پیر، 16 نومبر، 2020

سورة البروج :8 ۔ عم پارہ

 سورة البروج 

بائیس آیات پر مشتمل سورة البروج مکی سورة ہے۔ 


ربط ماقبل: 

پچھلی سورۃ یعنی الانشقاق میں کفار و مؤمنین کی سزا و جزا کا بیان تھا۔ مؤمنین کے لیے جنت کا وعدہ اور کفار کے لیے جہنم کا ڈراوہ دیا گیا تھا اب اس سورۃ میں بھی انہی مضامین کا بیان ہے۔ 


شانِ نزول 

نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد مکہ میں نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے الله کے حکم سے دعوتِ اسلام کی ابتدا کی۔ لوگ دینِ حق  کی سچائی و بھلائی سے متاثر ہو کردائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے۔ ایمان کی روشنی جب  کفر وشرک پر غالب آنے لگی تو مکہ کے سرداروں کو فکر ہوئی۔ اپنی حکومت اور سرداری بچانے کے لیے انہوں نے دعوتِ اسلام  روکنے کی کوششیں شروع کردیں۔ کفار مکہ  آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم پر اور اسلام قبول کرنے والوں  پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے لگے۔ یہاں تک کہ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔  جب کوئی غریب مسلمان یا غلام اسلام قبول کرتا تو سرداران مکہ اس پر ظلم کی انتہاء کر دیتے۔ مار پیٹ، گالی گلوچ، دھوپ اور کوئلے سے جلانے کی سزائیں ، کوڑے اور نیزے مارنا، اور خواتین کی توہین و مذاق اڑانا عام بات تھی۔ غریبوں اور غلاموں کے علاوہ اگر کوئی صاحبِ حیثیت مسلمان بھی اسلام قبول کر لیتا تو اس کے گھر والے اس سے مال ودولت چھین کر گھر سے نکال دیتے اس ظلم میں سارا خاندان شریک ہوتا۔ مسلمان نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ کر ان مصیبتوں اور تکلیفوں کا حال بیان کرتے تو آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم انہیں تسلیاں  دیتے، ان کی ہمت بندھاتے اور آنے والے اچھے وقت کی خوش خبری سناتے۔ آپ فرماتے کہ جلد ہی اسلام کا غلبہ ہوگا اور مسلمانوں کو امن و امان میسر ہوگا۔ ایک دن  آئے گا جب  دشمنوں سے انتقام و بدلہ لینے کی طاقت و قوت حاصل ہوگی۔ اس وقت کفار و مشرکین ذلیل و خوار ہوں گے۔ یہ سُن کر کفار اور زیادہ مذاق اڑاتے؛ چنانچہ مسلمانوں کو تسلی دینے کے لیے اور کفار کو خبردار کرنے کے لیے  یہ سورة نازل ہوئی۔ جس میں ایک ظالم بادشاہ کے ظلم کا واقعہ اور اس کا انجام  بیان کیا گیا۔ کفار و مشرکین کے لیے اس میں اشارہ اور تنبیہ  ہے کہ ظالم بادشاہ کا جو حال ہوا، وہی تمہارا انجام  ہوگا۔ 


ظالم بادشاہ کا قصہ اور انجام:- 

دنیا میں ایسے کئی واقعات ہوئے جن میں اہل ایمان کو خندق کھود کر آگ میں جلا دیا گیا۔ سند کے لحاظ سے سب سے صحیح ایک کافر بادشاہ کا وہ طویل واقعہ ہے جو صحیح مسلم میں صہیب رضی الله عنہما نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے  روایت کیا ہے۔ 

جس کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی ولادت باسعادت سے ستر سال پہلے  یمن یعنی نجران پر ایک کافر بادشاہ حکومت کرتا تھا، جس کا نام  یوسف ذونواس تھا۔ وہ اپنے آپ کو رب کہلواتا تھا۔ بادشاہ کے پاس ایک کاہن  یعنی جادوگر تھا جو  شیطان  جنوں  اور ستاروں کی مدد سے غیب کی باتیں بتاتا تھا۔ جب وہ کاہن بوڑھا ہوگیا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ میری موت کا وقت قریب ہے، کسی  ذہین، سمجھدار لڑکے کو میری شاگردی میں دیں  تاکہ  مرنے سے پہلے اسے اپنا علم و ہنر  سکھا دوں۔ چنانچہ بادشاہ نے ایک ذہین لڑکا منتخب کرکے کاہن کے پاس بھیج دیا جس کا نام عبداللہ بن تامر تھا۔ لڑکا ہر روز کاہن سے اس کا علم  سیکھنے اس کے پاس جانے لگا۔ راستے میں ایک راہب یعنی عیسائی پادری رہتا تھا جو اس وقت کے صحیح دین پر تھا۔ اس زمانے میں دینِ عیسیٰ علیہ السلام ہی دین حق تھا اس لئے یہ راہب اس وقت کا سچا مسلمان تھا۔ وہ لڑکا یعنی عبد الله بن تامر اس راہب کے پاس سے گزرتا تو اس سے دین کی سچی باتیں سنتا۔ بالاخر ایک دن دین حق کی سچائی سے متاثر ہو کر مسلمان ہوگیا۔  اللہ تعالیٰ نے اس کو ایسا پختہ ایمان عطا فرمایا کہ اس کی خاطر تکلیفیں برداشت کرتا رہا،  صبح کاہن کے پاس جاتے وقت راستے میں راہب کے پاس بیٹھتا جہاں کچھ وقت لگتا۔ کاہن کے پاس دیر سے پہنچتا تو وہ اس کو مارتا تھا اور واپسی پر جب پھر راہب کے پاس بیٹھتا تو گھر واپس جانے میں دیر ہوتی اس پر گھر والے مارتے لیکن  اس نے ان تکلیفوں کی پرواہ نہ کی اور ہر روز راہب کے پاس بیٹھ کر دین کی باتیں سیکھتا رہا۔ 

ایک دن وہ لڑکا گھر سے نکلا، اس نے دیکھا ایک شیر یا بعض روایات میں ہے، ایک  سانپ نے راستہ روکا ہوا تھا، لوگ اس کے خوف سے سخت پریشان تھے۔ اس  نے سوچا آج موقعہ ہے آزما کر دیکھتا ہوں کہ راہب کا دین سچا ہے یا کاہن کا؛ چنانچہ اس نے ایک چھوٹا سا پتھر اٹھایا اور دعا کی : یا الله ! اگر راہب کا دین سچا ہے تو اس پتھر سے اس موذی جانور کو مار دے اور اگر کاہن کا دین سچا ہے تو اس جانور کو نہ مارنا۔ یہ کہہ کر پتھر مارا تو وہ شیر یا سانپ ہلاک ہوگیا۔ سب لوگ بہت  خوش ہوئے اور مشہور ہوگیا کہ اس لڑکے کے پاس کوئی زبردست علم ہے۔ لوگ اپنی تکالیف سے نجات حاصل کرنے کے لیے اس کے پاس آنے لگے۔ جب بھی اس لڑکے  کے پاس کوئی مریض آتا تو وہ اسے دعوتِ توحید دیتا اور اس سے کہتا کہ الله پر ایمان لاؤ کیونکہ شفا الله کے ہاتھ میں ہے وہی تمہیں صحت یاب کرے گا۔ لوگ اسلام قبول کرنے لگے۔ رفتہ رفتہ یہ بات بادشاہ کے دربار تک پہنچ گئی۔ بادشاہ کا ایک وزیر اندھا تھا، اسے جب لڑکے کے بارے میں معلوم ہوا تو وہ بھی اس لڑکے کے پاس جا پہنچا۔ اسے بہت سا مال اور تحائف پیش کیے اور اپنی آنکھوں کا علاج کرنے کی درخواست کی۔ 

لڑکے نے جواب دیا کہ شفا تو الله کے ہاتھ میں ہے میں اس شرط پر علاج کروں گا کہ تم الله  پر ایمان لے آؤ۔ چنانچہ وہ وزیر مسلمان ہو گیا۔ لڑکے نے اس کے لیے دعا کی اور الله کے حکم سے اس کی آنکھیں ٹھیک ہوگئیں۔ دوسرے دن وزیر دربار میں حاضر ہوا تو بادشاہ اس کی آنکھیں دیکھ کر حیران ہوگیا اور پوچھا تمہاری آنکھیں کس نے ٹھیک کی ہیں۔ وزیر نے جواب دیا: میرے رب نے۔

بادشاہ نے کہا: تمہارے رب نے یعنی میں نے۔

وزیر نے جواب دیا: نہیں میرے الله نے جو سب کا رب ہے۔

بادشاہ نے کہا: کیا میرے علاوہ بھی تمہارا کوئی رب ہے؟ 

وزیر نے جواب دیا: ہاں! میرا رب تو وہ الله ہے جس نے ساری مخلوق کو پیدا کیا ہے۔ 

بادشاہ غضب ناک ہوا اور وزیر کو گرفتار کر لیا، اسے  سخت سزا دی اور پوچھنے لگا کہ یہ عقیدہ تجھے کس نے سکھایا ہے۔ سزاؤں سے گھبرا کر  وزیر نے لڑکے کا پتہ بتا دیا۔ بادشاہ نے اس لڑکے بلایا اور اس سے کہا کہ تم میرے کاہن سے علم سیکھ کر بیماروں کا علاج کرتے ہو اور نام کسی اور کا لگاتے ہو ۔ لڑکے نے کہا: میرے ، آپ کے اور کاہن کے ہاتھ میں شفا نہیں بلکہ الله کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہتا ہے شفا یاب کرتا ہے۔ اس پر بادشاہ نے اسے بھی قید میں ڈال دیا اور اسے سزائیں دے کر راہب کا پتہ معلوم کیا۔

راہب اور اس وزیر کے بارے میں اس نے حکم دیا ، اگر یہ مجھے رب نہ مانیں تو ان کو آرے سے چیر دیا جائے۔ اور لڑکے کے متعلق حکم دیا کہ اگر یہ اپنے دین سے باز نہ آئے تو اسے پہاڑ کے اوپر سے نیچے گرا دیا جائے۔ 

جب سپاہی اس لڑکے کو لے کر پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے تو اس نے دعا کی: یا الله ! مجھے ان لوگوں سے بچا لے۔ چنانچہ الله کے حکم سے پہاڑ ہلنے لگا اور سپاہی  گر کر ہلاک ہوگئے، بچہ واپس آگیا۔ بادشاہ نے چند اور لوگوں کو حکم دیا اسے سمندر میں لے جا کر سمجھاؤ کہ اس دین سے باز آ جائے۔ اگر باز نہ آیا تو اسے پانی میں غرق کر دینا۔ لڑکے نے پھر الله تعالی سے دعا کی، طوفان آیا، ساتھ جانے والے ڈوب گئے اور لڑکا صحیح سلامت واپس آگیا ۔ 

پھر لڑکے نے بادشاہ سے کہا اگر تو مجھے مارنا ہی چاہتا ہے تو میں اس کا طریقہ بتاتا ہوں۔ شہر کے تمام لوگوں کو ایک میدان میں جمع کرو، پھر ان کے سامنے میرے ترکش کا ایک تیر لے کر بسم الله رب ھذا الغلام (الله کے نام کے ساتھ جو اس لڑکے کا رب ہے) کہہ کر مارو تو میں مر جاؤں گا۔ 

بادشاہ نے لوگوں کو جمع کیا اور اس لڑکے کو ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا پھر سارے لوگوں کے سامنے اس کے ترکش سے تیر نکال کر بسم الله رب ھذا الغلام کہہ کر اسے مارا جو اس کی کنپٹی پر لگا اس سے خون بہنے لگا ، لڑکے نے اس پراپنا ہاتھ رکھا اور وہیں الله کو پیارا ہو گیا۔

 اس واقعے کو دیکھتے ہی تمام لوگوں نے ایک زبان ہو کر نعرہ تکبیر بلند کیا اور کہنے لگے ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لاتے ہیں۔ یہ سن کر بادشاہ  کو شدید غصہ آیا۔ اس نے خندقیں کھود کر ان میں آگ دہکانے کا حکم دیا۔ چنانچہ  بڑی بڑی خندقیں کھودی گئیں اور انہیں آگ سے بھر دیا۔ بادشاہ اپنے وزیروں اور مشیروں کے ہمراہ ان کے کنارے مسندیں لگا کر بیٹھ گیا۔ پھر ایمان لانے والوں کو لایا گیا اور حکم دیا جو شخص دین اسلام سے نہ پھرے اسے آگ میں پھینک دو۔ 

اللہ تعالیٰ نے ان مؤمنین کو ایسی استقامت بخشی کہ ان میں سے ایک بھی ایمان چھوڑنے پر راضی نہ ہوا اور آگ میں ڈالا جانا قبول کر لیا۔  صرف ایک عورت جس کی گود میں ایک بچہ تھا وہ اس بچے کی وجہ سے  آگ  سے ذرا گھبرائی،  تو چھوٹا سا بچہ بولا کہ اماں جان صبر کرو، کیونکہ آپ حق پر ہیں، الله کا نام لے کر آگ میں کود جاؤ۔ بعد میں وہ آگ اس قدر بھڑک اٹھی کے بادشاہ اور اس کے وزیروں مشیروں کو جو کناروں پر مسندیں لگائے بیٹھے تھے جلا کر راکھ کر دیا۔ 

بعض روایات میں ہے کہ بارہ ہزار لوگوں کو آگ میں ڈالا گیا اور بعض روایات میں اس سے بھی زیادہ تعداد بیان کی گئی ہے۔ 

حضرت عمر رضی الله عنہ کے زمانے میں اس لڑکے یعنی عبد الله بن تامر کی قبر اتفاقا کسی وجہ سے کھودی گئی تو اس کی لاش صحیح سالم اس طرح برآمد ہوئی کہ وہ بیٹھے ہوئے تھے اور ان کا ہاتھ کنپٹی پرتھا جہاں تیر لگا تھا، کسی دیکھنے والے نے ان کا ہاتھ  ہٹایا تو زخم سے خون جاری ہوگیا پھر ویسے ہی رکھ دیا تو بند ہوگیا، ان کے ہاتھ میں ایک انگوٹھی تھی جس پر لکھا ہوا تھا اللہ ربی۔

  یمن کے عامل نے اس واقعہ کی اطلاع حضرت فاروق اعظم کو دی تو آپ نے جواب میں لکھا کہ ان کو انگوٹھی سمیت اسی طرح چھپا دو جیسے پہلے تھے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ 

عبد الله بن تامر کی شہادت کے دن اہل نجران نے دین عیسوی قبول کر لیا تھا اور وہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے زمانے تک اسی دین پر قائم رہے اور بعد میں مسلمان ہوگئے۔ 

سبق : اس واقعے سے یہ سبق ملتا ہے کہ سچ دبانے سے مٹتا نہیں بلکہ اور زیادہ پھیلتا ہے۔ جس طرح کچھ لوگوں کی قربانیوں سے اہل نجران نے دین عیسوی قبول کیا اسی طرح مکہ کے کمزور مسلمانوں کی قربانیاں اہل عرب کی تاریخ بدل دیں گی۔ 


وَالسَّمَاۗءِ ذَاتِ الْبُرُوْجِ (1)


 قسم ہے برجوں والے آسمان کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چار سورتیں ہیں جن کی ابتداء آسمان کے ذکر سے کی گئی ہے۔ الانفطار، الانشقاق، البروج اور الطارق۔ 

سورة البروج کی ابتداء میں چار چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے۔

 آسمان کی صفت بیان کرکے اس کی قسم کھائی، قسم ہے برجوں والے آسمان کی۔ 

بروج سے کیا مراد ہے؟ 

بروج، برج کی جمع ہے۔ بڑے محل یا قلعہ کو برج کہا جاتا ہے۔

اس کے متعلق مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں۔ 

  1. بروج سے مراد بڑے بڑے ستارے ہیں۔
  2. آسمان کے دروازے مراد ہیں۔
  3. بروج سے مراد محلات  ہیں۔ جو آسمان میں پہرہ داروں اور نگراں فرشتوں کے لئے مقرر ہیں
  4. آسمان کے بارہ حصے مراد ہیں جنہیں فلسفیوں نے برجوں کا نام دے رکھا ہے۔ 

پہلی چیز کی قسم اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ جو قادر مطلق ہستی کائنات کے عظیم الشان ستاروں اور سیاروں پر حکمرانی کر رہی ہے اس کی گرفت سے یہ حقیر و ذلیل انسان بچ کر کہاں جا سکتے ہیں ۔


 وَالْيَوْمِ الْمَوْعُوْدِ (2)


 اور اس دن کی جس کا وعدہ کیا گیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسری قسم : یوم موعود سے مراد قیامت کا دن ہے، جزا و سزا کے لئے جس دن کا وعدہ کیا گیا ہے۔

دوسری چیز کی قسم اس وجہ سے کھائی گئی ہے کہ دنیا میں ان لوگوں نے جو ظلم کرنا چاہا کر لیا ، مگر ایک وقت آنے والا ہے جس سے انسانوں کو خبردار کیا جا چکا ہے یعنی قیامت اور اس دن  ہر مظلوم کی داد رسی اور ہر ظالم کی پکڑ ہو گی۔


 وَشَاهِدٍ وَّمَشْهُوْدٍ (3)


اور حاضر ہونے والے کی اور اس کی جس کے پاس لوگ حاضر ہوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تیسری اور چوتھی قسم 

شاہد اور مشہود سے کیا مراد ہے ، اس میں بہت سے اقوال ہیں۔


  1. شاہد سے مراد  جمعہ کا دن اور مشہود سے مراد یوم عرفہ ہے۔
  2. شاہد سے مراد الله سبحانہ و تعالی ہے اور مشہود سے مراد قیامت ہے۔
  3. شاہد سے مراد نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم ہیں اور مشہود سے مراد قیامت ہے۔
  4. شاہد سے مراد نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور مشہود سے مراد آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی امت ہے۔
  5. شاہد سے مراد امت مسلمہ اور مشہود سے مراد پہلی امتیں ہیں۔
  6. شاہد سے مراد اِنسان ہے، اور مشہود سے مراد قیامت کا دِن ہے، کیونکہ ہر اِنسان اُس دن اﷲ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوجائے گا۔
  7. “شاہد” سے مراد حاضر ہونے والا۔ اور ” مشھود “ جس کے پاس حاضر ہوا جائے۔ لفظوں کے لحاظ سے اس میں وہ سب لوگ شامل ہیں جو کہیں حاضر ہوسکتے ہیں اور مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ اسی طرح وہ تمام چیزیں بھی شامل ہیں جن کا مشاہدہ ہوسکتا ہے یا جن کے پاس کوئی حاضر ہوسکتا ہے۔



تیسری اور چوتھی چیز کی قسم اس لیے کھائی گئی ہے کہ جس طرح ان ظالموں نے ان بے بس اہل ایمان کے جلنے کا تماشا دیکھا اسی طرح قیامت کے روز ساری مخلوق دیکھے گی کہ ان سے اس کا بدلہ کیسے لیا جائے گا۔ 


 قُتِلَ اَصْحٰبُ الْاُخْدُوْدِ (4)


کہ خدا کی مار ہے ان خندق (کھودنے) والوں پر

۔۔۔۔۔۔۔



 النَّارِ ذَاتِ الْوَقُوْدِ (5)


اس آگ والوں پر جو ایندھن سے بھری ہوئی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


یہ جواب قسم ہے۔ 

  قتل بمعنی لعن یعنی کفار پر لعنت کی گئی  ہے۔ ہلاک ہوگئے وہ کھائیوں والے۔ “

” اصحاب الاخدود “ سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے خندقیں کھودیں اور اہل ایمان کو ان خندقوں میں ڈال کر جلایا۔ بظاہر تو وہاں اہل ایمان ہلاک ہوئے تھے لیکن وہ تو کامیاب ہوگئے اور اصل ہلاکت و بربادی ان لوگوں کے حصے میں آئی جنہوں نے مسلمانوں کو ان کے ایمان کی وجہ سے خندقیں کھود کر آگ میں جلایا۔ 

لعنت الله کی رحمت سے دوری اور الله کی سخت ناراضگی کا اظہار ہے۔ ان آیات سے  مکہ کے مظلوم مسلمانوں کو تسلی دی گئی کہ جو کافر آج ان پر ظلم و ستم کر رہے ہیں وہ بھی الله کی لعنت میں گرفتار ہوں گے۔ خواہ دنیا میں ہوں جیسے غزوہ بدر میں ہوئے یا پھر آخرت میں ہوں گے جو کفار کے لیے ثابت ہے۔ 



 اِذْ هُمْ عَلَيْهَا قُعُوْدٌ (6)


جب وہ اس کے پاس بیٹھے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وَّهُمْ عَلٰي مَا يَفْعَلُوْنَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ شُهُوْدٌ (7)


اور وہ ایمان والوں کے ساتھ جو کچھ کر رہے تھے، اس کا نظارہ کرتے جاتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی جب انہوں نے خندقوں میں آگ بھر دی تو ان کے کناروں پر بیٹھ گئے تاکہ مسلمانوں کو جلانے کا تماشہ دیکھیں اور ایمان والوں کو جلتے دیکھ کر خوش ہوں۔ شہود سے مراد نگرانی کرنا بھی ہے اور کفار کی بے رحمی اور سنگ دلی کی طرف بھی اشارہ ہے۔ 


وَمَا نَقَمُوْا مِنْهُمْ اِلَّآ اَنْ يُّؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ (8)


اور وہ ایمان والوں کو کسی اور بات کی نہیں، صرف اس بات کی سزا دے رہے تھے کہ وہ اس اللہ پر ایمان لے آئے تھے جو بڑے اقتدار والا، بہت قابل تعریف ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مطلب یہ ہے کہ ان مسلمانوں کو یہ سزا کسی دنیاوی جرم کی وجہ سے نہیں دی گئی ۔ ان کا قصور صرف الله پر ایمان لانا تھا جو کافروں کو سخت ناگوار گزرا حالانکہ مؤمن تو اس الله پر ایمان لائے جو العزیز یعنی ایسا زبردست ہے کہ ظالموں کو پل بھر میں خاک میں ملا سکتا ہے اور الحمید ہے۔ جس کی ذات میں تمام خوبیاں اور کمالات موجود ہیں۔ ایسی بے مثل صفات والی ذات پر ایمان لانا عقل و دانش کا تقاضا ہے  اور فخر وعزت کا سبب ہے۔ یہ کوئی جرم نہیں تھا جس پر مؤمنوں کو سزا دی گئی۔

ان آیات میں اللہ تعالی کی ان صفات کا ذکر کیا گیا ہے جن کی وجہ  سے صرف الله تعالی کا حق  ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے اور وہ لوگ ظالم ہیں جو اس بات پر بگڑتے ہیں کہ کوئی اس پر ایمان لائے ۔



 الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ  ۭ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ (9)


 جس کے قبضے میں سارے آسمانوں اور زمین کی سلطنت ہے۔ اور اللہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مؤمن اس الله پر ایمان لائے  جو زمین و آسمان کا خالق و مالک ہے۔ الله ہر چیز پر گواہ ہے وہ ظالم کے ظلم اور مظلوم کی مظلومیت سے خوب واقف ہے۔ چنانچہ وہ ضرور مظلوم کی مدد کرے گا اور اسے انصاف و اجر دے گا۔ وہ  دنیا اور آخرت میں ظالم کی پکڑ کرے گا۔ جو جس سلوک کا مستحق ہے اس سے ویسا ہی سلوک کیا جائے گا۔ 


اِنَّ الَّذِيْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوْبُوْا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيْقِ (10)


یقین رکھو کہ جن لوگوں نے مومن مردوں عورتوں کو ظلم کا نشانہ بنایا ہے، پھر توبہ نہیں کی ہے، ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور ان کو آگ میں جلنے کی سزا دی جائے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ان آیات میں ظالموں کی سزا  کا بیان ہے جنہوں نے مسلمانوں کو صرف ان کے ایمان لانے کی وجہ سے اگٓ کی خندق میں ڈال کر جلایا تھا ان کے لیے دو عذاب ہیں۔ 

عذاب جہنم جس کا معنی واضح ہے اور عذاب الحریق کا معنی بھی جلانے کا ہے تو اس سے دو معنی مراد ہو سکتے ہیں۔ 

  1. عذاب الحریق عذاب جہنم کی ہی تاکید اور وضاحت ہے کہ جہنم میں جا کر ان لوگوں کی سزا یہ ہو گی کہ ہمیشہ اسی آگ میں جلتے رہیں گے۔ 
  2. عذاب جہنم میں آخرت کا بیان ہے اور عذاب الحریق دنیا کی سزا ہے۔ جیسا کہ بعض روایات میں ہے جن مؤمنین کو ان لوگوں نے آگ کی خندق میں ڈالا تھا الله تعالی نے ان کو تو تکلیف سے اس طرح بچا دیا کہ آگ کے چھونے سے پہلے ہی ان کی روحیں قبض کرلی گئیں آگ میں مردہ جسم پڑے، پھر یہ آگ اتنی بھڑک اٹھی کہ خندق کی حدود سے نکل کر شہر میں پھیل گئی اور ان سب لوگوں کو جو مسلمانوں کے جلنے کا تماشا دیکھ رہے تھے اس آگ نے جلا دیا۔ صرف بادشاہ یوسف ذونواس بھاگ نکلا اور آگ سے بچنے کے لئے اپنے آپ کو دریا میں ڈال دیا اس میں غرق ہو کر مراد (مظہری) – 


یہ عذاب بھی ان لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے اپنی زندگی میں توبہ نہیں کی یعنی  اس آیت میں گناہ گار  لوگوں کو توبہ کی طرف دعوت دی گئی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی انتہائی شفقت اور اس کا کرم ہے کہ جن لوگوں نے اللہ پر ایمان لانے والوں کو زندہ جلا کر ان کا تماشا دیکھنے کا عظیم گناہ کیا، الله کریم  انہیں  بھی اپنی توبہ اور مغفرت کی طرف متوجہ کر رہے ہیں۔ یعنی اگر کسی نے مرنے سے پہلے توبہ کرلی اور ایمان لے آیا تو اس کا بڑے سے بڑا  جرم  معاف ہوسکتا ہے۔



 اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ ۀ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيْرُ (11)


جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک عمل کیے ہیں، ان کے لیے بیشک (جنت کے) ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ یہ ہے بڑی کامیابی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان آیات میں  مومن مردوں اور عورتوں کو تسلی دی گئی کہ وہ کفار کی ایذا رسانیوں سے گھبرائیں نہیں۔ ان سے پہلے بھی مومنوں پر بڑے بڑے مصائب ڈھائے جاچکے ہیں۔ ان مصائب کو برداشت کرنے کے بدلے میں  انہیں اللہ کے ہاں بے شمار و بے حساب نعمتیں ملنے والی ہیں۔ ان کے لیے باغات تیار ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے؛ کیونکہ یہ نعمتیں ہمیشہ رہنی والی ہوں گی۔ دنیا کے مال و اسباب کی طرح  ان نعمتوں کے چھن جانے  یا ختم ہو جانے کا کوئی  ڈر یا خوف نہیں ہوگا۔


 اِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيْدٌ (12)


حقیقت یہ ہے کہ تمہارے پروردگار کی پکڑ بہت سخت ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔ 

بطش “ وہ پکڑ جس میں تیزی اور سختی پائی جائے۔ رب تعالیٰ کی بطش جسے وہ خود شدید بتارہا ہے، کس قدر سخت ہوگی ؟ 

الله تعالیٰ کی گرفت بہت ہی سخت ہے، جس کو پکڑتا ہے پھر کوئی چھڑا نہیں سکتا، دنیا میں اسے ذلیل و خوار کرتا ہے اور آخرت میں شدید عذاب دیتا ہے۔


 اِنَّهٗ هُوَ يُبْدِئُ وَيُعِيْدُ (13)


وہی پہلی مرتبہ پیدا کرتا ہے اور وہی دوبارہ پیدا کرے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الله تعالی قادرِ مطلق ہے پہلی بار بھی اسی نے پیدا کیا وہ دوبارہ بھی پیدا کرے گا، یہ نہ سمجھنا کہ دنیا میں تمہارے ظلم و ستم پر باز پرس نہیں ہوئی تو مرنے کے بعد بھی نہیں ہوگی لہذا کفار کا یہ شبہ بھی نہ رہا کہ جب ہم نے دوبارہ زندہ ہی نہیں ہونا تو بطش شدید کیسے ہو گی۔ 


وَهُوَ الْغَفُوْرُ الْوَدُوْدُ (14)


 اور وہ بہت بخشنے والا، بہت محبت کرنے والا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان آیات میں الله تعالی اپنی چند عظیم الشان  صفات کا ذکر فرما رہے ہیں۔ 

الغفور یعنی الله تعالی توبہ و استغفار سے بندوں کی طرف متوجہ ہوکر ان  کے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ 

الودود یعنی الله سبحانہ و تعالی اپنے نیک و صالح بندوں سے محبت کرنے والا ہے۔ 


 ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيْدُ (15)


عرش کا مالک ہے، بزرگی والا ہے۔


فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُ (16)


جو کچھ ارادہ کرتا ہے کر گزرتا ہے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی  الله تعالی انسانوں کی  طرح معمولی اور عارضی اقتدار والا  نہیں، بلکہ اس عرش عظیم کا مالک ہے  جو زمین و آسمان اور جو کچھ اس کے درمیان ہے اس  سے بھی بڑا ہے، نہ ہی وہ انسانوں کی  طرح کم ظرف ہے   کہ معمولی سی قدرت ملے تو ظلم پہ اتر آئے  بلکہ وہ بڑی شان ولا ہے اور نہ وہ بےبس ہے کہ مجبور ہو کر اسے اپنے ارادے ترک کرنا پڑیں، بلکہ وہ جو چاہے کر گزرنے والا ہے۔ ایسے زبردست قوت والے پروردگار سے  ہر وقت ڈرتے رہنا چاہیے اور اس کی رحمت کا طلب گار رہنا چاہیے۔

 یاد رہے کہ یہاں ” ذوالعرش “ کے بعد ” المجید “ بھی اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، اس لئے اس پر رفع ہے، یہ ” العرش “ کی صفت نہیں، ورنہ “د” مجرور ہوتا ہے۔



 هَلْ اَتٰىكَ حَدِيْثُ الْجُــنُوْدِ (17)


 کیا تمہارے پاس ان لشکروں کی خبر پہنچی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 فِرْعَوْنَ وَثَمُــوْدَ (18)


فرعون اور ثمود (کے لشکروں) کی ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اصحاب الاخدود کا واقعہ بیان کرنے کے بعد ان آیات میں مؤمنین کی مزید تسلی کے لیے دو اور واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ایک تو فرعون کی ہلاکت کا ذکر  ہے جسے  اپنی سلطنت، حکومت اور لاؤ لشکر پر بڑا گھمنڈ تھا۔ دوسرا قوم ثمود جنہوں نے حضرت صالح علیہ السلام کی نافرمانی کی۔ وہ بھی اپنے آپ کو بہت طاقتور سمجھتے  تھے۔  انہوں نے اپنے مکانات پہاڑوں کے اندر بنا رکھے تھے بلکہ شہروں کے شہر پہاڑوں کے اندر آباد کر رکھے تھے اور کہتے تھے کہ قوت میں ہم سے بڑھ کر اور کون ہوسکتا ہے ؟ مگر جب ان لوگوں نے گھمنڈ میں آکر اللہ کے مقابلے میں سرکشی کی راہ اختیار کی تو اللہ نے انہیں تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔


 بَلِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فِيْ تَكْذِيْبٍ (19)


اس کے باوجود کافر لوگ حق کو جھٹلانے میں لگے ہوئے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سرکش قوموں کی تباہی کے واقعات سننے کے باوجود کفار ان سے نہ تو ڈرتے ہیں نہ عبرت حاصل کرتے ہیں اُلٹا قرآن مجید اور قیامت کو جھٹلانے اور الله کے احکام کی تکذیب میں لگے ہوئے ہیں۔ 


 وَّاللّٰهُ مِنْ وَّرَاۗئِهِمْ مُّحِيْــطٌ (20)


جبکہ اللہ نے ان کو گھیرے میں لیا ہوا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن الله جل جلالہ ہر طرف سے ان کو گھیرے ہوئے ہے، یہ الله کے عذاب سے بچ نہیں سکتے اپنے انجام کو ضرور پہنچیں گے۔


بَلْ هُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِيْدٌ (21)


 (ان کے جھٹلانے سے قرآن پر کوئی اثر نہیں پڑتا) بلکہ یہ بڑی عظمت والا قرآن ہے۔

۔۔۔۔۔۔

فِيْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ (22)


 جو لوح محفوظ میں درج ہے۔

۔۔۔۔۔

مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید کی آیات کو جھٹلانا کفار کی حماقت ہے۔ قرآن کی صداقت میں کوئی شک و شبہ نہیں کیونکہ یہ لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے،  پھر بڑی احتیاط اور حفاظت کے ساتھ  جبرائیل امین کے ذریعے نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم تک پہنچا دیا گیا۔ کفار ان واقعات کی نہیں درحقیقت قرآن مجید کی تکذیب کرتے ہیں حالانکہ یہ قرآن جھٹلانے کی چیز نہیں ہے اور اس میں کسی غلطی یا تحریف کی گنجائش نہیں کیونکہ وہ لوح محفوظ میں ثبت ہے جہاں جن و انس یا شیاطین نہیں پہنچ سکتے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مختصر تفسیر سورة البروج 


اس سورت کے پس منظر کے طور پر احادیث میں ایک واقعہ آتا ہے کہ ایک نوجوان جو شاہی خرچہ پر پل کر جوان ہوا تھا مسلمان ہو گیا، بادشاہ نے اس کے قتل کا فیصلہ کیا، اس نے ایمان کے تحفظ میں اپنی جان قربان کر دی، اس واقعہ سے متاثر ہو کر بادشاہ کی رعیت مسلمان ہو گئی، اس نے خندقیں کھدوا کر ان میں آگ جلا دی اور اعلان کر دیا کہ جو ایمان سے منحرف نہ ہوا اسے خندق پھینک دیا جائے گا، لوگ مرتے مر گئے مگر ایمان سے دستبردار نہ ہوئے۔ قرآن کریم نے ان کی اس بے مثال قربانی اور دین پر ثابت قدمی کو سراہتے ہوئے قسمیں کھا کر کہا ہے کہ اپنی طاقت و قوت کے بل بوتے پر خندقوں میں پھینک کر ایمان والوں کو جلانے والے ان پر غالب ہونے کے باوجود ناکام ہو گئے اور اپنی کمزوری اور بے کسی کے عالم میں خندقوں کے اندر جلنے والے کامیاب ہو گئے۔

 اس سے یہ ثابت ہوا کہ دنیا کا اقتدار اور غلبہ عارضی ہے، اس پر کامیابی یا ناکامی کا مدار نہیں ہے، اصل کامیابی ایمان پر ثابت قدمی میں ہے۔ پھر خیر و شر کی قوتوں کے انجام کے تذکرہ کے ساتھ ہی اللہ کی طاقت و قوت، محبت و مغفرت اور جلال و عظمت کو بیان کر کے مجرموں پر مضبوط ہاتھ ڈالنے کا اعلان کیا اور پھر فرعون اور ثمود کی ہلاکت کے بیان کے ساتھ قرآن کریم کے انتہائی محفوظ ہونے کا اعلان ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

سورۃ البلد:13، عم پارہ

سورۃ البلد    اسماء سورة بلد کا معنی  شہر ہے۔ اس سورت کی پہلی آیت میں   اللّٰہ  تعالیٰ نے  شہر مکہ کی قسم کھائی  ہے اس مناسبت سے اسے ’’سورہ...