پیر، 16 نومبر، 2020

سورۃ عبس:3 ۔ عم پارہ

 سورة عبس 

اسماء سورة: 

سورة عبس چھیالیس آیات پر مشتمل ہے۔ اس سورة کا مشہور نام عبس ہے۔ اس کے علاوہ اسے سورة الصاخہ اور سورة مسفرہ بھی کہتے ہیں۔ 


روابط

  1. سورة عبس سے پہلی سورة یعنی سورة النازعات میں قیامت کے واقع ہونے کا بیان تھا اب سورة عبس میں بھی قیامت کے مضمون کا بیان ہے جو اس سورة کے آخر میں ذکرکیا گیا ہے۔ 
  2. سورة النازعات کے آخر میں بتایا گیا تھا۔ آپ کا یہ کام نہیں کہ آپ منکروں اور کافروں کو قیامت کا وقت بتائیں؛ بلکہ آپ قیامت کی سختی اور مصائب سے ڈرنے والوں کو ڈرانے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ (انما انت منذر من یخشٰھا) اب سورة عبس کے شروع میں نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو محبوبانہ انداز میں تنبیہ کی گئی ہے کہ آپ ان کفار کی ھدایت کے لیے اس قدر مشقت کیوں اٹھا رہے ہیں جب کہ ان میں ایمان کی طلب یا چاہت ہی نہیں ہے۔ منافقین و کفار پر توجہ کرنے کی بجائے آپ ھدایت و رہنمائی کا شوق رکھنے والے مخلص لوگوں کی طرف توجہ کریں۔ سورة عبس میں آپ صلی الله علیہ وسلم کو آپ کی اس ذمہ داری کی طرف پوری طرح متوجہ کیا گیا ہے۔ 
  3. سورة النازعات میں فرعون کے تکبر اور سرکشی و انکار کا بیان تھا اب سورة عبس میں ایک ھدایت کے طلب گار نابینا صحابی کے شوق ، عاجزی اور خاکساری کا بیان ہے۔ 
  4. پچھلی سورة میں انعاماتِ خداوندی کا ذکر تھا۔ اس سورة میں بھی نعمتوں کا ذکر ہے۔ 
  5. پچھلی سورة میں زمین اور آسمان کی تخلیق کا بیان تھا۔ اس سورة میں تخلیقِ انسانی کا ذکر ہے۔ 

لفظی روابط: 

اسی طرح دونوں سورتوں میں لفظی ربط بھی موجود ہے۔ 


  1. فَقُلْ هَلْ لَّكَ اِلٰٓى اَنْ تَـزَكّٰى (النازعات)


اور اس سے کہو کہ کیا تمہیں یہ خواہش ہے کہ تم سنور جاؤ ؟



وَمَا يُدْرِيْكَ لَعَلَّهٗ يَزَّكّىٰٓ (عبس)


 اور (اے پیغمبر) تمہیں کیا خبر ؟ شاید وہ سدھر جاتا۔


  1. آیت: اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرُ مَنْ يَّخْشٰىهَا (النازعات) 

 جو شخص اس سے ڈرتا ہو، تم تو صرف اس کو خبردار کرنے والے ہو۔


وَاَمَّا مَنْ جَاۗءَكَ يَسْعٰى (عبس)


اور وہ جو محنت کر کے تمہارے پاس آیا ہے۔


  1. فَاِذَا جَاۗءَتِ الطَّاۗمَّةُ الْكُبْرٰى (النازعات)


پھر جب وہ سب سے بڑا ہنگامہ برپا ہوگا۔


فَاِذَا جَاۗءَتِ الصَّاۗخَّةُ (عبس)


آخر جب وہ کان پھاڑنے والی آواز آ ہی جائے گی۔  (اس وقت اس ناشکری کی حقیقت پتہ چل جائے گی)



شانِ نزول 


ایک مرتبہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں قریش کے کچھ سردار بیٹھے تھے اور آپ انہیں اسلام کی دعوت دے رہے تھے۔ روایات میں ان کے نام عتبہ، شیبہ، ابو جہل، امیہ بن خلف اور ابی بن خلف ملتے ہیں۔ یہ لوگ بعد میں اسلام اور پیغمبر اسلام کے بدترین دشمن ثابت ہوئے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت اس زمانے میں نازل ہوئی تھی، جب قریشی سردار اسلام دشمنی کی آخری حد تک نہیں پہنچے تھے۔ اسی گفتگو کے دوران عبداللہ بن ام مکتوم آپ کے پاس تشریف لائے۔ یہ  سیدہ خدیجہ رضی الله عنھا  کے پھوپھی زاد بھائی تھے اور ابتداء میں قبولِ اسلام  کرنے والوں سے تھے۔ چوں کہ نابینا تھے اس لیے ان کو معلوم نہ تھا کہ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم سردارانِ قریش سے گفتگو فرما رہے ہیں۔  انہوں نے آتے ہی زور زور سے آوازیں دینی شروع کر دیں۔ یا رسول اللہ صلی الله علیہ وآلہ وسلم اقرءنی و علمنی مما علمک الله ( مجھے پڑھائیے اور اس علم میں سے مجھے بھی سکھائیے  جو آپ کو الله نے سکھایا ہے) رسول اللہ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو ناگوار محسوس ہوا۔ اس ناگواری کے اثرات آپ کے چہرہ پر بھی نمودار ہوگئے۔ آپ نے سیدنا عبداللہ کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور انہیں خاموش کرا دیا۔ وجہ یہ تھی کہ آپ عبداللہ ابن مکتوم کی طرف سے مطمئن تھے کہ وہ خالص مومن ہیں انہیں بعد میں سمجھا لینگے۔  اگر ان سرداروں میں سے کوئی ایک بھی اسلام کے قریب آگیا تو اس سے اسلام کو خاصی تقویت پہنچ سکتی ہے اسی وجہ سے آپ قریشی سرداروں کی طرف متوجہ  رہے۔ جب آپ بات چیت سے فارغ ہو کر گھر جانے کے لیے کھڑے ہوئے اس وقت آپ پر وحی نازل ہوئی جس میں آپ کو تنبیہ کی گئی۔ 

پہلی آیت میں صیغہ واحد مذکر غائب استعمال کیا گیا پھر تیسری آیت میں آپ کو براہ راست مخاطب کیا گیا ہے جس سے ایک تو کلام میں حسن پیدا ہوگیا اور دوسرے تنبیہ  کے انداز کو انتہائی نرم کردیا گیا۔ 

نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو بتایا گیا کہ جو نابینا شخص آپ کے پاس ھدایت کی سچی خواہش لے کر علم کی پیاس بجھانے آیا ہے آپ پہلے اس کی بات سنیں اور اس کی تشنگی دور کریں ان کفار کو چھوڑ دیں جو اسلام سے بے پرواہ ہیں اور اپنی ھدایت و اصلاح کی چاہت ہی نہیں رکھتے۔ اس تنبیہ  میں  دعوت حق کی تبلیغ کے طریق کار کی اصلاح کی گئی ہے اور حق کی تبلیغ کا ایک اہم  اصول واضح کیا گیا ہے۔ دعوت کے لیے توجہ کا سب سے پہلا مستحق وہ ہے جو خود ہدایت کی طلب اور خواہش رکھتا ہو۔ 

 اس واقعہ کے بعد نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم سیدنا عبداللہ ابن ام مکتوم رضی الله عنہ کا بڑا اکرام فرماتے جب بھی وہ آپ کے پاس آتے آپ فرمایا کرتے مَرحَبَا بِمَنْ عَاتَبَنِی فِیْہِ رَبِّی (خوش آمدید اس شخص کو جس کے بارے میں اللہ نے مجھے تنبیہ کی) اور فرماتے ھل لک حاجة ( اپنی حاجت بیان کیجیے)

آپ نے مدنی زندگی میں کئی بار ان کو مدینہ میں اپنا نائب اور حاکم بنایا جب آپ جہاد وغیرہ کے سلسلہ میں مدینہ سے باہر جاتے تھے۔ عبد الله ابن ام مکتوم رضی الله عنہ نابینا ہونے کے باوجود جہاد میں عملاً حصہ لیا کرتے تھے اور بعض روایات کے مطابق حضرت عمر رضی الله عنہ کے دور میں جنگ قادسیہ میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔


عَبَسَ وَتَوَلّىٰٓ (1)


(پیغمبر نے) منہ بنایا، اور رخ پھیرلیا۔


 اَنْ جَاۗءَهُ الْاَعْمٰى(2)


 اس لیئے کہ ان کے پاس وہ نابینا آگیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ آپ چیں بچیں ہوئے ، تیوری چڑھا لی۔ ایک نابینا مسکین آدمی جو سیکھنے کی سچی خواہش لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے اس سے رُخ پھیر لیا۔ 

نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی اس ناگواری اور رُخ موڑنے کی کچھ وجوھات بیان کی گئی ہیں۔ 

  1. آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے سوچا عبد الله میرے جان نثار اور مخلص ساتھی ہیں۔ جس وقت چاہیں میرے پاس آ سکتے ہیں اگر ان کے سوال کا فورا جواب نہ بھی دیا جائے تو کوئی نقصان نہیں ہوگا لیکن اگر کافروں سے اعراض اور بے توجہی کی گئی تو وہ اُٹھ کر چلے جائیں گے اور ایمان سے محروم رہ جائیں گے۔ یہ سردار جو اس وقت غور سے میری بات سن رہے ہیں شاید کہ اسلام قبول کر لیں۔
  2. آپ صلی الله علیہ وسلم نے خیال فرمایا کہ کفر و شرک بظاہر بڑے گناہ ہیں ان کا ازالہ مقدم ہے بنسبت ایک دینی مسئلے کے، جو عبد الله ابن ام مکتوم پوچھنا چاہتے تھے۔
  3. عبد الله ابن ام مکتوم کا بار بار سوال کرنا آدابِ مجلس کے خلاف تھا۔ آپ نے ادب سکھانے کے لیے اعراض کیا۔

لیکن الله تعالی کو نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی یہ بات پسند نہ آئی اس لیے الله نے آپ کو تنبیہ فرمائی۔ 

اس تنبیہ و سرزنش کی بھی چند وجوھات بیان کی گئی ہیں۔

  1. بظاہر تو نبی کریم صلی الله علیہ و آلہ وسلم کفر و شرک کے خاتمے کی کوشش کر رہے تھے جو کہ بہت اہم تھا لیکن جو مخاطب تھے ان میں اخلاص اور سچی طلب نہیں تھی جب کہ نابینا صحابی سچے اور مخلص طالب تھے ۔
  2. عبد الله بن ام مکتوم کو جواب دینے میں فائدہ یقینی تھا وہ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی بات سن کر اس پر ضرور عمل کرتے۔ جب کہ کفار سے گفتگو کا فائدہ غیر یقینی تھا،  شاید وہ آپ کی گفتگو سن کر ایمان لے آتے  یا شاید وہ ایمان نہ لاتے۔ 


وَمَا يُدْرِيْكَ لَعَلَّهٗ يَزَّكّىٰٓ (3)


اور (اے پیغمبر) تمہیں کیا خبر ؟ شاید وہ سدھر جاتا۔


 اَوْ يَذَّكَّرُ فَتَنْفَعَهُ الذِّكْرٰى (4)


یا وہ نصیحت قبول کرتا، اور نصیحت کرنا اسے فائدہ پہنچاتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آیت کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نہیں جانتے کہ یہ صحابی جو بات پوچھ رہے ہیں اگر آپ انہیں سکھا دیتے یا بتا دیتے تو اس کا ضرور فائدہ ہوتا۔

 آپ سے سیکھ کر وہ اپنے نفس کا تزکیہ کر لیتے اور نفس کو ظاہری اور باطنی گندگی سے پاک کرکے اس کی صفائی کر لیتے۔ نفس کے تزکیہ سے ان کا ایمان مزید مضبوط ہوتا یا وہ ایمان میں کمال حاصل کرتے اور اگر کمال حاصل نہ بھی کرتے تو کچھ نہ کچھ نصیحت تو ضرور حاصل کر لیتے۔ ان کے دل میں الله کی عظمت اور خوف پیدا ہوجاتا، یعنی نابینا صحابی کے سوال کا جواب دینے کی صورت میں ہر لحاظ سے یقینی فائدہ تھا۔ 

سوال : یزّکّٰی  اور یذَّکَّرُ  میں کیا فرق ہے؟ 

جواب: یزّکّی کا معنی پاک صاف ہو جانا ہے۔ یعنی نفس کو ظاہری اور باطنی ہر طرح کی گندگی سے پاک کر لینا اور یہ متقین کا مقام ہے۔ ” یزکی “ میں مبالغہ ہے، یہ کہ آپ کی نصیحت سے انہیں ضرور نفع حاصل ہوجائے۔


یذّکّر ھدایت کے راستے پر چلنے کا ابتدائی حال ہے۔ یعنی اسلام قبول کرنے کے بعد مبتدی کو یاد الہی اور نصیحت کی جاتی ہے جس سے دل میں الله کا خوف اور محبت جگہ بناتی ہے اور دین پر عمل کرنے کی خواہش بڑھتی ہے۔ 

صحابی کو ان دونوں میں سے ایک کا حاصل ہو جانا یقینی تھا بلکہ دونوں بھی حاصل ہو سکتے تھے جبکہ کفار کے دلوں میں تو ابھی اسلام داخل بھی نہیں ہوا تھا۔ خوف ناک بیماری میں مبتلا شخص کا علاج مقدم ہونا چاہیے؛ لیکن اگر وہ دوا لینے پر آمادہ ہی نہ ہو تو اس امید میں آپ اپنے ساتھیوں سے کیوں بےتوجہی کریں، جو دوائے دل کے طالب ہیں کہ آپ توجہ فرمایئں تو وہ جہل اور گناہ سے خوب پاک صاف ہوجائیں۔


یُدریک  سے خاص طور پر نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کیا گیا ہے۔ یہ آپ کی دلجوئی اور عزت و تکریم ہے، اگر مسلسل غائب کا صیغہ استعمال کیا جاتا تو یوں محسوس ہوتا کہ آپ کے طرزعمل کی ناپسندیدگی کی وجہ سے آپ کو مخاطب نہیں کیا جا رہا اور یہ بات نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے لیے رنج و صدمے کا سبب ہوتی۔ پس پہلے غائب صیغہ اور پھر مخاطب صیغہ دونوں میں نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا اکرام ہے۔(معارف)


تبلیغ و تعلم کے لیے ایک قرآنی اصول: 

اس موقع پر نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے سامنے دو کام آ گئے تھے۔

  1. مسلمان کی تعلیم اور دل جوئی
  2. غیر مسلم کی ھدایت کے لیے ان کی طرف توجہ

ارشادِ ربانی سے یہ واضح ہو گیا کہ پہلا کام مقدم ہے اور دوسرے کام کی وجہ سے پہلے میں تاخیر کرنا یا کمی کوتاہی کرنا درست نہیں۔ 

چنانچہ مسلمانوں کی تعلیم و اصلاح کی فکر کرنا غیر مسلم کو اسلام میں داخل کرنے کی فکر سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ 

ایک اہم بات: غیر مسلموں کو اسلام کی طرف متوجہ کرنے اور ان کے شبہات دور کرنے کے لیے ایسے کام کرنا جن سے مسلمانوں میں شبہات یا شکایات پیدا ہوں درست نہیں۔ بل کہ قرآنی ہدایت کے مطابق اصلاح علم اور حفاظتِ علم کو ترجیح دینی چاہیے اور اس کام کو پہلے کرنا چاہیے۔ 


بے وفا سمجھیں تمہیں اہلِ حرم اس سے بچو!

دیر والے کج ادا کہہ دیں یہ بدنامی بھلی 

(اکبر)



اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰى(5)


وہ شخص جو بے پروائی دکھا رہا تھا۔


فَاَنْتَ لَهٗ تَصَدّٰى (6)


اس کے تو تم پیچھے پڑتے ہو۔


وَمَا عَلَيْكَ اَلَّا يَزَّكّٰى (7)


حالانکہ اگر وہ نہ سدھرے تو تم پر کوئی ذمہ داری نہیں آتی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الله سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں آپ یقینی فائدے کو چھوڑ کر امکان کے پیچھے جا رہے ہیں اور ایسے شخص کی ھدایت کی کوشش کر رہے ہیں جو آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے دین کا طالب نہیں ہے۔ وہ آپ اور آپ کے دین سے بے رُخی اور بے نیازی اختیار کر رہا ہے، اگر اسلام قبول نہیں کرتا اور اپنا تزکیہ نہیں کرتا تو آپ مکلف نہیں؛ کیونکہ آپ نے تبلیغ کر کے اپنا فرضِ منصبی پورا کر دیا ہے۔ 


 وَاَمَّا مَنْ جَاۗءَكَ يَسْعٰى(8)


اور وہ جو محنت کر کے تمہارے پاس آیا ہے۔


 وَهُوَ يَخْشٰى (9)


 اور وہ دل میں اللہ کا خوف رکھتا ہے۔


فَاَنْتَ عَنْهُ تَلَهّٰى (10)


اس کی طرف سے تم بےپروائی برتتے ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے شوق سے دوڑتا ہوا آیا ہے۔ یعنی اندھا ہونے کے باوجود کوشش کرکے محض اسلام کی باتیں سمجھنے کے لیے آپ تک پہنچا، اس کا کوئی ہاتھ پکڑنے والا بھی نہیں تھا اور اسے یہ بھی اندیشہ تھا کہ کہیں کسی گڑھے میں نہ گرجائے یا کسی چیز سے ٹکرا کر گرپڑے،  یا راہ میں اسلام دشمن لوگ اسے ستائیں تو وہ کیا کرے گا اور اس کے دل میں الله کا ڈر اور محبت بھی ہے آپ اس کی طرف توجہ نہیں فرماتے، حالاں کہ یہی شخص توجہ کے قابل ہے۔ 

خشی، الخشیۃ  ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے،  پھر جان لینے کے بعد انسان اس سے ڈرتا ہے۔

ان آیات میں واضح طور پر رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کوبتایا گیا کہ دعوتِ حق میں اصل اہمیت کس چیز کی ہونی چاہیے۔ اہمیت اس بات کی  نہیں کہ کون ایمان لے آئے تو دین کے لیے مفید ہو سکتا ہے اور کس کا ایمان لانا دین کے لیے مفید نہیں۔ بلکہ دیکھنا یہ چاہیے کہ کون ہدایت کو قبول کر کے سدھرنے کے لیے تیار ہے اور کون اس قیمتی دولت کا قدر دان ہی نہیں ہے ۔ دعوت حق کا اصل مقصد بندگان خدا کی اصلاح ہے۔ 

ان آیات سے یہ معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کرکے ان کو پکا مسلمان،  قوی مؤمن بنانا اور پورا کا پورا اسلام میں داخل کرنا غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینے اور اسلام میں داخل کرنے کی فکر سے زیادہ اہم اور ضروری ہے۔ 

یہ بھی معلوم ہوا کہ دعوت و تبلیغ میں کسی کو خاص نہیں کرنا چاہیے بلکہ صاحب حیثیت اور بےحیثیت، امیر اور غریب، آقا اور غلام مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے سب کو یکساں حیثیت دی جائے اور سب کو مشترکہ خطاب کیا جائے۔

یعنی تعداد سے زیادہ معیار کی اہمیت ہے اور معیار پر سمجھوتا ممکن نہیں۔ 



 كَلَّآ اِنَّهَا تَذْكِرَةٌ (11)


ہرگز ایسا نہیں چاہیے۔ یہ قرآن تو ایک نصیحت ہے۔


فَمَنْ شَاۗءَ ذَكَرَهٗ (12)


اب جو چاہے، اس سے نصیحت قبول کرے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس آیت مبارکہ میں الله سبحانہ وتعالی نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو منع فرما رہے ہیں کہ آپ آئندہ کبھی ایسا نہ کیجیے۔ اپنے ساتھیوں سے بے رُخی نہ برتیے، مخلص مؤمنوں  کو چھوڑ کر منافقوں  اور مشرکوں  کی طرف متوجہ نہ ہوں بلکہ مؤمنوں کو ترجیح دیں۔ 

قرآن مجید ایک نصیحت ہے اور آپ کے ذمہ صرف اس کی تبلیغ ہے۔ آپ کا کام پہنچا دینا ہے اب جس کا دل چاہے وہ قبول کرے جس کا دل چاہے نہ قبول کرے۔ اگر قبول نہیں کرے گا تو آپ پر کچھ گرفت نہیں، آپ اس سلسلے میں ،مشقت و تکلیف میں نہ پڑیں۔ 

ذَکَرَہ، کا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو چاہے اس سے نصیحت حاصل کرے اور یہ بھی کہ جو شخص چاہے قرآن کی نصیحت کی باتوں کا بار بار تذکرہ کرتا رہے اور یہ بھی کہ قرآن کو زبانی یاد کرلے۔ غرض قرآن کو پڑھنا، اس کی نصیحت پر عمل کرنا اور اسے زبانی یاد کرنا سب بڑے اجر وثواب کے کام ہیں۔



فِيْ صُحُفٍ مُّكَرَّمَةٍ (13)


وہ ایسے صحیفوں میں درج ہے جو بڑے مقدس ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس سے قرآن مجید کے وہ اوراق مراد ہیں جن میں سے فرشتوں نے لوح محفوظ سے نقل کر کے لکھا، وہ بھی جن میں کاتبینِ وحی  صحابہ کرام رضوان الله علیھم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سن کر لکھا اور وہ بھی جن میں ان سے نقل کر کے لکھا گیا اور قیامت تک لکھا جائے گا۔ 


مَّرْفُوْعَةٍ مُّطَهَّرَةٍۢ (14)


اونچے رتبے والے ہیں، پاکیزہ ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان آیات میں قرآن مجید کی صفات ، شان اور عظمت کا بیان ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ قرآن مجید ایسے صحیفوں میں محفوظ ہے جو مکرم یعنی مقبول اور پسندیدہ ہیں۔ یہ صحیفے بلند مرتبہ، عالی شان ہیں۔ متبرک، اعلی اور بلند مقام پر ہیں یعنی عرش کے نیچے لوح محفوظ پر ہیں اور یہ کہ قرآن مجید ہر قسم کی آمیزش سے پاک ہے ۔ اس میں خالص حق کی تعلیم پیش کی گئی ہے ۔ کسی نوعیت کے باطل و فاسد افکار و نظریات اس میں جگہ نہیں پا سکتے ۔ جن گندگیوں سے دنیا کی دوسری مذہبی کتابیں آلودہ کر دی گئی ہیں ان کا کوئی معمولی سا شائبہ بھی قرآن مجید میں داخل نہیں ہو سکا ۔ انسانی تخیلات ہوں ، یا شیطانی وساوس ، ان سب سے یہ پاک رکھے گئے ہیں ۔

قرآن مجید کی اسی عظمت اور پاکیزگی کی وجہ سے جنبی، حیض و نفاس والی عورت اور بے وضو شخص کا اسے  چھونا جائز نہیں۔


بِاَيْدِيْ سَفَرَةٍ (15)


ان لکھنے والوں کے ہاتھ میں رہتے ہیں۔


كِرَامٍۢ بَرَرَةٍ (16)


جو خود بڑی عزت والے، بہت نیک ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ صحیفے یعنی قرآن مجید ایسے لکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہیں جو نیک اور عزت والے یعنی مکرم ہیں۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید لکھنے والوں کی تعریف بیان کی ہے، خواہ وہ فرشتے ہوں یا کاتبین وحی، صحابہ ہوں یا دوسرے، فرمایا یہ لوگ اللہ کے ہاں بہت عزت والے اور نہایت نیک ہیں۔ 

اگر سفرة (سفارت) بمعنی سفیر یعنی قاصد ہو تو پھر اس میں علماء کرام بھی شامل ہیں۔ کیونکہ علماء نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور امت کے درمیان قاصد اور سفیر ہیں اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات امت تک پہنچانے پر مامور ہیں۔ 

یا ان سے مراد وہ فرشتے ہیں جو قرآن کے ان صحیفوں کو اللہ تعالی کی براہ راست ہدایت کے مطابق لکھ رہےہیں، ان کی حفاظت کر رہے تھے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک انہیں جوں کا توں پہنچا رہے تھے ۔ ان کی تعریف میں دو لفظ استعمال کیے گئے ہیں ۔ پہلا “ کرام” معزز، یعنی وہ اتنی عزت والے ہیں کہ جو امانت ان کے سپرد کی گئی ہے اس میں ذرہ برابر خیانت کا تصور بھی ناممکن ہے ۔  دوسرا لفظ “ بررہ “  نیک ۔ یعنی ان صحیفوں کو لکھنے ، ان کی حفاظت کرنے اور رسول تک ان کو پہنچانے کی جو ذمہ داری ان کے سپرد کی گئی ہے اس کا حق وہ پوری دیانت کے ساتھ انجام دیتے ہیں ۔


قُتِلَ الْاِنْسَانُ مَآ اَكْفَرَهٗ (17)


خدا کی مار ہو ایسے انسان پر، وہ کتنا ناشکرا ہے۔


مِنْ اَيِّ شَيْءٍ خَلَقَهٗ (18)


(وہ ذرا سوچے کہ) اللہ نے اسے کس چیز سے پیدا کیا ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کفار اس عظیم الشان کتاب یعنی قرآن مجید سے نصیحت حاصل نہیں کرتے۔ اس آیت میں اگرچہ مخاطب تمام نوع انسان کو کیا گیا ہے۔ تاہم اس سے مراد انسانوں کی اکثریت یا قرآن کو جھٹلانے والے کافر ہیں۔ اور یہ قرآن کا مخصوص اور مہذبانہ انداز خطاب ہے۔ تاکہ منکرین حق ضد میں آکر مزید چڑ نہ جائیں بلکہ اصل حقائق پر غور و فکر کریں۔ ان آیات میں ان کو شرم دلا کر ان کی مذمت کی گئی ہے۔ انکار کی وجہ عموما انسان کا غرور اور تکبر ہے۔ الله سبحانہ وتعالی انسان کو اس کی اصل بتا کر اس کی حقیقت جتا رہے ہیں۔ انسان دیکھے الله نے اسے کس حقیر اور گندے پانی کے قطرے سے پیدا کیا، پھر پیدائش سے موت تک  بے شمار انعامات سے نوازا ،  اس کے باوجود انسان ناشکر گزار ہے۔ اس لیے فرمایا انسان پر الله کی مار ہو! (جملہ بد دعائیہ) یہ انسان کتنا ناشکرا ہے کہ اپنے خالق کے بے شمار انعامات کے باوجود اس پر ایمان نہیں لاتا۔ اے انسان! ذرا بتا تو سہی تجھے کس چیز سے پیدا کیا گیا ؟ 



مِنْ نُّطْفَةٍ ۭ خَلَقَهٗ فَقَدَّرَهٗ (19)


نطفے کی ایک بوند سے، اسے پیدا بھی کیا، پھر اس کو ایک خاص انداز بھی دیا۔


الله جل جلالہ ہی انسان کا خالق ہے اور وہ خوب جانتا ہے کہ انسان کو کس چیز سے پیدا کیا؛ چنانچہ فرمایا  کہ تجھے پانی کے گندے قطرے سے بنایا گیا، پھر مختلف حالتوں سے گزارنے کے بعد انسان  کی تخلیق خاص اندازے اور بڑی حکمت سے  کی۔ جسامت ، اعضا، قد و قامت، شکل و صورت ، جوڑ و بند ، آنکھ ، ناک ، کان ایک خاص اندازے سے پیدا کیا، ذرا اس کے خلاف ہو جائے تو صورت بگڑ جائے۔ 


“قدّرہ” کی ایک تفسیر یہ بھی بیان کی گئی الله تعالی نے انسان کو پیدا کیا اور اس کا اندازہ مقرر کیا کہ کتنی عمر ہوگی، مال کتنا ہوگا۔ رزق کتنا ملے گا اور کیا کیا عمل کرے گا۔ سعید ہوگا یا شقی۔ 


 ثُمَّ السَّبِيْلَ يَسَّرَهٗ (20)


 پھر اس کے لیے راستہ بھی آسان بنادیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس آیت سے کئی صورتیں مراد ہیں۔ پہلی یہ کہ الله تعالی نے خاص انداز سے انسان کی تخلیق کی۔ اپنی حکمت سے اسے ماں کے پیٹ میں تین اندھیروں کے اندر اس طرح محفوظ رکھا کہ جس کے پیٹ میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے اس کو بھی تفصیل سے اس کا علم نہیں۔ جہاں اس کی تخلیق ہوئی اور جہاں وہ بن کر تیار ہوا وہاں سے دنیا میں آنے کا راستہ باوجود تنگ ہونے کے الله تعالی نے اپنی رحمتِ کاملہ سے ایسا آسان کر دیا کہ دو تین کلو وزنی جسم صحیح سالم برآمد ہوتا ہے۔ عام طور پر ماں کو خاص نقصان نہیں پہنچتا۔ 

فتبارک الله احسن الخالقین۔ (المعارف) 

دوسری مراد  یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو  ایسی قوتیں اور استعداد مہیا کردی کہ وہ دنیا میں موجود وسائل و اسباب سے کام لے کر اپنی زندگی گزار سکے۔

 اور تیسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اسے خیر و شر کے دونوں راستے سمجھا دیے۔ اس کی فطرت میں ان کی تمیز رکھ دی۔ پھر انبیاء و رسل اور کتابوں کے ذریعے بھی سب کچھ سمجھا دیا، اور اسے اختیار دے دیا کہ جونسی راہ وہ چاہے اختیار کرلے۔ پھر جو راہ بھی اختیار کرے اللہ تعالیٰ اسی راستے کو اس کے لئے آسان بنا دیتا ہے اور اس کی توفیق دے دیتا ہے۔


 ثُمَّ اَمَاتَهٗ فَاَقْبَرَهٗ (21)


پھر اسے موت دی، اور قبر میں پہنچا دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انسان کی ابتدا اور پیدائش بیان کرنے کے بعد اس کی انتہا یعنی موت اور قبر کا بیان ہے۔ انسان کا اختتام مصیبت نہیں ہے بلکہ  درحقیقت الله سبحانہ وتعالی کا خاص انعام ہے۔ موت میں  بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ حدیث مبارکہ ہے ؛ تحفة المؤمن الموت 

مرنے کے بعد زمین میں دفن کرنا بھی ایک نعمت ہے۔ انسان کو دوسری مخلوق یعنی جانوروں کی طرح نہیں رکھا کہ مر گیا تو وہیں گل سڑ گیا بلکہ انتہائی احترام سے غسل دے کر کفن پہنا کر قبر میں رکھ دیا جاتا ہے۔ 

مسئلہ: اس آیت سے معلوم ہوا کہ مردہ انسان کو دفن کرنا واجب ہے۔


 ثُمَّ اِذَا شَاۗءَ اَنْشَرَهٗ (22)


پھر جب چاہے گا اسے دوبارہ اٹھا کر کھڑا کردے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب الله سبحانہ وتعالی چاہے گا انسان کو دوبارہ زندہ کر دے گا اور اس کا حساب کتاب ہوگا۔ یعنی جس طرح انسان اپنے پیدا ہونے اور مرنے کے معاملہ میں بےبس تھا اسی طرح وہ دوبارہ پیدائش کے معاملہ میں بھی اللہ کے حکم کے سامنے بےبس ہوگا نہ پیدا ہونے کے وقت اس سے یہ پوچھا گیا تھا کہ تم پیدا ہونا چاہتے ہو یا نہیں؟  اور نہ موت کے وقت پوچھا گیا تھا کہ اگر تم چاہو تو تمہیں موت دے دیں ورنہ زندہ رہنے دیں۔ اسی طرح دوبارہ پیدا کرنے کے وقت بھی اس سے کچھ نہیں پوچھا جائے گا۔ اللہ جب چاہے گا اسے زندہ کرکے کھڑا کر دے گا۔

دراصل یہاں بتانا یہ مقصود ہے کہ جس ہستی نے انسان کی تخلیق اور اس کی زندگی سے متعلق یہ سب کچھ کیا ہے اس کے لیے انسان کو دوبارہ اٹھانا کیا مشکل ہے۔ چناچہ اگر انسان خود اپنی تخلیق کے پورے عمل پر غور کرلے تو اس کے پاس بعث بعد الموت سے انکار کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا۔


ربط آیات:24 تا 32 

پچھلی آیات میں تخلیقِ انسانی کی ابتدا اور انتہا کا ذکر تھا۔ جس کا مقصد الله کے انعامات کا ذکر تھا۔ اس کے علاوہ ان  دلائل کا بیان تھا جن کا تعلق انسان کی ذات اور پیدائش کے ساتھ ہے۔ ان دلائل کا انکار کرنے والے انسان کو تنبیہ کی گئی ہے کہ نعمتوں کا تقاضا تو یہ تھا کہ انسان ان میں غور کرکے الله پر ایمان لاتا اور اس کے احکام کی تعمیل کرتا لیکن انسان نے ناشکری کرتے ہوئے ایسا نہیں کیا۔ 


 كَلَّا لَمَّا يَقْضِ مَآ اَمَرَهٗ (23)


ہرگز نہیں ! جس بات کا اللہ نے اسے حکم دیا تھا، ابھی تک اس نے وہ پوری نہیں کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انسان کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کا فرمانبردار بن کر رہے۔ یہ حکم اس کی فطرت میں بھی ودیعت کیا گیا، پھر پیغمبروں اور کتابوں کے ذریعہ بھی اللہ تعالیٰ نے رہنمائی فرمائی۔ اگر وہ اپنی پیدائش کے حالات پر غور کرتا تو اس کے لیے اللہ کا فرمانبردار بن کر رہنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ مگر اس نے ان تقاضوں کو پورا نہیں کیا۔  نہ تو توحید کا اقرار کیا، نہ رسالت کا، نہ قیامت کا حالانکہ اس کے خالق نے اس پر جو انعامات کیے ان کا تقاضا تو یہ تھا کہ انسان الله کو ایک مان کر توحید کا اقرار کرتا اور تمام نعمتوں کا شکر ادا کرتا۔ 

بعض مفسرین نے اس آیت کو ایک الگ آیت سمجھنے کے بجائے سابقہ آیت سے مربوط کیا ہے اور اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اللہ جب چاہے گا زندہ کرکے اٹھائے گا ابھی ایسا نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس دنیا کی آبادی اور کائنات کی تکمیل سے متعلق اس کا جو طے شدہ حکم ہے وہ ابھی  پورا نہیں ہوا۔


فَلْيَنْظُرِ الْاِنْسَانُ اِلٰى طَعَامِهٖٓ (24)


پھر ذرا انسان اپنے کھانے ہی کو دیکھ لے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیدائش کے بعد زندگی اورموت کے درمیانی مرحلہ میں انسان پر الله تعالی نے جو انعامات کیے  ہیں ان آیات میں اُن کا بیان ہے۔ فرمایا: انسان اپنے کھانے پر غور کرے جو لقمہ وہ منہ میں ڈالتا ہے اس کی تیاری میں کون کون سی قوتیں استعمال ہوتی ہیں۔ اس کے منہ میں جانے کے لیے  وہ ایک لقمہ کس طرح تیار ہوتا ہے۔  جس خوراک کو وہ ایک معمولی چیز سمجھتا ہے ، اس پر ذرا غور کرے کہ یہ آخر پیدا کیسے ہوتی ہے ۔ اگر خدا نے اس کے اسباب فراہم نہ کیے ہوتے تو کیا انسان کے بس میں یہ تھا کہ زمین پر یہ غذا وہ خود پیدا کر لیتا ؟


النظر” کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو متحرک کرنے کے ہیں۔ کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے۔(المفردات)



اَنَّا صَبَبْنَا الْمَاۗءَ صَبًّا (25)


 کہ ہم نے اوپر سے خوب پانی برسایا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس سے مراد بارش ہے۔ الله سبحانہ وتعالی فرماتے ہیں سب سے پہلے ہم نے بادلوں کو پانی سے بھرا، پھر اپنی قدرت سے اس پانی کو عجیب اور مختلف طریقوں سے زمین پر برسایا۔ 

سورج کی حرارت سے بے حد و حساب مقدار میں سمندروں سے پانی بھاپ بنا کر اٹھایا جاتا ہے ، پھر اس سے کثیف بادل بنتے ہیں ، پھر ہوائیں ان کو لے کر دنیا کے مختلف حصوں میں پھیلاتی ہیں ، پھر عالم بالا کی ٹھنڈک سے وہ بھاپ دوبارہ پانی کی شکل اختیار کرتی ہے۔ یہ پانی  ہر علاقے میں ایک خاص حساب سے برستا ہے۔  پانی براہ راست بھی زمین پر برستا ہے ، زیر زمین کنوؤں اور چشموں کی شکل بھی اختیار کرتا ہے ، دریاؤں اور ندی نالوں کی شکل میں بھی بہتا ہے ، اور پہاڑوں پر برف کی شکل میں جم کر پھر پگھلتا ہے اور بارش کے موسم کے سوا دوسرے موسموں میں بھی دریاؤں کے اندر رواں ہوتا ہے ۔ کیا یہ سارے انتظامات انسان نے خود کیے ہیں؟ اس کا خالق اس کی رزق رسانی کے لیے یہ انتظام نہ کرتا تو کیا انسان زمین پر زندہ رہ  سکتا تھا ؟ بھلا الله تعالی کے سوا کون ہے جو اس بات کی قدرت رکھتا ہے۔ 


 ثُمَّ شَقَقْنَا الْاَرْضَ شَقًّا (26)


پھر ہم نے زمین کو عجیب طرح پھاڑا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پانی جب زمین پر برستا ہے تو اس میں جذب کرنے کی صلاحیت پیدا کی، زمین کو نرم  بنایا، پھر بیج کو زمین سے پودا بن کر نکلنے کے لیے زمین کو پھاڑا۔ 

انسان صرف یہ کرتا ہے کہ  زمین کو کھودتا ہے یا اس میں ہل چلاتا ہے اور جو بیج الله تعالی نے پیدا کر دیے انہیں زمین کے اندر اتار دیتا ہے۔

پانی اور زمین کی اوپر کی سطح جب مل جاتے ہیں تواس مٹی میں اللہ تعالیٰ نے یہ خاصیت رکھی ہے کہ وہ بیج کو کھول دیتی ہے۔ اس مردہ اور بےجان بیج میں زندگی کی رمق پیدا ہوجاتی ہے اور وہ کونپل کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ پھر اس نرم و نازک کونپل میں، جو ہوا کے ایک معمولی سے جھونکے کو بھی برداشت نہیں کرسکتی۔ اللہ تعالیٰ نے نشو و نما پانے کی اتنی قوت بھر دی  کہ وہ کونپل دو تین دن بعد اوپر سے ملی ہوئی زمین کو پھاڑ کر زمین کے اندر سے یوں باہر نکل آتی ہے جیسے بچہ ماں کے پیٹ سے نکل آتا ہے۔ پھر یہی بیج آہستہ آہستہ مکمل پودا یا تناور درخت بن جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ زمین میں نشو ونما کی استعداد نہ رکھتا یا بیج میں وہ تمام خصوصیات نہ رکھتا جو اس کے پودے یا درخت میں تھیں، یا بارش ہی نہ برساتا تو کیا انسان کے پاس کوئی ایسا ذریعہ ہے جس سے وہ اپنی خوراک حاصل کرسکتا ؟


فَاَنْۢبَتْنَا فِيْهَا حَبًّا (27)


پھر ہم نے اس میں غلے اگائے۔


وَّعِنَبًا وَّقَضْبًا (28)


 اور انگور اور ترکاریاں۔


 ہر وہ چیز جو زمین سے اگتی ہے ۔ اسے نبت یا نبات کہا جاتا ہے ۔ خواہ وہ تنا دار ہو جیسے درخت  یا بےتنا جیسے جڑی بوٹیاں۔ عام طور پر نبات اسے کہتے ہیں جس کا تنا نہ ہو اور جانوروں کے چارے کے لیے ہو؛  لیکن یہ اپنے حقیقی معنی کے اعتبار سے ہر بڑھنے والی چیز نباتات، حیوانات اور انسان سب کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ (المفردات)

حبہ سے مراد  گندم، جو، خوشبو دار پودوں اور پھولوں کے بیج وغیرہ جو دانوں کی شکل میں ہوتے ہیں۔ 

عنب انگور کو کہتے ہیں جس کی جمع اعناب ہے۔ اور قضب تازہ گھاس، سبزی، تر کاری اور در خت کی ترو تازہ شاخوں کو کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ سبزی تر کاری اور تر و تازہ شاخیں کاٹنے کو بھی قضب کہا جاتا ہے۔

یعنی الله سبحانہ و تعالی نے انسان کے لیے زمین کو چیرنے کے بعد  اس سے مختلف چیزیں پیدا کیں۔ مثلا گندم ، جو ، باجرہ ، جوار وغیرہ اور انگور پیدا کیا۔ جس سے ذائقہ اور غذائیت دونوں حاصل ہوتے ہیں اور اس سے مختلف مشروبات تیار کیے جاتے ہیں۔ 



وَّزَيْتُوْنًا وَّنَخْلًا (29)


اور زیتون اور کھجور۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور الله سبحانہ وتعالی نے زیتون جیسی زبردست چیز کو پیدا کیا جس کو پکا کر بھی کھاتے ہیں، اس کا تیل بھی استعمال کرتے ہیں اور علاج کے لیے بھی کارآمد ہے نیز اس کی لکڑی بھی مفید ہے۔ اور دوسری زبردست چیز کھجور ہے، جو غذائیت سے بھر پور ہے۔ اس  کو تازہ یا خشک کرکے سارا سال کھایا جاتا ہے اور اس سے سرکہ اور مختلف شربت بنائے جاتے ہیں۔ 


وَّحَدَاۗئِقَ غُلْبًا (30)


اور گھنے گھنے باغات۔


وَّفَاكِهَةً وَّاَبًّا (31)


اور میوے اور چارہ۔


گھنے اور گنجان باغات بنائے جن میں مختلف اقسام کی لکڑی، پھل ، پھول، جڑی بوٹیاں ہوتی ہیں اور ان  کا گھنا سایہ عمدہ ہوتا ہے۔ مختلف ذائقوں والے انتہائی  لذیذ پھل ہوتے ہیں مثلا سیب، انار، خوبانی، بادام  وغیرہ اس کے علاوہ دیگر میوہ جات اخروٹ، جنگلی پیلو اور مختلف اقسام کی بیریاں وغیرہ اور جانوروں کے کھانے کے لیے گھاس اور چارا پیدا فرمایا۔ 

بعض نے کہا ہے کہ فاکھۃ کا لفظ ہر قسم کے میوہ جات پر بولا جاتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ انگور اور انار کے علاوہ باقی میوہ جات کو فاکھۃ کہا جاتا ہے اور “ابّاً” اس گھاس کے کہتے ہیں جو کٹنے اور جانوروں کے چرنے کے لئے بالکل تیار ہو۔


مَّتَاعًا لَّكُمْ وَلِاَنْعَامِكُمْ (32)


سب کچھ تمہارے اور تمہارے مویشیوں کے فائدے کی خاطر۔


الله سبحانہ و تعالی انسان سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں یہ سب چیزیں تمہارے فائدے کے لیے اور تمہارے جانوروں کے لیے ہیں۔ جانور تمہارے نفع کے لیے بنائے تاکہ تم ان کا دودھ پیو، گوشت کھاؤ اور ان کے چمڑے سے جوتے، لباس  اور استعمال کی چیزیں بناؤ، ان کے بالوں سے عمدہ گرم شالیں تیار کرو۔ یہ سب الله سبحانہ وتعالی کی عظیم الشان قدرت کے نمونے ہیں۔ 

جس ذات نے پہلی بار پانی کی ایک بوند سے ہزاروں چیزوں کو پیدا کیا وہ دوبارہ  پھر زندہ کر سکتا ہے۔ ان سب انعامات کا تقاضا ہے کہ عطا کرنے والے کا شکر ادا کیا جائے اور شکر یہی ہے کہ اسی کو وحدہ لا شریک مانا جائے اور اس کے تمام احکام پر عمل کیا جائے۔ 



ربط آیات: 33 تا 42۔  قدرت کے دلائل بیان کرنے کے بعد اصل مضمون یعنی قیامت کے احوال اور اس کی ہولناکی کا بیان ہے۔ حق کی دعوت قبول کرنے والوں کے لیے خوشخبری اور انعامات کا وعدہ اور نہ ماننے والوں کے لیے شدید عذاب کی وعید ہے۔ 


فَاِذَا جَاۗءَتِ الصَّاۗخَّةُ (33)


آخر جب وہ کان پھاڑنے والی آواز آ ہی جائے گی۔  (اس وقت اس ناشکری کی حقیقت پتہ چل جائے گی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مطلب یہ ہے کہ ابھی تم ہماری نعمتوں کی ناشکری کر رہے ہو جب کانوں کو بہرا کر دینے والی سخت آواز آئے گی، اس دن تمہیں اپنی ناشکری کا مزہ معلوم ہو جائے گا۔ 

اس سے نفخہ ثانیہ ( دوسری بار صور کا پھونکا جانا) اور قیامت کا شور مراد ہے۔ 


يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِيْهِ (34)


 یہ اس دن ہوگا جب انسان اپنے بھائی سے بھی بھاگے گا۔


وَاُمِّهٖ وَاَبِيْهِ (35)


اور اپنے ماں باپ سے بھی۔


وَصَاحِبَتِهٖ وَبَنِيْهِ (36)


اور اپنے بیوی بچوں سے بھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قیامت کے دن کی ہولناکی کا بیان ہے۔ یومِ محشر ایسا سخت اور وحشت ناک ہوگا کہ ہر شخص کو اپنی اپنی پڑی ہوگی۔ نفسا نفسی کا عالم ہوگا، کسی کو دوسرے کی خبر نہ ہوگی۔ بھائی بھائی سے ، بچے اپنے ماں باپ سے اور شوہر اپنی بیوی اور بیٹوں سے بھاگتا پھرے گا۔ 

سوال: میدانِ حشر میں آدمی اپنے عزیز و اقارب سے کیوں بھاگے گا؟ 

جواب: علماء نے اس کی کئی وجوھات بیان کی ہیں۔ 

  1. ان حقوق کے مطالبے کا ڈر جو دنیا میں ادا نہ کیے تھے۔ جیسے مفلس قرض خواہ سے چھپتا پھرتا ہے۔
  2. مدد مانگنے کے ڈر سے۔ ایسا نہ ہو کہ عزیز رشتہ داروں کو عذابِ خداوندی سے بچانے کے لیے کچھ نیکیاں دینی پڑ جائیں۔ جیسے قحط سالی میں لوگ ایک دوسرے سے ملنا چھوڑ دیتے ہیں یا جیسے امیر لوگ فقیروں اور سوالیوں  سے بھاگتے ہیں۔
  3. عزیزوں کی مصیبتیں دیکھی نہ جائیں گی۔ اس لیے ایک دوسرے سے منہ چھپائیں گے۔
  4. اپنی رسوائی کو چھپانے کے لیے بھاگیں گے۔ 
  5. دنیا میں خدا سے بے خوف اور آخرت سے غافل ہو کر جس طرح یہ سب ایک دوسرے کی خاطر گناہ کرتے اور ایک دوسرے کو گمراہ کرتے رہے ، اس کے برے نتائج سامنے آتے دیکھ کر ان میں سے ہر ایک دوسرے سے بھاگے گا کہ کہیں وہ اپنی گمراہیوں اور گناہ گاریوں کی ذمہ داری اس پر نہ ڈالنے لگیں اور اس کے  خلاف مقدمے کے گواہ نہ بن جائیں۔ 


بعض ان سب اسباب کی وجہ سے بھاگیں گے اور بعض ان میں سے کچھ اسباب کی وجہ سے۔



 لِكُلِّ امْرِۍ مِّنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَاْنٌ يُّغْنِيْهِ (37)


(کیونکہ) ان میں سے ہر ایک کو اس دن اپنی ایسی فکر پڑی ہوگی کہ اسے دوسروں کا ہوش نہیں ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ جملہ پہلے جملوں کی وجہ بیان کر رہا ہے۔  قیامت کے دن ایسا کیا ہوگا جس کی وجہ سے سب ایک دوسرے سے دور بھاگیں گے۔ وجہ یہی ہے کہ اس دن ہر شخص ایسی حالت میں ہوگا کہ اس کو اپنے علاوہ کسی دوسرے کی خبر نہ ہوگی۔ یہ حساب کتاب سے پہلے کا حال ہے۔ حساب کتاب بعد میں نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی سفارش سے شروع ہوگا۔ 

احادیث میں مختلف طریقوں اور سندوں سے یہ روایت آئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے روز سب لوگ ننگے پاؤں، ننگے جسم، بغیر ختنہ اٹھائے جائیں گے۔ آپ کی ازواج مطہرات میں سے کسی نے ( بروایت بعض حضرت عائشہ نے ، اور برویتِ بعض حضرت سودہ نے اور بروایتِ بعض ایک خاتون نے ) گھبرا کر پوچھا ، یا رسول اللہ ! کیا ہمارے ستر اس روز سب کے سامنے کھلے ہوں گے؟ حضور نے یہی آیت تلاوت فرما کر بتایا کہ اس روز کسی کو کسی کی طرف دیکھنے کا ہوش نہ ہو گا۔

 ( نسائی ، ترمذی ، ابن ابی حاتم ، ابن جریر ، طبرانی ، ابن مردویہ ، بہیقی ، حاکم ) ۔


وُجُوْهٌ يَّوْمَئِذٍ مُّسْفِرَةٌ (38)


 اس روز کتنے چہرے تو چمکتے دمکتے ہوں گے۔



ضَاحِكَةٌ مُّسْتَبْشِرَةٌ (39)


ہنستے، خوشی مناتے ہوئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

بہت سے چہرے روشن ہوں گے جنت کی خوشخبری سُن کر خوش ہوں گے اور ہنستے ہوں گے۔  چہروں کی یہ روشنی اور خوشی اعمال نامے دائیں ہاتھ میں دیئے جانے کے بعد ہوگی۔ 


وَوُجُوْهٌ يَّوْمَئِذٍ عَلَيْهَا غَبَرَةٌ (40)


اور کتنے چہرے اس دن ایسے ہوں گے کہ ان پر خاک پڑی ہوگی۔


تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌ (41)


 سیاہی نے انہیں ڈھانپ رکھا ہوگا۔


اُولٰۗئِكَ هُمُ الْكَفَرَةُ الْفَجَرَةُ (42)


 یہ وہی لوگ ہوں گے جو کافر تھے، بدکار تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور بہت سے چہروں پر غبار ہوگا، اپنی بداعمالیوں کو دیکھ کر چہروں پر مایوسی کی سیاہی چھا جائے گی۔ یہ وہ کافر و فاجر لوگ ہوں گے جو دنیا میں اپنے نفس کے تقاضے پورے کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حدود پر عمل کرنا ضروری نہیں سمجھتے تھے۔

میدان محشر میں لوگ دو گروہوں میں تقسیم  ہوں گے۔ ان کی علامات ان کے چہروں سے نمایاں ہوں گی۔ اللہ کے فرمانبرداروں کے چہرے ہشاش بشاش کھلکھلاتے اور مسکراتے ہوئے ہوں گے، دل میں بھی مسرت کی لہر دوڑ رہی ہوگی اور کچھ لوگوں کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی ہوں گی، رنگ فق اور چہرے بگڑے ہوئے اور بےرونق ہوں گے اور یہ اللہ کے نافرمان اور بدکردار لوگ ہوں گے۔ 

گویا لوگ گروہوں میں بٹنے کی وجہ سے اپنے چہروں سے  پہچان لیے جائیں گے کہ کون شخص شقی ہے اور کون سعید ہے۔ 

(الله کریم روز محشر میں ہمیں روشن چہرے والا بنائے۔ )


مختصر تفسیر سورہ عبس


سرداران قریش کے مطالبہ پر نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم  ان سے علیحدگی میں دعوت اسلام کے موضوع پر گفتگو کر رہے تھے۔ تاکہ ان کے اسلام قبول کر لینے کی صورت میں ان کے ماتحت افراد بھی مشرف بہ اسلام ہو جائیں۔ اتنے میں ایک نابینا صحابی حضرت عبداللہ بن ام مکتوب کسی قرآنی آیت کے بارے میں معلومات کے لئے حاضر خدمت ہوئے، وہ نابینا ہونے کی بنا پر صورتحال سے ناواقف تھے۔ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو ان کا یہ انداز ناگوار گزرا، جس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی کہ ایک نابینا کے آنے پر منہ بسور کر رخ موڑ لیا اور جو بے نیازی کے ساتھ اپنی اصلاح کا خواہاں نہیں اس کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ جو اللہ کی خشیت سے متأثر ہو کر اپنی اصلاح کی خاطر آپ کے پاس آتا ہے اس سے آپ اعراض کرتے ہیں۔

 یہ قرآن کریم نصیحت کا پیغام ہے، کسی بڑے چھوٹے کی تفریق نہیں کرتا۔ اس سے جو بھی نصیحت حاصل کرنا چاہے اس کی جھولی علم و معرفت سے بھردیتا ہے۔ 

غریب علاقوں کو نظرانداز کر کے فائیو اسٹار ہوٹلوں اور پوش علاقوں کے ساتھ تفسیر قرآن کی مجالس کو مخصوص کرنے والوں کی واضح الفاظ میں اس سورت میں مذمت کی گئی ہے۔

 انسان اگر پہلی مرتبہ اپنی تخلیق پر غور کرے تو دوبارہ پیدا ہونے پر اسے تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ ماخلقکم ولا بعثکم الا کنفس واحدۃ۔ تمہارا پیدا ہونا اور مرنے کے بعد زندہ ہونا ایک ہی جیسا ہے۔ زمین، فضاء اور پانی میں منتشر اجزاء کو پھلوں سبزیوں کی شکل دے کر تمہاری خوراک کے ذریعہ تمہارے جسم کا حصہ بنایا۔ مرنے کے بعد تمہارے منتشر اجزاء کو دوبارہ جمع کر کے انسان بنا کر پھر قبروں سے باہر نکال لیا جائے گا۔ پھر قیامت کے دن کی شدت اور دہشت کو بیان کر کے نیک وبد کا ان کے اعمال کے مطابق انجام ذکر فرما کر سورت کو اختتام پذیر کیا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

سورۃ البلد:13، عم پارہ

سورۃ البلد    اسماء سورة بلد کا معنی  شہر ہے۔ اس سورت کی پہلی آیت میں   اللّٰہ  تعالیٰ نے  شہر مکہ کی قسم کھائی  ہے اس مناسبت سے اسے ’’سورہ...