پیر، 16 نومبر، 2020

الانشقاق :7 ۔عم پارہ

 سورة الانشقاق 

پچیس آیات پر مشتمل اس سورة کو سورة انشقت بھی کہا جاتا ہے اور یہ مکی سورة ہے۔

ربط : 

سابقہ سورتوں کی طرح، اس سورة میں بھی احوالِ قیامت ، حساب کتاب اور جزا و سزا کا ذکر ہے اور غافل انسان کو اپنے گردو پیش کے حالات پر غورو فکر کی دعوت دی گئی ہے۔ تاکہ ان سے عبرت حاصل کرکے ایمان کی دولت سے مالا مال ہو۔ 

سورة الانفطار میں اعمال نامے لکھنے کا ذکر ہے اور سورۃ المطففین میں علیین اور سجین میں اعمال ناموں کی حفاظت کا بیان ہے۔ اب اس سورة یعنی الانشقاق میں قیامت کے دن اعمال نامے ہاتھ میں دئیے جانے کا بیان ہے۔ 



 اِذَا السَّمَاۗءُ انْشَقَّتْ (1)


جب آسمان پھٹ پڑے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

جب قیامت واقع ہو گی تو آسمان پھٹ جائے گا۔ عربی میں پھٹ پڑنے کو ’’انشقاق‘‘ کہتے ہیں، اسی لئے اس سورت کا نام انشقاق ہے۔ 

آسمان  کا یہ حال مختلف سورتوں میں مختلف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔  سورة نبا میں آسمان کے کھولے جانے اور دروازوں میں تقسیم ہو جانے کا بیان ہے۔ سورة التکویر میں کہا گیا کہ آسمان کی کھال کھینچ لی جائے گی۔ سورة الانفطار میں آسمان کے پھٹ جانے کو انفطرت کہا گیا اور اب سورة الانشقاق میں اسی پھٹ جانے کے لیے انشقت کا صیغہ لایا گیا۔ 

سورة الفرقان میں کہا گیا کہ جس دن آسمان بادلوں کے ساتھ پھٹے گا اور فرشتے گروہ درگروہ در گروہ اتارے جائیں گے۔


 وَاَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ (2)


اور وہ اپنے پروردگار کا حکم سن کر مان لے گا، اور اس پر لازم ہے یہی کرے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اذن کا معنی ہے سُن لینا۔ الله جل شانہ آسمان کو پھٹ جانے کا حکم دیں گے۔ وہ اپنے رب کے حکم پر کاربند ہونے کے لیے اپنے کان لگائے ہوئے ہے۔ حکم پاتے ہی فورا اطاعت کرے گا اور پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیگا؛ کیونکہ الله جل شانہ کا بحیثیت خالق ہونے کے حق ہے کہ مخلوق اس کو سنے اور اطاعت کرے۔ 


 وَاِذَا الْاَرْضُ مُدَّتْ (5)


اور جب زمین کو کھینچ دیا جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مد کا مطلب ہے کھینچنا ، لمبا کرنا۔  محشر کے دن زمین پر ساتوں آسمانوں کے فرشتے، ہر طرح کی مخلوق اور انسان و جن سب جمع ہوں گے اس لیے زمین کو کھینچ کر وسیع کر دیا جائے گا۔ بلندی و پستی، پہاڑ اور غار اونچی نیچی جگہیں سب برابر ہو جائیں، کوئی آڑ باقی نہ رہے۔ یعنی زمین کو کھینچ کر اس میں وسعت بھی پیدا کی جائے گی اور اسے ہموار بھی کر دیا جائے گا۔ 

حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے روز زمین کو اس طرح کھینچ کر پھیلایا جائے گا جیسے چمڑے (یا ربڑ) کو کھینچ کر بڑا کردیا جاتا ہے، مگر اس کے باوجود میدان حشر جو اس زمین پر ہوگا اس میں ابتداء دنیا سے قیامت تک کہ تمام انسان جمع ہوں گے تو صورت یہ ہوگی کہ ایک آدمی کے حصہ میں صرف اتنی زمین ہوگی جس پر وہ اپنے دونوں پاؤں رکھ سکے گا۔ (المعارف) 


وَاَلْقَتْ مَا فِيْهَا وَتَخَلَّتْ (4)


اور اس کے اندر جو کچھ ہے وہ اسے باہر پھینک دے گی اور خالی ہوجائے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پہلے آسمان کے پھٹنے کا ذکر ہے پھر زمین کا۔ جو کچھ زمین کے پیٹ میں ہے خواہ وہ مدفون خزانے  ہوں یا انسانوں کے مردہ جسم ، وہ سب اگل کر باہر نکال دے گی۔ اندر سے خالی ہو جائے گی اور محشر کے لئے ایک نئی زمین تیار ہوگی جو بالکل  صاف اور سیدھی ہوگی۔



وَاَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ (5)


 اور وہ اپنے پروردگار کا حکم سن کر مان لے گی، اور اس پر لازم ہے کہ یہی کرے (اس وقت انسان کو اپنا انجام معلوم ہوجائے گا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی زمین بھی الله جل جلالہ کے حکم پر کان لگائے ہوئے ہے۔ جو بھی حکم ہو گا وہ اس کا انکار نہیں کر سکے گی بلکہ اس کو مان لے گی۔ 


 ٰٓیاَيُّهَا الْاِنْسَانُ اِنَّكَ كَادِحٌ اِلٰى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلٰقِيْهِ (6)


 اے انسان ! تو اپنے پروردگار کے پاس پہنچنے تک مسلسل کسی محنت میں لگا رہے گا، یہاں تک کہ اس سے جا ملے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

کدح کے معنے کسی کام میں پوری جدوجہد اور اپنی توانائی صرف کرنے کے ہیں، اس آیت میں چند چیزیں بیان کی گئی ہیں۔ 

  1. یہ کہ ہر انسان کے دل میں ایک خواہش پیدا ہوتی ہے جسے پورا کرنے کے لیے محنت کرتا ہے اور وہ کام ابھی مکمل بھی نہیں ہوتا،  کوئی اور خواہش یا خواہشیں اس کے دل میں پیدا ہوجاتی ہیں۔ پھر وہ ان خواہشات کی تکمیل کے لیے کمر کس لیتا ہے اور اسی طرح اس کی تمام زندگی بیت جاتی ہے۔ مسلمان ہو یا کافر،  شریف اور نیک انسان ہو یا چور ، امانت دار ہو یا دھوکے باز ہر شخص خوب جدو جہد سے جسمانی و ذہنی مشقت کرکے ہی اپنا مقصد حاصل کرتا ہے۔ 
  2. غور کیا جائے تو انسان کی ہر طرح کی اچھی یا بری ، محنت و مشقت کا انجام اور انتہا موت ہے یعنی وہ اسی منزل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ الی ربک میں اسی بات کی طرف اشارہ ہے۔ 
  3. موت کے بعد ہر شخص نے اپنے رب کے پاس حاضر ہونا اور اپنے تمام اچھے یا برے اعمال کا حساب دینا ہے۔ یہ بات عقل و عدل کے اعتبار سے بھی نہایت ضروری ہے کہ ہر شخص کو اس کے اعمال کے مطابق جزا یا سزا دی جائے۔
  4. فملقیہ کی ضمیر کو اگر کدح کی طرف لوٹایا جائے تو مراد یہ ہوگی کہ جو جدوجہد انسان یہاں کر رہا ہے اپنے رب کے پاس پہنچ کر اس کا بدلہ پائے گا۔ 



 فَاَمَّا مَنْ اُوْتِيَ كِتٰبَهٗ بِيَمِيْنِهٖ (7)


پھر جس شخص کو اس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَّسِيْرًا (8)


 اس سے تو آسان حساب لیا جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔

ان آیات میں مومنوں  کا حال بیان فرمایا ہے کہ ان کے نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیئے جائیں  گے۔ ان سے بہت آسان حساب لے کر جنت کی بشارت دے دی جائے گی اور وہ اپنے گھر والوں کے پاس خوش خوش واپس لوٹیں گے۔ 

آسان حساب یہ ہے کہ جس کی نیکیوں کا پلڑا بھاری نکلا اس سے اس کی برائیوں کے متعلق کرید کرید کر یہ سوال نہیں کیا جائے گا کہ تم نے فلاں برا کام کیوں کیا تھا ؟ کیا تمہارے پاس اس کے لیے کوئی عذر ہے ؟ بلکہ اس کی خطاؤں سے درگزر کیا جائے گا۔

اور یہ کہ ایمان والوں  کے تمام اعمال رب العالمین  کے سامنے پیش ہوں گے مگر ان کے ایمان کی برکت سے ان کے ہر عمل کی پرسش نہیں ہوگی۔ اسی کا نام حساب یسیر ہے۔ کیونکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ جس شخص سے اس کے اعمال کا پورا پورا حساب لیا گیا وہ ہرگز عذاب سے نہ بچے گا۔

یا آسان حساب کی ایک صورت یہ ہوگی کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے گا تھوڑی نیکی کا ثواب بہت زیادہ عطا فرما دے گا۔ 

غرض اللہ تعالیٰ جس طرح چاہے گا حساب آسان کر دے گا، مگر شرط یہ ہے  کہ آدمی ہر طرح کے ظاہری اور باطنی شرک یعنی ریا سے پاک ہو۔ اس حال میں اگر گناہ گار توبہ کیے بغیر بھی مرگیا تو اللہ  سے رحمت اور آسان حساب کی امید ہے۔


 وَّيَنْقَلِبُ اِلٰٓى اَهْلِهٖ مَسْرُوْرًا (9)


 اور وہ اپنے گھر والوں کے پاس خوشی مناتا ہوا واپس آئے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مطلب یہ ہے کہ حساب کتاب میں کامیابی سے بہت خوش ہوگا اور اپنے اہل کو خوشخبری سنائے گا۔ 

اس کے اہل کون ہوں گے۔  دو معنے ہو سکتے ہیں، یا تو گھر والوں سے مراد جنت کی حوریں ہیں جو وہاں اس کے اہل ہوں گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ دنیا میں جو اس کے اہل و عیال تھے محشر کے میدان میں جب حساب کے بعد کامیابی ہوگی عادت کے مطابق اس کی خوشخبری سنانے ان کے پاس جائے گا۔ 

 مفسرین  نے دونوں معنی مراد لیے ہیں۔  


 وَاَمَّا مَنْ اُوْتِيَ كِتٰبَهٗ وَرَاۗءَ ظَهْرِهٖ (10)


لیکن وہ شخص جس کو اس کا اعمال نامہ اس کی پشت کے پیچھے سے دیا جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فَسَوْفَ يَدْعُوْا ثُبُوْرًا (11)


 وہ موت کو پکارے گا۔


وَّيَصْلٰى سَعِيْرًا (12)


 اور بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان آیات میں کفار کی سزا کا بیان ہے کہ ان کے نامہ اعمال ان کو پیٹھ کے پیچھے سے دئیے جائیں گے اور وہ گھبرا کر موت و ہلاکت کو پکاریں گے جس طرح دنیا کی مصیبت میں انسان موت کو پکارتا ہے۔ 

سوال : سورۃ الحاقۃ میں فرمایا گیا ہے کہ مجرموں کا نامہ اعمال ان کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اور یہاں ارشاد ہوا ہے کہ اس کی پیٹھ کے پیچھے دیا جائے گا، بظاہر تضاد ہے ؟

جواب :

کوئی تضاد یا تعارض نہیں، نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں ہی دیا جائے گا۔ 

وہ اس طرح کہ ان مجرموں کے ہاتھ  پیٹھ پیچھے بندھے ہوں گے۔ اس لیے پیٹھ پیچھے بائیں ہاتھ میں نامہ اعمال دئیے جائیں گے۔ 

یا یہ کہ بایاں ہاتھ پشت کی طرف نکال دیا جائے گا اور اس میں نامہ اعمال تھما دیا جائے گا۔ 

بائیں ہاتھ میں اعمال نامہ پکڑنے کے بعد اسے اپنا  انجام نظر آنے لگے گا لہذا وہ موت کو پکارے گا اور مرنے کی کوشش کرے گا مگر اسے موت میسر نہ ہوگی۔ انسان اس دنیا میں مرنے پر مجبور ہے لیکن اُس دنیا میں جینے پر مجبور ہوگا۔ وہ انہی خیالوں میں پڑا ہوگا کہ جہنم اسے اپنے قبضے میں لے لے گی اور وہ  خود بخود اس میں گرپڑے گا۔


 اِنَّهٗ كَانَ فِيْٓ اَهْلِهٖ مَسْرُوْرًا (13)


 پہلے وہ اپنے گھر والوں کے درمیان بہت خوش رہتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کافر کے عذاب کی وجہ یہ بتائی کہ وہ  دنیا میں آخرت سے بے فکر، اپنی خواہشات میں مگن، اپنے گھر والوں کے درمیان بڑا خوش تھا۔ جب کہ ایک مؤمن  کو عیش وآرام میں بھی آخرت کی فکر ضرور لگی رہتی ہے۔ 


اِنَّهٗ ظَنَّ اَنْ لَّنْ يَّحُوْرَ (14)


اس نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ وہ کبھی پلٹ کر (اللہ کے سامنے) نہیں جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حار کا معنی ہے گھوم پھر کر اسی جگہ واپس آجانا جہاں سے چلا تھا۔ 

دنیا میں کافر  کا خیال تھا کہ بس یہی زندگی ہے، نہ تو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا ہے نہ ہی واپس لوٹںا اور نہ  اس سے کوئی حساب لیا جائے گا۔ 


 بَلٰٓى  ڔ اِنَّ رَبَّهٗ كَانَ بِهٖ بَصِيْرًا۔ (15)


 بھلا کیوں نہیں ؟ اس کا پروردگار اسے یقینی طور پر دیکھ رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

حالانکہ اس کی پیدائش سے لے کر اس کی موت تک کے تمام کاموں پر اللہ کی نظر تھی۔ اس کی روح کہاں سے آئی، بدن کس کس چیز سے بنا، پھر پیدا ہو کر وہ کیا اور کیسے کام کرتا رہا۔ مرنے کے بعد اس کی روح کہاں ہے اور بدن کے اجزاء بکھر کر کہاں کہاں پہنچے۔ یہ سب باتیں اللہ تعالی کی نگاہ میں تھیں۔ اور یہ بات اللہ کی حکمت اور انصاف کے خلاف ہے کہ جیسے اعمال وہ کر رہا تھا اس کو نظر انداز کردیتا اور اس سے کوئی مؤاخذہ نہ کرتا۔


فَلَآ اُقْسِمُ بِالشَّفَقِ (16


 اب میں قسم کھاتا ہوں شفق کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان آیات میں الله تعالی نے چار چیزوں کی قسم کھائی ہے۔ 

پہلی چیز شفق ہے یعنی وہ سرخی جو سورج غروب ہونے کے بعد آسمان کے مغربی کنارے پر ہوتی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ شفق وہ سیاہی ہے جو سفیدی کے غائب ہوجانے کے بعد ظاہر ہوتی ہے اور بعض کہتے ہیں شفق کے اصل معنی رقت یعنی پتلا پن کے ہیں۔ اسی سے شفقت کا لفظ نکلا ہے جس کے معنی دل کی نرمی کے ہیں۔ جب شفق کے اصل معنی یہ ہیں تو اس سے سرخی کی بجائے سفیدی مراد لینا بہتر ہے۔ اس کے بعد رات شروع ہوجاتی ہے،  جو انسان کے حالات میں ایک بڑی تبدیلی کی ابتدا  ہے۔ یعنی روشنی مدہم ہو رہی  ہے اور اندھیرا چھا رہا  ہے۔


وَالَّيْلِ وَمَا وَسَقَ (17)


اور رات کی اور ان تمام چیزوں کی جنہیں وہ سمیٹ لے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسری قسم رات کی ہے جو اس تبدیلی  کو مکمل کر دیتی ہے اور وہ تمام چزیں جو رات کی تاریکی کے اندر جمع ہوتی ہیں۔ 

تیسری قسم وسق کی ہے جس کے اصل معنی جمع کرلینے کے ہیں۔ اگر اس کے عام معنی  مراد لئے جائیں تو اس میں کائنات کی تمام اشیاء شامل  ہیں جو رات کی تاریکی میں چھپ جاتی ہیں یعنی حیوانات، نباتات، جمادات، پہاڑ اور دریا وغیرہ 

اور جمع کرلینے کی مناسبت سے یہ معنی  ہو سکتے ہیں کہ وہ چیزیں جوعام طور پر دن کی روشنی میں منتشر اور پھیلی ہوئی رہتی ہیں،  رات کے وقت وہ سب سمٹ کر اپنے اصل  ٹھکانوں میں جمع ہوجاتی ہیں۔ 

انسان، حیوان ، چرند ، پرند اپنے گھروں اور گھونسلوں میں جمع ہوجاتے ہیں۔ سامانِ زندگی کے کاروبار کو سمیٹ دیا جاتا ہے۔


 وَالْقَمَرِ اِذَا اتَّسَقَ (18)


 اور چاند کی جب وہ بھر کو پورا ہوجائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چوتھی چیز جس کی قسم کھائی گئی وہ چاند  ہے یہ بھی وسق سے مشتق ہے جس کے معنے جمع کرلینے کے ہیں۔

 قمر یعنی چاند کے اتساق سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنی روشنی کو جمع کرلے۔

اذا اتسق کا لفظ چاند کے مختلف اطوار اور حالات کی طرف اشارہ ہے۔ شروع میں  ایک نہایت باریک قوس کی شکل میں رہتا ہے پھر اس کی روشنی روز کچھ ترقی کرتی ہے یہاں تک کہ مکمل چودھویں کا چاند ہوجاتا ہے۔


 لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ (19)


 کہ تم سب ایک منزل سے دوسری منزل کی طرف چڑھتے جاؤ گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شفق، رات اور چاند کی قسم کھانے کا مقصد جوابِ قسم کے مضمون کی وضاحت و تاکید  ہے، جیسے یہ ساری چیزیں ﷲ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل ہوتی رہتی ہیں، ان کی قسم کھا کر یہ فرمایا گیا ہے کہ اِنسان بھی ایک منزل سے دوسری منزل تک سفر کرتا رہے گا، یہاں تک کہ ﷲ تعالیٰ سے جا ملے گا۔

مراد یہ ہے کہ اے انسانو! تم ہمیشہ ایک حال میں نہیں رہو گے بلکہ ایک کے بعد ایک سیڑھی چڑھتے رہو گے۔ انسان اپنی تخلیق سے لے کر موت تک ایک حال میں نہیں رہتا۔ پہلے بچہ تھا، پھر جوان ہوا، پھر ادھیڑ عمر اور آخر بڑھاپے نے آ لیا، پھر موت کا مزہ چکھا، اس کے بعد قبر بھی آخری منزل نہیں ، وہاں کے مختلف حالات سے گزرنے کے بعد میدان حشر کے حالات سے گزرنا ہوگا۔ جہاں طے ہوگا کہ ابدی کامیابی ہوگی یا  ناکامی ۔ چنانچہ انسان کو چاہیے کہ دنیا میں اپنے آپ کو ایک مسافر خیال کرے۔ اپنے اصلی وطن اور ابدی ٹھکانے کی تیاری میں زندگی بسر کرے۔ 

لترکبن میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں۔

کچھ کے نزدیک دنیا میں پیدائش سے موت اور موت سے حشر تک کے حالات مراد ہیں اور کچھ کے نزدیک یہ ہے کہ تم سابقہ امتوں کے طور طریقوں پر ضرور بالضرور چلو گے اور بعض کے نزدیک یہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے لیے معراج کی بشارت ہے کہ آپ ضرور ایک آسمان سے دوسرے آسمان پر چڑھیں گے یا دنیا میں آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی فتح و کامیابی کی طرف اشارہ ہے  یا آخرت میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے بلند و اعلی مقامات کا تذکرہ ہے۔ 


 فَمَا لَهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ (20


پھر ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایمان نہیں لاتے ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی ان روشن اور واضح نشانیوں کے باوجود سب کچھ سننے، دیکھنے اور جاننے کے بعد بھی یقین کیوں نہیں کرتے۔ خود ان کی ذات میں طرح طرح کی تبدیلیاں ہو رہی ہیں، اسی طرح کائنات کی تبدیلیوں کو بھی ہر روز دیکھتے ہیں اس کے باوجود الله تعالی کی ذات پر ایمان نہیں لاتے۔ 


وَاِذَا قُرِئَ عَلَيْهِمُ الْقُرْاٰنُ لَا يَسْجُدُوْنَ۔ (21)


اور جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے تو وہ سجدہ نہیں کرتے ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مراد یہ ہے کہ جب قرآن مجید کے احکام ان کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں تو بجائے ماننے کے تکبر کرتے ہوئے انکار کر دیتے ہیں اور ان کے سامنے سر جھکانے کی بجائے الٹا اس کو جھٹلاتے ہیں۔ 


سوال: و اذا قری علیھم القرآن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی قرآن مجید پڑھا جائے تو سجدہ کرنا چاہیے، کیونکہ کفار کی مذمت کی گئی ہے کہ جب ان پر  قرآن مجید پڑھا جاتا ہے تو وہ سجدہ نہیں کرتے؟ 


جواب: 

  1. سجدہ اور سجود کے معنی لغت میں جھکنے کے ہیں اور یہ اطاعت شعاری اور فرمانبرداری کے معنی میں لیا جاتا ہے۔  اس جگہ سجدہ سے مراد سجدہ اصطلاحی نہیں بلکہ اللہ کے سامنے اطاعت کیساتھ جھکنا ہے، جسکو خشوع و خضوع کہتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ جب قرآن مجید پڑھا جائے تو دل میں عاجزی اور جھکاؤ اختیار کیا جائے۔ 
  2. القرآن سے مراد پورا قرآن نہیں بل کہ قرآن مجید کی وہ مخصوص آیات ہیں جن پر سجدہ لکھا ہوا ہے اور جن کو پڑھا جائے تو پڑھنے اور سننے والے پر سجدہ واجب ہو جاتا ہے۔ 


اہم بات: یہ سجدہ کی آیت ہے، یعنی اس آیت کو جب عربی میں تلاوت کیا جائے تو پڑھنے اور سننے والے پر سجدہ تلاوت واجب ہوجاتا ہے۔ 


 بَلِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا يُكَذِّبُوْنَ (22)


 بلکہ یہ کافر لوگ حق کو جھٹلاتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سچ تو یہ ہے کہ کافر لوگ حق کو جھٹلاتے ہیں۔ اس آیت کے الفاظ میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ کفر اور تکذیب باہم مترادف نہیں بلکہ الگ الگ معنی رکھتے ہیں۔ 

 کفر کے لغوی معنی چھپانے کے ہیں۔  کسی انسان کا ” کفر “ یہ ہے کہ اس کی فطرت کے اندر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی معرفت سے متعلق جو گواہیاں رکھی ہیں، وہ جانتے بوجھتے ان گواہیوں کو چھپا دے اور لوگوں کے سامنے ان کا اقرار و اظہار نہ کرے۔ 

جبکہ تکذیب سے مراد اللہ تعالیٰ کی ان آیات کو جھٹلانا ہے جو انسانی فطرت میں موجود گواہیوں کو اجاگر کرنے کے لیے اس کی طرف سے نازل ہوئیں۔ اس لحاظ سے کفر اور تکذیب دو الگ الگ جرم  ہیں اور کفر کے مقابلے میں تکذیب بڑا جرم ہے۔


 وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا يُوْعُوْنَ۔ (23)


 اور جو کچھ یہ جمع کر رہے ہیں، اللہ کو خوب معلوم ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی یہ لوگ الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے متعلق جو کفر و عداوت اپنے سینوں میں جمع رکھتے اور چھپاتے ہیں ، الله تعالی اسے خوب جانتا ہے۔


فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ۔ (24)


اب تم انہیں ایک دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان کے غرور و تکبر کی یہ حالت ہے کہ سب کچھ سمجھنے کے بعد بھی کفر سے باز نہیں آتے تو اے نبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم آپ انہیں درد ناک عذاب کی بشارت سنا دیجیے۔ 


سوال: بشارت  تو خوشی کی خبر پر سنائی جاتی ہے، پھر یہاں درد ناک عذاب کو بشارت کیوں کہا گیا ہے؟ 

جواب: 

کفار کی نافرمانی اور مسلسل ضد و تکبر کی وجہ سے بطور زجر و استہزاء  انہیں دردناک عذاب کی خبر دی جا رہی ہے۔ 


اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمْ اَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُوْنٍ (25)


البتہ جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور انہوں نے نیک عمل کیے ہیں، ان کو ایسا ثواب ملے گا جو کبھی ختم نہیں ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آخر میں مؤمنین  اور نیک اعمال کرنے والوں کو نہ ختم ہونے والے بے حساب اجروثواب اور انعامات کی خوش خبری دی گئی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مختصر تفسیر عتیق سورة الانشقاق 

قیامت کے خوفناک مناظر اور عدل و انصاف کے مظہر ’’بے رحم احتساب‘‘ کے تذکرہ پر یہ سورت مشتمل ہے۔

 آسمان پھٹ جائیں گے اور زمین پھیل کر ایک میدان کی شکل اختیار کر لے گی اور اللہ کے حکم پر گوش بر آواز ہوں گے۔ انسان کو جہد مسلسل اور مشقت کے پے در پے مراحل سے گزر کر اپنے رب کے حضور پہنچنا ہو گا۔ دائیں ہاتھ میں نامۂ اعمال کا مل جانا محاسبہ کے عمل میں نرمی اور سہولت کی نوید ہو گی جبکہ پیٹھ کی طرف سے بائیں ہاتھ میں نامۂ اعمال کا ملنا کڑے محاسبہ اور ہلاکت کا مظہر ہو گی۔

 اس کے باوجود بھی یہ لوگ آخر ایمان کیوں نہیں لاتے اور قرآن سن کر سجدہ ریز کیوں نہیں ہو جاتے۔ درحقیقت ان تمام جرائم کے پیچھے عقیدۂ آخرت اور یوم احتساب کے انکار کا عامل کار فرما ہے۔ ایسے افراد کو درد ناک عذاب کی بشارت سنادیجئے۔ اس سے وہی لوگ بچ سکیں گے جو ایمان اور اعمال صالحہ پر کاربند ہوں گے ان کے لئے کبھی منقطع نہ ہونے والا اجرو ثواب ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

سورۃ البلد:13، عم پارہ

سورۃ البلد    اسماء سورة بلد کا معنی  شہر ہے۔ اس سورت کی پہلی آیت میں   اللّٰہ  تعالیٰ نے  شہر مکہ کی قسم کھائی  ہے اس مناسبت سے اسے ’’سورہ...