عم پارہ ۔ اردو ترجمہ و تفسیر

جمعہ، 5 جولائی، 2024

وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا : عم پارہ 30 : سورۃ الشمس | والشمس وضحھا

 اسماء سورة:

سورج کو عربی میں شمس کہتے ہیں  اور اس سورت کی پہلی آیت میں  سورج کی قسم کھائی گئی ہے اسی مناسبت سے اسے’’ سورۃ الشمس ‘‘کہتے ہیں۔ یہ مکی سورة ہے،  اسے   “والشمس وضحاھا”بھی کہا جاتا ہے۔

فضیلت: 

احادیث میں ہے کہ   نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم عشاء کی نماز میں     ’’ وَ الشَّمْسِ وَ ضُحٰىهَا ‘‘  اور اس کے مشابہ سورتیں  پڑھا کرتے تھے اور کبھی  صحابہ رضوان الله اجمعین کو   فجر کی نماز پڑھائی تو اس  میں   ’’ وَ الشَّمْسِ وَ ضُحٰىهَا ‘‘  اور  ’’ وَ السَّمَآءِ وَ الطَّارِقِ ‘‘  کی تلاوت فرمائی۔ 

سنن ماجہ کی ایک طویل حدیث مبارکہ ہے جس میں  حضرت معاذ کے اس واقعہ کا بیان ہے جب انہوں نے عشاء کی نماز میں سورة بقرہ پڑھائی اور اس بات کی نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے شکایت کی گئی۔

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم نے  معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ  تم نے«سبح اسم ربك الأعلى» اور «والشمس وضحاها» اور «والليل إذا يغشى» کے ساتھ امامت کیوں نہ کرائی؟

 روابط:

سورة والشمس  پچھلی  سورة  البلد سے ربط یہ ہے کہ سورۃ البلد میں آخرت کی جزا و سزا کا بیان تھا اب سورة الشمس میں برے اعمال پر دنیا میں پکڑ اور سزا کا ذکر ہے۔ پچھلی سورة میں  کفار مکہ کو عذاب سے ڈرایا گیا اب اس سورة میں بھی اسی مضمون کا مزید  بیان ہے۔


وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا ﴿١﴾

قسم ہے سورج کی اور اس کی پھیلی ہوئی دھوپ کی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس سورت کے شروع میں سات چیزوں کی قسم     کھائی گئی ہے، جب کہ وہ اپنی حالت میں کمال درجہ پر ہوں۔ 

 پہلی قسم والشمس وضحھا،  ضحھا  کے ساتھ  واوعاطفہ  ہے لیکن یہ بیان  سورج کی صفت کے طور پر ہے   یعنی قسم ہے سورج   کی جب وہ وقتِ ضحیٰ میں ہو۔ ضحیٰ اس وقت کو کہا جاتا ہے جب سورج  نکلنے کے بعد  تھوڑا سا بلند ہوجائے اور اس کی روشنی زمین پر پھیل جائے۔ اس وقت سورج    انسان کو قریب نظر آتا ہے اور   تیز روشنی نہ  ہونے کی وجہ سے اس کو پوری طرح دیکھا جا سکتا ہے۔

 

وَالْقَمَرِ إِذَا تَلَاهَا ﴿٢﴾ 

اور چاند کی جب وہ سورج کے پیچھے پیچھے آئے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسری قسم  چاند کی ہے جبکہ وہ سورج  کے پیچھے آئے۔ تلیٰ کا معنی ہے: کسی چیز کا  دوسری چیز کے پیچھے آنا،  بار بار آنا اور تابع ہونا۔ چاند بہت سی حالتوں میں سورج کے تابع یعنی اسی کی مانند یا پیچھے آنے والا ہے۔

  ۱- مہینے کے درمیان، کچھ دن  ایسے ہوتے ہیں جب سورج ڈوبنے کے بعد چاند نکل آتا ہے، اس وقت   تقریباً پورا چاند   ہوتا ہے اور  سورج کے پیچھے آ جاتا ہے۔

۲- چاند سورج سے روشنی لیتا ہے اس اعتبار سے اس کا تابع ہے۔

۳- شکل اور جسامت کے اعتبار سے،  جس طرح  ضحیٰ کے وقت  سورج مکمل  نظر آتا ہے اسی طرح   چودہویں رات کا چاند بھی  سورج جیسا نظر آتا  ہے۔

۴- مہینہ اور سال کے حساب  میں بھی چاند سورج کے تابع ہوتا ہے۔ 


وَالنَّهَارِ إِذَا جَلَّاهَا ﴿٣﴾ 

اور دن کی جب وہ سورج کا جلوہ دکھا دے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

تیسری قسم دن کی ہے اور ساتھ ہی اس  کی صفت جلھا بیان کی ۔ ھا  کی ضمیر  دو  چیزوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

پہلی   زمین اور دوسری ، دنیا۔ اگرچہ اس سے پہلے زمین اور دنیا کا ذکر نہیں آیا لیکن   عرب محاورے میں ایسی چند چیزیں جو عموماً انسانوں کے سامنے رہتی ہیں ان کی طرف بغیر ذکر  کیے  بھی ضمیر لوٹا دینا عام  ہے اور قرآن کریم میں  اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔

 اس اعتبار سے معنے یہ ہوئے کہ قسم ہے دن کی اور دنیا کی یا زمین کی جس کو دن نے روشن کردیا ہے۔

 اس میں بھی اشارہ اس طرف ہے کہ دن کی قسم اس کی حالت کے اعتبار سے ہے یعنی جب  وہ پوری طرح روشن ہوجائے۔ 


وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَاهَا ﴿٤﴾ 

اور رات کی جب وہ اس پر چھا کر اسے چھپا لے ۔

۔۔۔۔

یعنی قسم ہے رات کی جبکہ وہ سورج  پر چھا جائے یعنی اس  کی روشنی کو  چھپا  دے۔رات کی آمد پر سورج چھپ جاتا ہے اور اس کی روشنی رات بھر غائب رہتی ہے ۔ اس کیفیت کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ رات سورج کو ڈھانپ  لیتی ہے ، کیونکہ رات کی اصل حقیقت سورج کا مغرب کی طرف، نیچے اتر جانا ہے ، جس کی وجہ سے اس کی روشنی زمین کے اس حصے تک نہیں پہنچ سکتی جہاں رات چھا  گئی ہو ۔


وَالسَّمَاءِ وَمَا بَنَاهَا ﴿٥﴾ 

اور قسم ہے آسمان کی ، اور اس کی جس نے اسے بنایا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لفظ ما میں مفسرین کے دو قول ہیں۔

۱- ما مَن کے معنی میں ہو اور  اس سے الله تعالی مراد ہوتو معنی ہوگا “قسم ہے آسمان کی اور اس کے بنانے والے کی”

۲- ما مصدریہ ہے تو معنی ہوگا “قسم ہے آسمان کی اور اس کے بنانے کی، اور یہی صحیح ہے۔

وَالْأَرْضِ وَمَا طَحَاهَا ﴿٦﴾ 

اور زمین کی اور اس کی جس نے اسے بچھایا ۔

۔۔۔۔۔۔

قسم ہے زمین اور اسکے بچھانے پھیلانے کی۔ طحو مصدر کے معنے بچھانے، پھیلانے کے آتے ہیں۔

 ان دونوں آیات  میں آسمان کے ساتھ بنانے کا اور زمین کے ساتھ بچھانے ،  پھیلانے کا ذکر بھی اسی حالت کمال کے اظہار کے لئے ہے کہ قسم ہے آسمان کی اس حالت میں جبکہ اس کی تخلیق  مکمل ہوگئی، اور قسم ہے زمین کی جبکہ اس کو پورا پھیلا دیا گیا۔اس آیت میں بھی ما کے دونوں معنی مراد ہو سکتے ہیں۔

۱- اگر ما موصولہ ہو یعنی الذی کے معنی میں تو مطلب ہوگا ۔ قسم ہے زمین کی اور اس کے بنانے والے کی۔

۲- اگر ما  مصدر کا معنی دے تو مطلب ہوگا۔ قسم ہے زمین کی اور  اس کے بچھانا یا بنانے کی ۔

وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا ﴿٧﴾ 

اور انسانی جان کی ، اور اس کی جس نے اسے سنوارا ۔

۔۔۔۔۔

 ۱- اس میں ما کو مصدریہ لیا جائے تو معنے یہ ہیں کہ قسم ہے انسانی جان کی اور اسکو بالکل صحیح اور متناسب کرنے کی 

۲- اگرما کو  من  کے معنی میں  لیا جائے تو مراد ہوگی  کہ قسم ہے نفس کی اور اسکے برابر و درست کرنیوالے کی۔ 

وما سواھا  سے مراد یہ ہے کہ اس نے نفس کو ہر طرح شکل وصورت اور اعضا کے اعتبار سے بالکل درست بنایا اور یہ انسانی جان  کی وہ  حالت ہے جب وہ اپنے کمال درجے تک پہنچ چکا  ہے۔ 

فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا ﴿٨﴾ 

پھر اس کے دل میں وہ بات بھی ڈال  دی جو اس کے لیے بدکاری کی ہے ، اور وہ بھی جو اس کے لیے پرہیزگاری کی ہے ۔

۔۔۔۔۔

الہام کے معنے دل میں ڈالنا ۔  فجور کے معنے کھلا گناہ اور تقویٰ کا مفہوم  محتاط رہنا  ہے۔  یعنی اللہ تعالیٰ نے نفس انسانی کو بنایا، پھر اسکے دل میں فجور اور تقویٰ دونوں کا الہام کردیا۔

۱- الہام کا  ایک مطلب تو یہ ہے کہ انہیں اچھی طرح سمجھایا اور انہیں انبیاء اور آسمانی کتابوں کے ذریعے سے  نیکی اور بدی کی پہچان کروا دی۔

 ۲-  یہ  کہ ان کی عقل اور فطرت میں خیر اور شر، نیکی اور بدی  کا شعور رکھ دیا، پھر انسان کو ایک خاص قسم کا اختیار دیا  تاکہ وہ اپنی مرضی سے نیکی کو اپنائیں اور بدی سے  پرہیز کریں۔   انسان  اپنے اختیار اور مرضی سے  اچھے یا برے راستے کا انتخاب کر تا ہے اسی وجہ سے الله تعالی اسے ثواب یا عذاب دیتے ہیں۔ 

صحیح مسلم کی ایک مرفوع حدیث میں اس آیت کی تفسیر بیان کی گئی ہے۔ حضرت عمران بن حصین نے روایت  کی ہے،  جس کا مفہوم یہ ہے کہ بعض لوگوں نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے مسئلہ تقدیر کے متعلق سوال کیا تو آپ نے جواب میں یہ آیت تلاوت فرمائی۔ 

ایک دوسری روایت کا مفہوم یہ ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  جب یہ آیت تلاوت فرماتے تو بلند آواز سے یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔

 اَلّٰھُمَّ اٰتِ نَفْسِیْ تَقْوَاھَا وَ زَکَّھَا اَنْتَ خَیْرُ مَنْ ذَکَّاھَا ، اَنْتَ وَ لِیُّھَا وَ مَوْلَاھَا 

یعنی یا اللہ میرے نفس کو تقویٰ کی توفیق عطا فرما،آ پ ہی وہ بہترین ہستی ہیں جو اسے پاک کرسکتے ہیں، آپ ہی میرے نفس کے ولی اور مربی ہیں۔


قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا ﴿٩﴾ 

فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے ۔

۔۔۔۔۔۔۔

یہ جواب قسم ہے یعنی  وہ شخص کامیاب ہو گیا، جس نے اپنے نفس کو صاف ستھرا کرلیا۔ تزکیہ کے اصلی معنے باطنی پاکی کے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ جس نے اللہ کی اطاعت کرکے اپنے ظاہر و باطن کو پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگیا۔نفس کو پاکیزہ بنانے کا مطلب یہی ہے کہ اِنسان کے دِل میں جو اچھی خواہشات اور اچھے جذبات پیدا ہوتے ہیں، اُنہیں اُبھار کر اُن پر عمل کرے۔


 وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا ﴿١٠﴾ 

اور نامراد وہ ہوگا جو اس کو ( گناہ میں ) دھنسا دے ۔

۔۔۔۔۔

اور محروم ہوا وہ شخص جس نے اپنے نفس کو گناہوں کی دلدل میں دھنسادیا۔ لفظ دسی، دس سے بنا  ہے جس کے معنے زمین میں دفن کردینے کے ہیں۔ انسان کے دل میں جو بری خواہشات اور جذبات پیدا ہوتے ہیں، اُنہیں کوشش سے  دبائے۔ اِسی طرح مسلسل مشق کرتے رہنے سے نفس پاکیزہ ہوکر’’نفسِ مطمئنہ‘‘ بن جاتا ہے، جس کا ذکر سورۃ الفجر کی آخری آیتوں میں گذرا ہے۔

بعض مفسرین نے یہاں زکی اور دسی دونوں میں ضمیر فاعل اللہ کی طرف راجع کرکے معنے یہ کئے ہیں کہ بامراد ہوا وہ آدمی جس کو اللہ تعالیٰ نے پاک کردیا، اور نامراد و محروم ہوا وہ جس کو اللہ تعالیٰ نے گناہوں میں دھنسا دیا اس آیت نے تمام  انسانوں کو دو گروہوں میں تقسیم کردیاہے۔۱- کامیاب گروہ ۔۲-   ناکام گروہ۔


كَذَّبَتْ ثَمُودُ بِطَغْوَاهَا ﴿١١﴾ 

قوم ثمود نے اپنی سرکشی سے ( پیغمبر کو ) جھٹلایا ۔

۔۔۔۔۔

اب ان آیات میں ، دوسری قسم کے لوگوں کا ایک واقعہ بطور مثال   پیش کرکے ان کے برے انجام  سے ڈرایا گیا ہے کہ ان نامرادوں کو آخرت میں تو سخت سزا ملے ہی گی بعض اوقات دنیا میں بھی ان کو سزا کا کچھ مزہ چکھا دیا جاتا  ہے، جیسے قوم ثمود کو سزا دی گئی۔ قوم ثمود کی مثال اس لیے دی گئی کیونکہ ان   کا  ٹھکانہ مکہ کے قریب تھا اور اہل مکہ میں ان کی داستانیں  مشہور تھیں۔ انہوں  نے بھی مشرکینِ  مکہ کی طرح سرکشی اختیار کی  اور اللہ کی آیات اور اس کے رسول کی تکذیب کی تھی۔


صالح علیہ السلام کا قصہ: 

حضرت صالح علیہ السلام  قوم ثمود کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے، انہوں نے  اپنی قوم کو الله پر ایمان لانے کی دعوت  دی  اور بہت لمبے عرصے تک انہیں حق   کی طرف بلاتے رہے۔صالح علیہ السلام کی دعوت  سے تنگ آ کر ان کی قوم نے یہ فیصلہ کیا  کہ ان سے کوئی ایسا مطالبہ کیا جائے   جسے وہ   پورا نہ کرسکیں ، چنانچہ انہوں نے کہا کہ اگر آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں تو ہماری فلاں پہاڑی جس کا نام کاتبہ تھا اس کے اندر سے ایک ایسی اونٹنی نکال دیجئے جو دس مہینہ کی گابھن اور   تندرست ہو۔  صالح علیہ السلام نے ان سے  وعدہ  لیا کہ اگر میں الله تعالی کی طرف سے یہ معجزہ پیش کر  دوں تو تم  الله کی توحید اور میری رسالت پر ایمان لے آؤ گے۔ جب سب نے عہد کرلیا تو صالح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ، چنانچہ  پہاڑی   پھٹ گئی، اس میں سے ایک اونٹنی اسی طرح کی نکل آئی جیسا مطالبہ کیا تھااور فورا ہی اس کا بچہ  بھی پیدا ہوگیا۔ صالح  علیہ السلام  کا  واضح اور  حیرت انگیز معجزہ دیکھ کر ان میں سے کچھ لوگ مسلمان ہوگئے اور باقی  لوگوں نے بھی ارادہ کرلیا کہ ایمان لے آئیں  مگر قوم کے چند سردار جو بتوں کو خدا بنائے بیٹھے   تھے انھوں نے ان کو بہکا کر اسلام قبول کرنے سے روک دیا۔ 


إِذِ انبَعَثَ أَشْقَاهَا ﴿١٢﴾ 

جب ان کا سب سے سنگدل شخص اٹھ کھڑا ہوا ۔

۔۔۔۔۔۔

قوم ثمود نے عملی طور پر اس معجزے کو ایسے جھٹلایا کہ ان میں سے سب سے بڑا بدبخت اونٹنی کو ہلاک کرنے کے لیے تیار ہو گیا۔اس کا نام قذار بن سالف تھا جس کا رنگ سرخ، نیلی آنکھیں اور چھوٹا قد تھا۔ اونٹنی کو مارنے والا شخص یہی تھا  باقی سب لوگ  قتل کے اس منصوبے  میں شامل تھے ، اسی لیے اسے اشقی کہا گیا ہے۔


فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّـهِ نَاقَةَ اللَّـهِ وَسُقْيَاهَا ﴿١٣﴾ 

تو اللہ کے پیغمبر نے ان سے کہا کہ : خبردار ! اللہ کی اونٹنی کا اور اس کے پانی پینے کا پورا خیال رکھنا ۔

۔۔۔۔۔۔

حضرت صالح علیہ السلام نے جب دیکھا کہ قوم  وعدے سے مکر گئی ہے اور خطرہ ہوا کہ ان پر کوئی عذاب آجائے گا، تو  انہیں  نصیحت کی  کہ اس اونٹنی کی حفاظت کرو،  یہ الله کی اونٹنی ہے،  تمہارے لئے ایک معجزے کے طور پر پیدا کی گئی  ہے، اس لیے اس کا احترام  اور  حفاظت تم پر واجب ہے۔تم  اسےکوئی تکلیف نہ  دینا ، نہ اس کا پانی بند کرنا اور نہ ہی اسے قتل کرنا ، ورنہ تم پر الله کا عذاب نازل ہو جائے  گا۔

 اس  کو ناقۃ اللہ اس لئے کہا گیا کہ اللہ کی قدرت سے  صالح علیہ السلام کے معجزہ کے طور پر حیرت انگیز طریقے سے پیدا ہوئی تھی، جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام  کو روح اللہ فرمایا گیا کہ ان کی پیدائش بھی معجزانہ انداز سے ہوئی تھی۔ قوم ثمود جس کنوئیں سے پانی پیتے پلاتے تھے اسی سے یہ اونٹنی بھی پانی پیتی تھی مگر یہ عجیب الخلقت اونٹنی جب پانی پیتی تو پورے کنوئیں کا پانی ختم کردیتی ۔ چنانچہ  صالح علیہ السلام نے الله کے حکم سے  یہ فیصلہ کیا، ایک دن یہ اونٹنی پانی پیے گی اور دوسرے دن قوم کے سب لوگ پانی لیں گے اور جس روز یہ اونٹنی پانی پیے گی تو دوسروں کو پانی کے بجائے اونٹنی کا دودھ اتنی مقدار میں مل جاتا تھا کہ وہ اپنے سارے برتن اس سے بھر لیتے تھے۔


فَكَذَّبُوهُ فَعَقَرُوهَا فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ رَبُّهُم بِذَنبِهِمْ فَسَوَّاهَا ﴿١٤﴾ 

پھر ‌بھی ‌انہوں ‌نے ‌پیغمبر ‌كو ‌جھٹلایا ، ‌اور ‌اس ‌اونٹنی ‌كو ‌مار ‌ڈالا ۔ ‌نتیجہ ‌یہ ‌كہ ‌ان ‌كے ‌پروردگار ‌نے ‌ان ‌كے ‌گناہ ‌كی ‌وجہ ‌سے ‌ان ‌كی ‌اینٹ ‌سے ‌اینٹ ‌بجا ‌كرسب ‌كو ‌برابر ‌كردیا ۔

۔۔۔۔۔

یعنی ان لوگوں نے سیدنا صالح علیہ السلام  کی نصیحت کو  کوئی اہمیت نہ دی اوراونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں۔ اگرچہ اونٹنی  کو ہلاک کرنے والا صرف ایک شخص قدار بن سالف تھا اور اسی  نے کونچیں کاٹ کر اونٹنی کو  مار ڈالا۔  ساری قوم اس کے ساتھ تھی بلکہ انھی کے کہنے پر اس نے یہ کام کیا تھا، اس  لئے ان سب کو مجرم قرار دیا گیا اور اونٹنی کو ہلاک کرنے کی نسبت پوری قوم کی طرف کی گئی ہے۔   عذاب بھی صرف اونٹنی کو ہلاک کرنے والے پر نہیں بلکہ ساری قوم پر آیا تھا۔ دمدم  کا لفظ ایسے سخت عذاب کے لئے بولا جاتا ہے جو کسی شخص یا قوم پر بار بار آتا ہے یہاں تک کہ ان کو بالکل فنا کردے۔ اور فسوھا کا مطلب یہ ہے کہ یہ عذاب پوری قوم پر  نازل  ہوا،  جس میں مرد و عورت، بچہ بوڑھا سب برابر  ہوگئے۔


وَلَا يَخَافُ عُقْبَاهَا ﴿١٥﴾

اور اللہ کو اس کے کسی برے انجام کا کوئی خوف نہیں ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی حق تعالیٰ کا عذاب اور کسی قوم کو تباہ کردینے کے معاملے کو دنیا کے معاملات کی طرح نہ سمجھو ۔ دنیا کا  بڑا سے بڑا  طاقتور بادشاہ  بھی جب کسی قوم کو سزا دینے یا ہلاک کرنے  کا ارادہ کرتا ہے تو ڈرتا ہے۔ خود  اسے بھی یہ خطرہ رہتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ باقی لوگ یا ان کے  حامی ،  انتقام  پر اتر آئیں  اور بغاوت کر دیں ۔ اسی لیے  دنیا میں دوسروں کو مارنے والا خود بھی خطرے میں  رہتاہے  اور دوسروں پر حملہ کرنے کی صورت میں اسے  جوابی حملے کا خطرہ بھی لازماً برداشت کرنا پڑتا ہے سوائے حق تعالیٰ جل شانہ، کے،  اس کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں۔ 

والله اعلم 

۔۔۔۔۔۔

مختصر تفسیر سورة الشمس 

سات قسمیں کھا کر بتایا ہے کہ جس طرح یہ تمام حقائق برحق ہیں اسی طرح یہ بات بھی برحق ہے کہ انسان کو ہم نے نیکی اور بدی میں تمیز کا ملکہ عطاء کیا ہے جو اس سے فائدہ اٹھا کر نیکی کا راستہ اختیار کر کے اپنی اصلاح کر لیتا ہے وہ کامیاب و کامران ہے اور جو ’’بدی‘‘ کا راستہ اپنا کر گناہوں کی زندگی اپنا لیتا ہے وہ ناکام و نامراد ہے۔ پھر ایک ایسی ہی سرکش اور گناہگار قوم کا تذکرہ ہے جنہوں نے اپنی قوم کے رئیس و شریف آدمی کو اللہ کی نافرمانی پر آمادہ کر کے اونٹنی کے قتل پر مجبور کیا جس کی بناء پر یہ شخص قوم کا بدترین اور بدبخت شخص قرار پایا۔ چنانچہ پوری قوم کو ان کی سرکشی اور بغاوت کے نتیجہ میں ایسے عذاب کا سامنا کرنا پڑا جس سے کوئی ایک فرد بھی نہ بچ سکا اور اللہ تعالیٰ جب کسی کو ہلاک کرتے ہیں تو نتائج سے نہیں ڈرا کرتے۔

۔۔۔۔۔

جمعرات، 25 مئی، 2023

سورۃ البلد:13، عم پارہ

سورۃ البلد 

 اسماء سورة

بلد کا معنی  شہر ہے۔ اس سورت کی پہلی آیت میں   اللّٰہ  تعالیٰ نے  شہر مکہ کی قسم کھائی  ہے اس مناسبت سے اسے ’’سورۂ بلد‘‘ کہتے ہیں ۔ بیس آیات پر مشتمل اس مکی سورة کو    “سورة لا اقسم”  بھی کہا جاتا ہے۔

ربط سورة

پچھلی سورة “الفجر”سے ربط یہ ہے کہ الفجر کی طرح اس سورة میں بھی اعمال کی جزا و سزا کا بیان ہے البتہ وہاں  زیادہ توجہ برے اعمال کی سزا پر تھی اور اس سورة میں خاص طور پر نیک اعمال کی جزا کو بیان کیا گیا ہے۔

لَا أُقْسِمُ بِهَـٰذَا الْبَلَدِ ﴿١

میں قسم کھاتا ہوں اس شہر کی ۔

۔۔۔۔۔

ان آیات میں تین چیزوں کی قسم کھا کر الله تعالی جواب قسم کے مضمون کو پختہ کر رہے ہیں۔

پہلی قسم : لا اقسم ۔ لا سے دو معنی مراد ہو سکتے ہیں ۔

۱- حرف لا زائدہ  ہے۔ 

۲- عرب بول چال میں  حرف “لا”مخاطب کے  خیال کو  غلط ثابت کرنے کے لئے،  قسم کے شروع میں لایا جاتا ہے، جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ جو تمہارا خیال ہے وہ صحیح نہیں ہے، بلکہ ہم قسم کھا کر کہتے ہیں کہ حقیقت وہ ہے جو ہم بیان کر رہے  ہیں۔ 

 البلد سے مکہ مکرمہ مراد ہے جیسا کہ “سورة والتین” میں بھی شہر مکہ کی قسم کھائی ہے۔  مکہ کی قسم کھانا اس کی فضیلت اور بزرگی  کی وجہ سے ہے۔

وَأَنتَ حِلٌّ بِهَـٰذَا الْبَلَدِ ﴿٢﴾ 

جبکہ ( اے پیغمبر ) تم اس شہر میں مقیم ہو 

۔۔۔۔۔۔۔

حلٌّ کے معنی میں مفسرین کے مختلف اقوال  ہیں۔ 

١۔ حل” کے معنی کسی شیء کے اندر سمانے،  رہنے اور اترنے کے آتے ہیں. اس اعتبار سے حلّ کے معنی اترنے والے اور رہنے والے کے ہوں گے،اور  آیت  سے مراد یہ ہوگی کہ شہر مکہ  خود بھی محترم اور مقدس  ہے اور  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  بھی اس شہر میں رہتے ہیں،  اس لیےاس  شہر کی عظمت و حرمت آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس میں رہنے  سے دوہری ہوگئی ہے۔

۲۔حل کے معنی کسی چیز کے حلال ہونے کے بھی  ہیں. اس اعتبا ر سے لفظ حل کے دو معنی ہوسکتے ہیں۔

ایک یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خون کو کفار مکہ نے حلال سمجھ لیا ہے اور  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لیے تیار  ہیں  حالانکہ وہ خود  شہر مکہ میں کسی شکار کو بھی حلال نہیں سمجھتے تھے۔

دو سرے معنی حل کے یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کیلئے حرم مکہ میں کافروں سے قتال حلال ہونے والا ہے۔ جیسا کہ فتح مکہ کے موقع پر  ایک روز کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے احکامِ حرم اٹھا لئے گئے تھے اور کفار کا قتل حلال کردیا گیا تھا۔ 

آیت کے الفاظ میں تینوں معانی کی گنجائش ہے۔

وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَ ﴿٣

اور قسم ہے باپ کی اور اولاد کی

۔۔۔۔

دوسری اور تیسری قسم والد اور اولاد کی ہے۔ 

باپ سے مراد حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور چونکہ تمام اِنسان انہیں کی اولاد ہیں، اس لئے اس آیت میں تمام نوعِ اِنسانی کی قسم کھائی گئی ہے۔ 

لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي كَبَدٍ ﴿٤

۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ ہے وہ بات جس کے لیے قسم کھائی گئی ہے۔ کبد کے لفظی معنی مشقت کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ دُنیا میں اِنسان کو اِس طرح پیدا کیا گیا ہے کہ وہ کسی نہ کسی مشقت میں لگارہتا ہے، چاہے کوئی کتنا بڑا حاکم  یا دولت مند شخص ہو، اُسے زندہ رہنے کے لئے مشقت اُٹھانی ہی پڑتی ہے۔ محنت اور مشقت انسان کی فطرت میں ڈال دی گئی ہے۔ اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ اُسے دُنیا میں کبھی کوئی محنت نہ کرنی پڑے تو یہ  ممکن نہیں ہے۔مثلا بچے کو پیدائش کی تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے، دودھ پینے کی مشقت، دانت نکلنے یا  بیمار و کمزور ہونے کی تکلیف ، تعلیم و کاروباروغیرہ، بڑھاپا اور موت کی تکلیف پھر قبر و حشر اور اس میں الله تعالی کے سامنے اعمال کی جواب دہی اور سزا و جزا    کی مشقت، غرض انسان  کی زندگی مسلسل جدوجہد ، محنت اور مشقت سے بھرپور ہے۔ ہاں مکمل راحت کی زندگی جنّت کی زندگی ہے جو دُنیا میں کی ہوئی محنت کے نتیجے میں ملتی ہے۔ ہدایت یہ دی گئی ہے کہ اِنسان کو دُنیا میں جب کسی مشقت کا سامنا ہو تو اُسے یہ حقیقت یاد کرنی چاہئے۔

سوال:محنت ومشقت صرف انسان کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ سب جانور بھی اس میں شریک ہیں پھر اس حال کو صرف انسان کے لئے کیوں خاص کیا گیا؟

جواب: ۱ - انسان سب جانوروں سے زیادہ عقل و شعور  رکھتا ہے اور محنت کی تکلیف بھی شعور کے حساب سے زیادہ محسوس ہوتی ہے۔

 ۲-  آخری اور سب سے بڑی محنت محشر میں دوبارہ زندہ ہو کر عمر بھر کے اعمال کا حساب دینا ہے وہ دوسرے جانوروں میں نہیں ہے۔

 بعض علماء نے فرمایا کہ کوئی مخلوق اتنی مشقتیں نہیں جھیلتی جتنی انسان برداشت کرتا ہے حالانکہ  وہ جسم اور طاقت میں اکثر جانوروں کی نسبت ضعیف اور کمزور ہے،  چونکہ انسان کی دماغی قوت سب سے زیادہ ہے اس لئے اس لیے اس کو خاص کیا گیا ہے۔


 أَيَحْسَبُ أَن لَّن يَقْدِرَ عَلَيْهِ أَحَدٌ ﴿٥﴾ 

کیا وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس پر کسی کا بس نہیں چلے گا؟

۔۔۔۔۔

مقصد یہ ہے کہ انسان کو چاہیے تھا ان تکلیفوں اور مصیبتوں پر غور کرتا اور عاجزی اختیار کرتا،لیکن وہ غرور اور تکبر کرتا ہے، طاقت کے نشے میں کہتا ہے کہ کون مجھے پکڑ سکتا ہے؟

ان آیات کا شانِ نزول یہ ہے کہ  یہ آیات یا تو عام کافروں کے بارے میں نازل ہوئیں یا پھر ولید بن مغیرہ یا  ابو الاشد  کلاہ بن اسید کے بارے میں نازل ہوئیں، جو بڑا طاقتور پہلوان تھا اور کہتا تھا کہ عذاب کہ فرشتے میرے قریب آئیں تو انہیں پٹخ دوں گا، وہ مجھ پر قابو نہیں پا سکیں گے۔  

يَقُولُ أَهْلَكْتُ مَالًا لُّبَدًا ﴿٦﴾ 

کہتا ہے کہ : میں نے ڈھیروں مال اڑا ڈالا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور ریا کاری کرتے ہوئے کہتا ہے میں نے لوگوں پر بہت سامال خرچ کیا۔ یا یہ مراد ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے کہنے پر یا ان کی مخالفت میں بہت سا مال برباد کر دیا، حالانکہ وہ بالکل جھوٹ بولتا ہے۔

أَيَحْسَبُ أَن لَّمْ يَرَهُ أَحَدٌ ﴿٧﴾ 

کیا وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کو کسی نے دیکھا نہیں؟

۔۔۔۔۔۔

مطلب یہ ہے کہ انسان احمق ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ اس کے برے اعمال، ریاکاری و مکاری، فخر، غرور اور تکبر  کو کوئی نہیں دیکھ رہا حالانکہ اس کا خالق اس کے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے۔

ربط آیات: 

پچھلی آیات میں انسان کی اس غفلت و جہالت پر تنبیہ تھی کہ وہ سمجھتا ہے کہ میرے اوپر اللہ تعالیٰ کو بھی قدرت نہیں، اور یہ کہ اس کے اعمال و افعال کو کوئی دیکھنے والا نہیں۔ اس آیت میں چند  نعمتوں کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے وجود میں ایسی عطا فرمائی ہیں کہ  اگر صرف ان کی  حکمت پر ہی غور کرلے  تو الله  تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ  کو مان لے۔

أَلَمْ نَجْعَل لَّهُ عَيْنَيْنِ ﴿٨﴾ 

کیا ہم نے اس کے ( نفع کے لیے ) دونوں آنکھیں عطا نہیں فرمائی ہیں۔

۔۔۔۔

پہلے دو آنکھوں کا ذکر فرمایا کہ آنکھ کے نازک پردے میں  باریک اور نازک رگیں، جن میں قدرتی روشنی سے ہر چیز کی تصویر  بنائی،  آنکھ کی بناوٹ ایسی ہے  کہ جسم کا نازک ترین حصہ ہے اور  اس کی حفاظت کا ایسا زبردست انتظام ہے کہ  اس کے اوپر ایسے پردے ڈال دیئے کہ  جب بھی کوئی نقصان دہ  چیز سامنے سے آتی دکھائی دیتی ہے  خود کار مشین کی طرح ، خود بخود بغیر کسی تکلف کے بند ہوجاتے ہیں۔ ان پردوں کے اوپر پلکوں کے بال کھڑے کردیئے تاکہ گردوغبار کو روک لیں،پھر اسکے اوپر بھو وں کے بال رکھے کے اوپر سے آنیوالی چیز براہ راست آنکھ میں نہ پہنچے۔

 آنکھ  کو چہرے کے اندر اس طرح فٹ کیا گیا کہ اوپر ماتھے کی سخت ہڈی اور نیچے رخسار کی سخت ہڈی ہے،  آدمی کہیں چہرے کے بل گر جائے یا اس کے چہرے پر کوئی چیز آپڑے تو اوپر نیچے کی ہڈیاں آنکھ کو بچالیتی ہیں۔

وَلِسَانًا وَشَفَتَيْنِ ﴿٩﴾ 

اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دیے؟

۔۔۔۔

دوسری چیز زبان جیسی عجیب و غریب نعمت ہے۔دل کی باتوں اور خیالات  کو بیان کرنے کے لیے ،اس پر اسرار اور خود کار مشین کا طریقہ کس قدر  حیران کن ہے،  ادھر  دل میں ایک خیال  آتا ہے، دماغ  اس پر غور کرتا  اور الفاظ تیار کرتا ہے  اور الفاظ اس مشین سے نکلنے لگتے ہیں۔ یہ اتنا بڑا کام اتنی تیزی  کے ساتھ ہوتا کہ سننے والے کو یہ احساس بھی نہیں ہوتا، ان الفاظ کے زبان پر آنے تک کتنی بڑی مشینری نے کام کیا ہے۔ 

  زبان کو الله نے  ایسی تیز رفتار  مشین بنایا کہ اس سے  ایسا کلمہ بھی کہا جا سکتا ہے جو اس کو دوزخ  سے نکال کر جنت میں پہنچا دے، جیسے کلمہ ایمان ، اور   ایسی بات بھی کی جاسکتی ہے جو  دنیا میں اسے دشمن کی نظر میں محبوب بنا دے، جیسے کسی غلطی  کی معانی۔ اور اسی زبان سے اتنے ہی مختصر وقت  میں ایسا کلمہ بھی بولا جاسکتا ہے جو اس کو جہنم میں پہنچا دے جیسے کلمہ کفر یا دنیا میں اسکے بڑے سے بڑے مہربان دوست کو اس کا دشمن بنا دے جیسے گالی گلوچ وغیرہ،

 جس طرح زبان کے  بےشمار فائدے ہیں اس کی ہلاکت  بھی بہت زیادہ  ہے،گویا یہ ایک تلوار ہے جو دشمن پر بھی چل سکتی ہے اور خود اپنا گلا بھی کاٹ سکتی ہے۔ اس جگہ ہونٹوں کا ذکر کرنا اس طرف اشارہ ہوسکتا کہ جس مالک نے انسان کو زبان دی اس نے اس کو روکنےاور  بند کرنے کے لئے ہونٹ بھی دیئے ہیں، اس لیے  سوچ سمجھ کر اس کا استعمال کرنا چاہیے اور بےموقع  زبان نہیں چلانی چاہیے۔

وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ ﴿١٠﴾ 

اور ہم نے اس کو دونوں راستے بتا دیئے ہیں ۔

۔۔۔۔

تیسری چیز دو راستوں کی ہدایت ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے  خیر  اور شر ، نیک اور بد، بھلے اور برے کی پہچان اور  تمیز   اسکے وجود میں رکھ دی ہے۔اچھائی اور برائی کے  دونوں راستے دِکھادیے  اور اسے اختیار دے دیا  کہ اپنی مرضی سے جو راستہ چاہو چُن لو۔ ابتدائی ہدایت انسان کو خود اس کے ضمیر سے ملتی ہے پھر اس ہدایت کی تائید کے لئے انبیاء علیہم السلام اور آسمانی کتابیں آتی ہیں جو انکو بالکل واضح کردیتی ہیں۔  جاہل اور غافل انسان اور  حق کے منکر  ذرا   اپنے  ہی وجود کی چند نمایاں چیزوں میں  غور کرلے، تو اسے الله تعالی کی قدرت و حکمت  کا مشاہدہ ہوجائیگا۔ 

یعنی آنکھوں سے دیکھو، پھر زبان سے اقرار کرو ، پھر دو راستوں میں سے خیر کے راستے کو اختیار کرو۔

فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ ﴿١١﴾ 

پھر وہ اس گھاٹی میں داخل نہیں ہوسکا ۔

۔۔۔۔

وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُ ﴿١٢﴾ 

اور تمہیں کیا پتہ کہ وہ گھاٹی کیا ہے ؟

۔۔۔۔۔ 

یہ گھاٹی دراصل اطاعت، عبادات اور اخلاق کی بلندیاں ہیں اور ان پر چڑھنے کا راستہ دشوار گزار اس لحاظ سے ہے کہ نیکی و اطاعت کے  راستے عموماً انسان کی خواہش کے خلاف اور طبیعت کے لئے ناگوار ہوتے ہیں اس لیے ان پر چلنامشکل  ہوتا ہے، جبکہ بدی کے راستے آسان اور خواہش نفس کے مطابق ہوتے ہیں اس لیے ان پر چلنا آسان ہوتا ہے۔ وما ادراک سے اس کی عظمت کی طرف اشارہ ہے۔ 

فَكُّ رَقَبَةٍ ﴿١٣﴾ 

کسی کی گردن ( غلامی سے ) چھڑا دینا ۔

۔۔۔

اس میں کئی اقوال ہیں۔

۱- غلام کو آزاد کرنا ، یہ بہت بڑی عبادت ہے۔ ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ جس نے مسلمان غلام آزاد کیا الله تعالی اس کے ہر عضو کے بدلے آزاد کرنے والے کے اسی عضو کو جہنم سے آزاد کر دیتے ہیں۔ 

۲۔ جو قصاص میں گرفتار ہو صلہ رحمی کرکے اس کی طرف سے دیت کا مال ادا کرنا۔

۳- کسی مفلس قرض دار کا قرض ادا کرنا یا معاف کر دینا۔ 

۴- کسی ظالم سے مظلوم کی جان چھڑا دینا، مال سے یا طاقت سے۔ 

۵- حقوق الله اور حقوق العباد ادا کرکے الله کے عذاب و قہر سے خود اپنی گردن چھڑا لینا۔

۶- گناہوں سے توبہ کرکے اپنے نفس کو آزاد کروا لینا۔ 

أَوْ إِطْعَامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ ﴿١٤﴾ 

یا پھر کسی بھوک والے دن میں کھانا کھلا دینا

۔۔۔۔

جب کوئی شخص بھوکا ہو اسے کھانا کھلانا۔ شدید حاجت،جنگ،  سیلاب یا قحط سالی کے دوران جب غلہ بھی کم ہو، ان حالات  میں بھوکے کو کھانا کھلانا دوسری بہت سی نیکیوں سے بڑھ جاتا ہے  اس لیے اس کا بہت اجر ہے۔ 

يَتِيمًا ذَا مَقْرَبَةٍ ﴿١٥﴾ 

یا مسکین کو جو ( بدحالی کی وجہ سے ) مٹی میں مِل گیا ہے۔

۔۔۔۔

پھر بھوکا اگر یتیم بھی ہو تو اور زیادہ ثواب ہے کیونکہ وہ اور زیادہ شفقت کا حقدار ہے اور اگر رشتہ دار بھی ہو تو دوہرا ثواب ہےکیونکہ کھانا کھلانے کے ساتھ صلہ رحمی بھی ہے۔ 

أَوْ مِسْكِينًا ذَا مَتْرَبَةٍ ﴿١٦﴾ 

یا کسی مسکین کو جو مٹی میں رل رہا ہو ۔

۔۔۔۔

یا پھر ایسے شخص  کو کھانا کھلانا جو انتہائی مسکین ہو،  فقر و فاقہ اور غربت کی وجہ سے مٹی میں رُل رہا ہو،  اس کے پاس اسباب معاش میں سے کچھ بھی نہ ہو یہ بھی بہت ثواب کا کام ہے۔ 

ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ ﴿١٧﴾ 

پھر وہ ان لوگوں میں بھی شامل نہ ہوا جو ایمان لائے ہیں ، اور جنہوں نے ایک د وسرے کو ثابت قدمی کی تاکید کی ہے ، اور ایک دوسرے کو رحم کھانے کی تاکید کی ہے ۔

۔۔۔۔۔

یہاں سے ان تمام اعمال کے قبول ہونے کی شرائط  بیان کی جا رہی ہیں ۔

۱- یہ اعمال صرف اس صورت میں قبول ہوں گے جب  ان کا کرنے والا مؤمن ہو ، بغیر ایمان کے کوئی نیکی قبول نہیں۔ جو شخص اللہ اور روز آخرت پر ایمان نہ رکھتا ہو، اس کے اعمال آخرت میں کسی کام نہیں آئیں گے بلکہ برباد ہوجائیں گے ۲- ایمان کے بعد دوسرا فرض یہ بیان کیا کہ   دوسرے مسلمان بھائیوں کو بھی صبر اور رحمت کی تلقین کرنا  ضروری ہے۔ صبر سے مراد نفس کو برائیوں سے روکنا اور بھلائیوں پر عمل کرنا ہے۔

۳- تیسری چیز یہ ارشاد فرمائی کہ   دوسرے لوگوں  پر رحم کرنا ، ان کی پریشانی اور تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھنا یہ بھی بڑا اجر و ثواب کا کام ہے۔ یتیموں پر شفقت کرنا، چھوٹوں پر مہربانی، بیواؤں ، بے کسوں ، بے زبانوں کی مدد ، بھوکوں کو کھانا کھلانا ، بیماروں کا دوا دارو کرنا ننگوں کو کپڑا پہنانا، غریبوں کی امدار کرنا یہ سب رحمت کی شاخیں ہیں۔ 

فائدہ: قرآن مجید میں صبر کا لفظ بہت  وسیع معنی میں  استعمال ہوتا ہے۔مومن کی پوری زندگی صبر کی زندگی ہے ، اور ایمان کے راستے پر  قدم رکھتے ہی آدمی کے صبر کا امتحان شروع ہو جاتا ہے ۔ 

۱- الله تعالی  کی فرض کردہ عبادت کرنے کے لیے  صبر  کی ضرورت ہے ۔ 

۲- الله تعالی کے ہر حکم  کی اطاعت و پیروی میں صبر کی ضرورت ہے ۔

۳-  الله کی حرام کی ہوئی چیزوں سے بچنا صبر کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔

۴-  اخلاقی برائیوں کو چھوڑنا اور پاکیزہ اخلاق اختیار کرنے کے لیے صبر چاہیے ۔ 

۵-   زندگی میں  بہت بار   ایسا ہوتا ہے کہ  اگر  الله  کے قانون کی پیروی کی جائے تو نقصان اٹھانا پڑتا ہے ، تکلیفوں ، مصیبتوں  ، اور محرومیوں سے پالا  پڑتا ہےاور  اگر نافرمانی کی جائے تو فائدے اور لذتیں حاصل ہوتی نظر آتی ہیں۔  کوئی مومن اس مشکل سے صبر کے بغیر عافیت سے  نہیں گزر سکتا ۔

 ۶- ایمان کی راہ اختیار کرتے ہی آدمی کو اپنے نفس اور اس کی خواہشات سے لے کر اپنے اہل و عیال ، اپنے خاندان ، معاشرے ، اپنے ملک و قوم ، اور دنیا بھر کے شیاطین جن و انس کی مزاحمتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، حتی کہ الله کی راہ میں ہجرت اور جہاد کی نوبت بھی آ جاتی ہے ۔ ان سب حالات میں صبر ہی کی صفت آدمی کو ثابت قدم رکھ سکتی ہے ۔ 

اس آیت میں دین کے تقریبا سارے ہی احکام آگئے ہیں۔ 

أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ ﴿١٨﴾ 

یہی وہ لوگ ہیں جو بڑے نصیب والے ہیں 

۔۔۔۔

اور اس کا ایک ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ: ’’وہ دائیں ہاتھ والے ہیں‘‘ اور اِن سے مراد وہ نیک لوگ ہیں جن کا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ لفظ یمن کے معنی خوش بختی کے بھی ہیں۔ اس معنی میں آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ یہ وہ خوش قسمت لوگ ہوں گے جو  ہدایت کے راستے پر چلتے ہوئے  کامیاب ہو گئے۔

وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِنَا هُمْ أَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ ﴿١٩﴾ 

اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا ہے ، وہ نحوست والے لوگ ہیں 

۔۔۔۔

المشئمہ  کا  معنی بدنصیبی اور نحوست ہے اردو میں بھی شومئی قسمت بدنصیبی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اس کا ایک ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ: ’’وہ بائیں ہاتھ والے ہیں‘‘ یعنی  مراد وہ بد کار ہیں جن کا اعمال نامہ بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔

عَلَيْهِمْ نَارٌ مُّؤْصَدَةٌ ﴿٢٠

ان پر ایسی آگ مسلط ہوگی جو جو ان پر بند کردی جائے گی 

۔۔۔۔

آگ ان پر  بند کردی جائے گی کہ پریشر ککر کی طرح اس  کی ساری تپش اندر ہی رہے اور انہیں شدید ترین عذاب ملے گا یا یہ کہ  جہنم کے دروازے بند کردئیے جائیں گے تاکہ   دوزخیوں کے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہ رہے۔

الله کریم جہنم کی آگ سے اپنی پناہ میں رکھے۔

مختصر تفسیر عتیق سورۃ البلد 

سورت کی ابتداء میں مکہ مکرمہ جس میں نبی علیہ السلام رہائش پذیر تھے اور والد و اولاد کی قسم کہ انسان مشقت اور تکالیف کے مراحل سے گزرتا رہتا ہے۔ نیکی کا راستہ اختیار کرنے میں بھی مشقت آتی ہے اور بدی کا راستہ اختیار کرنے میں بھی مشقت آتی ہے مگر فرق یہ ہے کہ نیکی کی راہ میں مشقت اٹھانے والوں کے لئے اجرو ثواب ہے جبکہ بدی کی راہ میں مشقت اٹھانے والوں کو ثواب کی بجائے عذاب ہو گا۔انسان کی ہٹ دھرمی اور اللہ کے راستہ سے روکنے کے جرم کے اعادہ پر فرمایا کہ جو کہتا ہے کہ میں نے بہت مال لگا دیا ہے، کیا اسے معلوم نہیں کہ اسے کوئی دیکھ رہا ہے پھر اللہ نے انسان پر اپنے انعامات ذکر فرما کر انسان کو خدمت خلق کی تلقین کی ہے اور نیک و بد کی تقسیم پر سورت کا اختتام ہے۔

۔۔۔۔۔۔

وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا : عم پارہ 30 : سورۃ الشمس | والشمس وضحھا

  اسماء سورة: سورج کو عربی میں شمس کہتے ہیں  اور اس سورت کی پہلی آیت میں  سورج کی قسم کھائی گئی ہے اسی مناسبت سے اسے’’ سورۃ الشمس ‘‘کہتے ہی...