بدھ، 11 نومبر، 2020

تعوذ و تسمیہ کا بیان

 تعوّذ کے احکام و مسائل 

تعوّذ کے معنی ہیں ۔۔۔ اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ ۔۔۔ پڑھنا ۔ 

قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالٰی ہے ۔

فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیمِ ۔ یعنی جب تم قرآن پڑھنے لگو تو الله تعالٰی کی پناہ مانگو شیطان مردود کے شر سے۔ 

تلاوتِ قرآن مجید سے پہلے تعوّذ پڑھنا باجماعِ امت  " سنت " ہے خواہ تلاوت نماز کے اندر ہو یا باہر  ۔  تعوذ پڑھنا تلاوتِ قرآن  کے ساتھ مخصوص ہے ۔  تلاوت کے علاوہ دوسرے کاموں کے شروع میں صرف بسم الله  پڑھی جائے گی ۔ تعوذ پڑھنا مسنون نہیں۔


  1. جب قران مجید کی تلاوت شروع کی جائے تو اس وقت اعوذ بالله اور بسم الله دونوں پڑھی جائیں۔
  2. تلاوتِ قرآن مجید کے درمیان میں جب ایک سورۃ ختم ہو کر دوسری سورۃ شروع ہو تو سورۃ توبہ کے علاوہ ہر سورۃ کے شروع میں دوبارہ  بسم الله پڑھی جائے۔
  3.   اگر قرآن مجید کی تلاوت سورۃ توبہ ہی سے شروع کر رہے ہوں تو اس کے شروع میں اعوذ بالله اور بسم الله پڑھنی چاہیے۔



بسم الله الرحمٰن الرحیم 

شروع الله کے نام کے ساتھ جو بڑا مہربان ، نہایت رحیم ہے۔ 


بسم الله والی آیة کو تسمیہ کہتے ہیں۔ جب بھی نبی کریم صلی الله علیہ وسلم پر کوئی سورة نازل ہوتی تو اس سے پہلے تسمیہ نازل ہوتی۔ جس سے آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم  کو علم ہو جاتا کہ پہلی سورة ختم ہو گئی ہے اور نئی سورة شروع ہو رہی ہے۔ 


فضائلِ تسمیہ

اس آیہ مبارکہ میں الله تعالٰی کے تین نام بیان کئے گئے ہیں ۔ اللهُ ۔ رَحْمٰنٌ ۔ رَحِیْمٌ ۔ 

اَللهُ ۔۔۔۔

 الله ایسا نام ہے جو صرف اُسی کی ذات کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ کسی اور کو اس نام سے نہیں پکارا جاتا ۔ 

اسے اسم ذات کہتے ہیں ۔ 

الله لفظ کا تثنیہ اور جمع نہیں آتا ، کیونکہ الله ایک ہے۔ اسکا کوئی شریک نہیں ۔ الله ہی وہ ذات ہے جس نے سب کچھ پیدا کیا۔ زمین ، آسمان، دریا ، پہاڑ، پیڑ پودے، ستارے، چاند، سورج غرض ہر چیز الله تعالی نے پیدا کی ہے ۔ اسی کی قدرت سے چاند اور ستارے روشن ہوتے ہیں ۔  اُسی کے حکم سے پرندے اُڑتے ہیں ۔ وہی بارش برساتا ہے اور ہر قسم کا اناج  اُگاتا ہے ۔ 


رَحْمٰنٌ ۔۔۔۔ ( بہت مہربان )  یہ الله تعالٰی کا صفاتی نام ہے ۔ لفظ رَحمٰن الله تعالٰی کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے ۔ مخلوق میں سے کسی کو رحمٰن کہنا جائز نہیں ۔ کیونکہ صرف الله تعالٰی ہی کی ذات ایسی ہے جس کی رحمت سے دنیا کی کوئی چیز خالی نہیں ۔ لفظ الله کی طرح لفظ رحمٰن کا بھی تثنیہ اور جمع نہیں آتا ۔  یہ اسکی عام رحمت کا اظہار ہے یعنی وہ سب پر ایک جیسا مہربان ہے۔  ہوا بارش ، دریا ، پہاڑ ، چاند ستارے اور اس کی بے شمار مہربانیاں  انسان اورجانور ، نیک اور بد ، کافر و مسلمان سب کے لیے ہیں ۔ اور وہ بغیر مانگے ہم پر بے شمار انعام فرماتا ہے ۔ 

رَحِیْمٌ ۔۔۔۔ ( نہایت رحم کرنے والا ) یہ الله تعالٰی کا دوسرا صفاتی نام ہے ۔ اور اسکی خاص رحمت کا اظہار ہے ۔ وہ خاص طور پر اپنے بندوں سے مہربانی کرتا ہے۔ ایک نیکی کے بدلے میں ستّر بلند درجے عطا کرتا ہے ۔ 

رحمٰن اور رحیم میں فرق 

مفسرین کرام کے اس میں چند قول ہیں ۔ 

۱۔ دونوں مبالغے کے صیغے ہیں۔ کوئی فرق نہیں ۔

۲۔ رحمٰن میں زیادہ مبالغہ ہے۔ کیونکہ رحمٰن کا مطلب ایسی رحمت کرنے والی ذات کے ہیں کہ اس جیسی رحمت کوئی اور نہیں کر سکتا اور یہ صرف الله سبحانہ وتعالی کے لیے خاص ہے۔ 

۳- رحمان عام ہے خواہ دنیا میں ہو خواہ آخرت میں اور رحیم آخرت میں مؤمنوں کے لیے  خاص ہے۔ 



١۔ آپ صلی الله علیہ وسلم پر جب یہ آیت یعنی تسمیہ نازل ہوئی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ سے پہلے سوائے حضرت سلیمان علیہ السلام کے کسی نبی پر یہ آیت نازل نہیں ہوئی۔ 

٢-حدیث مبارکہ ہے؛ جس کا مفہوم یہ ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب کوئی کام شروع کرتے تو اس سے پہلے  بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ پڑھ لیا کرتے تھے ۔ 

بسم الله پڑھنے میں ایک حکمت یہ ہے کہ اس میں انسان کی زندگی کا رُخ پورا کا پورا الله سبحانہ وتعالی کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ جب ہم اسکا نام لے کرکسی کام میں ہاتھ ڈالیں گے تو گویا ہم یہ کہیں گے ۔ کہ میرا دل بالکل پاک ہے ۔ میری نیت میں پورا خلوص ہے ۔ میرا مقصد اعلٰی ہے ۔ میں صرف الله کا بندہ ہوں اور شرک سے پوری طرح بیزار ہوں ۔

جب الله تعالٰی رحمٰن اور رحیم ہے ۔ تو ہمیں اسی کی رحمت پر بھروسہ کرنا چاہئے ۔ ہمت نہ ہارنی چاہئے ۔ اور ڈرپوک بن کر پیچھے نہ ہٹنا چاہئے ۔ جب ہم اس طرح الله کی رحمت پر توکّل کریں گے ۔ تو ہر کام میں یقیناً کامیاب ہوں گے ۔ اسی لئے پیارے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ارشاد مبارک کا مفہوم ہے ۔ اگر کسی کام کے شروع کرتے وقت بسم الله نہ پڑھی جائے تو اس کام میں الله تعالٰی کی برکت شامل نہیں ہو گی ۔ اور اس سے دل کو اطمینان نہیں ملے گا۔ 


بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ کا حکم :-

 تسمیہ قرآن مجید میں سورۃ نمل کی آیۃ کا حصہ ہے، اور دو سورتوں کے درمیان ایک مستقل آیۃ ہے ۔ اسلئے اسکا احترام کرنا قرآن مجید ہی کی طرح واجب ہے ۔ اسکو وضوکے بغیر ہاتھ لگانا جائز نہیں ۔  حیض و نفاس اور جنابت کی حالت میں اس کی تلاوت کرنا جائز نہیں ۔ 

البتہ کسی کام کے شروع کرنے سے پہلے مثلا  کھانے پینے سے پہلے بطورِ دُعا پڑھنا ہر حال میں جائز ہے


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

سورۃ البلد:13، عم پارہ

سورۃ البلد    اسماء سورة بلد کا معنی  شہر ہے۔ اس سورت کی پہلی آیت میں   اللّٰہ  تعالیٰ نے  شہر مکہ کی قسم کھائی  ہے اس مناسبت سے اسے ’’سورہ...