جمعہ، 5 جولائی، 2024

وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا : عم پارہ 30 : سورۃ الشمس | والشمس وضحھا

 اسماء سورة:

سورج کو عربی میں شمس کہتے ہیں  اور اس سورت کی پہلی آیت میں  سورج کی قسم کھائی گئی ہے اسی مناسبت سے اسے’’ سورۃ الشمس ‘‘کہتے ہیں۔ یہ مکی سورة ہے،  اسے   “والشمس وضحاھا”بھی کہا جاتا ہے۔

فضیلت: 

احادیث میں ہے کہ   نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم عشاء کی نماز میں     ’’ وَ الشَّمْسِ وَ ضُحٰىهَا ‘‘  اور اس کے مشابہ سورتیں  پڑھا کرتے تھے اور کبھی  صحابہ رضوان الله اجمعین کو   فجر کی نماز پڑھائی تو اس  میں   ’’ وَ الشَّمْسِ وَ ضُحٰىهَا ‘‘  اور  ’’ وَ السَّمَآءِ وَ الطَّارِقِ ‘‘  کی تلاوت فرمائی۔ 

سنن ماجہ کی ایک طویل حدیث مبارکہ ہے جس میں  حضرت معاذ کے اس واقعہ کا بیان ہے جب انہوں نے عشاء کی نماز میں سورة بقرہ پڑھائی اور اس بات کی نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے شکایت کی گئی۔

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم نے  معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ  تم نے«سبح اسم ربك الأعلى» اور «والشمس وضحاها» اور «والليل إذا يغشى» کے ساتھ امامت کیوں نہ کرائی؟

 روابط:

سورة والشمس  پچھلی  سورة  البلد سے ربط یہ ہے کہ سورۃ البلد میں آخرت کی جزا و سزا کا بیان تھا اب سورة الشمس میں برے اعمال پر دنیا میں پکڑ اور سزا کا ذکر ہے۔ پچھلی سورة میں  کفار مکہ کو عذاب سے ڈرایا گیا اب اس سورة میں بھی اسی مضمون کا مزید  بیان ہے۔


وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا ﴿١﴾

قسم ہے سورج کی اور اس کی پھیلی ہوئی دھوپ کی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس سورت کے شروع میں سات چیزوں کی قسم     کھائی گئی ہے، جب کہ وہ اپنی حالت میں کمال درجہ پر ہوں۔ 

 پہلی قسم والشمس وضحھا،  ضحھا  کے ساتھ  واوعاطفہ  ہے لیکن یہ بیان  سورج کی صفت کے طور پر ہے   یعنی قسم ہے سورج   کی جب وہ وقتِ ضحیٰ میں ہو۔ ضحیٰ اس وقت کو کہا جاتا ہے جب سورج  نکلنے کے بعد  تھوڑا سا بلند ہوجائے اور اس کی روشنی زمین پر پھیل جائے۔ اس وقت سورج    انسان کو قریب نظر آتا ہے اور   تیز روشنی نہ  ہونے کی وجہ سے اس کو پوری طرح دیکھا جا سکتا ہے۔

 

وَالْقَمَرِ إِذَا تَلَاهَا ﴿٢﴾ 

اور چاند کی جب وہ سورج کے پیچھے پیچھے آئے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسری قسم  چاند کی ہے جبکہ وہ سورج  کے پیچھے آئے۔ تلیٰ کا معنی ہے: کسی چیز کا  دوسری چیز کے پیچھے آنا،  بار بار آنا اور تابع ہونا۔ چاند بہت سی حالتوں میں سورج کے تابع یعنی اسی کی مانند یا پیچھے آنے والا ہے۔

  ۱- مہینے کے درمیان، کچھ دن  ایسے ہوتے ہیں جب سورج ڈوبنے کے بعد چاند نکل آتا ہے، اس وقت   تقریباً پورا چاند   ہوتا ہے اور  سورج کے پیچھے آ جاتا ہے۔

۲- چاند سورج سے روشنی لیتا ہے اس اعتبار سے اس کا تابع ہے۔

۳- شکل اور جسامت کے اعتبار سے،  جس طرح  ضحیٰ کے وقت  سورج مکمل  نظر آتا ہے اسی طرح   چودہویں رات کا چاند بھی  سورج جیسا نظر آتا  ہے۔

۴- مہینہ اور سال کے حساب  میں بھی چاند سورج کے تابع ہوتا ہے۔ 


وَالنَّهَارِ إِذَا جَلَّاهَا ﴿٣﴾ 

اور دن کی جب وہ سورج کا جلوہ دکھا دے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

تیسری قسم دن کی ہے اور ساتھ ہی اس  کی صفت جلھا بیان کی ۔ ھا  کی ضمیر  دو  چیزوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

پہلی   زمین اور دوسری ، دنیا۔ اگرچہ اس سے پہلے زمین اور دنیا کا ذکر نہیں آیا لیکن   عرب محاورے میں ایسی چند چیزیں جو عموماً انسانوں کے سامنے رہتی ہیں ان کی طرف بغیر ذکر  کیے  بھی ضمیر لوٹا دینا عام  ہے اور قرآن کریم میں  اس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔

 اس اعتبار سے معنے یہ ہوئے کہ قسم ہے دن کی اور دنیا کی یا زمین کی جس کو دن نے روشن کردیا ہے۔

 اس میں بھی اشارہ اس طرف ہے کہ دن کی قسم اس کی حالت کے اعتبار سے ہے یعنی جب  وہ پوری طرح روشن ہوجائے۔ 


وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَاهَا ﴿٤﴾ 

اور رات کی جب وہ اس پر چھا کر اسے چھپا لے ۔

۔۔۔۔

یعنی قسم ہے رات کی جبکہ وہ سورج  پر چھا جائے یعنی اس  کی روشنی کو  چھپا  دے۔رات کی آمد پر سورج چھپ جاتا ہے اور اس کی روشنی رات بھر غائب رہتی ہے ۔ اس کیفیت کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ رات سورج کو ڈھانپ  لیتی ہے ، کیونکہ رات کی اصل حقیقت سورج کا مغرب کی طرف، نیچے اتر جانا ہے ، جس کی وجہ سے اس کی روشنی زمین کے اس حصے تک نہیں پہنچ سکتی جہاں رات چھا  گئی ہو ۔


وَالسَّمَاءِ وَمَا بَنَاهَا ﴿٥﴾ 

اور قسم ہے آسمان کی ، اور اس کی جس نے اسے بنایا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لفظ ما میں مفسرین کے دو قول ہیں۔

۱- ما مَن کے معنی میں ہو اور  اس سے الله تعالی مراد ہوتو معنی ہوگا “قسم ہے آسمان کی اور اس کے بنانے والے کی”

۲- ما مصدریہ ہے تو معنی ہوگا “قسم ہے آسمان کی اور اس کے بنانے کی، اور یہی صحیح ہے۔

وَالْأَرْضِ وَمَا طَحَاهَا ﴿٦﴾ 

اور زمین کی اور اس کی جس نے اسے بچھایا ۔

۔۔۔۔۔۔

قسم ہے زمین اور اسکے بچھانے پھیلانے کی۔ طحو مصدر کے معنے بچھانے، پھیلانے کے آتے ہیں۔

 ان دونوں آیات  میں آسمان کے ساتھ بنانے کا اور زمین کے ساتھ بچھانے ،  پھیلانے کا ذکر بھی اسی حالت کمال کے اظہار کے لئے ہے کہ قسم ہے آسمان کی اس حالت میں جبکہ اس کی تخلیق  مکمل ہوگئی، اور قسم ہے زمین کی جبکہ اس کو پورا پھیلا دیا گیا۔اس آیت میں بھی ما کے دونوں معنی مراد ہو سکتے ہیں۔

۱- اگر ما موصولہ ہو یعنی الذی کے معنی میں تو مطلب ہوگا ۔ قسم ہے زمین کی اور اس کے بنانے والے کی۔

۲- اگر ما  مصدر کا معنی دے تو مطلب ہوگا۔ قسم ہے زمین کی اور  اس کے بچھانا یا بنانے کی ۔

وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا ﴿٧﴾ 

اور انسانی جان کی ، اور اس کی جس نے اسے سنوارا ۔

۔۔۔۔۔

 ۱- اس میں ما کو مصدریہ لیا جائے تو معنے یہ ہیں کہ قسم ہے انسانی جان کی اور اسکو بالکل صحیح اور متناسب کرنے کی 

۲- اگرما کو  من  کے معنی میں  لیا جائے تو مراد ہوگی  کہ قسم ہے نفس کی اور اسکے برابر و درست کرنیوالے کی۔ 

وما سواھا  سے مراد یہ ہے کہ اس نے نفس کو ہر طرح شکل وصورت اور اعضا کے اعتبار سے بالکل درست بنایا اور یہ انسانی جان  کی وہ  حالت ہے جب وہ اپنے کمال درجے تک پہنچ چکا  ہے۔ 

فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا ﴿٨﴾ 

پھر اس کے دل میں وہ بات بھی ڈال  دی جو اس کے لیے بدکاری کی ہے ، اور وہ بھی جو اس کے لیے پرہیزگاری کی ہے ۔

۔۔۔۔۔

الہام کے معنے دل میں ڈالنا ۔  فجور کے معنے کھلا گناہ اور تقویٰ کا مفہوم  محتاط رہنا  ہے۔  یعنی اللہ تعالیٰ نے نفس انسانی کو بنایا، پھر اسکے دل میں فجور اور تقویٰ دونوں کا الہام کردیا۔

۱- الہام کا  ایک مطلب تو یہ ہے کہ انہیں اچھی طرح سمجھایا اور انہیں انبیاء اور آسمانی کتابوں کے ذریعے سے  نیکی اور بدی کی پہچان کروا دی۔

 ۲-  یہ  کہ ان کی عقل اور فطرت میں خیر اور شر، نیکی اور بدی  کا شعور رکھ دیا، پھر انسان کو ایک خاص قسم کا اختیار دیا  تاکہ وہ اپنی مرضی سے نیکی کو اپنائیں اور بدی سے  پرہیز کریں۔   انسان  اپنے اختیار اور مرضی سے  اچھے یا برے راستے کا انتخاب کر تا ہے اسی وجہ سے الله تعالی اسے ثواب یا عذاب دیتے ہیں۔ 

صحیح مسلم کی ایک مرفوع حدیث میں اس آیت کی تفسیر بیان کی گئی ہے۔ حضرت عمران بن حصین نے روایت  کی ہے،  جس کا مفہوم یہ ہے کہ بعض لوگوں نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے مسئلہ تقدیر کے متعلق سوال کیا تو آپ نے جواب میں یہ آیت تلاوت فرمائی۔ 

ایک دوسری روایت کا مفہوم یہ ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  جب یہ آیت تلاوت فرماتے تو بلند آواز سے یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔

 اَلّٰھُمَّ اٰتِ نَفْسِیْ تَقْوَاھَا وَ زَکَّھَا اَنْتَ خَیْرُ مَنْ ذَکَّاھَا ، اَنْتَ وَ لِیُّھَا وَ مَوْلَاھَا 

یعنی یا اللہ میرے نفس کو تقویٰ کی توفیق عطا فرما،آ پ ہی وہ بہترین ہستی ہیں جو اسے پاک کرسکتے ہیں، آپ ہی میرے نفس کے ولی اور مربی ہیں۔


قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا ﴿٩﴾ 

فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے ۔

۔۔۔۔۔۔۔

یہ جواب قسم ہے یعنی  وہ شخص کامیاب ہو گیا، جس نے اپنے نفس کو صاف ستھرا کرلیا۔ تزکیہ کے اصلی معنے باطنی پاکی کے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ جس نے اللہ کی اطاعت کرکے اپنے ظاہر و باطن کو پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگیا۔نفس کو پاکیزہ بنانے کا مطلب یہی ہے کہ اِنسان کے دِل میں جو اچھی خواہشات اور اچھے جذبات پیدا ہوتے ہیں، اُنہیں اُبھار کر اُن پر عمل کرے۔


 وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا ﴿١٠﴾ 

اور نامراد وہ ہوگا جو اس کو ( گناہ میں ) دھنسا دے ۔

۔۔۔۔۔

اور محروم ہوا وہ شخص جس نے اپنے نفس کو گناہوں کی دلدل میں دھنسادیا۔ لفظ دسی، دس سے بنا  ہے جس کے معنے زمین میں دفن کردینے کے ہیں۔ انسان کے دل میں جو بری خواہشات اور جذبات پیدا ہوتے ہیں، اُنہیں کوشش سے  دبائے۔ اِسی طرح مسلسل مشق کرتے رہنے سے نفس پاکیزہ ہوکر’’نفسِ مطمئنہ‘‘ بن جاتا ہے، جس کا ذکر سورۃ الفجر کی آخری آیتوں میں گذرا ہے۔

بعض مفسرین نے یہاں زکی اور دسی دونوں میں ضمیر فاعل اللہ کی طرف راجع کرکے معنے یہ کئے ہیں کہ بامراد ہوا وہ آدمی جس کو اللہ تعالیٰ نے پاک کردیا، اور نامراد و محروم ہوا وہ جس کو اللہ تعالیٰ نے گناہوں میں دھنسا دیا اس آیت نے تمام  انسانوں کو دو گروہوں میں تقسیم کردیاہے۔۱- کامیاب گروہ ۔۲-   ناکام گروہ۔


كَذَّبَتْ ثَمُودُ بِطَغْوَاهَا ﴿١١﴾ 

قوم ثمود نے اپنی سرکشی سے ( پیغمبر کو ) جھٹلایا ۔

۔۔۔۔۔

اب ان آیات میں ، دوسری قسم کے لوگوں کا ایک واقعہ بطور مثال   پیش کرکے ان کے برے انجام  سے ڈرایا گیا ہے کہ ان نامرادوں کو آخرت میں تو سخت سزا ملے ہی گی بعض اوقات دنیا میں بھی ان کو سزا کا کچھ مزہ چکھا دیا جاتا  ہے، جیسے قوم ثمود کو سزا دی گئی۔ قوم ثمود کی مثال اس لیے دی گئی کیونکہ ان   کا  ٹھکانہ مکہ کے قریب تھا اور اہل مکہ میں ان کی داستانیں  مشہور تھیں۔ انہوں  نے بھی مشرکینِ  مکہ کی طرح سرکشی اختیار کی  اور اللہ کی آیات اور اس کے رسول کی تکذیب کی تھی۔


صالح علیہ السلام کا قصہ: 

حضرت صالح علیہ السلام  قوم ثمود کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے، انہوں نے  اپنی قوم کو الله پر ایمان لانے کی دعوت  دی  اور بہت لمبے عرصے تک انہیں حق   کی طرف بلاتے رہے۔صالح علیہ السلام کی دعوت  سے تنگ آ کر ان کی قوم نے یہ فیصلہ کیا  کہ ان سے کوئی ایسا مطالبہ کیا جائے   جسے وہ   پورا نہ کرسکیں ، چنانچہ انہوں نے کہا کہ اگر آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں تو ہماری فلاں پہاڑی جس کا نام کاتبہ تھا اس کے اندر سے ایک ایسی اونٹنی نکال دیجئے جو دس مہینہ کی گابھن اور   تندرست ہو۔  صالح علیہ السلام نے ان سے  وعدہ  لیا کہ اگر میں الله تعالی کی طرف سے یہ معجزہ پیش کر  دوں تو تم  الله کی توحید اور میری رسالت پر ایمان لے آؤ گے۔ جب سب نے عہد کرلیا تو صالح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ، چنانچہ  پہاڑی   پھٹ گئی، اس میں سے ایک اونٹنی اسی طرح کی نکل آئی جیسا مطالبہ کیا تھااور فورا ہی اس کا بچہ  بھی پیدا ہوگیا۔ صالح  علیہ السلام  کا  واضح اور  حیرت انگیز معجزہ دیکھ کر ان میں سے کچھ لوگ مسلمان ہوگئے اور باقی  لوگوں نے بھی ارادہ کرلیا کہ ایمان لے آئیں  مگر قوم کے چند سردار جو بتوں کو خدا بنائے بیٹھے   تھے انھوں نے ان کو بہکا کر اسلام قبول کرنے سے روک دیا۔ 


إِذِ انبَعَثَ أَشْقَاهَا ﴿١٢﴾ 

جب ان کا سب سے سنگدل شخص اٹھ کھڑا ہوا ۔

۔۔۔۔۔۔

قوم ثمود نے عملی طور پر اس معجزے کو ایسے جھٹلایا کہ ان میں سے سب سے بڑا بدبخت اونٹنی کو ہلاک کرنے کے لیے تیار ہو گیا۔اس کا نام قذار بن سالف تھا جس کا رنگ سرخ، نیلی آنکھیں اور چھوٹا قد تھا۔ اونٹنی کو مارنے والا شخص یہی تھا  باقی سب لوگ  قتل کے اس منصوبے  میں شامل تھے ، اسی لیے اسے اشقی کہا گیا ہے۔


فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّـهِ نَاقَةَ اللَّـهِ وَسُقْيَاهَا ﴿١٣﴾ 

تو اللہ کے پیغمبر نے ان سے کہا کہ : خبردار ! اللہ کی اونٹنی کا اور اس کے پانی پینے کا پورا خیال رکھنا ۔

۔۔۔۔۔۔

حضرت صالح علیہ السلام نے جب دیکھا کہ قوم  وعدے سے مکر گئی ہے اور خطرہ ہوا کہ ان پر کوئی عذاب آجائے گا، تو  انہیں  نصیحت کی  کہ اس اونٹنی کی حفاظت کرو،  یہ الله کی اونٹنی ہے،  تمہارے لئے ایک معجزے کے طور پر پیدا کی گئی  ہے، اس لیے اس کا احترام  اور  حفاظت تم پر واجب ہے۔تم  اسےکوئی تکلیف نہ  دینا ، نہ اس کا پانی بند کرنا اور نہ ہی اسے قتل کرنا ، ورنہ تم پر الله کا عذاب نازل ہو جائے  گا۔

 اس  کو ناقۃ اللہ اس لئے کہا گیا کہ اللہ کی قدرت سے  صالح علیہ السلام کے معجزہ کے طور پر حیرت انگیز طریقے سے پیدا ہوئی تھی، جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام  کو روح اللہ فرمایا گیا کہ ان کی پیدائش بھی معجزانہ انداز سے ہوئی تھی۔ قوم ثمود جس کنوئیں سے پانی پیتے پلاتے تھے اسی سے یہ اونٹنی بھی پانی پیتی تھی مگر یہ عجیب الخلقت اونٹنی جب پانی پیتی تو پورے کنوئیں کا پانی ختم کردیتی ۔ چنانچہ  صالح علیہ السلام نے الله کے حکم سے  یہ فیصلہ کیا، ایک دن یہ اونٹنی پانی پیے گی اور دوسرے دن قوم کے سب لوگ پانی لیں گے اور جس روز یہ اونٹنی پانی پیے گی تو دوسروں کو پانی کے بجائے اونٹنی کا دودھ اتنی مقدار میں مل جاتا تھا کہ وہ اپنے سارے برتن اس سے بھر لیتے تھے۔


فَكَذَّبُوهُ فَعَقَرُوهَا فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ رَبُّهُم بِذَنبِهِمْ فَسَوَّاهَا ﴿١٤﴾ 

پھر ‌بھی ‌انہوں ‌نے ‌پیغمبر ‌كو ‌جھٹلایا ، ‌اور ‌اس ‌اونٹنی ‌كو ‌مار ‌ڈالا ۔ ‌نتیجہ ‌یہ ‌كہ ‌ان ‌كے ‌پروردگار ‌نے ‌ان ‌كے ‌گناہ ‌كی ‌وجہ ‌سے ‌ان ‌كی ‌اینٹ ‌سے ‌اینٹ ‌بجا ‌كرسب ‌كو ‌برابر ‌كردیا ۔

۔۔۔۔۔

یعنی ان لوگوں نے سیدنا صالح علیہ السلام  کی نصیحت کو  کوئی اہمیت نہ دی اوراونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں۔ اگرچہ اونٹنی  کو ہلاک کرنے والا صرف ایک شخص قدار بن سالف تھا اور اسی  نے کونچیں کاٹ کر اونٹنی کو  مار ڈالا۔  ساری قوم اس کے ساتھ تھی بلکہ انھی کے کہنے پر اس نے یہ کام کیا تھا، اس  لئے ان سب کو مجرم قرار دیا گیا اور اونٹنی کو ہلاک کرنے کی نسبت پوری قوم کی طرف کی گئی ہے۔   عذاب بھی صرف اونٹنی کو ہلاک کرنے والے پر نہیں بلکہ ساری قوم پر آیا تھا۔ دمدم  کا لفظ ایسے سخت عذاب کے لئے بولا جاتا ہے جو کسی شخص یا قوم پر بار بار آتا ہے یہاں تک کہ ان کو بالکل فنا کردے۔ اور فسوھا کا مطلب یہ ہے کہ یہ عذاب پوری قوم پر  نازل  ہوا،  جس میں مرد و عورت، بچہ بوڑھا سب برابر  ہوگئے۔


وَلَا يَخَافُ عُقْبَاهَا ﴿١٥﴾

اور اللہ کو اس کے کسی برے انجام کا کوئی خوف نہیں ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی حق تعالیٰ کا عذاب اور کسی قوم کو تباہ کردینے کے معاملے کو دنیا کے معاملات کی طرح نہ سمجھو ۔ دنیا کا  بڑا سے بڑا  طاقتور بادشاہ  بھی جب کسی قوم کو سزا دینے یا ہلاک کرنے  کا ارادہ کرتا ہے تو ڈرتا ہے۔ خود  اسے بھی یہ خطرہ رہتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ باقی لوگ یا ان کے  حامی ،  انتقام  پر اتر آئیں  اور بغاوت کر دیں ۔ اسی لیے  دنیا میں دوسروں کو مارنے والا خود بھی خطرے میں  رہتاہے  اور دوسروں پر حملہ کرنے کی صورت میں اسے  جوابی حملے کا خطرہ بھی لازماً برداشت کرنا پڑتا ہے سوائے حق تعالیٰ جل شانہ، کے،  اس کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں۔ 

والله اعلم 

۔۔۔۔۔۔

مختصر تفسیر سورة الشمس 

سات قسمیں کھا کر بتایا ہے کہ جس طرح یہ تمام حقائق برحق ہیں اسی طرح یہ بات بھی برحق ہے کہ انسان کو ہم نے نیکی اور بدی میں تمیز کا ملکہ عطاء کیا ہے جو اس سے فائدہ اٹھا کر نیکی کا راستہ اختیار کر کے اپنی اصلاح کر لیتا ہے وہ کامیاب و کامران ہے اور جو ’’بدی‘‘ کا راستہ اپنا کر گناہوں کی زندگی اپنا لیتا ہے وہ ناکام و نامراد ہے۔ پھر ایک ایسی ہی سرکش اور گناہگار قوم کا تذکرہ ہے جنہوں نے اپنی قوم کے رئیس و شریف آدمی کو اللہ کی نافرمانی پر آمادہ کر کے اونٹنی کے قتل پر مجبور کیا جس کی بناء پر یہ شخص قوم کا بدترین اور بدبخت شخص قرار پایا۔ چنانچہ پوری قوم کو ان کی سرکشی اور بغاوت کے نتیجہ میں ایسے عذاب کا سامنا کرنا پڑا جس سے کوئی ایک فرد بھی نہ بچ سکا اور اللہ تعالیٰ جب کسی کو ہلاک کرتے ہیں تو نتائج سے نہیں ڈرا کرتے۔

۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا : عم پارہ 30 : سورۃ الشمس | والشمس وضحھا

  اسماء سورة: سورج کو عربی میں شمس کہتے ہیں  اور اس سورت کی پہلی آیت میں  سورج کی قسم کھائی گئی ہے اسی مناسبت سے اسے’’ سورۃ الشمس ‘‘کہتے ہی...