پیر، 16 نومبر، 2020

سورۃ النازعات:2 ۔ عم پارہ

سورة النٰزعٰت 

اسماء سورة

عم پارے کی دوسری سورة  النازعات کے نام سے مشہور ہے جو اس سورة کی پہلی آیت میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ اسے سورة الساھرہ اور سورة الطامہ بھی کہا جاتا ہے۔ مکی سورة ہے اورچھیالیس آیات پر مشتمل ہے۔ 


روابط 

اس سے پہلی سورة یعنی  “النباء” میں قیامت کے متعلق کفار کے انکار اور سوال کا جواب دیا گیا ہے اور قیامت کے واقع ہونے کو دلائل سے ثابت کرکے منکرین کی سزا اور متقین کی جزا کا بیان کیا گیا۔ اب سورة النازعات میں قیامت کی ابتداء یعنی موت کی کیفیت کا قسم کے ساتھ بیان ہے۔ مرنے کے ساتھ ہی قیامت کی ابتداء ہوجاتی ہے، اسی لیے کہا جاتا ہے “ من مات فقد قامت قیامتہ” (جو شخص مرگیا گویا اس کے لیے قیامت واقع ہو گئی) اس سے یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ قیامت دور نہیں بلکہ قیامت اپنے اسباب میں سے ایک سبب موت کی طرح بہت قریب ہے۔ 


ربط آیات: ۱ تا ۵

سورت کے شروع میں فرشتوں کی ان پانچ  صفات کو بیان کیا گیا ہے جن کا تعلق انسان کی موت اور نزع کے عالم سے ہے۔ فرشتوں کی قسم اس لیے کھائی گئی کہ فرشتے اس دنیا کا نظام چلانے کے لیے الله تعالی کی طرف سے مقرر کیے گئے ہیں اور قیامت کے دن بھی جب دنیا کے تمام اسباب ختم ہو جائیں گے فرشتے ہی الله تعالی کے حکم سے مختلف کام انجام دیں گے۔ 


وَالنَّازِعَاتِ غَرْقًا ﴿١﴾


قسم ہے ان (فرشتوں) کی جو (کافروں کی روح) سختی سے کھینچتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پہلی صفت: نازعات کا لفظ “نزع “ سے نکلا ہے جس کے معنی کسی چیز کو کھینچ کر نکالنے کے ہیں اور غرقاً کا معنی ڈوب کر یعنی پوری شدت کے ساتھ۔ 

اس سے وہ فرشتے مراد ہیں جو کافروں کی روح نکالتے ہیں۔ کافر کی روح آخرت کی مصیبتوں سے گھبرا کر اس کے بدن میں چھپنے کی کوشش کرتی ہے، اس لیے فرشتے اس کے بدن میں گُھس کر سختی سے کھینچ کر اس کی روح کو باہر نکالتے ہیں، جس سے اسے شدید تکلیف ہوتی ہے۔ اس تکلیف سے مراد روحانی تکلیف ہے۔ بعض اوقات یوں لگتا ہے کہ کافر کی جان بہت آسانی سے نکل گئی ہے لیکن یہ آسانی ہمارے دیکھنے کے اعتبار سے ہوتی ہیں اس کی روح کو جو تکلیف ہوتی ہے وہ الله تعالی کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ اس سختی سے روحانی تکلیف اور سختی مراد ہے ، دیکھنے والے اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ 


وَّالنّٰشِطٰتِ نَشْطًا (2)


اور جو (مومنوں کی روح کی) گرہ نرمی سے کھول دیتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسری صفت: اس سے وہ فرشتے مراد ہیں جو مؤمن کی جان نکالنے آتے ہیں۔ فرشتے مؤمنوں کی روح کو نہایت آسانی اور سہولت سے قبض کرتے ہیں، شدت اور سختی نہیں کرتے؛ کیونکہ مؤمن روح کے سامنے برزخ کا انعام اور ثواب ہوتا ہےجسے دیکھ کر وہ جلدی سے ان کی طرف جانا چاہتی ہے۔ جس طرح ہوا یا پانی کسی چیز میں  بند ہو اور اس کا  ڈھکن کھول دیا جائے،  وہ نہایت آسانی سے باہر نکل جاتی ہے، اسی طرح مؤمن کی روح نکلتی ہے۔ یہاں بھی آسانی سے مراد روحانی آسانی ہے۔ بعض اوقات مؤمن پر موت کی سختی دکھائی دیتی ہے لیکن اس کو روحانی سکون اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ 


وَّالسّٰبِحٰتِ سَبْحًا (3)


 پھر (فضا میں) تیرے ہوئے جاتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تیسری صفت: اس سے وہ فرشتے مراد ہیں جو انسان کی روح نکالنے کے بعد تیزی سے اسے آسمان کی طرف لے جاتے ہیں۔ جس طرح کوئی شخص دریا میں تیرتا ہے۔ اس کے سامنے کوئی رکاوٹ نہ ہو تو جلد ہی منزل مقصود پر پہنچ جاتا ہے اسی طرح فرشتے بھی آسانی اور تیزی کے ساتھ منزل مقصود پر پہنچ جاتے ہیں۔ 


 فَالسّٰبِقٰتِ سَبْقًا۔ (4)


 پھر تیزی سے لپکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

چوتھی صفت: اس سے مراد یہ ہے کہ جو روح ان فرشتوں کے قبضے میں ہوتی ہے اسے لے کر اچھے یا برے ٹھکانے پر تیزی سے پہنچاتے ہیں۔ روح کے بارے میں جو بھی حکم ہوتا ہے یعنی مؤمن کی روح کو جنت کی ہواؤں اور نعمتوں کے مقام پر اور کافروں کی روحوں کو دوزخ کی ہواؤں اور عذاب کی جگہ پر فوراً پہنچا دیتے ہیں۔ 


قرآنِ کریم میں اصل لفظ صرف اتنا ہے کہ ’’قسم اُن کی جو سختی سے کھینچتے ہیں‘‘ لیکن حضرت عبداللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما نے اس کی تفسیر میں یہ فرمایا ہے کہ اس سے مراد رُوح قبض کرنے والے فرشتے ہیں جو کسی کی (عام طور سے کافروں کی) رُوح کو سختی سے کھینچتے ہیں، اور کسی کی ( عام طور سے مومنوں کی) روح کو آسانی سے اس طرح کھینچ لیتے ہیں جیسے کوئی گرہ کھول دی ہو۔ پھر وہ ان رُوحوں کو لے کر تیرتے ہوئے جاتے ہیں، اور جلدی جلدی اُن کی منزل پر پہنچا کر ان احکام کے مطابق اُن کا انتظام کرتے ہیں جو ﷲ تعالیٰ نے اُن کے بارے میں دئیے ہوتے ہیں۔ پہلی چار آیتوں کا یہی مطلب ہے۔


 فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا (5)


پھر جو حکم ملتا ہے اس (کو پورا کرنے) کا انتظام کرتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پانچویں صفت: فرشتوں کا آخری کام یہ ہوتا ہے کہ الله تعالی کے حکم کا انتظام کرتے ہیں جس روح کو ثواب اور راحت کا حکم ہو اس کے لیے راحت کے اسباب جمع کر دیتے ہیں اور جس روح کے لیے تکلیف اور عذاب کا حکم ہو اس کے لیے عذاب کے اسباب  کا انتظام کرتے ہیں۔  


موت کے وقت فرشتوں کا آنا اور انسان کی روح نکال کر آسمان کی طرف لے جانا پھر اس کے اچھے یا برے ٹھکانے پر جلدی سے پہنچا دینا اور وہاں ثواب یا عذاب اور راحت یا تکلیف کا انتظام کرنا ان آیات سے ثابت ہے۔ یہ ثواب اور عذاب قبر یعنی برزخ میں ہوگا۔ حشر کا عذاب و ثواب اس کے بعد ہوگا۔ صحیح احادیث میں اس کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ 


سوال: غیر الله کی قسم کھانا جائز نہیں۔ الله تعالی نے خود یہاں غیر الله کی قسم کھائی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ 

جواب: (1) الله تعالی کی ذات کسی حکم اور قانون کی پابند نہیں، یہ حکم مخلوق کے لیے ہے۔ مخلوق کو غیر الله کی قسم سے اس لیے منع کیا گیا کہ کہیں قسم کھانے والا اس چیز کو ایسا عظیم اور بڑا نہ سمجھنے لگے جیسا الله  کو سمجھنا چاہیے۔ 

(2) یہاں مضاف محذوف ہے۔ اصل عبارت یوں ہے “ و ربُّ النّٰزِعٰتِ “ روح کھینچنے والے فرشتوں کے رب کی قسم۔


اہم بات: بعض مفسرینِ کرام نے فرمایا ہے کہ نازعات سے مراد ستارے ہیں۔ ان کے اس قول کے مطابق ستارے رات کے وقت اپنے آپ کو کھینچ کر لاتے ہیں۔ جس طرح الله کی قدرت انہیں ڈوب جانے کے بعد دربارہ طلوع اور روشن کر دیتی ہے اسی طرح یہ تمہیں بھی دوبارہ زندہ کر سکتی ہے۔ اسی طرح ان مفسرین کے قول کے مطابق ناشطات سے مراد ایسے ستارے ہیں جو چلنے والے ہیں اور السابحات سے مراد وہ ستارے ہیں جو اپنے دائرے میں تیرتے ہیں اور فالسابقات سے مراد ایک دوسرے سے آگے بڑھنے والے ستارے ہیں؛ البتہ المدبرات فرشتوں کی صفت ہے ستاروں کی نہیں۔ (مظہری)


ربط آیات: 6۔ تا۔ 14

 پہلی آیات میں قیامت کو شروع کرنے والی یعنی موت کا ذکر تھا۔ اب قیامت کا حال بیان کیا جا رہا ہے۔ 


يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ (6)


کہ جس دن بھونچال (ہر چیز کو) ہلا ڈالے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی اے کافرو! تم قیامت کا انکار کرتے ہو ہم قسم کھا کر کہتے ہیں تمہیں مرنے کے بعد دوبارہ ضرور زندہ کیا جائے گا۔ ایک ہلا دینے والی چیز سب چیزوں یعنی زمین، پہاڑ ، درخت وغیرہ ہلا دے گی۔ اس وقت یہ حالت ہو گی کہ ہر چیز لرز جائے گی اور آخر کار فنا و برباد ہو جائے گی۔ یہ سب اس وقت ہوگا جب پہلی بار صور پھونکا جائے گا۔ 


 تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ (7)


پھر اس کے بعد ایک اور جھٹکا آئے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔ 

پہلی دفعہ صور پھونکے جانے کے بعد دوبارہ صور پھونکا جائے گا۔  جو پہلے سے متصل زمانہ ہوگا۔ یعنی یہ دونوں زمانے یوم واحد ہوں گے۔ دوبارہ صور پھونکے جانے سے تمام انسان و حیوان دوبارہ زندہ ہو جائیں گے اور عدالت الہی میں حاضر ہوں گے۔ 


سوال: دونوں صور پھونکنے کے درمیان کتنا زمانہ ہوگا؟

جواب: ابن عباس رضی الله عنہ و دیگر مفسرین کا بیان  ہے۔  راجفہ سے مراد پہلا نفخہ ہے اور رادفہ سے مراد دوسرا نفخہ ہے اور ان دونوں کے درمیان چالیس برس کی مدت ہوگی۔ 


قُلُوْبٌ يَّوْمَئِذٍ وَّاجِفَةٌ۔ (8)


 اس دن بہت سے دل لرز رہے ہوں گے۔


 اَبْصَارُهَا خَاشِعَةٌ (9)


ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

جب حاضری ہوگی تو دل مارے خوف کے دھڑک رہے ہوں گے۔ نگاہیں ندامت و شرم اور خوف و ہراس کی وجہ سے جھکی ہوں گی۔ جس طرح مجرم عدالت میں پیش کیے جائیں تو ان کے سر اور نگاہیں احساسِ گناہ کی وجہ سے جھکی ہوتی ہیں۔ 


 يَقُوْلُوْنَ ءَاِنَّا لَمَرْدُوْدُوْنَ فِي الْحَافِرَةِ  (10)


 یہ (کافر لوگ) کہتے ہیں کہ : کیا ہم پہلی والی حالت پر لوٹا دیئے جائیں گے ؟


ءَاِذَا كُنَّا عِظَامًا نَّخِرَةً۔ (11)


کیا اس وقت جب ہم بوسیدہ ہڈیوں میں تبدیل ہوچکے ہوں گے ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قیامت میں ان کفار کا حال بیان کرنے کے بعد ان کی دنیاوی باتوں  کا ذکر ہے۔  دنیا میں ان کے تکبرو غرور کا یہ عالم تھا کہ جب ان کو قیامت کے برپا ہونے کی خبر دی جاتی تو اس کا مذاق بناتے تھے۔ تمسخر اور مزاح کے عالم میں حقارت سے کہتے کہ کیا جب ہم بوسیدہ ہڈیاں بن جائیں گے اور ریزہ ریزہ ہو جائیں گے، پھر پہلی حالت پر دوبارہ لوٹا دئیے جائیں گے؟ 


قَالُوْا تِلْكَ اِذًا كَرَّةٌ خَاسِرَةٌ (12)


کہتے ہیں کہ : اگر ایسا ہوا تو یہ بڑے گھاٹے کی واپسی ہوگی۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ بات ان کی ناقص عقل سے باہر تھی اور اسے قدرتِ الہی سے خارج سمجھتے تھے۔ تمسخر اڑاتے ہوئے، ناممکن سمجھ کر کہتے تھے اگر ایسا ہوا تو پھر تو ہم بہت گھاٹے میں رہیں گے کیونکہ ہم نے تو اس کے لیے کوئی تیاری ہی نہیں کی۔ 

خاسرہ کی ایک تفسیر یہ بھی بیان کیا گئی ہے کہ وہ زندگی نقصان والی ہوگی۔ اتنی لمبی مدت کے بعد جسم کا کوئی حصہ کہاں ہوگا، کوئی کہاں یعنی انسان کے اعضا پورے نہ ہوں گے کسی کی انگلی نہ ہو گی ، کسی کی آنکھ نہ ہو گی وغیرہ ۔(حقانی)

یعنی اتنی مدت گزرنے کے بعد اور ہڈیوں کے مٹی میں مل جانے کے بعد اعضا کو کس طرح  دوبارہ اکٹھا کیا جائے گا۔



 فَاِنَّمَا ھِيَ زَجْرَةٌ وَّاحِدَةٌ۔ (13)


حقیقت تو یہ ہے کہ وہ بس ایک زور کی آواز ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس سب کے جواب میں الله تعالی قیامت کا احوال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دوبارہ زندہ کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ صرف ایک ڈانٹ، ہیبت ناک آواز یا ایک چیخ  سنائی دے گی یعنی دوسرا صور پھونکا جائے گا۔ سب کے تمام اجزا اکھٹے ہوکر بدن تیار ہو جائیں گے، پھر اسی وقت ان کی روحوں کا تعلق ان کے جسموں سے جوڑ دیا جائے گا۔ وہ  اس طرح سطح زمین پر زندہ کھڑے ہوں گے گویا سوئے ہوؤں کو جگا دیا گیا ہو اور خود میدانِ حشر میں الله تعالی کے سامنے حساب کتاب کے لیے جمع ہو جائیں گے۔(حقانی)


فَاِذَا هُمْ بِالسَّاهِرَةِ (14)


جس کے بعد وہ اچانک ایک کھلے میدان میں ہوں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساھرہ کے دو معنی ہیں۔ 

(۱) لوگ قیامت کے دن فوراً جاگ اٹھیں گے۔ اس میں موت کو نیند سے تشبیہ دی گئی ہے۔ جیسے حدیث مبارکہ میں بھی نیند کو موت جیسا قرار دیا گیا۔ اس صورت میں یہ لفظ لیلۃ الساھرہ سے ماخوذ ہوگا یعنی “رتجگے کی رات “۔ 

جس طرح نیند کے عالم میں اچھے برے خواب ہیں اسی طرح موت کے عالم میں راحت وعذابِ قبر کی آپس میں مناسبت ہے۔ 

(۲) پھر ایک دم وہ میدان میں حاضر ہو جائیں گے۔ 


سوال: “ ساھرہ” کیسی جگہ ہو گی اور کہاں ہوگی؟ 


جواب: اس میں مفسرین کرام کے مختلف اقوال ہیں۔ 

اس سے مراد زمین ، روئے زمین ، کھلا میدان ، سفید اور ہموار زمین جس میں گھاس پھونس ، پیڑ پودے، عمارت وغیرہ کچھ نہ ہو، ارض القیامہ اور میدانِ حشر وغیرہ ہے۔ 

یہ بیت المقدس کے قریب والی جگہ ہے یا مکہ ہے یا سر زمینِ شام ہے جس کو الله تعالی اتنا وسیع کر دیں گے کہ ساری مخلوق اس پر آ جائے گی۔

  والله اعلم 



ربط آیات:   15تا 26

پچھلی آیات میں کفار کے ضد، تکبر، انکار اور تمسخر کا بیان تھا جس سے نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو سخت دلی تکلیف ہوتی تھی۔  آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم ان کے اس روئیے سےغمگین ہو جاتے تھے۔ الله سبحانہ و تعالی نے اپنے ایک جلیل القدر نبی موسی کلیم الله اور اس کے سخت دشمن فرعون کا واقعہ بیان فرمایا۔ اس قصے کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ تسلی رکھیں اور پریشان نہ ہوں کیونکہ مخالفین کی یہ ضد اور انکار صرف آپ کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ دوسرے انبیاء علیھم السلام کو بھی مخالفین نے بہت تکلیفیں  اور ایذائیں پہنچائیں۔ ان کی لائی گئی دعوت توحید و رسالت کا بھی انکار کیا اور مذاق اڑاتے رہے۔ پہلے پیغمبروں نے صبر اور استقامت سے سب کچھ برداشت کیا آپ بھی ان تکالیف پر صبر کریں۔ 

یہ قصہ آپ کے لیے تسلی ہے اور منکرین کے لیے زجر اور تنبیہہ ہے اس کے ساتھ یہ نبوت و رسالت پر دلیل بھی ہے۔ 

پچھلی آیات میں الله تعالی نے دلیل عقلی سے قیامت کے قائم ہوجانے کا ثبوت دیا اب موسی علیہ السلام کا واقعہ بطور نقلی دلیل پیش کیا، جس کے متعلق اس دور کے لوگ کچھ نہ کچھ جانتے تھے۔ اس کے علاوہ ایک امی کی زبان سے موسی علیہ السلام کا واقعہ بیان کر دینا بھی آپ کی نبوت پر دلیل ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس واقعے کی خبر آپ صلی الله علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے دی گئی ہے۔ 




هَلْ اَتٰىكَ حَدِيْثُ مُوْسٰى (15)


 (اے پیغمبر) کیا تمہیں موسیٰ کا واقعہ پہنچا ہے ؟


الله کریم کا یہ سوالیہ انداز نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی تسلی کے لیے ہے یعنی آپ کی رسالت اور دعوت توحید کوئی نئی چیز نہیں آپ سے پہلے بھی انبیاء علیھم السلام۔ الله کی توحید کی دعوت دینے آتے رہے ہیں ؛ جیسا کہ موسی علیہ السلام۔ اس کے بعد موسی علیہ السلام اور فرعون کے واقعے کا صرف وہی رُخ یا  پہلو بیان کیا گیا ، جس کی یہاں ضرورت محسوس کی گئی۔ 


إِذْ نَادَاهُ رَبُّهُ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى ﴿16)


 جب ان کے پروردگار نے انہیں طوی کی مقدس وادی میں آواز دی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قصہ موسٰی علیہ السلام 

موسی علیہ السلام کا واقعہ قرآن مجید کی بہت سی سورتوں میں بیان کیا گیا ہے جس کی کچھ تفصیل اس طرح سے ہے۔

مصر کا بادشاہ فرعون نہایت ظالم وجابرتھا جو طاقت و اقتدار کے نشے میں اپنے آپ کو خدا کہتا تھا۔ اس نے بنی اسرائیل کو اپنا غلام بنا رکھا تھا۔ اس کے درباری نجومیوں نے اسے خبر دی کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہوگا جو تیری ہلاکت کی وجہ بنے گا۔ فرعون نے حکم دیا: “ بنی اسرائیل میں جس کے گھر بھی بیٹا پیدا ہو اسے قتل کر دیا جائے۔” 

 ان حالات میں موسی علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔ ان کی والدہ نے الله کے حکم سے انہیں قتل ہونے سے بچانے کے لیے ایک صندوق میں ڈال کر دریائے نیل میں بہا دیا اور ان کی بہن سے کہا: “دیکھتی رہنا صندوق کہاں جاتا ہے؟” 

 صندوق بہتا ہوا فرعون کے محل میں اس کی بیوی آسیہ تک پہنچ گیا۔ اس نے جب کھولا تو ایک خوبصورت بچے کو دیکھ کر فرعون کی مخالفت کے باوجود اسے اپنا بیٹا بنا لیا۔ 

موسی علیہ السلام کی بہن کی حکمت سے بچے نے  اپنی ماں کے دودھ پر پرورش پائی۔ موسی علیہ السلام  اسی فرعون بادشاہ کے محل میں ناز و نعمت کے ساتھ جوان ہوئے۔ 

ایک دن یوں ہوا کہ آپ شہر گئے جہاں دو آدمی لڑ پڑے ، جن میں سے ایک حضرت موسی کی قوم سے تھا اور دوسرا فرعونی تھا۔ بنی اسرائیلی شخص نے آپ کو مدد کے لیے بلایا۔ موسی علیہ السلام نے پہلے تو فرعونی کو زبان سے منع کیا ، جب وہ نہیں مانا تو اسے ایک گھونسہ رسید کر دیا، وہ وہیں مر گیا۔ دوسرے دن پھر گھر سے نکلے تو وہی بنی اسرائیلی کسی دوسرے فرعونی کے ساتھ جھگڑ رہا تھا۔ اس نے دوبارہ آپ کو مدد کے لیے بلایا ۔ آپ کو سخت غصہ آیا کہ یہ شخص فساد پھیلا رہا ہے، جب آپ اس کی طرف بڑھے تو اس نے شور مچا دیا۔ 

موسی علیہ السلام ایک بنی اسرائیلی ہمدرد کی مدد سے مصر سے نکلے اور مدین چلے گئے۔ 

وہاں ایک کنویں پر دو لڑکیاں اپنی بکریوں کو روکے کھڑی تھیں جبکہ دوسرے لوگ پانی پلا رہے تھے۔ موسی علیہ السلام نے ان سے پوچھا کہ وہ اپنی بکریوں کو پانی کیوں نہیں پلا رہیں؟

 انہوں نے جواب دیا ہم عورتیں ہیں، جب یہ مرد اپنے جانوروں کو پانی پلا کر چلے جائیں گے پھر ہماری باری آئے گی۔ موسی علیہ السلام نے آگے بڑھ کر ان کی بکریوں کو پانی پلا دیا۔ لڑکیوں نے واپس جا کر اپنے والد شعیب علیہ السلام کو سارا واقعہ سنایا، انہوں نے اپنی لڑکی بھیج کر آپ کو بلوایا۔ موسی علیہ السلام سے سارا واقعہ سن کر انہیں تسلی دی اور اپنی ایک بیٹی کا نکاح ان سے اس شرط پر کر دیا کہ وہ آٹھ سال ان کے پاس رہیں گے، اگر دس سال رہیں تو ان کی خوشی پر موقوف ہو گا۔ 

موسی علیہ السلام نے مدت پوری کی اور یہ سوچ کر کہ آٹھ  دس سال میں لوگ بھول گئے ہوں گے، شعیب علیہ السلام سے اجازت لے کر وطن واپس روانہ ہو گئے۔ رات کا وقت تھا اور سخت سردی تھی۔ آپ اپنے اہل و عیال کے ہمراہ طور پہاڑ کے قریب پہنچے تو راستہ بھول گئے۔ اہل خانہ کو وہاں ٹھہرا کر کہا سامنے آگ نظر آ رہی ہے۔ میں وہاں سے آگ لے کر آتا ہوں  یا پھر ان سے راستہ پوچھ کر آتا ہوں۔ وہاں پہنچے تو دیکھا وہ آگ نہیں تھی بلکہ الله تعالی کا نور یا تجلی تھی جس نے ایک درخت کو گھیرا ہوا تھا۔ جب قریب پہنچے تو اس سے آواز آئی: “ اے موسی! بیشک میں ہی اللہ ہوں۔ میرے سوا کوئی معبود نہیں تو میری عبادت کیا کرو۔ اور میری یاد کے لئے نماز پڑھا کرو۔ (طٰہٰ:14

پھر الله تعالی نے فرمایا موسی تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟ جواب دیا عصا یعنی لاٹھی ہے۔ فرمایا اس کو زمین پر ڈال دو۔ آپ نے لاٹھی کو زمین پر پھینکا تو وہ سانپ بن گیا۔ موسی علیہ السلام گھبرا کر بھاگے ، فرمایا اس کو پکڑ لو، یہ دوبارہ لکڑی بن جائے گا۔ پھر فرمایا: اپنے دائیں ہاتھ کو بغل میں دبا کر نکالو۔ آپ نے ایسا ہی کیا، آپ کا وہ ہاتھ چاند کی طرح چمکنے لگا، پھر دوبارہ بغل میں دبا کر نکالا، تو پہلے جیسا ہو گیا۔ اس موقعے پر موسی علیہ السلام کو نبوت اور یہی  دو عظیم الشان معجزے عطا کیے گئے۔ 

إِذْ نَادَاهُ رَبُّهُ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى ۔۔۔ میں اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ 


اذْهَبْ إِلَىٰ فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَىٰ ﴿17)


کہ : فرعون کے پاس چلے جاؤ، اس نے بہت سرکشی اختیار کر رکھی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الله کریم نے موسی علیہ السلام کو دو عظیم الشان  معجزے عطا فرمائے، یعنی عصا اور ید بیضا۔ پھر حکم دیا کہ مصر کے بادشاہ فرعون کے پاس جا کر اسے توحید کی دعوت دو کیونکہ وہ سرکش ہوگیا ہے۔ خدائی کا دعوٰی کرتا ہے اور لوگوں کو تکلیف دیتا ہے۔ چنانچہ موسٰی علیہ السلام فرعون کو دعوتِ حق دینے کے لیے مصر روانہ ہوگئے۔ 


فَقُلْ هَلْ لَّكَ اِلٰٓى اَنْ تَـزَكّٰى (18)


اور اس سے کہو کہ کیا تمہیں یہ خواہش ہے کہ تم سنور جاؤ ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الله سبحانہ و تعالی نے موسی علیہ السلام کو حکم دیا کہ فرعون سے جا کر کہو کیا تو چاہتا ہے کہ تو جسمانی اور روحانی نجاستوں اور خباثتوں سے پاک صاف ہو جائے اور تیرے برے اخلاق اچھائی میں بدل جائیں۔ 


وَاَهْدِيَكَ اِلٰى رَبِّكَ فَتَخْشٰى  (19)


اور یہ کہ میں تمہیں تمہارے پروردگار کا راستہ دکھاؤں تو تمہارے دل میں خوف پیدا ہوجائے ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور میں تیرے رب کی طرف تیری راہنمائی کروں تاکہ تو اس کو جان لے اور پہچان کر اس سے ڈرے اور اسی ڈر کی وجہ سے اپنی اصلاح کر لے۔ اس لئے کہ اللہ کا خوف اسی دل میں پیدا ہوتا ہے جو ہدایت پر چلنے والا ہوتا ہے۔

موسی علیہ السلام الله کا یہ پیغام لے کر فرعون کے پاس پہنچے۔  اسے دعوتِ توحید دی اور الله کے  رب العالمین ہونے کی حقیقت سے باخبر کیا۔ یہ سن کر اس نے موسی علیہ السلام سے ان کی نبوت کی نشانی طلب کی۔ 


فَاَرٰىهُ الْاٰيَةَ الْكُبْرٰى (20)


چنانچہ موسیٰ نے اس کو بڑی زبردست نشانی دکھائی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

موسی علیہ السلام نے اسے ایک بڑی نشانی دکھائی۔ مفسرین کے متفقہ قول کے مطابق وہ نشانی یہ تھی کہ آپ نے اپنا عصا یعنی لاٹھی زمین پر پھینک دی۔ وہ ایک بہت بڑا اژدھا یعنی سانپ بن گیا۔ فرعون اور اس کے درباری ڈر کر بھاگ گئے لیکن اس کے باوجود وہ ایمان نہ لایا۔ 


فَكَذَّبَ وَعَصٰى (21)


پھر بھی اس نے (انہیں) جھٹلایا، اور کہنا نہیں مانا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فرعون نے موسی علیہ السلام کے معجزے پر ایمان لانے کی بجائے اس کا انکار کیا اور اسے جھٹلا دیا۔ الله تعالی کے حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے کہنے لگا یہ یعنی موسی (علیہ السلام) تو بہت بڑا جادوگر ہے۔ میں بھی اپنے جادوگروں کو بلاتا ہوں وہ آکر اس کے جادو کا توڑ کریں گے اور اس سے مقابلہ کرکے اسے شکست دے دیں گے۔ 


ثُمَّ اَدْبَرَ يَسْعٰى (22)


 پھر دوڑ دھوپ کرنے کے لیے پلٹا۔


فَحَشَرَ فَنَادٰى (23)


پھر سب کو اکٹھا کیا اور آواز لگائی۔


فَقَالَ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى (24)


اور کہا کہ : میں تمہارا اعلی درجے کا پروردگار ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہاں سے جانے کے بعد فرعون موسی علیہ السلام کے خلاف سازشیں کرنے اور فساد پھیلانے لگا، اس نے لوگوں کو جمع کیا اور ان کے سامنے تقریر کی اور کہا میں ہی تمہارا حاکمِ اعلی ہوں، میرے سوا کوئی اور اتنی طاقت اور شان و شوکت کا مالک نہیں۔ 

چنانچہ اس کے جادوگروں سے موسی علیہ السلام کا مقابلہ ہوا۔ جادوگروں نے رسیاں ڈالیں جو جادو سے سانپ بن گئیں۔ جب موسی علیہ السلام نے الله کے حکم سے عصا کو زمین پر ڈالا تو وہ بہت بڑا اژدھا بن کر ان سارے سانپوں کو کھا گیا۔ جادوگر یہ دیکھ کر الله کی وحدانیت اور موسی علیہ السلام کی رسالت پر ایمان لے آئے لیکن فرعون پھر بھی نہ مانا۔ 


فَاَخَذَهُ اللّٰهُ نَكَالَ الْاٰخِرَةِ وَالْاُوْلٰى (25)


نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے اسے آخرت اور دنیا کے عذاب میں پکڑ لیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

موسی علیہ السلام بنی اسرائیل کوجب مصر سے لے کر چلے تو الله کے حکم سے دریا میں بارہ راستے بن گئے جن پر اس وقت دھوپ پڑی۔ بنی اسرائیل کے گزر جانے کے بعد وہاں پانی بہنے لگا پھر کبھی ایسا موقع نہیں۔ فرعون نے بھی بنی اسرائیل کے پیچھے دریا کے راستوں پر لشکر ڈال دیا۔  لیکن الله جل جلالہ نے اس کو عذاب کی گرفت میں لے لیا اور دنیا میں یہ عبرت ناک سزا دی کہ فرعون اور اس کے لشکر کو دریائے قلزم میں غرق کر دیا اور اس کی لاش کو باہر پھینک دیا تاکہ لوگوں کے لیے باعثِ عبرت ہو۔ فرعون کی لاش آج تک مصر میں محفوظ ہے۔ آخرت میں بھی اسے عذاب کا مزا چکھایا جائے گا۔ 


اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّمَنْ يَّخْشٰى (26)


حقیقت یہ ہے کہ اس واقعے میں اس شخص کے لیے بڑی عبرت ہے جو اللہ کا خوف دل میں رکھتا ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس قصے میں متقین کے لیے بڑی عبرت و نصیحت ہے۔ انبیاء علیھم السلام کی دعوت بالکل سچی ہوتی ہے۔ اس کا انکار اور مخالفت کرنے سے دنیا و اُخرت دونوں برباد ہو جاتی ہیں۔ انکا مقابلہ کرنے والے کا انجام بہت برا ہوتا ہے وہ سزا سے نہیں بچ سکتے۔ اے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم آپ پریشان نہ ہوں آپ کے مخالفین کا بھی آخر کار یہی انجام ہوگا۔ آپ تسلی رکھیں الله سبحانہ وتعالی ان کو تباہ و برباد کر دے گا۔ 


أَأَنتُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمِ السَّمَاءُ ۚ بَنَاهَا ﴿٢٧﴾ رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوَّاهَا ﴿٢٨﴾ وَأَغْطَشَ لَيْلَهَا وَأَخْرَجَ ضُحَاهَا ﴿٢٩﴾ وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَٰلِكَ دَحَاهَا ﴿٣٠﴾ أَخْرَجَ مِنْهَا مَاءَهَا وَمَرْعَاهَا ﴿٣١﴾ وَالْجِبَالَ أَرْسَاهَا ﴿٣٢﴾ مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِأَنْعَامِكُمْ ﴿٣٣﴾


ربط آیات: گزشتہ آیات میں موسی علیہ السلام و فرعون کا قصہ بطورِ تسلی و عبرت  بیان کرنے کے بعد ان آیات سے پھر اصل مضمون کا ذکر شروع ہوتا ہے یعنی دلائل قدرت سے یہ ثابت کرنا کہ قیامت ضرور قائم ہو گی اور منکرین کے اس شبہ کا جواب؛ جو کہتے ہیں کہ ہم مرنے کے بعد کیسے زندہ ہوں گے؟ 


ءَاَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَاۗءُ    ۭ بَنٰىهَا (27)


(انسانو!) کیا تمہیں پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے یا آسمان کو ؟  اس کو اللہ نے بنایا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عرب کے کافر لوگ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کا جو اِنکار کرتے تھے، اُس کی وجہ یہ تھی کہ وہ کسی مُردے کے زندہ ہونے کو بہت مشکل سمجھتے تھے۔ اﷲ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ کائنات کی دوسری چیزوں، مثلا آسمان، کے مقابلے میں اِنسان کو پیدا کرنا زیادہ آسان ہے، اگر تم مانتے ہو کہ آسمان ﷲ تعالیٰ نے پیدا فرمایا ہے تو پھر اِنسان کو دوبارہ پیدا کرنا اُس کے لئے کیا مشکل ہے؟

 تم ذرا اپنی عقل سے سوچ کر بتاؤ کہ تمہیں پہلی یا دوسری بار پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے یا اتنے بڑے آسمان کو پہلی بار بنانا زیادہ مشکل ہے، جس قادر مطلق نے اتنا عظیم الشان آسمان بغیر ستونوں کے پیدا کیا۔ کیا اس کے لیے اس چھوٹے سے انسان کو دوبارہ زندہ  کرنا مشکل ہے؟ بلکہ وہ انسان کو دوبارہ پیدا کرنے پر پوری قدرت رکھتا ہے کیونکہ وہ اسی انسان کو پہلے بھی پیدا کر چکا ہے۔ اس بات کا انکار سوائے ضد کے کچھ بھی نہیں۔ (حقانی) 


رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوّٰىهَا (28)


اس کی بلندی اٹھائی ہوئی ہے، پھر اسے ٹھیک کیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان آیات میں آسمان کو تخلیق کرنے کی کیفیت کا بیان ہے کہ الله سبحانہ و تعالی نے کس طرح  کسی ستون اور دیوار کے سہارے کے بغیر آسمان کی چھت کو بہت بلند کر کے اس کو بالکل برابر کر دیا۔ ایسا درست اور ہموار بنایا کہ اس میں کہیں کوئی اونچ نیچ یا  کوئی جوڑ اور پیوند نہیں ہے۔ پھر سورج ، چاند اور ستارے وغیرہ مختلف اشیاء پیدا کیں۔ 


وَاَغْطَشَ لَيْلَهَا وَاَخْرَجَ ضُحٰىهَا (29)


اور اس کی رات کو اندھیری بنایا ہے، اور اس کے دن کی دھوپ باہر نکال دی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مقصد یہ ہے کہ الله تعالی نے اس آسمان میں سورج پیدا کیا ہے۔ جب تک وہ اہل زمین کے سامنے رہتا ہے تو یہ ان کے لیے دھوپ کا وقت اور دن ہوتا ہے اور جب وہ غروب ہوجاتا ہے اور چھپ جاتا ہے تو یہ ان کے لیے رات کا وقت ہوتا ہے۔ دن کو روشن بنایا تاکہ رزق تلاش کر سکو اور رات کو تاریک بنایا تاکہ آرام کر سکو۔ 


سوال: وَاَغْطَشَ لَيْلَهَا وَاَخْرَجَ ضُحٰىهَا۔ میں رات اور دن کو آسمان کی طرف کیوں منسوب کیا گیا؟ 


جواب: رات اور دن کو آسمان کی طرف منسوب کیا گیا ہے ، کیونکہ سورج غروب ہونے سے ہی رات آتی ہے اور اسی کے طلوع ہونے سے دن نکلتا ہے اور سورج کا تعلق آسمان سے ہے اس لیے رات اور دن کی نسبت بھی آسمان کی طرف کر دی۔

 رات کے لیے ڈھانکنے کا لفظ اس معنی میں استعمال کیا گیا ہے سورج غروب ہونے کے بعد رات کی تاریکی اس طرح زمین پر چھا جاتی ہے جیسے اوپر سے اس پر پردہ ڈال کر ڈھانک دیا گیا ہو ۔


وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىهَا (30)


 اور زمین کو اس کے بعد بچھا دیا ہے۔


اَخْرَجَ مِنْهَا مَاۗءَهَا وَمَرْعٰىهَا (31)


اس میں سے اس کا پانی اور اس کا چارہ نکالا ہے۔


 وَالْجِبَالَ اَرْسٰىهَا (32)


اور پہاڑوں کو گاڑھ دیا ہے۔


 مَتَاعًا لَّكُمْ وَلِاَنْعَامِكُمْ (33)


تاکہ تمہیں اور تمہارے مویشیوں کو فائدہ پہنچائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الله سبحانہ و تعالی نے آسمان کو پیدا کرنے کے بعد زمین کو بچھایا۔ پھر زمین میں پانی کے چشمے پیدا کر دئیے، گھاس اور چارہ  پیدا کردیا۔ چارے سے مراد اس جگہ صرف جانوروں کا چارہ نہیں ہے بلکہ تمام نباتات مراد ہیں جو انسان اور حیوان دونوں کی غذا کے کام آتے ہیں ۔ پھر اس پر مضبوط پہاڑ بنا دئیے تاکہ زمین میں اضطراب نہ ہو، یہ سب کچھ تمہارے اور تمہارے جانوروں کے نفع کے لیے کیا۔ جو ذات ان چیزوں کو پیدا کر سکتی ہے یقین کرلو کہ وہ تمہیں بھی دوبارہ زندہ کر سکتی ہے۔ 


سوال: ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمان کو پہلے بنایا گیا زمین کو بعد میں جبکہ قرآن مجید کی دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین کو پہلے اور آسمان کو بعد میں پیدا کیا گیا۔ بظاہر آیات میں اختلاف ہے؟ 


جواب: کوئی اختلاف نہیں۔ 

زمین اور آسمان دونوں کو اکٹھا بنایا گیا۔

.1جہاں یہ بیان ہے کہ زمین پہلے پیدا کی گئی آسمان بعد میں اس سے مراد کہ زمین کے مادے کو پہلے پیدا کیا گیا پھر آسمان کے مادے کو پیدا کیا گیا۔ لیکن جب بچھانے کا وقت آیا تو پہلے آسمان کو پھیلایا گیا پھر زمین کو جیسا کہ یہاں ذکر کیا گیا ہے۔ 

.2  جہاں موقع و محل کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالی کی قدرت کے کمالات کو نمایاں کیا جائے وہاں آسمانوں کا ذکر پہلے کیا گیا ہے اور زمین کا بعد میں اور جہاں سلسلہ کلام اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ لوگوں کو ان نعمتوں کا احساس دلایا جائے  جو انہیں زمین پر حاصل ہو رہی ہیں وہاں زمین کا ذکر آسمانوں سے پہلے کیا گیا ہے۔ 


فَإِذَا جَاءَتِ الطَّامَّةُ الْكُبْرَىٰ ﴿٣٤﴾ يَوْمَ يَتَذَكَّرُ الْإِنسَانُ مَا سَعَىٰ ﴿٣٥﴾ وَبُرِّزَتِ الْجَحِيمُ لِمَن يَرَىٰ ﴿٣٦﴾ فَأَمَّا مَن طَغَىٰ ﴿٣٧﴾ وَآثَرَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا ﴿٣٨﴾ فَإِنَّ الْجَحِيمَ هِيَ الْمَأْوَىٰ ﴿٣٩﴾ وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٤٠﴾ فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَىٰ ﴿٤١﴾


ربط آیات: پچھلی آیات میں دلائلِ قدرت بیان کرکے الله سبحانہ و تعالی نے موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کو ثابت کیا ہے۔ اب ان آیات سے دوبارہ زندہ ہونے کے بعد کے واقعات اور قیامت کے دن کی شدت کا بیان ہے۔ اعمال کے سامنے آجانے اور اہل جنت و اہل جہنم دونوں کے ٹھکانے کا ذکر کرکے آخر میں ان دونوں کی خاص خاص نشانیاں بتائی گئی ہیں۔ 



فَاِذَا جَاۗءَتِ الطَّاۗمَّةُ الْكُبْرٰى (34)


 پھر جب وہ سب سے بڑا ہنگامہ برپا ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جس وقت سب سے بڑی مصیبت یعنی قیامت آ جائے گی۔ طامہ  ایسی بڑی مصیبت اور آفت کو کہتے ہیں جو سمندر کے پانی کی طرح سب پر چھا جائے۔ اس کے ساتھ الکبری یعنی بہت بڑی کا لفظ قیامت کی مزید ہولناکی اور تاکید کو ظاہر کرنے کے لیے ہے۔ قیامت ایسی بڑی مصیبت ہوگی جو ہر طرف چھا جائے گی اور کوئی اس سے بچ نہیں پائے گا۔


يَوْمَ يَتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ مَا سَعٰى (35)


جس دن انسان اپنا سارا کیا دھرا یاد کرے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  اس دن ہر شخص اپنے اعمال کو یاد کرے گا جن کو بہت مدت گزر جانے کے بعد بھول چکا ہوگا۔ یعنی جب انسان دیکھ لے گا کہ وہی محاسبہ کا دن آ گیا ہے جس کی اسے دنیا میں خبر دی جا رہی تھی ، تواس سے پہلے کہ اس کا نامہ اعمال اس کے ہاتھ میں دیا جائے، اسے ایک ایک کر کے اپنی وہ سب حرکتیں یاد آنے لگیں گی جو وہ دنیا میں کر کے آیا تھا ۔ بعض لوگوں کو یہ تجربہ اس دنیا میں بھی ہوتا ہے کہ اگر یکایک کسی وقت وہ کسی ایسے خطرے سے دوچار ہو جائیں، جس میں موت ان کو بالکل قریب کھڑی نظر آنے لگے تو اپنی پوری زندگی کے سارے اچھے برے اعمال نظروں کے سامنے آ جاتے ہیں ۔ یا پھر یہ کہ جب نامۂ اعمال اس کے سامنے لایا جائے گا تو اسے دیکھتے ہی انسان کو اپنے تمام اعمال یاد آ جائیں گے۔ 


وَبُرِّزَتِ الْجَحِيْمُ لِمَنْ يَّرٰى (36)


 اور دوزخ ہر دیکھنے والے کے سامنے ظاہر کردی جائے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور جہنم ہر شخص کے سامنے ظاہر کر دی جائے گی۔ مؤمن اور کافر سب  سامنے دیکھیں گے۔ (حقانی)

مومن اس سے بچائے جانے پر اللہ کا شکر ادا کریں گے اور کافر شدید حسرت و افسوس میں مبتلا ہوں گے۔



فَاَمَّا مَنْ طَغٰى (37)


 تو وہ جس نے سرکشی کی تھی۔


وَاٰثَرَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا (38)


 اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی تھی۔


فَاِنَّ الْجَــحِيْمَ ھِيَ الْمَاْوٰى (39)


 تو دوزخ ہی اس کا ٹھکانا ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہاں پر اہل جنت اور اہل جہنم کی خاص علامات بیان کی گئیں ہیں۔ ان نشانیوں کو دیکھ کر انسان دنیا میں بھی پہچان سکتا ہے کہ اس کا ٹھکانا جنت ہو گا یا پھر جہنم۔ البتہ جن لوگوں کے حق میں کسی قسم کی سفارش یا شفاعت قبول ہوگئی وہ الله جل شانہ کی رحمت سے جہنم سے نکال کر جنت میں ڈال دئیے جائیں گے۔ (جیسا کہ بعض روایات اور آیات میں آیا ہے) 


پہلے اہلِ جہنم کی دو خاص علامات بیان کی گئی ہیں۔ 


. 1طغیان یعنی سرکشی:  الله اور اس کے رسول کے حکم کی فرمانبرداری کرنے کی بجائے جانتے بوجھتے انکار کرنا۔

.2۔ دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دینا۔ یعنی جب شریعت کسی ایسے کام کا حکم دے جسے کرنے  کے لیے دنیا میں مشکل اور سختی برداشت کرنی پڑے اس کو چھوڑ دینا اور جس کام میں دنیاوی لذت اور خوشی ملتی ہو اگرچہ دین اور شریعت اس سے منع کریں وہ کرنا۔  آخرت میں اس کی سزا اور عذاب کو نظر انداز کردینا اور دنیا کی خوشی کے لیے وہ کام کرلینا۔ 

جو شخص دنیا میں ان دونوں کاموں میں مبتلا ہوجائے اس کے لیے فرمایا: فَان الجحیم ھی المأوٰی (یعنی جہنم ہی اس کا ٹھکانہ ہے) ۔ 


وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰى(40)


لیکن وہ جو اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہونے کا خوف رکھتا تھا اور اپنے نفس کو بری خواہشات سے روکتا تھا۔


فَاِنَّ الْجَنَّةَ ھِيَ الْمَاْوٰى (41)


 تو جنت ہی اس کا ٹھکانا ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اہل جنت کی دو علامات: 

.1وہ شخص جنتی ہے جسے ہر وقت ، ہر کام کے دوران یہ خوف ہو کہ ایک دن الله تعالی کے سامنے مجھے اس کام کا حساب دینا ہے۔ 

.2 جو اپنے نفس پر اس طرح قابو پا لے کہ ناجائز اور حرام کام کرنا تو دور کی بات اس کی خواہش سے بھی خود کو روک لے۔

جس شخص میں یہ دونوں خصوصیات پیدا ہو جائیں اس کو یہ خوش خبری ہے۔ فانّ الجنة ھی المأوٰی ( پس بے شک جنت اس کا ٹھکانہ ہے) 

دونوں شرائط کا تعلق ایک ہی بات سے ہے جسے الله کے سامنے ہر کام کا جواب اور حساب دینے کا خوف ہوگا وہ اپنے نفس کو ناجائز خواہشات سے یقینا روک کر رکھے گا۔ کیونکہ درحقیقت  الله کا خوف ہی انسان کو اتباع ھوا یعنی خواہشات کی پیروی سے روک سکتا ہے۔ 


يَسْــئَــلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَيَّانَ مُرْسٰـىهَا (42)


یہ لوگ تم سے قیامت کی گھڑی کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ وہ کب قائم ہوگی ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

جب کافروں کے سامنے قیامت کے ھولناک حالات اور جزا و سزا کا ذکر کیا جاتا ہے تو وہ فوراً سوال کرتے ہیں کہ اچھا قیامت کے آنے کا وقت تو بتا دو جب قیامت کا آنا لازم ہے تو پھر اس کا کوئی مقرر وقت بھی ہوگا، ہمیں اس وقت کی خبر دو۔ یہ ان کا احمقانہ سوال ہے اور ایسا ہی سوال ہے جیسے کسی بیمار کا علاج کرنے والا طبیب اس سے کہے تمہیں خطرناک بیماری ہے اس کا علاج کرواؤ۔ مریض علاج کروانے کی بجائے اپنے ڈاکٹر سے پوچھنے لگے مجھے بتاؤ میں کب مروں گا؟  حالانکہ اس کو علاج پر توجہ دینی چاہیے۔ 


 فِيْمَ اَنْتَ مِنْ ذِكْرٰىهَا (43)


 تمہارا یہ بات بیان کرنے میں کیا کام ؟


اِلٰى رَبِّكَ مُنْتَهٰهَا (44)


اس کا علم تو تمہارے پروردگار پر ختم ہے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

کفار اور مشرکینِ مکہ چونکہ بار بار نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے قیامت کے احوال  اور اس کے واقع ہونے کے وقت کے متعلق سوال کرتے تھے اسی لیے نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم بھی جبرائیل علیہ السلام سے بار بار قیامت کے بارے میں پوچھتے۔ الله سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں: آپ کس چیز میں پڑے ہوئے ہیں؟ آپ قیامت کے متعلق کیوں کثرت سے سوال کر رہے ہیں ؟ آپ بار بار اس کے متعلق سوال نہ کریں کیونکہ مصلحت کی وجہ سے ہم نے اس کا وقت پوشیدہ رکھا ہے کسی کو اس کی خبر نہیں دی۔ وقت سے پہلے ان کو خبر دے بھی دی جائے تب بھی یہ نہیں مانیں گے بلکہ قیامت کو دور سمجھ کر خوب گناہوں اور نافرمانی میں مشغول ہو جائیں گے۔ 

قیامت کے علم کی انتہاء صرف الله جل جلالہ کے پاس ہے۔ صرف وہ ہی جانتا ہے کہ کب قیامت واقع ہو گی اور اس نے قیامت کے واقع ہونے کا علم کسی کو نہیں دیا۔ 



اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرُ مَنْ يَّخْشٰىهَا (45) 


جو شخص اس سے ڈرتا ہو، تم تو صرف اس کو خبردار کرنے والے ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الله تعالی فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا مقصد قیامت کا وقت بتانا نہیں بلکہ آپ کو قیامت کی سختیوں اور جزا و سزا سے ڈرانے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ اگرچہ آپ کو تمام عالم کے لیے بھیجا گیا ہے لیکن آپ  انہی کو ڈرائیں جو اپنے دل میں الله اور آخرت کا ڈر رکھتے ہیں اور وہی آپ کے ڈرانے کا اثر قبول کریں گے۔ 


 كَاَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَهَا لَمْ يَلْبَثُوْٓا اِلَّا عَشِـيَّةً اَوْ ضُحٰىهَا (46)


جس دن یہ اس کو دیکھ لیں گے، اس دن انہیں ایسا معلوم ہوگا جیسے وہ (دنیا میں یا قبر میں) ایک شام یا ایک صبح سے زیادہ نہیں رہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

کفار اس وقت تو شور مچا رہے ہیں کہ قیامت کیوں نہیں آتی؟ کب آئے گی ؟ جلدی لے آؤ! وغیرہ لیکن جس وقت قیامت آ جائے گی۔  کفار و مشرکین اس کی ہولناکی اور عذاب دیکھیں گے جو ہمیشہ رہنے والا ہوگا۔ پھر دنیا کی زندگی یاد کریں گے۔ اس وقت انہیں ایسا محسوس ہوگا گویا دنیا میں بہت مختصر وقت گزارا ہے۔ صرف شام کے وقت یا صبح کے وقت ہی رہے ہیں۔ قیامت کے واقع ہوجانے کی حقیقت محسوس ہونے کے بعد دنیا کی زندگی انتہائی مختصر اور حقیر معلوم ہو گی۔ 


خلاصہ مضامین  سورة النازعات 


یہ سورة چھیالیس آیات پر مشتمل ہے۔ سورت النازعات کا مرکزی مضمون مرنے کے بعد زندہ ہونے کا اثبات ہے۔ 

ابتداء ان فرشتوں سے کی گئی ہے جو اس کائنات کے معاملات کو منظم طریقے سے چلاتے ہیں۔ اچھے برے ، نیک اور بدکار انسانوں کی جان نکالتے ہیں۔  پھر مشرکین مکہ کے اعتراض کے جواب میں قیامت کی ہولناکی اور بغیر کسی مشکل کے اللہ کے صرف ایک حکم پر قبروں سے نکل کر باہر آ جانے کا ذکر ہے۔ مزید وضاحت کے لیے واقعات کی گواہی پیش کی گئی۔ جس طرح  اللہ جل جلالہ نے فرعون جیسے ظالم و جابر کو حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے وسائل سے محروم شخص کے ہاتھوں شکست دے کر اسے سمندر میں غرق کردیا۔ جو آسمانوں جیسی عظیم الشان مخلوق کو وجود میں لایا  وہ انسان کو مرنے کے بعد زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔ 

جنت اور جہنم کا ذکر کرنے کے بعد، صبح و شام کسی بھی وقت قیامت اچانک قائم ہو جانے کے اعلان پر سورت کا اختتام کیا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

سورۃ البلد:13، عم پارہ

سورۃ البلد    اسماء سورة بلد کا معنی  شہر ہے۔ اس سورت کی پہلی آیت میں   اللّٰہ  تعالیٰ نے  شہر مکہ کی قسم کھائی  ہے اس مناسبت سے اسے ’’سورہ...