پیر، 16 نومبر، 2020

الطارق: 9 ، عم پارہ

 سورة الطارق


سترہ آیات پر مشتمل اس سورة کا نام سورة الطارق ہے جو اس سورة کی پہلی آیت میں موجود  ہے۔ یہ  سورة مکہ میں نازل ہوئی۔ 


ربط

گزشتہ سورة یعنی سورة البروج کی ابتدا آسمان اور ستاروں کی قسم سے ہوئی اب سورۃ الطارق کی ابتدا بھی ایسی ہی قسموں سے ہو رہی ہے۔ سورة البروج کے آخر میں حفاظت قرآن کا ذکر تھا اس سورة میں آسمان اور انسان کے محافظوں کا ذکر ہے نیز انسان کی حقیقت اور قرآن کی حقانیت بھی بیان کی گئی ہے۔ 


شانِ نزول :- 

ایک دن نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے پاس ان کے چچا ابو طالب تشریف لائے۔ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے ان کی تواضح روٹی اور دودھ سے کی دونوں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ آسمان سے ایک تارہ ٹوٹا اور زمین سے اس قدر قریب ہوگیا کہ اس  کی چمک سے گھر کی ہر چیز روشن ہو گئی۔ ابو طالب گھبرا کر کھڑے ہو گئے اور آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا: یہ کیا تھا؟ ارشاد فرمایا کہ یہ تارا تھا جو کسی شیطان کو مارا گیا۔ یہ الله تعالی کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ ابو طالب یہ سُن کر حیران ہوئے، اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ 


 وَالسَّمَاۗءِ وَالطَّارِقِ (1)


 قسم ہے آسمان کی اور رات کو آنے والے کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس آیت میں الله تعالی نے دو چیزوں کی قسم کھائی ہے۔ 

آسمان کی اور رات کو آنے والے کی ۔ طارق کے معنی رات کو آنے والے کے ہیں، ستارے چونکہ دن کو چُھپے رہتے ہیں اور رات کو ظاہر ہوتے ہیں اس لیے ان  کو طارق کہا گیا ہے اور اسی پر سورة کا نام رکھا گیا ہے۔ 


 وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا الطَّارِقُ (2)


اور تمہیں کیا معلوم کہ وہ رات کو آنے والا کیا ہے ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الله تعالی تعظیمِ شان کے لیے سوال کر رہے ہیں کہ آپ کو کیا پتہ طارق کیا ہے؟ 

پھر خود ہی جواب دیا: 


 النَّجْمُ الثَّاقِبُ (3)


چمکتا ہوا ستارا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


قرآن پاک میں جہاں کہیں وما ادراک آیا ہے وہاں بعد میں اس کا بیان بھی لایا گیا ہے یعنی طارق جگمگانے والا روشن ستارہ ہے۔ 

النجم الثاقب سے کون سا ستارہ مراد ہے اس میں بہت سے اقوال ہیں۔ 

  1. اس سے مراد کوئی خاص ستارہ نہیں بلکہ ہر ٹوٹ کر گرنے والا ستارہ، جس سے روشنی پھیلتی ہے،  النجم الثاقب کہلاتا ہے۔ 
  2. اس سے مراد کہکشاں یا ثریا  یعنی ستاروں کا جھرمٹ ہے۔ کیونکہ اس میں بہت سے ستارے ہوتے ہیں جن کی روشنی زیادہ ہوتی ہے اس لیے اسے النجم  کہتے ہیں۔
  3. اس سے مراد زحل ستارہ ہے کیونکہ ثاقب کے معنی بلند، روشن، چمکدار اور سوراخ کرنے والے کے ہیں اور زحل بلند اور روشن بھی ہے اور اس کی روشنی تاریکی میں سوراخ کرتی دکھائی دیتی ہے۔ 


عام ستاروں کی روشنی چاند کی روشنی کی طرح سفید ہوتی ہے جب کہ النجم الثاقب انتہائی چمک دار، تیزی سے سفر کرنے والا ، آگ کی طرح سُرخ رنگ کا ہوتا ہے۔ 

جسے ٹوٹنے والا تارہ بھی کہتے ہیں۔ 

یہاں واحد کا صیغہ استعمال کرکے اس سے جنس مراد لی گئی ہے۔ اور ایسے ستارے سینکڑوں کی تعداد میں فضا میں ٹوٹتے اور پھر ہماری نظروں سے غائب ہوجاتے ہیں۔ نہ وہ دوسرے ستاروں سے ٹکرا کر نظام کائنات کو درہم برہم کرتے ہیں اور نہ زمین پر گر کر زمین پر قیامت برپا کیے رکھتے ہیں۔ البتہ مدتوں بعد کوئی ایسا ستارہ زمین پر گر کر زمین میں گہرے کھڈے بھی ڈال دیتا ہے۔


سوال: ستارے ٹوٹ کر کیوں گرتے ہیں۔

جواب: 

  1. جب کوئی جن یا شیطان اوپر ملاء اعلیٰ کی باتیں سننے کے لیے جاتا ہے تو اس پر ایسا شعلہ دار ستارہ پھینک کر اسے وہاں سے مار بھگایا جاتا ہے۔
  2. یا پھر یہ کہ آسمان کی سجاوٹ ہے۔
  3. یا الله سبحانہ و تعالی اپنی قدرت کی نشانیاں دکھا کر انسان کو خبردار کرتے ہیں۔




 اِنْ كُلُّ نَفْسٍ لَّمَّا عَلَيْهَا حَافِـظٌ (4)


کہ کوئی جان ایسی نہیں ہے جس کی کوئی نگرانی کرنے والا موجود نہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ وہ بات ہے جس کے لیے قسم کھائی گئی یعنی جوابِ قسم ہے۔  مقصد یہ ہے  کہ جیسے آسمان پر ستارے ہر وقت محفوظ ہیں مگر رات کے وقت ظاہر ہوتے ہیں،  اسی طرح ہر شخص کے اعمال نامہ اعمال میں اس وقت بھی محفوظ ہیں مگر خاص قیامت کے وقت انہیں ظاہر کیا جائے گا۔ اس لیے انسان کو ان کے ظاہر ہونے کے وقت یعنی قیامت کی فکر کرنی چاہیے۔ 


حافظ کے دو معنی بیان کیے گئے ہیں۔

  1. نگران، یعنی ہر نفس پر  الله تعالی نے نگران فرشتے کراما کاتبین مقرر کر رکھے ہیں جو اس کے تمام اعمال کا حساب لکھتے  ہیں تاکہ اس کو جزا یا سزا دی جا سکے۔ 
  2. محافظ یا نگہبان  یعنی وہ فرشتے جو مشکل یا مصیبت میں انسان کی حفاظت کرتے ہیں سوائے اس مصیبت کے جو اس کے لیے لکھ دی گئی ہو۔


نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے ایک فرمان مبارک کا مفہوم ہے کہ ہر شخص پر تین سو ساٹھ فرشتے مقرر ہیں جو اس کے جسم کے ہر عضو کی حفاظت کرتے ہیں سات فرشتے صرف آنکھ کی حفاظت کے لیے ہیں، اگر یہ فرشتے نہ ہوں تو شیاطین فورا انسان کو اچک کر لے جائیں۔ 


 فَلْيَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ (5)


اب انسان کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اسے کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس آیت میں الله سبحانہ وتعالی کی قدرت کا بیان اور مشرکین کے اس شبہ کا جواب ہے جو شیطان ان کے دل میں ڈالتا ہے۔ شبہ یہ ہے کہ آخر مر کر مٹی میں مل جانے کے بعد انسان کیسے دوبارہ زندہ ہو سکتا ہے جب کہ وہ مٹی کے ذروں میں بدل چکا ہو۔ ان اجزا سے دوبارہ انسان کا بن جانا ناممکن ہے۔ اس کے جواب میں فرمایا کہ انسان اپنی تخلیق کے مراحل کو دیکھے۔ کس طرح الله سبحانہ وتعالی نے اسے پہلی بار دنیا بھر کے مختلف ذرات جمع کرکے، پیدا کیا۔ پھر اسے دیکھنے ، سننے اور عقل سے کام لینے والا بنایا۔ جس نے پہلی بار تمہیں بنایا وہ دوبارہ زندہ کرنے پر بھی مکمل قدرت رکھتا ہے۔ 



 خُلِقَ مِنْ مَّاۗءٍ دَافِقٍ (6)


اسے ایک اچھلتے ہوئے پانی سے پیدا کیا گیا ہے۔


 يَّخْرُجُ مِنْۢ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَاۗئِبِ (7)


جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی انسان کو نطفہ سے پیدا کیا گیا جو ایک اچھلنے والا پانی ہے۔ پشت اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔

مفسرین نے اس کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ نطفہ مرد کی پشت اور عورت کے سینہ سے نکلتا ہے مگر ماہرینِ طب کی تحقیق اور تجربہ یہ ہے کہ نطفہ درحقیقت انسان کے ہر ہر عضو سے نکلتا ہے اور بچے کا ہر عضو اس نطفہ سے بنتا ہے جو مرد و عورت کے اسی عضو سے نکلا ہے۔ البتہ دماغ کو اس معاملے میں سب سے زیادہ دخل ہے۔

 اگر قرآن کریم کے الفاظ پر غور کیا جائے تو ان میں مرد و عورت کی کوئی تخصیص نہیں، صرف اتنا ہے کہ نطفہ پشت اور سینے کے درمیان سے نکلتا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ نطفہ مرد و عورت دونوں کے سارے بدن سے نکلتا ہے اور سارے بدن کی وضاحت آگے پیچھے کے اہم اعضاء سے کردی گئی سامنے کے حصہ میں سینہ اور پیچھے کے حصہ میں پشت سب سے اہم اعضا ہیں۔ ان دونوں کے اندر سے نکلنے کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ سارے بدن سے نکلتا ہے۔


 اِنَّهٗ عَلٰي رَجْعِهٖ لَقَادِرٌ (8)


 بیشک وہ اسے دوبارہ پیدا کرنے پر پوری طرح قادر ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رجع کے معنے لوٹا دینے کے ہیں مطلب یہ ہے کہ جس خالق کائنات نے پہلی بار انسان کو نطفہ سے پیدا کیا ہے وہ اس کو دوبارہ لوٹا دینے یعنی مرنے کے بعد زندہ کردینے پر بھی قدرت رکھتا  ہے۔


 يَوْمَ تُبْلَى السَّرَاۗئِرُ (9)


 جس دن تمام پوشیدہ باتوں کی جانچ ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تبلی کے لفظی معنی امتحان لینے اور آزمانے کے ہیں اور سرائر کے معنی ہیں چھپے ہوئے کام ،  مطلب یہ ہے کہ قیامت کے روز انسان کے تمام عقائد و خیالات اور نیت وعزم جو دل میں پوشیدہ تھی دنیا میں اس کو کوئی نہ جانتا تھا اسی طرح وہ اعمال و افعال جو اس نے چھپ کر کئے دنیا میں کسی کو ان کی خبر نہیں، محشر میں سب کا امتحان لیا جائے گا اور سب کو ظاہر کردیا جائے گا۔ کسی اچھے یا برے عمل کا نتیجہ بھی ایک راز ہوتا ہے جو کبھی کبھار خود انسان پر اس کی زندگی میں ظاہر نہیں ہوتا وہ راز بھی ظاہر کر دیا جائے گا۔ 


 فَمَا لَهٗ مِنْ قُوَّةٍ وَّلَا نَاصِرٍ (10)


 تو انسان کے پاس نہ اپنا کوئی زور ہوگا نہ کوئی مددگار۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی انسان کے پاس اتنی قوت نہ ہوگی کہ وہ الله کے عذاب سے بچ جائے نہ کسی اور طرف اس کو کوئی ایسا مددگار مل سکے گا جو اس کو عذاب سے بچا دے یا اس کے سارے راز کھولنے سے روک دے۔


وَالسَّمَاۗءِ ذَاتِ الرَّجْعِ (11)


 قسم ہے بارش بھرے آسمان کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رجع کے لغوی معنی تو پلٹنے کے ہیں لیکن عربی زبان میں یہ لفظ بارش کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، کیونکہ بارش  بس ایک ہی دفعہ نہیں برستی بلکہ بار بار اپنے موسم میں اور کبھی خلاف موسم پلٹ پلٹ کر آتی ہے اور وقتاً فوقتاً برستی رہتی ہے۔ 

ایک اور وجہ بارش کو رجع کہنے کی یہ بھی ہے کہ زمین کے سمندروں سے پانی بھاپ بن کر اٹھتا ہے اور پھر پلٹ کر زمین پر ہی برستا ہے ۔

بعض نے ذات الرجع کا معنی چکر لگانے والا بھی کیا ہے۔ یعنی قسم ہے اس آسمان کی جو چکر لگانے والا اور گھومنے والا ہے۔ 


 وَالْاَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ (12)


 اور پھوٹ پڑنے والی زمین کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صدع کے معنی کسی چیز کا اس طرح پھٹنا ہے کہ ٹکڑا جدا نہ ہو۔ زمین کو اس لیے ذات الصدع کہا گیا ہے کہ وہ پودوں اور درختوں کی نرم و نازک کونپلوں کو پھٹ کر زمین سے باہر نکلنے کا راستہ دے دیتی ہے۔ اس کے علاوہ زمین سے پانی کے چشمے بھی پھوٹ نکلتے ہیں اور یہ بھی کہ زمین میں پوشیدہ جڑی بوٹیاں، سبزہ وغیرہ ایک خاص وقت یعنی موسم بہار میں ظاہر ہو جاتے ہیں اسی طرح انسان کی پوشیدہ باتیں بھی قیامت کے دن ظاہر ہو جائیں گی۔ 

یہاں بارش اور زمین کے پھٹ پڑنے کی قسم کھانے سے بظاہر یہ اشارہ بھی مقصود ہے کہ بارش کے پانی سے وہی زمین فائدہ اُٹھاتی ہے جس میں اُگنے کی صلاحیت ہو، اسی طرح قرآنِ کریم سے وہی شخص فائدہ اٹھاتا ہے جس کے دِل میں حق کو قبول کرنے کی گنجائش ہو۔


 اِنَّهٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌ (13)


 کہ یہ (قرآن) ایک فیصلہ کن بات ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ جواب قسم ہے، یعنی کھول کر بیان کرنے والا ہے جس سے حق اور باطل دونوں واضح ہوجاتے ہیں۔


انه کی ضمیر میں دو قول ہیں۔ 

  1. رجع یعنی مر کر دوبارہ زندہ ہونا دو ٹوک اور یقینی بات ہے۔ 
  2. ضمیر سے قرآن مجید کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی قرآن کریم ایک فیصلہ کن قول ہے جو حق و باطل میں فیصلہ کرتا ہے اور اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں۔ 


وَّمَا هُوَ بِالْهَزْلِ (14)


 اور یہ کوئی مذاق نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی جس طرح آسمان سے بارشوں کا برسنا اور زمین کا پھٹ  کر پودے اور پانی وغیرہ نکالنا کوئی مذاق نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے، اسی طرح قرآن مجید جس چیز کی خبر دے رہا ہے کہ انسان کو پھر اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے ، یہ بھی کوئی ہنسی مذاق کی بات نہیں ہے، بلکہ ایک اٹل حقیقت ہے۔ 


 اِنَّهُمْ يَكِيْدُوْنَ كَيْدًا (15)


بیشک یہ (کافر لوگ) چالیں چل رہے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی یہ کفار قرآن کریم کی دعوت کو شکست دینے کے لیے طرح طرح کی چالیں چل رہے ہیں۔ لوگوں کے دلوں میں طرح طرح کے شبہات ڈال رہے ہیں۔ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم  پر جھوٹے الزام لگا رہے ہیں۔ تاکہ دنیا میں کفر وجاہلیت کی  تاریکی چھائی رہے۔ وہ اپنی پھونکوں سے اسلام کے  چراغ کو بجھانا چاہتے ہیں۔ 


 وَّاَكِيْدُ كَيْدًا (16)


 اور میں بھی اپنی چال چل رہا ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور میں بھی ان کو سزا دینے کے لیے اور دینِ اسلام کو غالب کرنے کے لیے تدبیریں کر رہا ہوں اور ظاہر ہے الله کی تدبیر غالب ہے۔ 

واضح رہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے کافروں کی چال یا خفیہ تدبیر کو  کید کہا،  پھر اس کے رد عمل کو اپنی طرف منسوب فرما کر اس کے لیے بھی کید کا لفظ استعمال فرمایا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کو کسی چال یا خفیہ تدبیر کی ضرورت نہیں ہے۔ 

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اہل عرب کی بول چال کے مطابق ہے۔ وہ کسی بھی کام کے ردعمل کو اسی لفظ سے تعبیر کردیتے ہیں خواہ وہ اچھا ہو یا برا۔ اسے مشاکلہ کہتے ہیں۔ 


 فَمَــهِّلِ الْكٰفِرِيْنَ اَمْهِلْهُمْ رُوَيْدًا (17)


لہذا (اے پیغمبر) تم ان کافروں کو ڈھیل دو ، انہیں تھوڑے دنوں اپنے حال پر چھوڑ دو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکہ کے ابتدائی دور کی سورتوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے لیے یہ ہدایت بار بار آئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کافروں  کے لیے سزا اور عذاب میں جلدی نہ کریں۔ اس وقت  مشرکین ِمکہ  اہل ایمان پر بہت ظلم و ستم کرتے تھے۔ ان آیات کے ذریعے اہل ایمان کو بھی بار بار تسلی دی جاتی اور سمجھایا جاتا کہ ابھی ہم ان لوگوں کو مزید مہلت دینا چاہتے ہیں۔ ابھی انہیں  سزا دینے کا وقت نہیں آیا، جب وقت آئے گا تو ﷲ تعالیٰ ان کو اپنی پکڑ میں لے لے گا۔ چناچہ  ان کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف پر صبر کرتے ہوئے ہمارے فیصلے کا انتظار کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مختصر تفسیر سورة الطارق

اس سورت کا مرکزی مضمون مرنے کے بعد زندہ ہونے کا عقیدہ ہے۔ ستاروں کی قسم کھا کر بتایا کہ جس طرح نظام شمسی میں ستارے ایک محفوظ و منضبط نظام کے پابند ہیں اسی طرح انسانوں کی اور ان کے اعمال کی حفاظت کے لئے بھی فرشتے متعین ہیں۔ 

مرنے کے بعد کی زندگی پر دلیل کے طور پر انسان کو اپنی تخلیق اول میں غور کی دعوت دی اور بتایا کہ جس نطفہ سے انسان بنا ہے وہ مرد و عورت کے جسم کے ہر حصہ (صلب سے پچھلا حصہ اور ترائب سے سامنے کا حصہ مراد ہے) سے جمع ہو کر تیزی کے ساتھ اچھل کر رحم میں منتقل ہو جاتا ہے وہ اللہ اسے دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔ 

آسمان سے پانی برسا کر اور زمین پھاڑ کر غلے اور سبزیاں نکال کر انسانی خوراک کا انتظام کرنے والا اس بات کو بیان کرتا ہے کہ یہ قرآن کریم حق و باطل میں امتیاز پیدا کرنے والی کتاب ہے۔ 

کافر سازشیں کر رہے ہیں اور اللہ ان کا توڑ کر رہے ہیں لہٰذا انہیں مہلت دے دو اور یہ اللہ سے بچ کر کہیں نہیں جا سکیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

سورۃ البلد:13، عم پارہ

سورۃ البلد    اسماء سورة بلد کا معنی  شہر ہے۔ اس سورت کی پہلی آیت میں   اللّٰہ  تعالیٰ نے  شہر مکہ کی قسم کھائی  ہے اس مناسبت سے اسے ’’سورہ...