جمعرات، 25 مئی، 2023

سورۃ الغاشیہ:11، عم پارہ


سورۃ الغاشیہ 

چھبیس آیات پر مشتمل الغاشیہ   مکی سورۃ ہے۔ اس سورة کا نام  قیامت کے نام پر  “الغاشیہ”رکھا گیا ہے جو اس سورة کی پہلی آیت میں موجود ہے۔اس کے علاوہ اسے “ہل اتاک حدیث الغاشیہ” اور “ہل اتاک” بھی کہا جاتا ہے۔   

فضیلت

نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم  نمازوں  میں خاص طور پر عشاء، جمعہ اور عید کی نمازوں کی پہلی رکعت میں  سورة اعلی  اور دوسری میں سورة الغاشیہ  پڑھتے تھے۔اس سے معلوم ہوا کہ دونوں سورتوں میں خاص نسبت ہے۔ 

ربط: 

پچھلی سورة میں آخرت کی تیاری کا حکم تھا اس سورة میں تیاری کرنے اور  نہ کرنے والوں کی جزا و سزا  کا بیان ہے۔

اس کے علاوہ سورۃ الغاشیہ کا سورة الاعلی  سے لفظی ربط بھی واضح ہے۔ 

سورة الاعلی میں  فذکر کا حکم ہے ۔ الغاشیہ میں بھی فذکر کہا گیا ہے۔

سورة الاعلی میں النار الکبری کا بیان ہے تو الغاشیہ میں نارا حامیة  کا ذکر ہے۔

ہَلۡ اَتٰىکَ حَدِیۡثُ الۡغَاشِیَۃِ ؕ﴿۱﴾

کیا تمہیں اس واقعے ( یعنی قیامت ) کی خبر پہنچی ہے جو سب پر چھا جائے گا؟

۔۔۔۔۔۔۔

مراد یہ ہے کہ کیا آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو غاشیہ کے بارے میں کچھ معلوم ہے؟

غاشیہ کے بارے میں مفسرین کے دو قول ہیں۔

۱-الغاشیہ  سے  مراد دوزخ کی آگ  ہے۔   

۲- بعض کہتے ہیں مراد قیامت ہے کیونکہ غاشیہ کا معنی ڈھانپنے والی ہے اور قیامت بھی اچانک آ کر سب کو ڈھانپ لے 

گی۔   

وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ ۙ﴿۲﴾

بہت سے چہرے اس دن اترے ہوئے ہوں گے ۔

۔۔۔۔۔۔ 

قیامت میں مؤمن اور کافر دونوں گروہ الگ الگ ہو جائیں گے اور اپنے چہروں سے پہچانے جائیں گے۔ ان آیات میں کافروں کے چہروں کی ایک پہچان یہ بتائی ہے کہ وہ خاشعہ ہوں گے۔ خشوع کے معنے جھکنے اور ذلیل ہونے کے ہیں۔ نماز میں خشوع کا یہی مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے  جھکنا  اور عاجزی محسوس  کرنا۔مراد یہ ہے کہ جن لوگوں نے دنیا میں اللہ تعالیٰ کے سامنے سر نہیں جھکایا  اور عاجزی  اختیار نہیں کی،  قیامت کے دن  ان کے چہروں پر ذلت اور رسوائی ڈال دی جائے گی۔

عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ ۙ﴿۳﴾

مصیبت جھیلتے ہوئے، تھکن سے چور۔

۔۔۔۔۔

کافروں کی دوسری پہچان یہ ہو ہوگی کہ ان کے چہرے عاملہ اور ناصبہ ہوں گے۔  عاملہ کے معنی مسلسل کام  اور شدید محنت سے تھک کر چور ہوجانے کے ہیں۔  اور ناصبہ کا معنی بھی تھکنے اور مشقت میں پڑنے کے ہیں۔

اس کی تفسیر میں دو قول ہیں۔

 ۱-کافروں کا یہ حال ان کی دنیا سے تعلق رکھتا ہے۔ بہت سے راہب ،  کافر اور مشرک بتوں کی عبادت میں اور کئی ہندو جوگی وغیرہ  مشرکانہ طور طریقوں  میں انتہائی محنت و مشقت کرتے ہیں؛  چونکہ یہ ساری عبادت  باطل طریقے سے ہوتی ہے اس لیے اس کا کوئی اجر و ثواب نہیں ہوگا۔

۲- بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ کفار کی آخرت کا حال بیان کیا جا رہا ہے جنہوں نے  دنیا میں الله تعالی کی اطاعت و فرمانبرداری سے انکار کیا تھا  آخرت میں  انہیں  مسلسل مشقت میں ڈال دیا جائے گا جس سے وہ تھک کر چُور ہو جائیں گے۔ مثلا کسی کو پہاڑ پر چڑھایا جائے گا ، کسی کو میدان میں دوڑایا جائے گا، کسی کو زنجیریں ڈال کر گھسیٹا جائے گا اور کسی کے گلے میں طوق ڈالا جائے گا۔ جس سے وہ تھکے ماندے ہو جائیں گے۔   

حضرت عمر رضی الله عنہ  جب ملک شام میں تشریف لے گئے تو ایک نصرانی راہب آپ کے پاس آیا جو بوڑھا ہو چکا تھا اور اپنے مذہب کی عبادت میں سخت  محنت کرنے کی وجہ سے اس کا چہرہ بگڑ گیا تھا،  بدن سوکھ گیا تھا اور پھٹا پرانا لباس پہنے ہوئے  تھا۔ اسے دیکھ کر حضرت عمر رضی الله عنہ  کی آنکھوں میں آنسو آ گئے،  لوگوں نے رونے کی وجہ  پوچھی تو آپ  نے فرمایا، مجھے اس بوڑھے کے حال پر رحم آ گیا ہے،  اس بیچارے نے الله کی رضامندی پانے  کے لئے سخت  محنت و مشقت  کی مگر ناکام رہا۔ اس کے بعد حضرت عمر نے اس  آیت کی تلاوت کی۔ 

تَصۡلٰی نَارًا حَامِیَۃً ۙ﴿۴﴾

وہ دہکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے ۔

۔۔۔۔۔

حامیہ کے لفظی  معنے گرم کے ہیں اور آگ  گرم ہی ہوتی  ہے۔ آگ کی اس صفت کو بتانے کا مقصد یہ ہے  کہ اس آگ کی گرمی دنیا کی آگ کی طرح کسی وقت کم یا ختم ہونے والی نہیں بلکہ یہ  ہمیشہ بھڑکتی رہے گی۔

تُسۡقٰی مِنۡ عَیۡنٍ اٰنِیَۃٍ ؕ﴿۵﴾

انہیں کھولتے ہوئے چشمے سے پانی پلایا جائے گا ۔

۔۔۔۔۔

جب کفار جہنم میں پانی مانگیں گے تو ان کو کھولتے ہوئے چشمے کا پانی دیا جائے گا جس کی گرمی انتہاء کو پہنچی ہوئی ہوگی۔پینے کے لیے منہ کے پاس لائیں گے تو چہرہ جھلس جائے گا، پیٹ میں ڈالیں گے تو آنتوں کو کاٹ دے گا۔ 

لَیۡسَ لَہُمۡ طَعَامٌ اِلَّا مِنۡ ضَرِیۡعٍ ۙ﴿۶﴾

ان کے لیئے ایک کانٹے دار جھاڑ کے سوا کوئی کھانا نہیں ہوگا ۔

۔۔۔۔۔

یعنی اہل جہنم کو کھانے کے لئے ضریع کے سوا کچھ نہ ملے گا۔ ضریع ایک خاص قسم کی  کانٹوں والی  گھاس ہے جو زمین پر پھیلتی ہے،  بدبو دار اور زہریلی ہوتی ہے۔ سوائے اونٹ کے اسے کوئی نہیں کھاتا اس کو اونٹ کٹارا کہا جاتا ہے، یہی غذا ان کو دی جائے گی جو حلق میں پھنس جائے گی،  نہ نیچے اترے گی نہ باہر  آئے گی۔ 

سوال: جہنم میں درخت یا گھاس کہاں سے آئیں گے کیونکہ وہ تو آگ سے جل جانے والی چیز ہیں؟

جواب : جس خالق نے انہیں  دنیا میں ہوا اور پانی سے پالا ہے اسے اس بات پر پوری قدرت ہے کہ وہ جہنم میں ایسے درخت اور جھاڑیاں پیدا کردے جو آگ سے پیدا ہوں اور  اسی سے  پھلیں پھولیں۔ 

لَّا یُسۡمِنُ وَ لَا یُغۡنِیۡ مِنۡ جُوۡعٍ ؕ﴿۷﴾

جو نہ جسم کا وزن بڑھائے گا اور نہ بھوک مٹائے گا ۔

۔۔۔۔۔

 ضریع جہنم  والوں کا کھانا ہوگا،    یہ  آیت سن کر مکہ کے بعض کافر کہنے لگے کہ ہمارے اونٹ تو ضریع کھا کر خوب موٹے  ہوجاتے ہیں۔  اس  کے جواب میں فرمایا،  جہنم کی  کانٹے دار گھاس  کو دنیا کی  بدبودار گھاس  نہ سمجھو ۔ وہاں کے ضریع سے نہ  طاقت   ملے گی  اور نہ  بھوک سے نجات ملے گی۔

وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍ نَّاعِمَۃٌ ۙ﴿۸﴾

بہت سے چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے ۔

۔۔۔۔

قیامت کے دن بہت سے چہرے تر و تازہ  اور خوش ہوں گے۔ان پر قیامت کی سختی ، شدت اور ہولناکی کاکوئی اثر نہیں ہوگا۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو دنیا میں خوشی خوشی الله تعالی کے احکام اور شریعت کی پابندیوں پر عمل کرنے کے لیے ہر طرح کی سختی  برداشت کرتے تھے، جیسے حلال روزی کمانے کی محنت کرنا اور اس کے لیے تنگی برداشت کرنا، سود، رشوت،بے حیائی اور معاشرے کی دوسری برائیوں سے بچنے کی تکلیف برداشت کرنا، گرمی سردی کی تکلیف برداشت کرتے ہوئے غیر محرم سے مکمل پردہ کرنا، سردی میں ٹھنڈے اور گرمی میں   پانی سے وضو کرکے ہر حال میں نماز ادا کرنا ، تہجد کے لیے رات کو جاگنا ، دین سیکھنے  کی مشکلات کو برداشت کرنا،  گرمی کے روزے اور جہاد کی سختی و تکلیف وغیرہ وغیرہ۔ 

لِّسَعۡیِہَا رَاضِیَۃٌ ۙ﴿۹﴾

( دنیا میں ) اپنی کی ہوئی محنت کی وجہ سے پوری طرح مطمئن ۔

۔۔۔۔

دنیا میں الله تعالی کی اطاعت و فرمانبرداری کے لیے  محنت و مشقت کرنے والے اپنی کوشش پر خوش و خرم ہوں گے۔قیامت کے دن  ان کی محنت کا بہترین اجر ملے گا۔  

فِیۡ جَنَّۃٍ عَالِیَۃٍ ﴿ۙ۱۰﴾

عالیشان جنت میں ہوں گے

۔۔۔۔

وہ بلند باغوں میں رہیں گے جو دنیا کے باغات سے بہت اعلی ہوں گے۔ یہ ان کی کوشش کا اجر ہوگا ۔ 

لَّا تَسۡمَعُ فِیۡہَا لَاغِیَۃً ﴿ؕ۱۱﴾

جس میں وہ کوئی لغو بات نہیں سنیں گے ۔

۔۔۔۔

جنت میں کوئی شور شرابا  یا بری بات نہیں ہوگی، نہ دکھ اور تکلیف دینے والا  طعنہ ، نہ  گالی گلوچ ، نہ بہتان تراشی، نہ موت یا کسی نقصان کی خبر، نہ نعمتوں اور جوانی کے ختم ہوجانے کا ذکر ہوگا۔ اہل جنت کے کانوں میں کبھی کوئی ایسا کلمہ نہیں پڑیگا جس سے ان کا دل برا اور میلا ہو۔غرض جنت میں  کوئی تکلیف دینے والی بات نہیں ہوگی۔ 

فائدہ: اس سے معلوم ہوا کہ کسی پر الزام لگانا اور خوامخواہ کسی کے متعلق فضول باتیں کرنا تکلیف دینے والی چیز ہے، اس سے بچنا چاہیے اور اسی لیے الله تعالی نے اہل جنت کے حالات  بیان کرتے ہوئے اس بات کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ 

فِیۡہَا عَیۡنٌ جَارِیَۃٌ ﴿ۘ۱۲﴾

اس جنت میں بہتے ہوئے چشمے ہوں گے ۔

۔۔۔۔۔

جنت میں انتہائی خوبصورت  جاری   چشمے ہوں گے جن  سے جنت کے باغوں میں تروتازگی اور نکھار ہوگا۔ 

فِیۡہَا سُرُرٌ مَّرۡفُوۡعَۃٌ ﴿ۙ۱۳﴾

اس میں اونچی اونچی نشستیں ہوں گی ۔

۔۔۔۔۔

یعنی خوبصورت تخت سجے ہوں گے۔اونچی شاہانہ  کرسیاں  لگی ہوں گی،  اہل جنت ان پر بیٹھے نظارا کرتے ہوں گے۔ 

وَّ اَکۡوَابٌ مَّوۡضُوۡعَۃٌ ﴿ۙ۱۴﴾

اور سامنے رکھے ہوئے پیالے ۔

۔۔۔۔

اکواب، کو ب کی جمع ہے۔ کوب پانی پینے کے برتن کو کہا جاتا ہے جس میں نہ سوراخ ہو نہ ہینڈل یعنی  گلاس یا آبخورہ وغیرہ 

گلاس ان چشموں کے قریب کناروں پر  اپنی  جگہ  رکھے  ہوں گے کہ جب بھی ضرورت پڑے استعمال کیے جائیں۔

فائدہ : رہنے سہنے کے آداب  میں یہ بات شامل ہے کہ  پانی پینے کے برتن پانی کے قریب مقررہ جگہ پر رکھنے چاہیں۔   یہ  اچھی بات نہیں کہ  پانی پینے کے وقت پہلے برتن یا گلاس  تلاش کرنا پڑے ۔  اسی طرح استعمال کی عام چیزیں جیسے لوٹے، گلاس، تولیے  وغیرہ  کی جگہ مقرر  کرنی چاہئے اور استعمال   کے بعد ان  کو وہیں رکھنا چاہئے۔ تاکہ دوسروں کو تکلیف نہ پہنچے۔ لفظ موضوعہ سے یہ اشارہ اس لئے نکلا کہ حق تعالیٰ نے اہل جنت کے آرام  و آسائش کے لئے خاص طور پر اس بات  کا ذکر  فرمایا۔

وَّ نَمَارِقُ مَصۡفُوۡفَۃٌ ﴿ۙ۱۵﴾

اور قطار میں لگائے ہوئے گداز تکیے ۔

۔۔۔۔۔

یعنی جنت والوں کے بیٹھنے کے لیے  تکیے صف کی شکل میں بچھے ہوں گے جہاں چاہیں بیٹھ جائیں۔

وَّ زَرَابِیُّ مَبۡثُوۡثَۃٌ ﴿ؕ۱۶﴾

اور بچھے ہوئے قالین

۔۔۔۔۔۔

اور جنت میں نہایت آرام دہ، قیمتی غالیچے بچھائے جائیں گے، ہر طرف قالین ہی قالین ہوں گے  تاکہ جنتی  جہاں چاہیں آرام کریں اور جنت کی نعمتوں کا لطف اٹھائیں۔ 

ربط آیات: ۱۷ تا ۲۶ 

پچھلی آیات میں قیامت کے حالات ، کافروں کی سزا اور مؤمنوں کی جزا کا بیان تھا۔ کیونکہ کافر قیامت کا انکار کرتے  اور دوبارہ زندہ ہونے کو نا ممکن سمجھتے تھے اس لیے الله تعالی نے اپنی قدرت کی چار نشانیاں، اونٹ، آسمان، پہاڑ اور زمین  بیان کرکے غور وفکر کی دعوت دی۔ 

سوال: الله  کی قدرت کی بے شمار نشانیاں ہیں، پھر یہاں انہی چار کا ذکر کیوں کیا گیا؟

جواب: یہ چار نشانیاں عربوں کے حالات کے بالکل مطابق ہیں۔ عام طور پر عرب  صحرا  میں اُونٹوں پر سفر کرتے ہیں جو ان کے لیے ایک قیمتی چیز شمار ہوتی ہے۔   اُونٹ کی تخلیق میں جو عجیب خصوصیات ہیں، ان سے وہ اچھی طرح  واقف تھے۔ اُونٹ  پر سفر کرتے وقت انسان کو اوپر نیچے  آسمان و  زمین اور دائیں بائیں پہاڑ نظر آتے ہیں، اس لیے انہیں چیزوں پر غور و فکر کی دعوت دی گئی۔   

اَفَلَا یَنۡظُرُوۡنَ اِلَی الۡاِبِلِ کَیۡفَ خُلِقَتۡ ﴿۱۷﴾

تو کیا یہ لوگ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ انہیں کیسے پیدا کیا گیا؟ 

۔۔۔۔۔

 اونٹ الله تعالی کی تخلیق اور قدرت کا عجیب  نمونہ ہے۔ 

اونٹ  کی کچھ عجیب عادات اور  فائدے: 

۱۔ اونٹ اپنی جسامت کے لحاظ سے ایک بڑا جانور ہے  اس کے باوجود اس پر سوار ہونے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ الله تعالی نے اس کی ٹانگ کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا ، اونٹ کی ہر ٹانگ میں دو گھٹنے بنائے، جن کی مدد سے  وہ آرام سے بیٹھ جاتا ہے۔ اسی لیے اس پر سوار ہونے یا بوجھ لادنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی۔ 

۲- نہایت فرمانبردار جانور ہے۔ ایک چھوٹا سا  بچہ بھی سو اونٹوں کی قطار کی رسی     پکڑ  کر ادھر  ادھر لے جا سکتا ہے۔ 

۳۔ بھاری  بھرکم سامان آسانی سے اٹھا لیتا ہے۔

۴۔عرب کی گرمی مشہور ہے لیکن اس پر موسم کی سختی اثر نہیں کرتی،  سخت دھوپ یا شدید  گرمی سے نہیں گھبراتا۔

۵۔ سفر کے لیے اونٹ کو ہموار سڑک کی ضرورت نہیں، اونچے، نیچے ، کچے پکے، پہاڑی، پتھریلے ہر طرح کے راستوں پر آسانی سے چل سکتا ہے۔ 

۶۔ دن رات سفر کے لیے تیار رہتا ہے۔ عرب  اس کو سفینة البر( خشکی کا جہاز) کہتے ہیں۔

۷۔ اونٹ کی خوراک بھی بہت سستی  اور کم ہوتی ہے۔ خشک ، تازہ، میٹھا، کڑوا، نرم ، سخت جو مل جائے کھا لیتا ہے۔ اس لیے غریب لوگ بھی آسانی سے اس کی دیکھ بھال  کر سکتے ہیں۔ 

۸۔ عرب کے صحراؤں میں پانی کم اور  دور دراز ہوتاہے۔ الله تعالی نے اس کے پیٹ میں پانی کی ٹینکی لگا دی ہے ، جس میں پانی محفوظ رہتا ہے۔ اگر سات آٹھ دن بھی اونٹ کو پانی نہ ملے تو گزارا کر لیتا ہے۔ 

۹۔ اس کے دودھ میں بڑی برکت اور غذائیت ہے، پورے گھرانے کو کافی ہو جاتا ہے اور اونٹ کا دودھ پینے والا پیاس  کی بیماری سے بے نیاز  ہوجاتا ہے ۔

۱۰۔ اس کا گوشت حلال ہے اور بہت سے لوگوں کو کافی ہو جاتا ہے۔ 

اونٹ الله تعالی کی قدرت کا عجیب نمونہ ہے۔ جس الله نے اسے  پیدا کیا ہے وہ تمہیں بھی دوبارہ زندہ کر سکتا ہے۔ 

وَ اِلَی السَّمَآءِ کَیۡفَ رُفِعَتۡ ﴿۱۸﴾

اور آسمان کو کہ اسے کس طرح بلند کیا گیا؟

۔۔۔۔۔

الله تعالی کی قدرت کا دوسرا نمونہ آسمان ہے۔

آسمان کی چند خصوصیات : 

۱- انتہائی بلند ہے۔  انسان، حیوان، پرندے یا کوئی اور چیز  اس کی بلندی تک نہیں پہنچ سکتے۔ 

۲۔ انتہائی وسیع ہے۔ اس  کے نیچے  انسان ، حیوان ، چرند پرند سب رہتے ہیں۔ 

۳۔ جب سے بنا ہے  ایک  ہی حالت پر ہے۔ اس میں نہ کبھی کوئی سوراخ ہوا ، نہ کہیں سے ٹوٹا اور نہ ہی  پرانا ہوا۔ 

۴۔ الله تعالی نے اس پر سورج ، چاند ، ستارے بنائے ۔ اگر آسمان پر سورج نہ  ہوتا تو زمین پر زندگی نہ ہوتی، حرارت اور روشنی نہ ہوتی، ہر وقت اندھیرا چھایا رہتا اور دنیا کا کاروبار ٹھپ ہو جاتا۔ یہ سب الله کی قدرت کی عظیم نشانیاں ہیں ۔

وَ اِلَی الۡجِبَالِ کَیۡفَ نُصِبَتۡ ﴿ٝ۱۹﴾

اور پہاڑوں کو کہ انہیں کس طرح گاڑا گیا؟

۔۔۔۔۔۔

تیسری عجیب نشانی پہاڑ ہیں۔ 

۱۔ زمین کا حصہ ہونے کے باوجود زمین سے بہت بلند ہیں۔

۲۔ سخت پتھروں سے بنے ہونے کے باوجود انہی پہاڑوں سے چشمے پھوٹتے ہیں اور دریا نکلتے ہیں ۔ مثلا  سندھ، دجلہ ، نیل ، فرات، گنگا ، جمنا وغیرہ  یہ قدرت کی عظیم نشانیاں ہیں۔

وَ اِلَی الۡاَرۡضِ کَیۡفَ سُطِحَتۡ ﴿ٝ۲۰﴾

اور زمین کو کہ اسے کیسے بچھایا گیا؟

۔۔۔۔۔

چوتھی عجیب نشانی زمین ہے۔ 

الله تعالی نے زمین کو اتنا وسیع بنایا کہ اس پر بے شمار انسانوں  کے علاوہ اس کی طرح طرح کی   مخلوقات آرام سے رہ رہی ہیں۔ زمین پر بڑے بڑے مکانات ، گھنے جنگل اور وسیع میدان ہیں۔

یہ لوگ اگر اپنے آس پاس کی چیزوں پر ہی غور کرلیں تو انہیں پتہ چل جائے کہ جس ذات نے کائنات کی یہ حیرت انگیز چیزیں پیدا کی ہیں، اُسے اپنی خدائی میں کسی شریک کی ضرورت نہیں،  جو ﷲ   کائنات کی ان چیزوں کو پیدا کرنے پر قدرت رکھتا  ہے، وہ یقینا اس بات پر بھی قادر ہے کہ وہ اِنسانوں کو مرنے کے بعد دُوسری زندگی عطا کر ے، اور اُن سے اُن کے اعمال کا حساب لے۔ 

فَذَکِّرۡ ۟ ؕ اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُذَکِّرٌ ﴿ؕ۲۱﴾

اب ( اے پیغمبر ) تم نصیحت کیے جاؤ ۔ تم تو بس نصیحت کرنے والے ہو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

 یہ نشانیاں کسی بھی عقلمند شخص  کی نصیحت کے لیے کافی ہیں۔ چنانچہ  اس آیت میں نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ آپ ان کو ادھر متوجہ کرکے نصیحت کریں۔ ہم نے آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو یاد دہانی  کے لیے بھیجا ہے۔ 

لَسۡتَ عَلَیۡہِمۡ بِمُصَۜیۡطِرٍ ﴿ۙ۲۲﴾

آپ کو ان پر زبردستی کرنے کے لیے مسلط نہیں کیا گیا ۔ 

۔۔۔۔۔۔

اگر کوئی آپ کی بات نہیں مانتا اور ہٹ دھرمی کرتا ہے تو چھوڑ دیں۔ ہم نے آپ کو ان پر نگران یا ذمہ دار نہیں بنایا کہ آپ زبردستی انہیں ایمان لانے پر مجبور کریں، بس آپ نصیحت کریں اور باقی کام ہم پر چھوڑ دیں ۔ جو نصیحت قبول کرے گا وہ فائدے میں رہے گا۔ آنحضرت صلی ﷲ علیہ وسلم کو کافروں کی ہٹ دھرمی سے جو تکلیف ہوتی تھی، اُس پر آپ کو یہ تسلی دی گئی ہے  کہ آپ کا فریضہ صرف تبلیغ کر کے پورا ہوجاتا ہے، آپ پر یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ انہیں زبردستی مسلمان بنائیں۔

 اس میں ہر مبلغ اور حق کے دعوت دینے والے  کے لئے بھی یہ اصول بیان کیا گیا ہے کہ اسے اپنا تبلیغ کا فرض ادا کرتے رہنا چاہئے اور کسی کو  زبردستی اپنی بات ماننے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے۔

اِلَّا مَنۡ تَوَلّٰی وَ کَفَرَ ﴿ۙ۲۳﴾

ہاں مگر جو کوئی منہ موڑے گا ، اور کفر اختیار کرے گا ۔

۔۔۔۔۔

بے شک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا کلام اور پیغام اپنی  بہترین  سیرت کی گواہی کے ساتھ امت تک اس انداز میں پہنچا دیا ہے کہ حق کو سمجھنے کے بارے میں کہیں کوئی شک نہیں رہا۔ اب اس کے بعد بھی جو شخص انکار کرے  گا تو  گویا  وہ  جان بوجھ کر  اس کا انکار کرے  گا۔ اس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ اس کے اندر بھلائی اور خیر کی کوئی خواہش نہیں۔ 

فَیُعَذِّبُہُ اللّٰہُ الۡعَذَابَ الۡاَکۡبَرَ ﴿ؕ۲۴﴾

تو اللہ اس کو بڑا زبردست عذاب دے گا ۔

۔۔۔۔۔

ایسے کافر کو الله تعالی انکار کرنے کی سزا کے طور پر  بڑے عذاب کا مزا چکھائے گا۔ 

اِنَّ اِلَیۡنَاۤ اِیَابَہُمۡ ﴿ۙ۲۵﴾

یقین جانو ان سب کو ہمارے پاس ہی لوٹ کر آنا ہے ۔

۔۔۔۔۔

الله تعالی فرماتے ہیں۔ بے شک سب نے مرنے کے بعد ہمارے  پاس ہی آنا ہے۔ 

ثُمَّ اِنَّ عَلَیۡنَا حِسَابَہُمۡ ﴿۲۶﴾

پھر یقینا ان کا حساب لینا ہمارے ذمے ہے ۔

۔۔۔۔۔

پھر ہم ان سے ان کے تکبر ، ضد اور انکار کا خود ہی حساب لے لیں گے۔ ہم  اس بات پر پوری قدرت رکھتے ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔

مختصر تفسیر سورة الغاشیہ: 

قیامت کی ہولناکی اور شدت اور کافروں پر اترنے والی مشقت و مصیبت اور مؤمنوں کے لئے جنت کی نعمتوں کے ذکر سے ابتدا کی گئی ہے۔ پھر توحید باری تعالیٰ کے دلائل کا بیان ہے پھر حضور علیہ السلوة والسلام کو انسانیت کے لئے یاد دہانی اور نصیحت کرنے کا حکم ہے اور قیامت کے احتساب کو اپنی نگاہوں کے سامنے رکھنے کی تلقین ہے۔

۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

سورۃ البلد:13، عم پارہ

سورۃ البلد    اسماء سورة بلد کا معنی  شہر ہے۔ اس سورت کی پہلی آیت میں   اللّٰہ  تعالیٰ نے  شہر مکہ کی قسم کھائی  ہے اس مناسبت سے اسے ’’سورہ...