت میں پہلے اللہ کے صالح اور مخلص بندوں میں شامل ہونیکا حکم ہے پھر جنت میں داخل ہونیکا۔

 اس میں اشارہ یہ پایا جاتا ہے کہ جنت میں داخل ہونا اس پر موقوف ہے کہ پہلے اللہ کے صالح مخلص بندوں کے زمرہ میں شامل ہو، ان سب کے ساتھ ہی جنت میں داخل ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو دنیا میں صالحین کی صحبت ومعیت اختیار کرتا ہے یہ علامت اس کی ہے کہ یہ بھی انکے ساتھ جنت میں جائے گا۔

جنت کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کرکے میری جنت فرمایا جو بڑا اعزازو اکرام ہے اور اس میں اشارہ پایا جاتا ہے کہ جنت میں صرف یہی نہیں کہ ہر طرح  کی راحتیں جمع ہیں اور دائمی ہیں بلکہ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا مقام ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔


               مختصر تفسیر عتیق سورہ فجر

ابتداء میں پانچ قسمیں کھا کر اللہ  تعالی نے کافروں کی گرفت کرنے اور عذاب دینے کا اعلان کیا ہے پھر اس پر واقعاتی شواہد پیش کرتے ہوئے قوم عاد و ثمود و فرعون اور ان کی ہلاکت کا بیان ہے۔ 

پھر مشقت اور تنگی میں اور راحت و وسعت میں انسان کی فطرت کو بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ آرام و راحت میں اترانے اور تکبر  میں مبتلا ہونے لگتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اس لائق تھا تبھی تو مجھے یہ نعمتیں ملی ہیں اور تکلیف اور تنگی میں اللہ کی حکمت پر نظر کرنے کی بجائے اللہ پر اعتراضات شروع کر دیتا ہے۔ 

پھر یتیموں اور مسکینوں کی حق تلفی اور حب مال کی مذمت کی ہے۔ اس کے بعد قیام قیامت اور اس کی سختی و شدت بیان کرنے کے بعد بیان کیا کہ جب اللہ تعالیٰ فیصلہ کرنے لگیں گے، فرشتے صف بندی کر کے کھڑے ہو جائیں گے اور جہنم کو لا کر کھڑا کر دیا جائے گا اس وقت کافروں کو عقل آئے گی اور وہ نصیحت حاصل کرنے کی باتیں کریں گے جب وقت گزر چکا ہو گا اس وقت اللہ ایسا عذاب دیں گے کہ کوئی بھی ایسا عذاب نہیں دے سکتا اور مجرموں کو ایسے جکڑیں گے کہ کوئی بھی اس طرح نہیں جکڑ سکتا۔

 اللہ کے وعدوں پر اطمینان رکھنے والوں سے خطاب ہو گا اپنے رب کی طرف خوش و خرم ہو کر لوٹ جاؤ اور ہمارے بندوں میں شامل ہو کر ہماری جنت میں داخل ہو جاؤ۔

۔۔۔۔۔۔


سورۃ البلد:13، عم پارہ

سورۃ البلد    اسماء سورة بلد کا معنی  شہر ہے۔ اس سورت کی پہلی آیت میں   اللّٰہ  تعالیٰ نے  شہر مکہ کی قسم کھائی  ہے اس مناسبت سے اسے ’’سورہ...