جمعرات، 25 مئی، 2023

سورۃ البلد:13، عم پارہ

سورۃ البلد 

 اسماء سورة

بلد کا معنی  شہر ہے۔ اس سورت کی پہلی آیت میں   اللّٰہ  تعالیٰ نے  شہر مکہ کی قسم کھائی  ہے اس مناسبت سے اسے ’’سورۂ بلد‘‘ کہتے ہیں ۔ بیس آیات پر مشتمل اس مکی سورة کو    “سورة لا اقسم”  بھی کہا جاتا ہے۔

ربط سورة

پچھلی سورة “الفجر”سے ربط یہ ہے کہ الفجر کی طرح اس سورة میں بھی اعمال کی جزا و سزا کا بیان ہے البتہ وہاں  زیادہ توجہ برے اعمال کی سزا پر تھی اور اس سورة میں خاص طور پر نیک اعمال کی جزا کو بیان کیا گیا ہے۔

لَا أُقْسِمُ بِهَـٰذَا الْبَلَدِ ﴿١

میں قسم کھاتا ہوں اس شہر کی ۔

۔۔۔۔۔

ان آیات میں تین چیزوں کی قسم کھا کر الله تعالی جواب قسم کے مضمون کو پختہ کر رہے ہیں۔

پہلی قسم : لا اقسم ۔ لا سے دو معنی مراد ہو سکتے ہیں ۔

۱- حرف لا زائدہ  ہے۔ 

۲- عرب بول چال میں  حرف “لا”مخاطب کے  خیال کو  غلط ثابت کرنے کے لئے،  قسم کے شروع میں لایا جاتا ہے، جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ جو تمہارا خیال ہے وہ صحیح نہیں ہے، بلکہ ہم قسم کھا کر کہتے ہیں کہ حقیقت وہ ہے جو ہم بیان کر رہے  ہیں۔ 

 البلد سے مکہ مکرمہ مراد ہے جیسا کہ “سورة والتین” میں بھی شہر مکہ کی قسم کھائی ہے۔  مکہ کی قسم کھانا اس کی فضیلت اور بزرگی  کی وجہ سے ہے۔

وَأَنتَ حِلٌّ بِهَـٰذَا الْبَلَدِ ﴿٢﴾ 

جبکہ ( اے پیغمبر ) تم اس شہر میں مقیم ہو 

۔۔۔۔۔۔۔

حلٌّ کے معنی میں مفسرین کے مختلف اقوال  ہیں۔ 

١۔ حل” کے معنی کسی شیء کے اندر سمانے،  رہنے اور اترنے کے آتے ہیں. اس اعتبار سے حلّ کے معنی اترنے والے اور رہنے والے کے ہوں گے،اور  آیت  سے مراد یہ ہوگی کہ شہر مکہ  خود بھی محترم اور مقدس  ہے اور  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  بھی اس شہر میں رہتے ہیں،  اس لیےاس  شہر کی عظمت و حرمت آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس میں رہنے  سے دوہری ہوگئی ہے۔

۲۔حل کے معنی کسی چیز کے حلال ہونے کے بھی  ہیں. اس اعتبا ر سے لفظ حل کے دو معنی ہوسکتے ہیں۔

ایک یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خون کو کفار مکہ نے حلال سمجھ لیا ہے اور  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لیے تیار  ہیں  حالانکہ وہ خود  شہر مکہ میں کسی شکار کو بھی حلال نہیں سمجھتے تھے۔

دو سرے معنی حل کے یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کیلئے حرم مکہ میں کافروں سے قتال حلال ہونے والا ہے۔ جیسا کہ فتح مکہ کے موقع پر  ایک روز کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے احکامِ حرم اٹھا لئے گئے تھے اور کفار کا قتل حلال کردیا گیا تھا۔ 

آیت کے الفاظ میں تینوں معانی کی گنجائش ہے۔

وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَ ﴿٣

اور قسم ہے باپ کی اور اولاد کی

۔۔۔۔

دوسری اور تیسری قسم والد اور اولاد کی ہے۔ 

باپ سے مراد حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور چونکہ تمام اِنسان انہیں کی اولاد ہیں، اس لئے اس آیت میں تمام نوعِ اِنسانی کی قسم کھائی گئی ہے۔ 

لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي كَبَدٍ ﴿٤

۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ ہے وہ بات جس کے لیے قسم کھائی گئی ہے۔ کبد کے لفظی معنی مشقت کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ دُنیا میں اِنسان کو اِس طرح پیدا کیا گیا ہے کہ وہ کسی نہ کسی مشقت میں لگارہتا ہے، چاہے کوئی کتنا بڑا حاکم  یا دولت مند شخص ہو، اُسے زندہ رہنے کے لئے مشقت اُٹھانی ہی پڑتی ہے۔ محنت اور مشقت انسان کی فطرت میں ڈال دی گئی ہے۔ اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ اُسے دُنیا میں کبھی کوئی محنت نہ کرنی پڑے تو یہ  ممکن نہیں ہے۔مثلا بچے کو پیدائش کی تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے، دودھ پینے کی مشقت، دانت نکلنے یا  بیمار و کمزور ہونے کی تکلیف ، تعلیم و کاروباروغیرہ، بڑھاپا اور موت کی تکلیف پھر قبر و حشر اور اس میں الله تعالی کے سامنے اعمال کی جواب دہی اور سزا و جزا    کی مشقت، غرض انسان  کی زندگی مسلسل جدوجہد ، محنت اور مشقت سے بھرپور ہے۔ ہاں مکمل راحت کی زندگی جنّت کی زندگی ہے جو دُنیا میں کی ہوئی محنت کے نتیجے میں ملتی ہے۔ ہدایت یہ دی گئی ہے کہ اِنسان کو دُنیا میں جب کسی مشقت کا سامنا ہو تو اُسے یہ حقیقت یاد کرنی چاہئے۔

سوال:محنت ومشقت صرف انسان کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ سب جانور بھی اس میں شریک ہیں پھر اس حال کو صرف انسان کے لئے کیوں خاص کیا گیا؟

جواب: ۱ - انسان سب جانوروں سے زیادہ عقل و شعور  رکھتا ہے اور محنت کی تکلیف بھی شعور کے حساب سے زیادہ محسوس ہوتی ہے۔

 ۲-  آخری اور سب سے بڑی محنت محشر میں دوبارہ زندہ ہو کر عمر بھر کے اعمال کا حساب دینا ہے وہ دوسرے جانوروں میں نہیں ہے۔

 بعض علماء نے فرمایا کہ کوئی مخلوق اتنی مشقتیں نہیں جھیلتی جتنی انسان برداشت کرتا ہے حالانکہ  وہ جسم اور طاقت میں اکثر جانوروں کی نسبت ضعیف اور کمزور ہے،  چونکہ انسان کی دماغی قوت سب سے زیادہ ہے اس لئے اس لیے اس کو خاص کیا گیا ہے۔


 أَيَحْسَبُ أَن لَّن يَقْدِرَ عَلَيْهِ أَحَدٌ ﴿٥﴾ 

کیا وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس پر کسی کا بس نہیں چلے گا؟

۔۔۔۔۔

مقصد یہ ہے کہ انسان کو چاہیے تھا ان تکلیفوں اور مصیبتوں پر غور کرتا اور عاجزی اختیار کرتا،لیکن وہ غرور اور تکبر کرتا ہے، طاقت کے نشے میں کہتا ہے کہ کون مجھے پکڑ سکتا ہے؟

ان آیات کا شانِ نزول یہ ہے کہ  یہ آیات یا تو عام کافروں کے بارے میں نازل ہوئیں یا پھر ولید بن مغیرہ یا  ابو الاشد  کلاہ بن اسید کے بارے میں نازل ہوئیں، جو بڑا طاقتور پہلوان تھا اور کہتا تھا کہ عذاب کہ فرشتے میرے قریب آئیں تو انہیں پٹخ دوں گا، وہ مجھ پر قابو نہیں پا سکیں گے۔  

يَقُولُ أَهْلَكْتُ مَالًا لُّبَدًا ﴿٦﴾ 

کہتا ہے کہ : میں نے ڈھیروں مال اڑا ڈالا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور ریا کاری کرتے ہوئے کہتا ہے میں نے لوگوں پر بہت سامال خرچ کیا۔ یا یہ مراد ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے کہنے پر یا ان کی مخالفت میں بہت سا مال برباد کر دیا، حالانکہ وہ بالکل جھوٹ بولتا ہے۔

أَيَحْسَبُ أَن لَّمْ يَرَهُ أَحَدٌ ﴿٧﴾ 

کیا وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کو کسی نے دیکھا نہیں؟

۔۔۔۔۔۔

مطلب یہ ہے کہ انسان احمق ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ اس کے برے اعمال، ریاکاری و مکاری، فخر، غرور اور تکبر  کو کوئی نہیں دیکھ رہا حالانکہ اس کا خالق اس کے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے۔

ربط آیات: 

پچھلی آیات میں انسان کی اس غفلت و جہالت پر تنبیہ تھی کہ وہ سمجھتا ہے کہ میرے اوپر اللہ تعالیٰ کو بھی قدرت نہیں، اور یہ کہ اس کے اعمال و افعال کو کوئی دیکھنے والا نہیں۔ اس آیت میں چند  نعمتوں کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے وجود میں ایسی عطا فرمائی ہیں کہ  اگر صرف ان کی  حکمت پر ہی غور کرلے  تو الله  تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ  کو مان لے۔

أَلَمْ نَجْعَل لَّهُ عَيْنَيْنِ ﴿٨﴾ 

کیا ہم نے اس کے ( نفع کے لیے ) دونوں آنکھیں عطا نہیں فرمائی ہیں۔

۔۔۔۔

پہلے دو آنکھوں کا ذکر فرمایا کہ آنکھ کے نازک پردے میں  باریک اور نازک رگیں، جن میں قدرتی روشنی سے ہر چیز کی تصویر  بنائی،  آنکھ کی بناوٹ ایسی ہے  کہ جسم کا نازک ترین حصہ ہے اور  اس کی حفاظت کا ایسا زبردست انتظام ہے کہ  اس کے اوپر ایسے پردے ڈال دیئے کہ  جب بھی کوئی نقصان دہ  چیز سامنے سے آتی دکھائی دیتی ہے  خود کار مشین کی طرح ، خود بخود بغیر کسی تکلف کے بند ہوجاتے ہیں۔ ان پردوں کے اوپر پلکوں کے بال کھڑے کردیئے تاکہ گردوغبار کو روک لیں،پھر اسکے اوپر بھو وں کے بال رکھے کے اوپر سے آنیوالی چیز براہ راست آنکھ میں نہ پہنچے۔

 آنکھ  کو چہرے کے اندر اس طرح فٹ کیا گیا کہ اوپر ماتھے کی سخت ہڈی اور نیچے رخسار کی سخت ہڈی ہے،  آدمی کہیں چہرے کے بل گر جائے یا اس کے چہرے پر کوئی چیز آپڑے تو اوپر نیچے کی ہڈیاں آنکھ کو بچالیتی ہیں۔

وَلِسَانًا وَشَفَتَيْنِ ﴿٩﴾ 

اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دیے؟

۔۔۔۔

دوسری چیز زبان جیسی عجیب و غریب نعمت ہے۔دل کی باتوں اور خیالات  کو بیان کرنے کے لیے ،اس پر اسرار اور خود کار مشین کا طریقہ کس قدر  حیران کن ہے،  ادھر  دل میں ایک خیال  آتا ہے، دماغ  اس پر غور کرتا  اور الفاظ تیار کرتا ہے  اور الفاظ اس مشین سے نکلنے لگتے ہیں۔ یہ اتنا بڑا کام اتنی تیزی  کے ساتھ ہوتا کہ سننے والے کو یہ احساس بھی نہیں ہوتا، ان الفاظ کے زبان پر آنے تک کتنی بڑی مشینری نے کام کیا ہے۔ 

  زبان کو الله نے  ایسی تیز رفتار  مشین بنایا کہ اس سے  ایسا کلمہ بھی کہا جا سکتا ہے جو اس کو دوزخ  سے نکال کر جنت میں پہنچا دے، جیسے کلمہ ایمان ، اور   ایسی بات بھی کی جاسکتی ہے جو  دنیا میں اسے دشمن کی نظر میں محبوب بنا دے، جیسے کسی غلطی  کی معانی۔ اور اسی زبان سے اتنے ہی مختصر وقت  میں ایسا کلمہ بھی بولا جاسکتا ہے جو اس کو جہنم میں پہنچا دے جیسے کلمہ کفر یا دنیا میں اسکے بڑے سے بڑے مہربان دوست کو اس کا دشمن بنا دے جیسے گالی گلوچ وغیرہ،

 جس طرح زبان کے  بےشمار فائدے ہیں اس کی ہلاکت  بھی بہت زیادہ  ہے،گویا یہ ایک تلوار ہے جو دشمن پر بھی چل سکتی ہے اور خود اپنا گلا بھی کاٹ سکتی ہے۔ اس جگہ ہونٹوں کا ذکر کرنا اس طرف اشارہ ہوسکتا کہ جس مالک نے انسان کو زبان دی اس نے اس کو روکنےاور  بند کرنے کے لئے ہونٹ بھی دیئے ہیں، اس لیے  سوچ سمجھ کر اس کا استعمال کرنا چاہیے اور بےموقع  زبان نہیں چلانی چاہیے۔

وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ ﴿١٠﴾ 

اور ہم نے اس کو دونوں راستے بتا دیئے ہیں ۔

۔۔۔۔

تیسری چیز دو راستوں کی ہدایت ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے  خیر  اور شر ، نیک اور بد، بھلے اور برے کی پہچان اور  تمیز   اسکے وجود میں رکھ دی ہے۔اچھائی اور برائی کے  دونوں راستے دِکھادیے  اور اسے اختیار دے دیا  کہ اپنی مرضی سے جو راستہ چاہو چُن لو۔ ابتدائی ہدایت انسان کو خود اس کے ضمیر سے ملتی ہے پھر اس ہدایت کی تائید کے لئے انبیاء علیہم السلام اور آسمانی کتابیں آتی ہیں جو انکو بالکل واضح کردیتی ہیں۔  جاہل اور غافل انسان اور  حق کے منکر  ذرا   اپنے  ہی وجود کی چند نمایاں چیزوں میں  غور کرلے، تو اسے الله تعالی کی قدرت و حکمت  کا مشاہدہ ہوجائیگا۔ 

یعنی آنکھوں سے دیکھو، پھر زبان سے اقرار کرو ، پھر دو راستوں میں سے خیر کے راستے کو اختیار کرو۔

فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ ﴿١١﴾ 

پھر وہ اس گھاٹی میں داخل نہیں ہوسکا ۔

۔۔۔۔

وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُ ﴿١٢﴾ 

اور تمہیں کیا پتہ کہ وہ گھاٹی کیا ہے ؟

۔۔۔۔۔ 

یہ گھاٹی دراصل اطاعت، عبادات اور اخلاق کی بلندیاں ہیں اور ان پر چڑھنے کا راستہ دشوار گزار اس لحاظ سے ہے کہ نیکی و اطاعت کے  راستے عموماً انسان کی خواہش کے خلاف اور طبیعت کے لئے ناگوار ہوتے ہیں اس لیے ان پر چلنامشکل  ہوتا ہے، جبکہ بدی کے راستے آسان اور خواہش نفس کے مطابق ہوتے ہیں اس لیے ان پر چلنا آسان ہوتا ہے۔ وما ادراک سے اس کی عظمت کی طرف اشارہ ہے۔ 

فَكُّ رَقَبَةٍ ﴿١٣﴾ 

کسی کی گردن ( غلامی سے ) چھڑا دینا ۔

۔۔۔

اس میں کئی اقوال ہیں۔

۱- غلام کو آزاد کرنا ، یہ بہت بڑی عبادت ہے۔ ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ جس نے مسلمان غلام آزاد کیا الله تعالی اس کے ہر عضو کے بدلے آزاد کرنے والے کے اسی عضو کو جہنم سے آزاد کر دیتے ہیں۔ 

۲۔ جو قصاص میں گرفتار ہو صلہ رحمی کرکے اس کی طرف سے دیت کا مال ادا کرنا۔

۳- کسی مفلس قرض دار کا قرض ادا کرنا یا معاف کر دینا۔ 

۴- کسی ظالم سے مظلوم کی جان چھڑا دینا، مال سے یا طاقت سے۔ 

۵- حقوق الله اور حقوق العباد ادا کرکے الله کے عذاب و قہر سے خود اپنی گردن چھڑا لینا۔

۶- گناہوں سے توبہ کرکے اپنے نفس کو آزاد کروا لینا۔ 

أَوْ إِطْعَامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ ﴿١٤﴾ 

یا پھر کسی بھوک والے دن میں کھانا کھلا دینا

۔۔۔۔

جب کوئی شخص بھوکا ہو اسے کھانا کھلانا۔ شدید حاجت،جنگ،  سیلاب یا قحط سالی کے دوران جب غلہ بھی کم ہو، ان حالات  میں بھوکے کو کھانا کھلانا دوسری بہت سی نیکیوں سے بڑھ جاتا ہے  اس لیے اس کا بہت اجر ہے۔ 

يَتِيمًا ذَا مَقْرَبَةٍ ﴿١٥﴾ 

یا مسکین کو جو ( بدحالی کی وجہ سے ) مٹی میں مِل گیا ہے۔

۔۔۔۔

پھر بھوکا اگر یتیم بھی ہو تو اور زیادہ ثواب ہے کیونکہ وہ اور زیادہ شفقت کا حقدار ہے اور اگر رشتہ دار بھی ہو تو دوہرا ثواب ہےکیونکہ کھانا کھلانے کے ساتھ صلہ رحمی بھی ہے۔ 

أَوْ مِسْكِينًا ذَا مَتْرَبَةٍ ﴿١٦﴾ 

یا کسی مسکین کو جو مٹی میں رل رہا ہو ۔

۔۔۔۔

یا پھر ایسے شخص  کو کھانا کھلانا جو انتہائی مسکین ہو،  فقر و فاقہ اور غربت کی وجہ سے مٹی میں رُل رہا ہو،  اس کے پاس اسباب معاش میں سے کچھ بھی نہ ہو یہ بھی بہت ثواب کا کام ہے۔ 

ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ ﴿١٧﴾ 

پھر وہ ان لوگوں میں بھی شامل نہ ہوا جو ایمان لائے ہیں ، اور جنہوں نے ایک د وسرے کو ثابت قدمی کی تاکید کی ہے ، اور ایک دوسرے کو رحم کھانے کی تاکید کی ہے ۔

۔۔۔۔۔

یہاں سے ان تمام اعمال کے قبول ہونے کی شرائط  بیان کی جا رہی ہیں ۔

۱- یہ اعمال صرف اس صورت میں قبول ہوں گے جب  ان کا کرنے والا مؤمن ہو ، بغیر ایمان کے کوئی نیکی قبول نہیں۔ جو شخص اللہ اور روز آخرت پر ایمان نہ رکھتا ہو، اس کے اعمال آخرت میں کسی کام نہیں آئیں گے بلکہ برباد ہوجائیں گے ۲- ایمان کے بعد دوسرا فرض یہ بیان کیا کہ   دوسرے مسلمان بھائیوں کو بھی صبر اور رحمت کی تلقین کرنا  ضروری ہے۔ صبر سے مراد نفس کو برائیوں سے روکنا اور بھلائیوں پر عمل کرنا ہے۔

۳- تیسری چیز یہ ارشاد فرمائی کہ   دوسرے لوگوں  پر رحم کرنا ، ان کی پریشانی اور تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھنا یہ بھی بڑا اجر و ثواب کا کام ہے۔ یتیموں پر شفقت کرنا، چھوٹوں پر مہربانی، بیواؤں ، بے کسوں ، بے زبانوں کی مدد ، بھوکوں کو کھانا کھلانا ، بیماروں کا دوا دارو کرنا ننگوں کو کپڑا پہنانا، غریبوں کی امدار کرنا یہ سب رحمت کی شاخیں ہیں۔ 

فائدہ: قرآن مجید میں صبر کا لفظ بہت  وسیع معنی میں  استعمال ہوتا ہے۔مومن کی پوری زندگی صبر کی زندگی ہے ، اور ایمان کے راستے پر  قدم رکھتے ہی آدمی کے صبر کا امتحان شروع ہو جاتا ہے ۔ 

۱- الله تعالی  کی فرض کردہ عبادت کرنے کے لیے  صبر  کی ضرورت ہے ۔ 

۲- الله تعالی کے ہر حکم  کی اطاعت و پیروی میں صبر کی ضرورت ہے ۔

۳-  الله کی حرام کی ہوئی چیزوں سے بچنا صبر کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔

۴-  اخلاقی برائیوں کو چھوڑنا اور پاکیزہ اخلاق اختیار کرنے کے لیے صبر چاہیے ۔ 

۵-   زندگی میں  بہت بار   ایسا ہوتا ہے کہ  اگر  الله  کے قانون کی پیروی کی جائے تو نقصان اٹھانا پڑتا ہے ، تکلیفوں ، مصیبتوں  ، اور محرومیوں سے پالا  پڑتا ہےاور  اگر نافرمانی کی جائے تو فائدے اور لذتیں حاصل ہوتی نظر آتی ہیں۔  کوئی مومن اس مشکل سے صبر کے بغیر عافیت سے  نہیں گزر سکتا ۔

 ۶- ایمان کی راہ اختیار کرتے ہی آدمی کو اپنے نفس اور اس کی خواہشات سے لے کر اپنے اہل و عیال ، اپنے خاندان ، معاشرے ، اپنے ملک و قوم ، اور دنیا بھر کے شیاطین جن و انس کی مزاحمتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، حتی کہ الله کی راہ میں ہجرت اور جہاد کی نوبت بھی آ جاتی ہے ۔ ان سب حالات میں صبر ہی کی صفت آدمی کو ثابت قدم رکھ سکتی ہے ۔ 

اس آیت میں دین کے تقریبا سارے ہی احکام آگئے ہیں۔ 

أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ ﴿١٨﴾ 

یہی وہ لوگ ہیں جو بڑے نصیب والے ہیں 

۔۔۔۔

اور اس کا ایک ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ: ’’وہ دائیں ہاتھ والے ہیں‘‘ اور اِن سے مراد وہ نیک لوگ ہیں جن کا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ لفظ یمن کے معنی خوش بختی کے بھی ہیں۔ اس معنی میں آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ یہ وہ خوش قسمت لوگ ہوں گے جو  ہدایت کے راستے پر چلتے ہوئے  کامیاب ہو گئے۔

وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِنَا هُمْ أَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ ﴿١٩﴾ 

اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا ہے ، وہ نحوست والے لوگ ہیں 

۔۔۔۔

المشئمہ  کا  معنی بدنصیبی اور نحوست ہے اردو میں بھی شومئی قسمت بدنصیبی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اس کا ایک ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ: ’’وہ بائیں ہاتھ والے ہیں‘‘ یعنی  مراد وہ بد کار ہیں جن کا اعمال نامہ بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔

عَلَيْهِمْ نَارٌ مُّؤْصَدَةٌ ﴿٢٠

ان پر ایسی آگ مسلط ہوگی جو جو ان پر بند کردی جائے گی 

۔۔۔۔

آگ ان پر  بند کردی جائے گی کہ پریشر ککر کی طرح اس  کی ساری تپش اندر ہی رہے اور انہیں شدید ترین عذاب ملے گا یا یہ کہ  جہنم کے دروازے بند کردئیے جائیں گے تاکہ   دوزخیوں کے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہ رہے۔

الله کریم جہنم کی آگ سے اپنی پناہ میں رکھے۔

مختصر تفسیر عتیق سورۃ البلد 

سورت کی ابتداء میں مکہ مکرمہ جس میں نبی علیہ السلام رہائش پذیر تھے اور والد و اولاد کی قسم کہ انسان مشقت اور تکالیف کے مراحل سے گزرتا رہتا ہے۔ نیکی کا راستہ اختیار کرنے میں بھی مشقت آتی ہے اور بدی کا راستہ اختیار کرنے میں بھی مشقت آتی ہے مگر فرق یہ ہے کہ نیکی کی راہ میں مشقت اٹھانے والوں کے لئے اجرو ثواب ہے جبکہ بدی کی راہ میں مشقت اٹھانے والوں کو ثواب کی بجائے عذاب ہو گا۔انسان کی ہٹ دھرمی اور اللہ کے راستہ سے روکنے کے جرم کے اعادہ پر فرمایا کہ جو کہتا ہے کہ میں نے بہت مال لگا دیا ہے، کیا اسے معلوم نہیں کہ اسے کوئی دیکھ رہا ہے پھر اللہ نے انسان پر اپنے انعامات ذکر فرما کر انسان کو خدمت خلق کی تلقین کی ہے اور نیک و بد کی تقسیم پر سورت کا اختتام ہے۔

۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

سورۃ البلد:13، عم پارہ

سورۃ البلد    اسماء سورة بلد کا معنی  شہر ہے۔ اس سورت کی پہلی آیت میں   اللّٰہ  تعالیٰ نے  شہر مکہ کی قسم کھائی  ہے اس مناسبت سے اسے ’’سورہ...