جمعرات، 25 مئی، 2023

سورۃ البلد:13، عم پارہ

سورۃ البلد 

 اسماء سورة

بلد کا معنی  شہر ہے۔ اس سورت کی پہلی آیت میں   اللّٰہ  تعالیٰ نے  شہر مکہ کی قسم کھائی  ہے اس مناسبت سے اسے ’’سورۂ بلد‘‘ کہتے ہیں ۔ بیس آیات پر مشتمل اس مکی سورة کو    “سورة لا اقسم”  بھی کہا جاتا ہے۔

ربط سورة

پچھلی سورة “الفجر”سے ربط یہ ہے کہ الفجر کی طرح اس سورة میں بھی اعمال کی جزا و سزا کا بیان ہے البتہ وہاں  زیادہ توجہ برے اعمال کی سزا پر تھی اور اس سورة میں خاص طور پر نیک اعمال کی جزا کو بیان کیا گیا ہے۔

لَا أُقْسِمُ بِهَـٰذَا الْبَلَدِ ﴿١

میں قسم کھاتا ہوں اس شہر کی ۔

۔۔۔۔۔

ان آیات میں تین چیزوں کی قسم کھا کر الله تعالی جواب قسم کے مضمون کو پختہ کر رہے ہیں۔

پہلی قسم : لا اقسم ۔ لا سے دو معنی مراد ہو سکتے ہیں ۔

۱- حرف لا زائدہ  ہے۔ 

۲- عرب بول چال میں  حرف “لا”مخاطب کے  خیال کو  غلط ثابت کرنے کے لئے،  قسم کے شروع میں لایا جاتا ہے، جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ جو تمہارا خیال ہے وہ صحیح نہیں ہے، بلکہ ہم قسم کھا کر کہتے ہیں کہ حقیقت وہ ہے جو ہم بیان کر رہے  ہیں۔ 

 البلد سے مکہ مکرمہ مراد ہے جیسا کہ “سورة والتین” میں بھی شہر مکہ کی قسم کھائی ہے۔  مکہ کی قسم کھانا اس کی فضیلت اور بزرگی  کی وجہ سے ہے۔

وَأَنتَ حِلٌّ بِهَـٰذَا الْبَلَدِ ﴿٢﴾ 

جبکہ ( اے پیغمبر ) تم اس شہر میں مقیم ہو 

۔۔۔۔۔۔۔

حلٌّ کے معنی میں مفسرین کے مختلف اقوال  ہیں۔ 

١۔ حل” کے معنی کسی شیء کے اندر سمانے،  رہنے اور اترنے کے آتے ہیں. اس اعتبار سے حلّ کے معنی اترنے والے اور رہنے والے کے ہوں گے،اور  آیت  سے مراد یہ ہوگی کہ شہر مکہ  خود بھی محترم اور مقدس  ہے اور  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  بھی اس شہر میں رہتے ہیں،  اس لیےاس  شہر کی عظمت و حرمت آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس میں رہنے  سے دوہری ہوگئی ہے۔

۲۔حل کے معنی کسی چیز کے حلال ہونے کے بھی  ہیں. اس اعتبا ر سے لفظ حل کے دو معنی ہوسکتے ہیں۔

ایک یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خون کو کفار مکہ نے حلال سمجھ لیا ہے اور  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لیے تیار  ہیں  حالانکہ وہ خود  شہر مکہ میں کسی شکار کو بھی حلال نہیں سمجھتے تھے۔

دو سرے معنی حل کے یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کیلئے حرم مکہ میں کافروں سے قتال حلال ہونے والا ہے۔ جیسا کہ فتح مکہ کے موقع پر  ایک روز کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے احکامِ حرم اٹھا لئے گئے تھے اور کفار کا قتل حلال کردیا گیا تھا۔ 

آیت کے الفاظ میں تینوں معانی کی گنجائش ہے۔

وَوَالِدٍ وَمَا وَلَدَ ﴿٣

اور قسم ہے باپ کی اور اولاد کی

۔۔۔۔

دوسری اور تیسری قسم والد اور اولاد کی ہے۔ 

باپ سے مراد حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور چونکہ تمام اِنسان انہیں کی اولاد ہیں، اس لئے اس آیت میں تمام نوعِ اِنسانی کی قسم کھائی گئی ہے۔ 

لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي كَبَدٍ ﴿٤

۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ ہے وہ بات جس کے لیے قسم کھائی گئی ہے۔ کبد کے لفظی معنی مشقت کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ دُنیا میں اِنسان کو اِس طرح پیدا کیا گیا ہے کہ وہ کسی نہ کسی مشقت میں لگارہتا ہے، چاہے کوئی کتنا بڑا حاکم  یا دولت مند شخص ہو، اُسے زندہ رہنے کے لئے مشقت اُٹھانی ہی پڑتی ہے۔ محنت اور مشقت انسان کی فطرت میں ڈال دی گئی ہے۔ اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ اُسے دُنیا میں کبھی کوئی محنت نہ کرنی پڑے تو یہ  ممکن نہیں ہے۔مثلا بچے کو پیدائش کی تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے، دودھ پینے کی مشقت، دانت نکلنے یا  بیمار و کمزور ہونے کی تکلیف ، تعلیم و کاروباروغیرہ، بڑھاپا اور موت کی تکلیف پھر قبر و حشر اور اس میں الله تعالی کے سامنے اعمال کی جواب دہی اور سزا و جزا    کی مشقت، غرض انسان  کی زندگی مسلسل جدوجہد ، محنت اور مشقت سے بھرپور ہے۔ ہاں مکمل راحت کی زندگی جنّت کی زندگی ہے جو دُنیا میں کی ہوئی محنت کے نتیجے میں ملتی ہے۔ ہدایت یہ دی گئی ہے کہ اِنسان کو دُنیا میں جب کسی مشقت کا سامنا ہو تو اُسے یہ حقیقت یاد کرنی چاہئے۔

سوال:محنت ومشقت صرف انسان کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ سب جانور بھی اس میں شریک ہیں پھر اس حال کو صرف انسان کے لئے کیوں خاص کیا گیا؟

جواب: ۱ - انسان سب جانوروں سے زیادہ عقل و شعور  رکھتا ہے اور محنت کی تکلیف بھی شعور کے حساب سے زیادہ محسوس ہوتی ہے۔

 ۲-  آخری اور سب سے بڑی محنت محشر میں دوبارہ زندہ ہو کر عمر بھر کے اعمال کا حساب دینا ہے وہ دوسرے جانوروں میں نہیں ہے۔

 بعض علماء نے فرمایا کہ کوئی مخلوق اتنی مشقتیں نہیں جھیلتی جتنی انسان برداشت کرتا ہے حالانکہ  وہ جسم اور طاقت میں اکثر جانوروں کی نسبت ضعیف اور کمزور ہے،  چونکہ انسان کی دماغی قوت سب سے زیادہ ہے اس لئے اس لیے اس کو خاص کیا گیا ہے۔


 أَيَحْسَبُ أَن لَّن يَقْدِرَ عَلَيْهِ أَحَدٌ ﴿٥﴾ 

کیا وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس پر کسی کا بس نہیں چلے گا؟

۔۔۔۔۔

مقصد یہ ہے کہ انسان کو چاہیے تھا ان تکلیفوں اور مصیبتوں پر غور کرتا اور عاجزی اختیار کرتا،لیکن وہ غرور اور تکبر کرتا ہے، طاقت کے نشے میں کہتا ہے کہ کون مجھے پکڑ سکتا ہے؟

ان آیات کا شانِ نزول یہ ہے کہ  یہ آیات یا تو عام کافروں کے بارے میں نازل ہوئیں یا پھر ولید بن مغیرہ یا  ابو الاشد  کلاہ بن اسید کے بارے میں نازل ہوئیں، جو بڑا طاقتور پہلوان تھا اور کہتا تھا کہ عذاب کہ فرشتے میرے قریب آئیں تو انہیں پٹخ دوں گا، وہ مجھ پر قابو نہیں پا سکیں گے۔  

يَقُولُ أَهْلَكْتُ مَالًا لُّبَدًا ﴿٦﴾ 

کہتا ہے کہ : میں نے ڈھیروں مال اڑا ڈالا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور ریا کاری کرتے ہوئے کہتا ہے میں نے لوگوں پر بہت سامال خرچ کیا۔ یا یہ مراد ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے کہنے پر یا ان کی مخالفت میں بہت سا مال برباد کر دیا، حالانکہ وہ بالکل جھوٹ بولتا ہے۔

أَيَحْسَبُ أَن لَّمْ يَرَهُ أَحَدٌ ﴿٧﴾ 

کیا وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کو کسی نے دیکھا نہیں؟

۔۔۔۔۔۔

مطلب یہ ہے کہ انسان احمق ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ اس کے برے اعمال، ریاکاری و مکاری، فخر، غرور اور تکبر  کو کوئی نہیں دیکھ رہا حالانکہ اس کا خالق اس کے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے۔

ربط آیات: 

پچھلی آیات میں انسان کی اس غفلت و جہالت پر تنبیہ تھی کہ وہ سمجھتا ہے کہ میرے اوپر اللہ تعالیٰ کو بھی قدرت نہیں، اور یہ کہ اس کے اعمال و افعال کو کوئی دیکھنے والا نہیں۔ اس آیت میں چند  نعمتوں کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے وجود میں ایسی عطا فرمائی ہیں کہ  اگر صرف ان کی  حکمت پر ہی غور کرلے  تو الله  تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ  کو مان لے۔

أَلَمْ نَجْعَل لَّهُ عَيْنَيْنِ ﴿٨﴾ 

کیا ہم نے اس کے ( نفع کے لیے ) دونوں آنکھیں عطا نہیں فرمائی ہیں۔

۔۔۔۔

پہلے دو آنکھوں کا ذکر فرمایا کہ آنکھ کے نازک پردے میں  باریک اور نازک رگیں، جن میں قدرتی روشنی سے ہر چیز کی تصویر  بنائی،  آنکھ کی بناوٹ ایسی ہے  کہ جسم کا نازک ترین حصہ ہے اور  اس کی حفاظت کا ایسا زبردست انتظام ہے کہ  اس کے اوپر ایسے پردے ڈال دیئے کہ  جب بھی کوئی نقصان دہ  چیز سامنے سے آتی دکھائی دیتی ہے  خود کار مشین کی طرح ، خود بخود بغیر کسی تکلف کے بند ہوجاتے ہیں۔ ان پردوں کے اوپر پلکوں کے بال کھڑے کردیئے تاکہ گردوغبار کو روک لیں،پھر اسکے اوپر بھو وں کے بال رکھے کے اوپر سے آنیوالی چیز براہ راست آنکھ میں نہ پہنچے۔

 آنکھ  کو چہرے کے اندر اس طرح فٹ کیا گیا کہ اوپر ماتھے کی سخت ہڈی اور نیچے رخسار کی سخت ہڈی ہے،  آدمی کہیں چہرے کے بل گر جائے یا اس کے چہرے پر کوئی چیز آپڑے تو اوپر نیچے کی ہڈیاں آنکھ کو بچالیتی ہیں۔

وَلِسَانًا وَشَفَتَيْنِ ﴿٩﴾ 

اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دیے؟

۔۔۔۔

دوسری چیز زبان جیسی عجیب و غریب نعمت ہے۔دل کی باتوں اور خیالات  کو بیان کرنے کے لیے ،اس پر اسرار اور خود کار مشین کا طریقہ کس قدر  حیران کن ہے،  ادھر  دل میں ایک خیال  آتا ہے، دماغ  اس پر غور کرتا  اور الفاظ تیار کرتا ہے  اور الفاظ اس مشین سے نکلنے لگتے ہیں۔ یہ اتنا بڑا کام اتنی تیزی  کے ساتھ ہوتا کہ سننے والے کو یہ احساس بھی نہیں ہوتا، ان الفاظ کے زبان پر آنے تک کتنی بڑی مشینری نے کام کیا ہے۔ 

  زبان کو الله نے  ایسی تیز رفتار  مشین بنایا کہ اس سے  ایسا کلمہ بھی کہا جا سکتا ہے جو اس کو دوزخ  سے نکال کر جنت میں پہنچا دے، جیسے کلمہ ایمان ، اور   ایسی بات بھی کی جاسکتی ہے جو  دنیا میں اسے دشمن کی نظر میں محبوب بنا دے، جیسے کسی غلطی  کی معانی۔ اور اسی زبان سے اتنے ہی مختصر وقت  میں ایسا کلمہ بھی بولا جاسکتا ہے جو اس کو جہنم میں پہنچا دے جیسے کلمہ کفر یا دنیا میں اسکے بڑے سے بڑے مہربان دوست کو اس کا دشمن بنا دے جیسے گالی گلوچ وغیرہ،

 جس طرح زبان کے  بےشمار فائدے ہیں اس کی ہلاکت  بھی بہت زیادہ  ہے،گویا یہ ایک تلوار ہے جو دشمن پر بھی چل سکتی ہے اور خود اپنا گلا بھی کاٹ سکتی ہے۔ اس جگہ ہونٹوں کا ذکر کرنا اس طرف اشارہ ہوسکتا کہ جس مالک نے انسان کو زبان دی اس نے اس کو روکنےاور  بند کرنے کے لئے ہونٹ بھی دیئے ہیں، اس لیے  سوچ سمجھ کر اس کا استعمال کرنا چاہیے اور بےموقع  زبان نہیں چلانی چاہیے۔

وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ ﴿١٠﴾ 

اور ہم نے اس کو دونوں راستے بتا دیئے ہیں ۔

۔۔۔۔

تیسری چیز دو راستوں کی ہدایت ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے  خیر  اور شر ، نیک اور بد، بھلے اور برے کی پہچان اور  تمیز   اسکے وجود میں رکھ دی ہے۔اچھائی اور برائی کے  دونوں راستے دِکھادیے  اور اسے اختیار دے دیا  کہ اپنی مرضی سے جو راستہ چاہو چُن لو۔ ابتدائی ہدایت انسان کو خود اس کے ضمیر سے ملتی ہے پھر اس ہدایت کی تائید کے لئے انبیاء علیہم السلام اور آسمانی کتابیں آتی ہیں جو انکو بالکل واضح کردیتی ہیں۔  جاہل اور غافل انسان اور  حق کے منکر  ذرا   اپنے  ہی وجود کی چند نمایاں چیزوں میں  غور کرلے، تو اسے الله تعالی کی قدرت و حکمت  کا مشاہدہ ہوجائیگا۔ 

یعنی آنکھوں سے دیکھو، پھر زبان سے اقرار کرو ، پھر دو راستوں میں سے خیر کے راستے کو اختیار کرو۔

فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ ﴿١١﴾ 

پھر وہ اس گھاٹی میں داخل نہیں ہوسکا ۔

۔۔۔۔

وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُ ﴿١٢﴾ 

اور تمہیں کیا پتہ کہ وہ گھاٹی کیا ہے ؟

۔۔۔۔۔ 

یہ گھاٹی دراصل اطاعت، عبادات اور اخلاق کی بلندیاں ہیں اور ان پر چڑھنے کا راستہ دشوار گزار اس لحاظ سے ہے کہ نیکی و اطاعت کے  راستے عموماً انسان کی خواہش کے خلاف اور طبیعت کے لئے ناگوار ہوتے ہیں اس لیے ان پر چلنامشکل  ہوتا ہے، جبکہ بدی کے راستے آسان اور خواہش نفس کے مطابق ہوتے ہیں اس لیے ان پر چلنا آسان ہوتا ہے۔ وما ادراک سے اس کی عظمت کی طرف اشارہ ہے۔ 

فَكُّ رَقَبَةٍ ﴿١٣﴾ 

کسی کی گردن ( غلامی سے ) چھڑا دینا ۔

۔۔۔

اس میں کئی اقوال ہیں۔

۱- غلام کو آزاد کرنا ، یہ بہت بڑی عبادت ہے۔ ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ جس نے مسلمان غلام آزاد کیا الله تعالی اس کے ہر عضو کے بدلے آزاد کرنے والے کے اسی عضو کو جہنم سے آزاد کر دیتے ہیں۔ 

۲۔ جو قصاص میں گرفتار ہو صلہ رحمی کرکے اس کی طرف سے دیت کا مال ادا کرنا۔

۳- کسی مفلس قرض دار کا قرض ادا کرنا یا معاف کر دینا۔ 

۴- کسی ظالم سے مظلوم کی جان چھڑا دینا، مال سے یا طاقت سے۔ 

۵- حقوق الله اور حقوق العباد ادا کرکے الله کے عذاب و قہر سے خود اپنی گردن چھڑا لینا۔

۶- گناہوں سے توبہ کرکے اپنے نفس کو آزاد کروا لینا۔ 

أَوْ إِطْعَامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ ﴿١٤﴾ 

یا پھر کسی بھوک والے دن میں کھانا کھلا دینا

۔۔۔۔

جب کوئی شخص بھوکا ہو اسے کھانا کھلانا۔ شدید حاجت،جنگ،  سیلاب یا قحط سالی کے دوران جب غلہ بھی کم ہو، ان حالات  میں بھوکے کو کھانا کھلانا دوسری بہت سی نیکیوں سے بڑھ جاتا ہے  اس لیے اس کا بہت اجر ہے۔ 

يَتِيمًا ذَا مَقْرَبَةٍ ﴿١٥﴾ 

یا مسکین کو جو ( بدحالی کی وجہ سے ) مٹی میں مِل گیا ہے۔

۔۔۔۔

پھر بھوکا اگر یتیم بھی ہو تو اور زیادہ ثواب ہے کیونکہ وہ اور زیادہ شفقت کا حقدار ہے اور اگر رشتہ دار بھی ہو تو دوہرا ثواب ہےکیونکہ کھانا کھلانے کے ساتھ صلہ رحمی بھی ہے۔ 

أَوْ مِسْكِينًا ذَا مَتْرَبَةٍ ﴿١٦﴾ 

یا کسی مسکین کو جو مٹی میں رل رہا ہو ۔

۔۔۔۔

یا پھر ایسے شخص  کو کھانا کھلانا جو انتہائی مسکین ہو،  فقر و فاقہ اور غربت کی وجہ سے مٹی میں رُل رہا ہو،  اس کے پاس اسباب معاش میں سے کچھ بھی نہ ہو یہ بھی بہت ثواب کا کام ہے۔ 

ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ ﴿١٧﴾ 

پھر وہ ان لوگوں میں بھی شامل نہ ہوا جو ایمان لائے ہیں ، اور جنہوں نے ایک د وسرے کو ثابت قدمی کی تاکید کی ہے ، اور ایک دوسرے کو رحم کھانے کی تاکید کی ہے ۔

۔۔۔۔۔

یہاں سے ان تمام اعمال کے قبول ہونے کی شرائط  بیان کی جا رہی ہیں ۔

۱- یہ اعمال صرف اس صورت میں قبول ہوں گے جب  ان کا کرنے والا مؤمن ہو ، بغیر ایمان کے کوئی نیکی قبول نہیں۔ جو شخص اللہ اور روز آخرت پر ایمان نہ رکھتا ہو، اس کے اعمال آخرت میں کسی کام نہیں آئیں گے بلکہ برباد ہوجائیں گے ۲- ایمان کے بعد دوسرا فرض یہ بیان کیا کہ   دوسرے مسلمان بھائیوں کو بھی صبر اور رحمت کی تلقین کرنا  ضروری ہے۔ صبر سے مراد نفس کو برائیوں سے روکنا اور بھلائیوں پر عمل کرنا ہے۔

۳- تیسری چیز یہ ارشاد فرمائی کہ   دوسرے لوگوں  پر رحم کرنا ، ان کی پریشانی اور تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھنا یہ بھی بڑا اجر و ثواب کا کام ہے۔ یتیموں پر شفقت کرنا، چھوٹوں پر مہربانی، بیواؤں ، بے کسوں ، بے زبانوں کی مدد ، بھوکوں کو کھانا کھلانا ، بیماروں کا دوا دارو کرنا ننگوں کو کپڑا پہنانا، غریبوں کی امدار کرنا یہ سب رحمت کی شاخیں ہیں۔ 

فائدہ: قرآن مجید میں صبر کا لفظ بہت  وسیع معنی میں  استعمال ہوتا ہے۔مومن کی پوری زندگی صبر کی زندگی ہے ، اور ایمان کے راستے پر  قدم رکھتے ہی آدمی کے صبر کا امتحان شروع ہو جاتا ہے ۔ 

۱- الله تعالی  کی فرض کردہ عبادت کرنے کے لیے  صبر  کی ضرورت ہے ۔ 

۲- الله تعالی کے ہر حکم  کی اطاعت و پیروی میں صبر کی ضرورت ہے ۔

۳-  الله کی حرام کی ہوئی چیزوں سے بچنا صبر کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔

۴-  اخلاقی برائیوں کو چھوڑنا اور پاکیزہ اخلاق اختیار کرنے کے لیے صبر چاہیے ۔ 

۵-   زندگی میں  بہت بار   ایسا ہوتا ہے کہ  اگر  الله  کے قانون کی پیروی کی جائے تو نقصان اٹھانا پڑتا ہے ، تکلیفوں ، مصیبتوں  ، اور محرومیوں سے پالا  پڑتا ہےاور  اگر نافرمانی کی جائے تو فائدے اور لذتیں حاصل ہوتی نظر آتی ہیں۔  کوئی مومن اس مشکل سے صبر کے بغیر عافیت سے  نہیں گزر سکتا ۔

 ۶- ایمان کی راہ اختیار کرتے ہی آدمی کو اپنے نفس اور اس کی خواہشات سے لے کر اپنے اہل و عیال ، اپنے خاندان ، معاشرے ، اپنے ملک و قوم ، اور دنیا بھر کے شیاطین جن و انس کی مزاحمتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، حتی کہ الله کی راہ میں ہجرت اور جہاد کی نوبت بھی آ جاتی ہے ۔ ان سب حالات میں صبر ہی کی صفت آدمی کو ثابت قدم رکھ سکتی ہے ۔ 

اس آیت میں دین کے تقریبا سارے ہی احکام آگئے ہیں۔ 

أُولَـٰئِكَ أَصْحَابُ الْمَيْمَنَةِ ﴿١٨﴾ 

یہی وہ لوگ ہیں جو بڑے نصیب والے ہیں 

۔۔۔۔

اور اس کا ایک ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ: ’’وہ دائیں ہاتھ والے ہیں‘‘ اور اِن سے مراد وہ نیک لوگ ہیں جن کا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ لفظ یمن کے معنی خوش بختی کے بھی ہیں۔ اس معنی میں آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ یہ وہ خوش قسمت لوگ ہوں گے جو  ہدایت کے راستے پر چلتے ہوئے  کامیاب ہو گئے۔

وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِنَا هُمْ أَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ ﴿١٩﴾ 

اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا ہے ، وہ نحوست والے لوگ ہیں 

۔۔۔۔

المشئمہ  کا  معنی بدنصیبی اور نحوست ہے اردو میں بھی شومئی قسمت بدنصیبی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اس کا ایک ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ: ’’وہ بائیں ہاتھ والے ہیں‘‘ یعنی  مراد وہ بد کار ہیں جن کا اعمال نامہ بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔

عَلَيْهِمْ نَارٌ مُّؤْصَدَةٌ ﴿٢٠

ان پر ایسی آگ مسلط ہوگی جو جو ان پر بند کردی جائے گی 

۔۔۔۔

آگ ان پر  بند کردی جائے گی کہ پریشر ککر کی طرح اس  کی ساری تپش اندر ہی رہے اور انہیں شدید ترین عذاب ملے گا یا یہ کہ  جہنم کے دروازے بند کردئیے جائیں گے تاکہ   دوزخیوں کے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہ رہے۔

الله کریم جہنم کی آگ سے اپنی پناہ میں رکھے۔

مختصر تفسیر عتیق سورۃ البلد 

سورت کی ابتداء میں مکہ مکرمہ جس میں نبی علیہ السلام رہائش پذیر تھے اور والد و اولاد کی قسم کہ انسان مشقت اور تکالیف کے مراحل سے گزرتا رہتا ہے۔ نیکی کا راستہ اختیار کرنے میں بھی مشقت آتی ہے اور بدی کا راستہ اختیار کرنے میں بھی مشقت آتی ہے مگر فرق یہ ہے کہ نیکی کی راہ میں مشقت اٹھانے والوں کے لئے اجرو ثواب ہے جبکہ بدی کی راہ میں مشقت اٹھانے والوں کو ثواب کی بجائے عذاب ہو گا۔انسان کی ہٹ دھرمی اور اللہ کے راستہ سے روکنے کے جرم کے اعادہ پر فرمایا کہ جو کہتا ہے کہ میں نے بہت مال لگا دیا ہے، کیا اسے معلوم نہیں کہ اسے کوئی دیکھ رہا ہے پھر اللہ نے انسان پر اپنے انعامات ذکر فرما کر انسان کو خدمت خلق کی تلقین کی ہے اور نیک و بد کی تقسیم پر سورت کا اختتام ہے۔

۔۔۔۔۔۔

سورۃ الغاشیہ:11، عم پارہ


سورۃ الغاشیہ 

چھبیس آیات پر مشتمل الغاشیہ   مکی سورۃ ہے۔ اس سورة کا نام  قیامت کے نام پر  “الغاشیہ”رکھا گیا ہے جو اس سورة کی پہلی آیت میں موجود ہے۔اس کے علاوہ اسے “ہل اتاک حدیث الغاشیہ” اور “ہل اتاک” بھی کہا جاتا ہے۔   

فضیلت

نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم  نمازوں  میں خاص طور پر عشاء، جمعہ اور عید کی نمازوں کی پہلی رکعت میں  سورة اعلی  اور دوسری میں سورة الغاشیہ  پڑھتے تھے۔اس سے معلوم ہوا کہ دونوں سورتوں میں خاص نسبت ہے۔ 

ربط: 

پچھلی سورة میں آخرت کی تیاری کا حکم تھا اس سورة میں تیاری کرنے اور  نہ کرنے والوں کی جزا و سزا  کا بیان ہے۔

اس کے علاوہ سورۃ الغاشیہ کا سورة الاعلی  سے لفظی ربط بھی واضح ہے۔ 

سورة الاعلی میں  فذکر کا حکم ہے ۔ الغاشیہ میں بھی فذکر کہا گیا ہے۔

سورة الاعلی میں النار الکبری کا بیان ہے تو الغاشیہ میں نارا حامیة  کا ذکر ہے۔

ہَلۡ اَتٰىکَ حَدِیۡثُ الۡغَاشِیَۃِ ؕ﴿۱﴾

کیا تمہیں اس واقعے ( یعنی قیامت ) کی خبر پہنچی ہے جو سب پر چھا جائے گا؟

۔۔۔۔۔۔۔

مراد یہ ہے کہ کیا آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو غاشیہ کے بارے میں کچھ معلوم ہے؟

غاشیہ کے بارے میں مفسرین کے دو قول ہیں۔

۱-الغاشیہ  سے  مراد دوزخ کی آگ  ہے۔   

۲- بعض کہتے ہیں مراد قیامت ہے کیونکہ غاشیہ کا معنی ڈھانپنے والی ہے اور قیامت بھی اچانک آ کر سب کو ڈھانپ لے 

گی۔   

وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ ۙ﴿۲﴾

بہت سے چہرے اس دن اترے ہوئے ہوں گے ۔

۔۔۔۔۔۔ 

قیامت میں مؤمن اور کافر دونوں گروہ الگ الگ ہو جائیں گے اور اپنے چہروں سے پہچانے جائیں گے۔ ان آیات میں کافروں کے چہروں کی ایک پہچان یہ بتائی ہے کہ وہ خاشعہ ہوں گے۔ خشوع کے معنے جھکنے اور ذلیل ہونے کے ہیں۔ نماز میں خشوع کا یہی مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے  جھکنا  اور عاجزی محسوس  کرنا۔مراد یہ ہے کہ جن لوگوں نے دنیا میں اللہ تعالیٰ کے سامنے سر نہیں جھکایا  اور عاجزی  اختیار نہیں کی،  قیامت کے دن  ان کے چہروں پر ذلت اور رسوائی ڈال دی جائے گی۔

عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ ۙ﴿۳﴾

مصیبت جھیلتے ہوئے، تھکن سے چور۔

۔۔۔۔۔

کافروں کی دوسری پہچان یہ ہو ہوگی کہ ان کے چہرے عاملہ اور ناصبہ ہوں گے۔  عاملہ کے معنی مسلسل کام  اور شدید محنت سے تھک کر چور ہوجانے کے ہیں۔  اور ناصبہ کا معنی بھی تھکنے اور مشقت میں پڑنے کے ہیں۔

اس کی تفسیر میں دو قول ہیں۔

 ۱-کافروں کا یہ حال ان کی دنیا سے تعلق رکھتا ہے۔ بہت سے راہب ،  کافر اور مشرک بتوں کی عبادت میں اور کئی ہندو جوگی وغیرہ  مشرکانہ طور طریقوں  میں انتہائی محنت و مشقت کرتے ہیں؛  چونکہ یہ ساری عبادت  باطل طریقے سے ہوتی ہے اس لیے اس کا کوئی اجر و ثواب نہیں ہوگا۔

۲- بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ کفار کی آخرت کا حال بیان کیا جا رہا ہے جنہوں نے  دنیا میں الله تعالی کی اطاعت و فرمانبرداری سے انکار کیا تھا  آخرت میں  انہیں  مسلسل مشقت میں ڈال دیا جائے گا جس سے وہ تھک کر چُور ہو جائیں گے۔ مثلا کسی کو پہاڑ پر چڑھایا جائے گا ، کسی کو میدان میں دوڑایا جائے گا، کسی کو زنجیریں ڈال کر گھسیٹا جائے گا اور کسی کے گلے میں طوق ڈالا جائے گا۔ جس سے وہ تھکے ماندے ہو جائیں گے۔   

حضرت عمر رضی الله عنہ  جب ملک شام میں تشریف لے گئے تو ایک نصرانی راہب آپ کے پاس آیا جو بوڑھا ہو چکا تھا اور اپنے مذہب کی عبادت میں سخت  محنت کرنے کی وجہ سے اس کا چہرہ بگڑ گیا تھا،  بدن سوکھ گیا تھا اور پھٹا پرانا لباس پہنے ہوئے  تھا۔ اسے دیکھ کر حضرت عمر رضی الله عنہ  کی آنکھوں میں آنسو آ گئے،  لوگوں نے رونے کی وجہ  پوچھی تو آپ  نے فرمایا، مجھے اس بوڑھے کے حال پر رحم آ گیا ہے،  اس بیچارے نے الله کی رضامندی پانے  کے لئے سخت  محنت و مشقت  کی مگر ناکام رہا۔ اس کے بعد حضرت عمر نے اس  آیت کی تلاوت کی۔ 

تَصۡلٰی نَارًا حَامِیَۃً ۙ﴿۴﴾

وہ دہکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے ۔

۔۔۔۔۔

حامیہ کے لفظی  معنے گرم کے ہیں اور آگ  گرم ہی ہوتی  ہے۔ آگ کی اس صفت کو بتانے کا مقصد یہ ہے  کہ اس آگ کی گرمی دنیا کی آگ کی طرح کسی وقت کم یا ختم ہونے والی نہیں بلکہ یہ  ہمیشہ بھڑکتی رہے گی۔

تُسۡقٰی مِنۡ عَیۡنٍ اٰنِیَۃٍ ؕ﴿۵﴾

انہیں کھولتے ہوئے چشمے سے پانی پلایا جائے گا ۔

۔۔۔۔۔

جب کفار جہنم میں پانی مانگیں گے تو ان کو کھولتے ہوئے چشمے کا پانی دیا جائے گا جس کی گرمی انتہاء کو پہنچی ہوئی ہوگی۔پینے کے لیے منہ کے پاس لائیں گے تو چہرہ جھلس جائے گا، پیٹ میں ڈالیں گے تو آنتوں کو کاٹ دے گا۔ 

لَیۡسَ لَہُمۡ طَعَامٌ اِلَّا مِنۡ ضَرِیۡعٍ ۙ﴿۶﴾

ان کے لیئے ایک کانٹے دار جھاڑ کے سوا کوئی کھانا نہیں ہوگا ۔

۔۔۔۔۔

یعنی اہل جہنم کو کھانے کے لئے ضریع کے سوا کچھ نہ ملے گا۔ ضریع ایک خاص قسم کی  کانٹوں والی  گھاس ہے جو زمین پر پھیلتی ہے،  بدبو دار اور زہریلی ہوتی ہے۔ سوائے اونٹ کے اسے کوئی نہیں کھاتا اس کو اونٹ کٹارا کہا جاتا ہے، یہی غذا ان کو دی جائے گی جو حلق میں پھنس جائے گی،  نہ نیچے اترے گی نہ باہر  آئے گی۔ 

سوال: جہنم میں درخت یا گھاس کہاں سے آئیں گے کیونکہ وہ تو آگ سے جل جانے والی چیز ہیں؟

جواب : جس خالق نے انہیں  دنیا میں ہوا اور پانی سے پالا ہے اسے اس بات پر پوری قدرت ہے کہ وہ جہنم میں ایسے درخت اور جھاڑیاں پیدا کردے جو آگ سے پیدا ہوں اور  اسی سے  پھلیں پھولیں۔ 

لَّا یُسۡمِنُ وَ لَا یُغۡنِیۡ مِنۡ جُوۡعٍ ؕ﴿۷﴾

جو نہ جسم کا وزن بڑھائے گا اور نہ بھوک مٹائے گا ۔

۔۔۔۔۔

 ضریع جہنم  والوں کا کھانا ہوگا،    یہ  آیت سن کر مکہ کے بعض کافر کہنے لگے کہ ہمارے اونٹ تو ضریع کھا کر خوب موٹے  ہوجاتے ہیں۔  اس  کے جواب میں فرمایا،  جہنم کی  کانٹے دار گھاس  کو دنیا کی  بدبودار گھاس  نہ سمجھو ۔ وہاں کے ضریع سے نہ  طاقت   ملے گی  اور نہ  بھوک سے نجات ملے گی۔

وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍ نَّاعِمَۃٌ ۙ﴿۸﴾

بہت سے چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے ۔

۔۔۔۔

قیامت کے دن بہت سے چہرے تر و تازہ  اور خوش ہوں گے۔ان پر قیامت کی سختی ، شدت اور ہولناکی کاکوئی اثر نہیں ہوگا۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو دنیا میں خوشی خوشی الله تعالی کے احکام اور شریعت کی پابندیوں پر عمل کرنے کے لیے ہر طرح کی سختی  برداشت کرتے تھے، جیسے حلال روزی کمانے کی محنت کرنا اور اس کے لیے تنگی برداشت کرنا، سود، رشوت،بے حیائی اور معاشرے کی دوسری برائیوں سے بچنے کی تکلیف برداشت کرنا، گرمی سردی کی تکلیف برداشت کرتے ہوئے غیر محرم سے مکمل پردہ کرنا، سردی میں ٹھنڈے اور گرمی میں   پانی سے وضو کرکے ہر حال میں نماز ادا کرنا ، تہجد کے لیے رات کو جاگنا ، دین سیکھنے  کی مشکلات کو برداشت کرنا،  گرمی کے روزے اور جہاد کی سختی و تکلیف وغیرہ وغیرہ۔ 

لِّسَعۡیِہَا رَاضِیَۃٌ ۙ﴿۹﴾

( دنیا میں ) اپنی کی ہوئی محنت کی وجہ سے پوری طرح مطمئن ۔

۔۔۔۔

دنیا میں الله تعالی کی اطاعت و فرمانبرداری کے لیے  محنت و مشقت کرنے والے اپنی کوشش پر خوش و خرم ہوں گے۔قیامت کے دن  ان کی محنت کا بہترین اجر ملے گا۔  

فِیۡ جَنَّۃٍ عَالِیَۃٍ ﴿ۙ۱۰﴾

عالیشان جنت میں ہوں گے

۔۔۔۔

وہ بلند باغوں میں رہیں گے جو دنیا کے باغات سے بہت اعلی ہوں گے۔ یہ ان کی کوشش کا اجر ہوگا ۔ 

لَّا تَسۡمَعُ فِیۡہَا لَاغِیَۃً ﴿ؕ۱۱﴾

جس میں وہ کوئی لغو بات نہیں سنیں گے ۔

۔۔۔۔

جنت میں کوئی شور شرابا  یا بری بات نہیں ہوگی، نہ دکھ اور تکلیف دینے والا  طعنہ ، نہ  گالی گلوچ ، نہ بہتان تراشی، نہ موت یا کسی نقصان کی خبر، نہ نعمتوں اور جوانی کے ختم ہوجانے کا ذکر ہوگا۔ اہل جنت کے کانوں میں کبھی کوئی ایسا کلمہ نہیں پڑیگا جس سے ان کا دل برا اور میلا ہو۔غرض جنت میں  کوئی تکلیف دینے والی بات نہیں ہوگی۔ 

فائدہ: اس سے معلوم ہوا کہ کسی پر الزام لگانا اور خوامخواہ کسی کے متعلق فضول باتیں کرنا تکلیف دینے والی چیز ہے، اس سے بچنا چاہیے اور اسی لیے الله تعالی نے اہل جنت کے حالات  بیان کرتے ہوئے اس بات کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ 

فِیۡہَا عَیۡنٌ جَارِیَۃٌ ﴿ۘ۱۲﴾

اس جنت میں بہتے ہوئے چشمے ہوں گے ۔

۔۔۔۔۔

جنت میں انتہائی خوبصورت  جاری   چشمے ہوں گے جن  سے جنت کے باغوں میں تروتازگی اور نکھار ہوگا۔ 

فِیۡہَا سُرُرٌ مَّرۡفُوۡعَۃٌ ﴿ۙ۱۳﴾

اس میں اونچی اونچی نشستیں ہوں گی ۔

۔۔۔۔۔

یعنی خوبصورت تخت سجے ہوں گے۔اونچی شاہانہ  کرسیاں  لگی ہوں گی،  اہل جنت ان پر بیٹھے نظارا کرتے ہوں گے۔ 

وَّ اَکۡوَابٌ مَّوۡضُوۡعَۃٌ ﴿ۙ۱۴﴾

اور سامنے رکھے ہوئے پیالے ۔

۔۔۔۔

اکواب، کو ب کی جمع ہے۔ کوب پانی پینے کے برتن کو کہا جاتا ہے جس میں نہ سوراخ ہو نہ ہینڈل یعنی  گلاس یا آبخورہ وغیرہ 

گلاس ان چشموں کے قریب کناروں پر  اپنی  جگہ  رکھے  ہوں گے کہ جب بھی ضرورت پڑے استعمال کیے جائیں۔

فائدہ : رہنے سہنے کے آداب  میں یہ بات شامل ہے کہ  پانی پینے کے برتن پانی کے قریب مقررہ جگہ پر رکھنے چاہیں۔   یہ  اچھی بات نہیں کہ  پانی پینے کے وقت پہلے برتن یا گلاس  تلاش کرنا پڑے ۔  اسی طرح استعمال کی عام چیزیں جیسے لوٹے، گلاس، تولیے  وغیرہ  کی جگہ مقرر  کرنی چاہئے اور استعمال   کے بعد ان  کو وہیں رکھنا چاہئے۔ تاکہ دوسروں کو تکلیف نہ پہنچے۔ لفظ موضوعہ سے یہ اشارہ اس لئے نکلا کہ حق تعالیٰ نے اہل جنت کے آرام  و آسائش کے لئے خاص طور پر اس بات  کا ذکر  فرمایا۔

وَّ نَمَارِقُ مَصۡفُوۡفَۃٌ ﴿ۙ۱۵﴾

اور قطار میں لگائے ہوئے گداز تکیے ۔

۔۔۔۔۔

یعنی جنت والوں کے بیٹھنے کے لیے  تکیے صف کی شکل میں بچھے ہوں گے جہاں چاہیں بیٹھ جائیں۔

وَّ زَرَابِیُّ مَبۡثُوۡثَۃٌ ﴿ؕ۱۶﴾

اور بچھے ہوئے قالین

۔۔۔۔۔۔

اور جنت میں نہایت آرام دہ، قیمتی غالیچے بچھائے جائیں گے، ہر طرف قالین ہی قالین ہوں گے  تاکہ جنتی  جہاں چاہیں آرام کریں اور جنت کی نعمتوں کا لطف اٹھائیں۔ 

ربط آیات: ۱۷ تا ۲۶ 

پچھلی آیات میں قیامت کے حالات ، کافروں کی سزا اور مؤمنوں کی جزا کا بیان تھا۔ کیونکہ کافر قیامت کا انکار کرتے  اور دوبارہ زندہ ہونے کو نا ممکن سمجھتے تھے اس لیے الله تعالی نے اپنی قدرت کی چار نشانیاں، اونٹ، آسمان، پہاڑ اور زمین  بیان کرکے غور وفکر کی دعوت دی۔ 

سوال: الله  کی قدرت کی بے شمار نشانیاں ہیں، پھر یہاں انہی چار کا ذکر کیوں کیا گیا؟

جواب: یہ چار نشانیاں عربوں کے حالات کے بالکل مطابق ہیں۔ عام طور پر عرب  صحرا  میں اُونٹوں پر سفر کرتے ہیں جو ان کے لیے ایک قیمتی چیز شمار ہوتی ہے۔   اُونٹ کی تخلیق میں جو عجیب خصوصیات ہیں، ان سے وہ اچھی طرح  واقف تھے۔ اُونٹ  پر سفر کرتے وقت انسان کو اوپر نیچے  آسمان و  زمین اور دائیں بائیں پہاڑ نظر آتے ہیں، اس لیے انہیں چیزوں پر غور و فکر کی دعوت دی گئی۔   

اَفَلَا یَنۡظُرُوۡنَ اِلَی الۡاِبِلِ کَیۡفَ خُلِقَتۡ ﴿۱۷﴾

تو کیا یہ لوگ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ انہیں کیسے پیدا کیا گیا؟ 

۔۔۔۔۔

 اونٹ الله تعالی کی تخلیق اور قدرت کا عجیب  نمونہ ہے۔ 

اونٹ  کی کچھ عجیب عادات اور  فائدے: 

۱۔ اونٹ اپنی جسامت کے لحاظ سے ایک بڑا جانور ہے  اس کے باوجود اس پر سوار ہونے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ الله تعالی نے اس کی ٹانگ کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا ، اونٹ کی ہر ٹانگ میں دو گھٹنے بنائے، جن کی مدد سے  وہ آرام سے بیٹھ جاتا ہے۔ اسی لیے اس پر سوار ہونے یا بوجھ لادنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی۔ 

۲- نہایت فرمانبردار جانور ہے۔ ایک چھوٹا سا  بچہ بھی سو اونٹوں کی قطار کی رسی     پکڑ  کر ادھر  ادھر لے جا سکتا ہے۔ 

۳۔ بھاری  بھرکم سامان آسانی سے اٹھا لیتا ہے۔

۴۔عرب کی گرمی مشہور ہے لیکن اس پر موسم کی سختی اثر نہیں کرتی،  سخت دھوپ یا شدید  گرمی سے نہیں گھبراتا۔

۵۔ سفر کے لیے اونٹ کو ہموار سڑک کی ضرورت نہیں، اونچے، نیچے ، کچے پکے، پہاڑی، پتھریلے ہر طرح کے راستوں پر آسانی سے چل سکتا ہے۔ 

۶۔ دن رات سفر کے لیے تیار رہتا ہے۔ عرب  اس کو سفینة البر( خشکی کا جہاز) کہتے ہیں۔

۷۔ اونٹ کی خوراک بھی بہت سستی  اور کم ہوتی ہے۔ خشک ، تازہ، میٹھا، کڑوا، نرم ، سخت جو مل جائے کھا لیتا ہے۔ اس لیے غریب لوگ بھی آسانی سے اس کی دیکھ بھال  کر سکتے ہیں۔ 

۸۔ عرب کے صحراؤں میں پانی کم اور  دور دراز ہوتاہے۔ الله تعالی نے اس کے پیٹ میں پانی کی ٹینکی لگا دی ہے ، جس میں پانی محفوظ رہتا ہے۔ اگر سات آٹھ دن بھی اونٹ کو پانی نہ ملے تو گزارا کر لیتا ہے۔ 

۹۔ اس کے دودھ میں بڑی برکت اور غذائیت ہے، پورے گھرانے کو کافی ہو جاتا ہے اور اونٹ کا دودھ پینے والا پیاس  کی بیماری سے بے نیاز  ہوجاتا ہے ۔

۱۰۔ اس کا گوشت حلال ہے اور بہت سے لوگوں کو کافی ہو جاتا ہے۔ 

اونٹ الله تعالی کی قدرت کا عجیب نمونہ ہے۔ جس الله نے اسے  پیدا کیا ہے وہ تمہیں بھی دوبارہ زندہ کر سکتا ہے۔ 

وَ اِلَی السَّمَآءِ کَیۡفَ رُفِعَتۡ ﴿۱۸﴾

اور آسمان کو کہ اسے کس طرح بلند کیا گیا؟

۔۔۔۔۔

الله تعالی کی قدرت کا دوسرا نمونہ آسمان ہے۔

آسمان کی چند خصوصیات : 

۱- انتہائی بلند ہے۔  انسان، حیوان، پرندے یا کوئی اور چیز  اس کی بلندی تک نہیں پہنچ سکتے۔ 

۲۔ انتہائی وسیع ہے۔ اس  کے نیچے  انسان ، حیوان ، چرند پرند سب رہتے ہیں۔ 

۳۔ جب سے بنا ہے  ایک  ہی حالت پر ہے۔ اس میں نہ کبھی کوئی سوراخ ہوا ، نہ کہیں سے ٹوٹا اور نہ ہی  پرانا ہوا۔ 

۴۔ الله تعالی نے اس پر سورج ، چاند ، ستارے بنائے ۔ اگر آسمان پر سورج نہ  ہوتا تو زمین پر زندگی نہ ہوتی، حرارت اور روشنی نہ ہوتی، ہر وقت اندھیرا چھایا رہتا اور دنیا کا کاروبار ٹھپ ہو جاتا۔ یہ سب الله کی قدرت کی عظیم نشانیاں ہیں ۔

وَ اِلَی الۡجِبَالِ کَیۡفَ نُصِبَتۡ ﴿ٝ۱۹﴾

اور پہاڑوں کو کہ انہیں کس طرح گاڑا گیا؟

۔۔۔۔۔۔

تیسری عجیب نشانی پہاڑ ہیں۔ 

۱۔ زمین کا حصہ ہونے کے باوجود زمین سے بہت بلند ہیں۔

۲۔ سخت پتھروں سے بنے ہونے کے باوجود انہی پہاڑوں سے چشمے پھوٹتے ہیں اور دریا نکلتے ہیں ۔ مثلا  سندھ، دجلہ ، نیل ، فرات، گنگا ، جمنا وغیرہ  یہ قدرت کی عظیم نشانیاں ہیں۔

وَ اِلَی الۡاَرۡضِ کَیۡفَ سُطِحَتۡ ﴿ٝ۲۰﴾

اور زمین کو کہ اسے کیسے بچھایا گیا؟

۔۔۔۔۔

چوتھی عجیب نشانی زمین ہے۔ 

الله تعالی نے زمین کو اتنا وسیع بنایا کہ اس پر بے شمار انسانوں  کے علاوہ اس کی طرح طرح کی   مخلوقات آرام سے رہ رہی ہیں۔ زمین پر بڑے بڑے مکانات ، گھنے جنگل اور وسیع میدان ہیں۔

یہ لوگ اگر اپنے آس پاس کی چیزوں پر ہی غور کرلیں تو انہیں پتہ چل جائے کہ جس ذات نے کائنات کی یہ حیرت انگیز چیزیں پیدا کی ہیں، اُسے اپنی خدائی میں کسی شریک کی ضرورت نہیں،  جو ﷲ   کائنات کی ان چیزوں کو پیدا کرنے پر قدرت رکھتا  ہے، وہ یقینا اس بات پر بھی قادر ہے کہ وہ اِنسانوں کو مرنے کے بعد دُوسری زندگی عطا کر ے، اور اُن سے اُن کے اعمال کا حساب لے۔ 

فَذَکِّرۡ ۟ ؕ اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُذَکِّرٌ ﴿ؕ۲۱﴾

اب ( اے پیغمبر ) تم نصیحت کیے جاؤ ۔ تم تو بس نصیحت کرنے والے ہو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

 یہ نشانیاں کسی بھی عقلمند شخص  کی نصیحت کے لیے کافی ہیں۔ چنانچہ  اس آیت میں نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ آپ ان کو ادھر متوجہ کرکے نصیحت کریں۔ ہم نے آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو یاد دہانی  کے لیے بھیجا ہے۔ 

لَسۡتَ عَلَیۡہِمۡ بِمُصَۜیۡطِرٍ ﴿ۙ۲۲﴾

آپ کو ان پر زبردستی کرنے کے لیے مسلط نہیں کیا گیا ۔ 

۔۔۔۔۔۔

اگر کوئی آپ کی بات نہیں مانتا اور ہٹ دھرمی کرتا ہے تو چھوڑ دیں۔ ہم نے آپ کو ان پر نگران یا ذمہ دار نہیں بنایا کہ آپ زبردستی انہیں ایمان لانے پر مجبور کریں، بس آپ نصیحت کریں اور باقی کام ہم پر چھوڑ دیں ۔ جو نصیحت قبول کرے گا وہ فائدے میں رہے گا۔ آنحضرت صلی ﷲ علیہ وسلم کو کافروں کی ہٹ دھرمی سے جو تکلیف ہوتی تھی، اُس پر آپ کو یہ تسلی دی گئی ہے  کہ آپ کا فریضہ صرف تبلیغ کر کے پورا ہوجاتا ہے، آپ پر یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ انہیں زبردستی مسلمان بنائیں۔

 اس میں ہر مبلغ اور حق کے دعوت دینے والے  کے لئے بھی یہ اصول بیان کیا گیا ہے کہ اسے اپنا تبلیغ کا فرض ادا کرتے رہنا چاہئے اور کسی کو  زبردستی اپنی بات ماننے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے۔

اِلَّا مَنۡ تَوَلّٰی وَ کَفَرَ ﴿ۙ۲۳﴾

ہاں مگر جو کوئی منہ موڑے گا ، اور کفر اختیار کرے گا ۔

۔۔۔۔۔

بے شک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا کلام اور پیغام اپنی  بہترین  سیرت کی گواہی کے ساتھ امت تک اس انداز میں پہنچا دیا ہے کہ حق کو سمجھنے کے بارے میں کہیں کوئی شک نہیں رہا۔ اب اس کے بعد بھی جو شخص انکار کرے  گا تو  گویا  وہ  جان بوجھ کر  اس کا انکار کرے  گا۔ اس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ اس کے اندر بھلائی اور خیر کی کوئی خواہش نہیں۔ 

فَیُعَذِّبُہُ اللّٰہُ الۡعَذَابَ الۡاَکۡبَرَ ﴿ؕ۲۴﴾

تو اللہ اس کو بڑا زبردست عذاب دے گا ۔

۔۔۔۔۔

ایسے کافر کو الله تعالی انکار کرنے کی سزا کے طور پر  بڑے عذاب کا مزا چکھائے گا۔ 

اِنَّ اِلَیۡنَاۤ اِیَابَہُمۡ ﴿ۙ۲۵﴾

یقین جانو ان سب کو ہمارے پاس ہی لوٹ کر آنا ہے ۔

۔۔۔۔۔

الله تعالی فرماتے ہیں۔ بے شک سب نے مرنے کے بعد ہمارے  پاس ہی آنا ہے۔ 

ثُمَّ اِنَّ عَلَیۡنَا حِسَابَہُمۡ ﴿۲۶﴾

پھر یقینا ان کا حساب لینا ہمارے ذمے ہے ۔

۔۔۔۔۔

پھر ہم ان سے ان کے تکبر ، ضد اور انکار کا خود ہی حساب لے لیں گے۔ ہم  اس بات پر پوری قدرت رکھتے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔

مختصر تفسیر سورة الغاشیہ: 

قیامت کی ہولناکی اور شدت اور کافروں پر اترنے والی مشقت و مصیبت اور مؤمنوں کے لئے جنت کی نعمتوں کے ذکر سے ابتدا کی گئی ہے۔ پھر توحید باری تعالیٰ کے دلائل کا بیان ہے پھر حضور علیہ السلوة والسلام کو انسانیت کے لئے یاد دہانی اور نصیحت کرنے کا حکم ہے اور قیامت کے احتساب کو اپنی نگاہوں کے سامنے رکھنے کی تلقین ہے۔

۔۔۔۔۔

سورۃ البلد:13، عم پارہ

سورۃ البلد    اسماء سورة بلد کا معنی  شہر ہے۔ اس سورت کی پہلی آیت میں   اللّٰہ  تعالیٰ نے  شہر مکہ کی قسم کھائی  ہے اس مناسبت سے اسے ’’سورہ...