پیر، 16 نومبر، 2020

سورة التکویر:4 ، عم پارہ

 سورة التکویر 

انتیس آیات پر مشتمل اس سورة کا مشہور نام التکویر ہے۔ اس کے علاوہ اسے سورة کوّرت اور اذا الشمس کوّرت بھی کہا جاتا ہے۔ 


سورة التکویر کی اہمیت: 


حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

( مجھے سورۃ ھود ، الواقعۃ، المرسلات، عم یتساءلون اور اذا الشمس کورت نے بوڑھا کردیا ہے ) 

(مفہوم اردو) سنن ترمذی، کتاب تفسیر القرآن


حضرت عبد الله بن عمر رضي الله عنهما فرماتے ہیں کہ رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص یہ پسند کرے کہ قیامت کے دن کو اپنی آنکهوں سے دیکهے تو اس کو چائیے کہ إذا الشمس كورت اور إذا السماء انفطرت اور إذا السماء انشقت پڑهے، کیونکہ یہ سورتیں قیامت کے احوال واہوال کو بیان کرتی ہیں۔ 

(مفہوم اردو) سنن ترمذي، كتاب تفسير القُرآن


ربط سورة: 

سورة عبس میں بیان کیا گیا تھا کہ قیامت کا دن اس قدر ہولناک ہوگا کہ اس کی وحشت سے ہر شخص کو اپنی پڑی ہوگی اور وہ اپنے قریبی اور پیارے رشتوں سے بھی دور بھاگے گا۔ اب سورة التکویر میں قیامت کا احوال ذکر کرنے کے بعد اس سے اگلے مرحلے کا بیان ہے کہ میدان حشرمیں ہر شخص سے اس کے اعمال کا حساب لیا جائے گا اور ہر مظلوم کی فریاد سنی جائے گی۔ 

سورة عبس میں عظمتِ قرآن کا بیان تھا اب سورة التکویر میں قرآن مجید کی عظمت و صداقت کے ثبوت کے طور پر جس پر نازل ہوا یعنی نبی کریم صلی الله علیہ وسلم اور اس کو لانے والے فرشتے یعنی جبرائیل علیہ السلام کی صفات بھی بیان کی گئیں ہیں۔ 


سورة التکویر کی ابتدا میں قیامت کی بارہ نشانیاں بیان کی گئی ہیں۔ ان میں سے پہلی چھ  جب پہلا صور پھونکا جائے گا اس وقت ظاہر ہوں گی اور آخری چھ دوسرے صور کے پھونکے جانے کے وقت ظاہر ہوں گی۔ (معارف)


اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ (1)


جب سورج لپیٹ دیا جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قیامت کی نشانیوں میں سے سب سے بڑی نشانی،  سب سے بڑا حادثہ اور واقعہ سورج کا بے نور ہوجانا ہے۔ کوّرت کے معنی میں مفسرین کرام کے دو قول ہیں۔


  1. “کورت” تکویر سے مشتق ہے اسکے معنی بےنور ہو جانے کے بھی آتے ہیں اور اسکے معنی ڈال دینے، پھینک دینے کے بھی آتے ہیں۔  مراد  یہ ہے کہ سورج کو سمندر میں ڈال دیا جائیگا جس کی گرمی سے سارا سمندر آگ بن جائیگا۔ دونوں میں کوئی تضاد نہیں، پہلے سورج کو بےنور کردیا جائے پھر اس کو سمندر میں ڈال دیا جائے۔ 
  2. کوّر” کسی چیز کو عمامہ یا پگڑی کی طرح لپیٹنا اور اوپر تلے گھمانا ہے۔ اس میں گولائی اور جمع،  دونوں تصور موجود ہوتے ہیں یعنی کسی چیز کو گولائی میں لپیٹنا اور جماتے جانا۔ کیونکہ عمامہ پھیلا ہوا ہوتا ہے اور پھر سر کے گرد اسے لپیٹا جاتا ہے ۔ اسی مناسبت سے اس روشنی کو جو سورج سے نکل کر سارے نظام شمسی میں پھیلتی ہے، عمامہ سے تشبیہ دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ قیامت کے روز روشنی کا یہ پھیلا ہوا عمامہ سورج پر لپیٹ دیا جائے گا ، یعنی  روشنی کا پھیلنا بند ہو جائے گا اور سورج بس ایک بےنور جسم رہ جائے گا۔


سورج کو لپیٹنے کی کیا کیفیت ہوگی؟ اس کی حقیقت تو ﷲ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے۔ البتہ یہ بات ظاہر ہے کہ اس کے نتیجے میں سورج میں روشنی باقی نہیں رہے گی۔ چنانچہ بعض حضرات نے اس آیت کا ترجمہ یہ بھی فرمایا ہے کہ: ’’جب سورج بے نور ہوجائے گا۔‘‘

چونکہ لپیٹنے کو عربی میں ’’تکویر‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسی لئے اس سورت کا نام سورۃ تکویر ہے۔


وَاِذَا النُّجُوْمُ انْكَدَرَتْ (2)


 اور جب ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر گریں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


دوسرا حادثہ یہ ہوگا کہ سورج کے ساتھ ساتھ ستارے بھی ٹوٹ کر سمندر میں گر پڑیں گے۔ یعنی وہ بندش جس نے ان کو اپنے اپنے مدار اور مقام پر باندھ رکھا ہے ، کھل جائے گی اور سب تارے اور سیارے کائنات میں منتشر ہو جائیں گے ۔  “کدر” کا معنی کسی چیز میں گدلاپن کے ہیں اور یہ صفائی کی ضد ہے۔ یعنی ستارے صرف منتشر ہی نہیں ہوں گے بلکہ تاریک بھی ہو جائیں گے اور بکھر کر بے نور ہو جائیں گے۔ 


وَاِذَا الْجِبَالُ سُيِّرَتْ (3)


اور جب پہاڑوں کو چلایا جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب سورج اور ستاروں کا یہ حال ہوگا تو زمین بھی تباہی و بربادی سے بچ نہ سکے گی۔ تیسرا حادثہ یہ رونما ہوگا کہ پہاڑ جو زمین میں میخوں کی طرح گڑے تھے ان کو اکھیڑ کر ریزہ ریزہ کرکے فضا میں اڑا دیا جائے گا۔ دوسرے الفاظ میں زمین کی وہ کشش بھی ختم ہو جائے گی جس کی بدولت پہاڑ وزنی اور جمے ہوئے ہیں ۔ پس جب کشش باقی  نہ رہے گی تو سارے پہاڑ اپنی جگہ سے اکھڑ جائیں گے اور بے وزن ہو کر زمین پر اس طرح چلنے لگیں گے جیسے فضا میں بادل چلتے ہیں ۔


وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ (4)


اور جب دس مہینے کی گابھن اونٹنیوں کو بھی بیکار چھوڑ دیا جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب سورج ، ستاروں اور مضبوط پہاڑوں کا یہ حشر ہوگا کہ وہ بے نور اور ریزہ ریزہ ہوکر بکھر جائیں گے تو انسان کی حالت بھی بہت بُری ہوگی۔ مال و جائداد کی کوئی پرواہ نہ ہوگی بلکہ اپنی جان کی فکر پڑی ہوگی۔ یہاں پر عربوں کے قیمتی اور پسندیدہ مال کی مثال دی گئی ہے جو کہ دس ماہ کی گابھن اونٹنی ہے۔ اونٹ عربوں کا قیمتی جانور ہے خاص طور پر جب اونٹنی ہو، پھر حاملہ اور قریب الولادت ہو تو اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ ہر وقت اس کی دیکھ بھال اور نگہداشت کی جاتی ہے۔ لیکن اس مصیبت کے وقت ہر شخص پر ایسی حالت طاری ہوگی  کہ اسے اتنی بڑی دولت کو بھی سنبھالنے کا ہوش نہیں رہے گا، اس لئے ایسی اُونٹنیاں بھی بیکار پھریں گی۔ کوئی ان کو پوچھنے والا نہ ہوگا۔ 


وَاِذَا الْوُحُوْشُ حُشِرَتْ (5)


اور جب وحشی جانور اکٹھے کردیے جائیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پانچواں حادثہ یہ ہوگا کہ وہ وحشی جانور جو انسان کو دیکھ کر بھاگ جاتے ہیں اور ایک دوسرے سے بھی دور دور رہتے ہیں صور کی آواز سن کر دہشت سے جنگلات اور پہاڑوں کو چھوڑ کر پناہ لینے کے لیے آبادیوں میں آجائیں گے یا گھبراہٹ کے عالم میں اِکھٹے ہوجائیں گے، جیسے  کسی عام مصیبت کے موقع پر تنہا رہنے کے بجائے دوسروں کے ساتھ رہنے کو پسند کیا جاتا ہے۔


وَاِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ (6)


اور جب سمندروں کو بھڑکایا جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چھٹا حادثہ یہ ہوگا کہ سمندر بھڑکا دئیے جائیں گے۔ 

سجرت، تسجیر سے مشتق ہے جس کے معنے آگ لگانے اور بڑھکانے کے بھی آتے ہیں اور اس کے معنی بھر دینے اور خلط ملط کر دینے کے بھی آتے ہیں۔ 

سُجرت کے معنی میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں۔

  1. بعض مفسرین نے بھڑکائے جانے کا یہ معنی بیان کیا ہے کہ سمندر میں جوش و طغیانی آجائے گی۔ جب زمین ہلے گی، پہاڑ اڑیں گے تو بھلا سمندر کیسے ساکت رہ سکے گا۔ اس میں اس قدر جوش آ جائے گا کہ خشکی پر چڑھ جائے گا۔ انسانوں ، حیوانوں اور بلند و بالا عمارتوں کو ڈبو دے گا۔
  2. بعض مفسرین نے بھڑکائے جانے کا یہ معنی مراد لیا ہے کہ سمندر آگ بن جائیں گے۔ 
  3. بعض نے خلط ملط ہوجانا مراد لیا ہے کہ جب سمندر اور دریا یعنی میٹھا اور کھارا پانی ملا دیا جائے گا۔ 


اصل میں پانی دو گیسوں آکسیجن اور ہائیڈروجن کا مجموعہ ہے۔ ہائیڈروجن خود آتش گیر گیس ہے جو آگ دکھانے سے فوراً بھڑک اٹھتی ہے اور آکسیجن آگ کو بھڑکنے میں مدد دیتی ہے۔ یہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ یہی دو گیسیں مل کر پانی بن جاتی ہیں جوان گیسوں سے بالکل متضاد خاصیت رکھتا ہے اور آگ کو فوراً بجھا دیتا ہے۔ قیامت کے دن سمندروں کے پانی کو پھر سے انہی دو گیسوں میں تبدیل کردیا جائے گا۔ پھر ان میں آگ لگ جائے گی اور بالآخر وہ خشک ہوجائیں گے۔

 والله اعلم   


وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ (7)


اور جب لوگوں کے جوڑے جوٹے بنا دئے جائیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہاں سے قیامت کے دوسرے مرحلے کا ذکر شروع ہوتا ہے یعنی جب دوسری بار صور پھونکا جائے گا ان میں سے ایک واقعہ یہ ہوگا کہ جب لوگ میدان حشر میں جمع ہوں گے تو باہم ملا دیئے جائیں گے اور ان کے مختلف حصے اور جماعتیں بنا دی جائیں گی۔ مؤمنین الگ گروہ میں ہوں گے اور کافر الگ۔ پھر مؤمنوں کی بھی درجات کے اعتبار سے کئی جماعتیں اور گروہ ہوں گے۔ مثلا مجاہدین ، صالحین ، علماء ، شھدا وغیرہ

 اسی طرح فاسقوں اور گنہگاروں کے بھی درجہ بدرجہ بہت سے گروہ ہوں گے۔ 


بعض نے زوجت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہر پیروکار کو اس کے پیشوا کے ساتھ جنت یا دوزخ میں اکٹھا کردیا جائیگا ۔ اور بعض نے آیت کے معنی یہ کئے ہیں کہ اس روز روحوں کو ان کے جسموں کے ساتھ ملا دیا جائیگا اور بعض کے نزدیک زوجت سے مراد یہ ہے کہ نفوس کو ان کے اعمال کے ساتھ جمع کردیا جائیگا۔ 

سورة واقعہ میں بھی قیامت کے دن انسانوں کے تین بڑے گروہوں کا ذکر ہے۔ پہلا گروہ سابقین اولین کا ، دوسرا گروہ اصحاب الیمین یعنی دائیں طرف والے ، یہ دونوں گروہ نجات پانے والے ہوں گے اور تیسرا گروہ اصحاب الشمال یعنی بائیں طرف والے یعنی کفار و فجار پر مشتمل ہوگا۔ 


وَاِذَا الْمَوْءٗدَةُ سُئِلَتْ (8)


اور جس بچی کو زندہ قبر میں گاڑ دیا گیا تھا، اس سے پوچھا جائے گا۔


بِاَيِّ ذَنْۢبٍ قُتِلَتْ (9)


 کہ اسے کس جرم میں قتل کیا گیا ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جاہلیت عرب میں یہ رسم تھی کہ لڑکی کی پیدائش کو اپنے لئے شرم کی وجہ سمجھتے تھے اورزندہ ہی اس کو دفن کردیتے تھے؛ جس کی مختلف وجوہات تھیں۔ 

  1. تنگدست اور مفلس ہوجانے کے ڈر سے اولاد کو مار ڈالتے تھے اور اس وجہ کے لحاظ سے لڑکوں اور لڑکیوں میں کوئی فرق نہ تھا۔
  2. وہ کسی کو اپنا داماد بنانا اپنے لیے باعث ننگ و عار سمجھتے تھے۔ 
  3. اور تیسری اور سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ اہل عرب ہر وقت قبائلی جنگوں میں مشغول رہتے تھے اور ایسی جنگوں میں نرینہ اولاد تو ان کی جانشین یا مددگار بنتی تھی۔ مگر لڑکیوں کا معاملہ لڑکوں سے بالکل الگ تھا۔ وہ جس قبیلہ میں بیاہی جاتیں انہیں اسی کا ساتھ دینا پڑتا اور لڑکی کے والدین کے قبیلہ کو ان کے آگے جھکنا پڑتا تھا۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ اہل عرب نے لڑکیوں کو وراثت سے بھی محروم کر رکھا تھا۔

  اسلام نے ہر طرح سے اس بری رسم کو مٹانے کی کوشش کی۔ ایک تو قتل اولاد اور لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کو عام قتل سے زیادہ سخت جرم قرار دیا اور لوگوں کے اس خیال کی پرزور تردید کی کہ وہ اپنی اولاد کو مار ڈالنے کا حق رکھتے ہیں اور دوسرے لڑکیوں کی تربیت اور پرورش کو نہایت عمدہ اور نیک عمل قرار دے کر اس کی ترغیب دی۔


سوال: قتل کی گئی لڑکی سے کیوں سوال کیا جائے گا؟ 

جواب: اس لیے کہ وہ مظلوم لڑکی جس کو خود اسکے ماں باپ نے قتل کیا۔  اس کے خون کا انتقام لینے کے لئے اس کی طرف سے کوئی دعویٰ کرنے والا بھی نہیں خصوصاً جبکہ اس کو خفیہ دفن کردیا ہو اور کسی کو اس کی خبر بھی نہیں ہوئی کہ شہادت دے سکے۔ میدانِ حشر میں جب عدل و انصاف کی عدالت  قائم ہوگی وہاں ایسے پوشیدہ اور خفیہ مظالم کو بھی سامنے لایا جائے گا۔ لڑکی سے سوال کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنی بےگناہی اور مظلوم ہونے کی پوری فریاد الله کی بارگاہ  میں پیش کرے تاکہ اس کے قاتلوں سے انتقام لیا جائے۔

دوسرا یہ کہ خطاب کا یہ انداز اللہ تعالیٰ کا مجرموں پر انتہائی غضب ناک ہونے پر دلیل ہے۔ اللہ ایسے بےرحم اور سنگدل ظالموں کی طرف نہ دیکھنا پسند کرے گا اور نہ ان سے بات کرنا پسند کرے گا بلکہ ان کے بجائے مظلوم لڑکی کی طرف متوجہ ہو کر اس سے پوچھا جائے گا کہ اسے کس جرم کی پاداش میں قتل کیا گیا تھا ؟ 

واللہ اعلم

مسئلہ : بچوں کو زندہ دفن کردینا، اسقاطِ حمل کروانا یا قتل کردینا سخت گناہ کبیرہ اور ظلم عظیم ہے جس کی انتہائی شدید پکڑ ہوگی۔ 


وَاِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ (10)


اور جب اعمال نامے کھول دئے جائیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسرا صور پھونکے جانے کے وقت تیسرا حادثہ یہ ہوگا کہ انسان کے نامۂ اعمال ان کے سامنے کھول کر رکھ دئیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا ان کو پڑھو۔ 

موت کے وقت یہ صحیفے لپیٹ دیئے جاتے ہیں، پھر قیامت کے دن حساب کے لئے کھول دیئے جائیں گے، جنہیں ہر شخص دیکھ لے گا؛ بلکہ ہاتھوں میں پکڑا دیئے جائیں گے۔


وَاِذَا السَّمَاۗءُ كُشِطَتْ (11)


اور جب آسمان کا چھلکا اتار دیا جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چوتھا حادثہ یہ ہوگا کہ آسمان کو کھول دیا جائے گا۔ عالم بالا پر آسمان کا پردہ جو کھال کی طرح چڑھا ہوا ہے اسے اتار کر تہ کردیا جائے گا۔ جس طرح ذبح شدہ جانور کی کھال اتار دی جائے تو اس کا گوشت اور اندرونی اعضا نظر آنے لگتے ہیں۔ اسی طرح آسمان کی یہ کھال اتار لی جائے گی اور اوپر والی اشیاء جنت، عرشِ الہی وغیرہ نظر آئیں گی ۔ یعنی جو کچھ اب نگاہوں سے پوشیدہ ہے وہ سب ظاہر ہو جائے گا۔ اب تو صرف خلا نظر آتا ہے یا پھر بادل ، گرد وغبار ، چاند اور تارے ۔ لیکن اس وقت الله سبحانہ وتعالی کی بادشاہی اپنی اصل حقیقت کے ساتھ سب کے سامنے بے پردہ ہو جائے گی ۔


وَاِذَا الْجَــحِيْمُ سُعِّرَتْ (12)


اور جب دوزخ بھڑکائی جائے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوزخ تو پہلے سے ہی دہک رہی ہے لیکن جب جزا کا وقت آئے گا تو غضب الہی کا شعلہ اس کو مزید بھڑکا دے گا۔ غصے اور انتقام کی آگ اس کو مزید تیز کر دے گی۔ جہنم جوش مار کر اور زیادہ تیزی سے بھڑکنے لگے گی اس کے جوش و خروش اور شعلوں کی آواز دور دور تک سنائی دے گی۔ (اللھم اجرنا من النار) 


وَاِذَا الْجَنَّةُ اُزْلِفَتْ (13)


 اور جب جنت قریب کردی جائے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس دن جنت مؤمنین کے قریب کر دی جائے گی تاکہ وہ اس میں داخل ہوں۔ 

یعنی میدان حشر میں جب لوگوں کے مقدمات کی سماعت ہو رہی ہو گی اس وقت جہنم کی دھکتی ہوئی آگ بھی سب کو نظر آ رہی ہو گی اور جنت بھی اپنی ساری نعمتوں کے ساتھ سب کے سامنے موجود ہو گی تاکہ بد کار بھی جان لیں کہ وہ کس چیز سے محروم ہو کر کہاں جانے والے ہیں ، اور نیکو کار بھی جان لیں کہ وہ کس چیز سے بچ کر کن نعمتوں سے سرفراز ہونے والے ہیں ۔


عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّآ اَحْضَرَتْ (14)


 تو اس وقت ہر شخص کو اپنا سارا کیا دھرا معلوم ہوجائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب قیامت کے یہ احوال پیش آئیں گے تو ہر شخص جان لے گا کہ وہ اپنے ساتھ کیا سامان لایا ہے۔ اس کے اچھے برے تمام اعمال اس کے سامنے آ جائیں گے۔ وہ ان کو اپنے اعمال نامہ میں لکھا ہوا دیکھ لے گا یا کسی خاص شکل و صورت میں سامنے آ جائیں گے۔ جیسے تسبیحات جنت کے درختوں اور باغات کی صورت میں، نیکیاں نعمتوں کی صورت اور قربانی کا جانور پل صراط پر سواری کی شکل میں۔ اسی طرح بد اعمال جہنم کے سانپ و بچھوکی شکل میں اور زکوة ادا نہ کرنے والوں کا مال سانپ کی شکل میں جیسا کہ بعض احادیث میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ 




ربط آیات:15 تا 21 قیامت کے حالات اور اس کی ہولناکی بیان کرنے کے بعد الله سبحانہ وتعالی نے چند ستاروں، رات اور صبح کی قسم کھائی ہے، اس بات پر کہ یہ قرآن سچ ہے اور الله کی طرف سے پوری حفاظت کے ساتھ بھیجا گیا ہے اور جس ذات پر بھیجا گیا ہے وہ بڑی شان والی ہستی ہے۔ نیز وحی لانے والے کی سچائی اور امانت و دیانت کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ 


فَلَآ اُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ (15)


اب میں قسم کھاتا ہوں ان ستاروں کی جو پیچھے کی طرف چلنے لگتے ہیں۔


الْجَوَارِ الْكُنَّسِ (16)


جو چلتے چلتے دبک جاتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ان تینوں صفات کا تعلق ستاروں یا سیاروں سے ہے۔  یعنی ایسے سیارے جو سیدھا چلتے چلتے پھر پیچھے ہٹنا شروع ہوجاتے ہیں۔ یہ پانچ   سیارے زحل ‘ مشتری ‘ مریخ ‘ زہرہ ‘ عطارد جنہیں خمسہ متحیرہ کہتے ہیں ان کی حرکت بڑی عجیب اور حیرت ناک ہوتی ہے۔ کبھی مغرب سے مشرق کی طرف سیدھے چلتے ہیں اس حال میں انہیں “الجوار” کہتے ہیں۔ کبھی ٹھٹک کر رک جاتے ہیں پھر الٹا چلنے لگتے ہیں مشرق سے واپس مغرب کی طرف اور اس حال میں انہیں “الخنس” کہا جاتا ہے۔ اور کبھی سورج کے پاس آکر کتنے دنوں تک غائب ہو جاتے ہیں۔ چھپ جانے کے وقت یہ “الکنس” کہلاتے ہیں۔ ان سیاروں کا آسمان میں اس طرح ہیر پھیر کر چلنا الله کی قدرت کی ایک عظیم نشانی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ انسان اس قدرت کا مشاہدہ کریں اور اس پر ایمان لائیں۔ 

 یہ آیات  ماہرین فلکیات کو دعوت تحقیق دے رہی ہیں کہ وہ جدید معلومات کی روشنی میں ان الفاظ (الْخُنَّس،  الْجَوَارِ اور الْکُنَّس) کے لغوی معانی کے ساتھ ستاروں کی دنیا کے رموز و حقائق کی مطابقت ڈھونڈنے کی کوشش کریں۔


 وَالَّيْلِ اِذَا عَسْعَسَ (17)


اور قسم کھاتا ہوں رات کی جب وہ رخصت ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عسعس کے معنی تاریکی ہلکی ہونے کے ہیں یہ کیفیت رات کی دونوں اطراف میں ہوتی ہے یعنی جب رات آنے والی ہو یا جانے والی ہو۔  اس سے مراد رات کا آنا اور چھا جانا بھی ہے اور رات کا جانا اور ڈھل جانا بھی ہے۔ رات کے آنے جانے کی یہ دونوں کیفیات الله تعالی کی قدرت کا اظہار ہیں۔ روشنی کے بعد اندھیرا پھیلنا شروع ہوجاتا ہے، پھر اندھیرا سمٹنا شروع ہوجاتا ہے اور آہستہ آہستہ روشنی پھوٹنے لگتی ہے۔ 


وَالصُّبْحِ اِذَا تَنَفَّسَ (18)


 اور صبح کی جب وہ سانس لے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی صبح صادق کا وہ وقت جب رات کے سناٹے میں سے زندگی انگڑائی لیتی ہوئی آہستہ آہستہ بیدار ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ صبح کے وقت عموما ہلکی ہلکی ہوا چلتی ہے جسے باد نسیم کہا جاتا ہے۔ اس ہوا کے چلنے کو بڑی بلاغت کے ساتھ صبح کے سانس لینے سے تعبیر کیا گیا ہے۔


اِنَّهٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ كَرِيْمٍ (19)


 کہ یہ (قرآن) یقینی طور پر ایک معزز فرشتے کا لایا ہوا کلام ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ وہ بات ہے جس کے لیے قسم کھائی گئی ہے ۔ یعنی یہ قرآن مجید جو صبح صادق کی طرح روشنی پھیلا رہا ہے محمد صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنی طرف سے نہیں بنا لیا بل کہ یہ ایک معزز بھیجے گئے رسول یعنی حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے آپ تک پہنچا ہے۔ یہ الله کا کلام ہے اور حضرت جبرائیل علیہ السلام اسے آپ پر وحی کی صورت میں لاتے ہیں، پڑھ کر سناتے ہیں جسے سن کر آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو سناتے ہیں۔ 

اور اس قسم سے یہ بھی مراد ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تاریکی میں کوئی خواب نہیں دیکھا بلکہ جب تارے چھپ گئے ، رات رخصت ہو گئی اور صبح روشن نمودار ہو گئی ، اس وقت کھلے آسمان پر انہوں نے الله سبحانہ وتعالی کے فرشتے کو دیکھا تھا ۔ اس لیے وہ جو کچھ بیان کر رہے ہیں وہ ان کے آنکھوں دیکھے مشاہدے اور پورے ہوش و حواس  کے ساتھ دن کی روشنی میں پیش آنے والےتجربے پر مبنی ہے ۔

یہاں “رسول کریم سے مراد بظاہر جبریل امین ہیں کیونکہ لفظ رسول جس طرح  انبیاء کے لیے بولا جاتا ہے اسی طرح فرشتوں کے لئے بھی یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ بعد میں  جتنی صفات رسول کی بیان کی گئی ہیں وہ سب جبریل امین کے لیے بغیر کسی تکلف و تاویل کے ثابت ہیں


ذِيْ قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِيْنٍ (20)


جو قوت والا ہے، جس کا عرش والے کے پاس بڑا رتبہ ہے۔


مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِيْنٍ (21)


 وہاں اس کی بات مانی جاتی ہے۔  وہ امانت دار ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان آیات میں جبرائیل علیہ السلام کی مندرجہ ذیل صفات کا بیان ہے۔ 


  1. کریم : نہایت معزز ہیں۔  الکریم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی جنس میں سب سے اعلی ہو۔ چنانچہ جبرائیل علیہ السلام فرشتوں میں سے سب سے معزز فرشتے ہیں۔ الله تعالی کا پیغام انبیاء علیھم السلام تک پہنچاتے ہیں۔ 


  1. ذی قوة: زبردست قوت کا مالک ہے۔ سورة نجم میں بھی جبریل علیہ السلام کی اس صفت کو بیان کیا گیا ہے۔ فرمایا :علمہ شدید القوی، (اسے نہایت مضبوط قوتوں والے (فرشتے) نے سکھایا)۔ جس نے قوم عاد و ثمود کی بستیوں کو آنا فانا الله کے حکم سے تباہ و برباد کر دیا۔ ایک ہی لمحہ میں آسمان سے زمین اور زمین سے آسمان تک پہنچ جاتا ہے۔ ان کی اس قوت کی وجہ سے شیطان ان سے بھاگتا ہے، جیسا کہ بدر میں انہیں دیکھ کر بھاگا تھا۔ 



  1. عند ذی العرش مکین: الله جل شانہ کے پاس ان کا بڑا مرتبہ اور مقام ہے اور الله رب العزت کی بارگاہ تک ان کی پہنچ ہے۔ 


  1. مطاع : جس کی بات مانی جاتی ہے۔ جبرائیل علیہ السلام آسمان پر فرشتوں کے سردار ہیں۔ باقی فرشتے ان کے ہر حکم کو مانتے اور ان کی اطاعت کرتے ہیں۔ 


  1. امین: ان کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ امانت دار ہیں۔ الله تعالی کی طرف سے جو حکم ان کو دیا جاتا ہے حرف بحرف نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم تک پہنچا دیتے ہیں، اس میں کوئی کمی یا زیادتی نہیں کرتے۔ 

مطلب یہ ہے کہ باعزت جبریل علیہ السلام کی قوت کی وجہ سے ان کی پیغام رسانی میں نہ شیطان کا کچھ دخل ہے اور نہ ان کی امانت داری کی وجہ سے اس پیغام رسانی میں کسی خیانت کا دخل ہے۔ قرآن لانے والا فرشتہ ایسی عظیم صفات کا مالک ہے تواُس کتاب کے کلام الله ہونے میں کسی شک و شبہ کی قطعا کوئی گنجائش نہیں۔ 



ربط آیات: پچھلی آیات میں قرآن مجید کی صداقت کا بیان تھا اور وحی لانے والے کی صفات کا ذکر کیا گیا اب ان آیات میں جس پر قرآن نازل ہوا یعنی حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وآلہ وسلم  کی شان و صفات کا بیان ہے۔ 


وَمَا صَاحِبُكُمْ بِمَجْنُوْنٍ (22)


 اور (اے مکہ والو) تمہارے ساتھ رہنے والے یہ صاحب (یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی دیوانے نہیں ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم جب کفار کو غیب کی خبریں سناتے ، قیامت کے حالات بیان کرتے ، الله کی توحید کی دعوت دیتے اور اپنی نبوت کے متعلق بتاتے تو کفار کہتے (نعوذ بالله) یہ مجنوں ہو گئے ہیں۔ الله سبحانہ وتعالی کفار کے اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تمہارے صاحب یعنی رفیق دیوانے نہیں ہیں۔ یہاں صاحب سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ آپ کو اہل مکہ کا صاحب یعنی رفیق کہہ کر دراصل انہیں اس بات کا احساس دلایا گیا ہے کہ آپ ان کے لیے کوئی اجنبی شخص نہیں بلکہ ان کے ہم قوم اور ہم قبیلہ ہیں ۔ انہی کے درمیان آپ کی ساری زندگی بسر ہوئی اور شہر کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ آپ نہایت عقلمند اور دانا  ہیں ۔ ایسے شخص کو جانتے بوجھتے مجنون کہتے ہوئے انہیں کچھ خیال کرنا چاہیے۔ ذرا قرآن پڑھ کر تو دیکھیں ! کیا کوئی دیوانہ ایسی حقیقتیں بیان کرسکتا ہے اور گزشتہ قوموں کے صحیح صحیح حالات بتا سکتا ہے۔ 


وَلَقَدْ رَاٰهُ بِالْاُفُقِ الْمُبِيْنِ (23)


 اور یہ بالکل سچی بات ہے کہ انہوں نے اس فرشتے کو کھلے ہوئے افق پر دیکھا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کفار کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ محمد صلی الله علیہ وآلہ وسلم کہتے ہیں کہ میرے پاس الله کا فرشتہ یعنی جبرائیل علیہ السلام الله کا کلام لاتے ہیں۔ کیا محمد صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے جبرائیل کو دیکھا ہے، ہوسکتا ہے وہ جبرائیل نہ ہوں بلکہ کوئی شیطان ان کے پاس آ کر اپنا کلام سنا جاتا ہو؟ 

اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے الله جل جلالہ فرماتے ہیں کہ محمد صلی الله علیہ وآلہ وسلم وحی لانے والے فرشتے جبرائیل سے خوب اچھی طرح واقف ہیں۔ کیونکہ آپ نے انہیں ان کی اصل شکل  میں آسمان کے مشرقی کھلے اور واضح کنارے  افق مبین پر دیکھا، جسے سورة نجم میں افق اعلیٰ بھی کہا گیا ہے۔ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے “رسول کریم یعنی جبرئیل امین کو اس وقت دیکھا تھا جب سپیدہ سحر کھل کر نمودار ہوچکا تھا اور ہر چیز صاف صاف نظر آنے لگی تھی۔ یعنی تاریکی دور ہو چکی تھی اور کسی قسم کے شک و شبہ کا امکان باقی نہیں رہا تھا۔ 



وَمَا هُوَ عَلَي الْغَيْبِ بِضَنِيْنٍ (24)


 اور وہ غیب کی باتوں کے بارے میں بخیل بھی نہیں ہیں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  کفار کا ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کاہن ہیں۔ 



کاہن غیب کی سچی خبر نہیں دے سکتا بل کہ صرف دنیا کے معاملات میں پیش آنے والے واقعات کے متعلق اندازے لگا کر ان کا بے تکا حال بیان کر دیتا ہے۔ وہ بھی اس طرح کہ ایک سچی بات ہوگی تو سو جھوٹی باتیں اپنی طرف سے ملا دے گا۔ جب کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم جو بھی بات بتاتے ہیں وہ روزِ روشن کی طرح سچی اور بے عیب ہوتی ہے۔ اس لیے آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کاہن نہیں بل کہ الله تعالی کے سچے نبی ہیں۔ 

ضَنِیْن ‘ کا ترجمہ حریص بھی کیا گیا ہے اور بخیل بھی۔ دراصل بخل اور حرص دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ 

حریص کے معنی میں آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ  نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری زندگی تم لوگوں کے سامنے ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کاہنوں اور نجومیوں کے ساتھ کبھی دوستی نہیں رکھی اور نہ ہی غیب کی خبریں معلوم کرنے کے لیے  کبھی ریاضت وغیرہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ چناچہ تم لوگ یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ غیب کی خبروں کے معاملے میں شروع ہی سے ” حریص “ تھے۔ 

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اس بارے میں بخیل بھی نہیں ہیں۔ اس حقیقت کے بھی تم خود گواہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غیب کی جو خبریں معلوم ہوتی ہیں وہ تم لوگوں کو بتا دیتے ہیں۔ جب کہ کاہن اور نجومی غیب کی خبریں اس طرح کھلے عام لوگوں کو نہیں بتاتے ہیں۔ اوّل تو انہیں غیب کا حال معلوم ہی نہیں ہوتا اور اگر کچھ اندازے یا قیاس آرائی کرکے تھوڑا بہت جان لیں تو اس پر وہ اپنے کاروبار چمکاتے ہیں۔ اپنی ایک ایک بات کے بدلے منہ مانگے نذرانے وصول کرتے ہیں۔ اس کے برعکس  رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اگر فرشتے کو دیکھا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے سرعام تم لوگوں کو بتادیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو جو بھی غیب کا علم دیا گیا ہے وہ سارے کا سارا لفظ بلفظ  تم لوگوں کو بتاتے ہیں اور اس معاملے میں بخل سے کام نہیں لیتے نہ ہی اسے چھپاتے ہیں۔ 


 وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَيْطٰنٍ رَّجِيْمٍ (25)


 اور نہ یہ (قرآن) کسی مردود شیطان کی (بنائی ہوئی) کوئی بات ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کفار کے ایک اور اعتراض کا جواب ہے جو کہتے تھے کہ قرآن مجید الله کا کلام نہیں بل کہ کسی شیطان کا کلام ہے۔ وہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ کر انہیں سناتا ہے۔ الله تعالی ان کے اعتراض کو رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ قرآن مجید میں توحید ، رسالت و قیامت کا بیان اور اچھے کاموں کی ترغیب ہے مثلا نماز ، صدقات، صلہ رحمی، عبادت، عفت و صداقت ، رحم اور صبر و استقامت وغیرہ اور برے کاموں سے منع کیا گیا ہے اور ان کی مذمت کی گئی ہے۔ مثلا چوری ، ڈاکہ ، زنا، شراب ، ظلم و تکبر وغیرہ بھلا شیطان کا ان سب باتوں سے کیا تعلق ؟ اگر قرآن شیطان کا کلام ہوتا تو اس کے بالکل اُلٹ ہوتا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ کسی شیطان کا نہیں بل کہ الله رب العزت کا کلام ہے۔ 


فَاَيْنَ تَذْهَبُوْنَ (26)


 پھر بھی تم لوگ کدھر چلے جارہے ہو ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تو تم یہ سب کچھ جاننے ، سمجھنے اور بوجھنے کے باوجود انکار،ضد،  گناہ اور جہنم کے راستے پر کیوں جارہے ہو؟ سیدھے راستے کو کیوں اختیار نہیں کرتے۔ سچ کو پہچان کر صداقت کا اقرار کرو۔ 


 اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِيْنَ (27)


یہ تو دنیا جہان کے لوگوں کے لیے ایک نصیحت ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قرآن مجید اپنے مضامین، اپنی خوبیوں اور اپنی روحانی تاثیر کی وجہ سے تمام جہان والوں کے لیے نصیحت و ہدایت ہے۔

ذکر کا ایک معنی یاد دہانی بھی ہے وہ اس طرح کہ قرآن مجید  انسان کی فطرت میں پہلے سے موجود حقائق کی یاد تازہ کرتا ہے۔ دراصل انسان فطری طور پر اللہ تعالیٰ کی ذات اور توحید کے تصور سے آشنا ہے ‘ مگر دنیا میں رہتے ہوئے اگر انسان کی فطرت پر غفلت کے پردے پڑجائیں تو وہ اللہ تعالیٰ کو بھول جاتا ہے۔ یہ قرآن اسی کی یاد دہانی کرواتا ہے۔ 


لِمَنْ شَاۗءَ مِنْكُمْ اَنْ يَّسْتَــقِيْمَ (28)


تم میں سے ہر اس شخص کے لیے جو سیدھا سیدھا رہنا چاہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن کتاب الله سے نفع وہی شخص حاصل کر سکے گا جو اپنی اصلاح کے ارادے سے  صراط مستقیم کو اختیار کر لے۔ جس کا ارادہ ہی نہیں ، جو اپنی اصلاح کرنا ہی نہیں چاہتا، بھلا اس کی اصلاح قرآن مجید سے کیسے ہوگی؟

استقامت کے معنی خط مستقیم کی طرح سیدھا ہونے کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر راہ حق کو بھی صراط مستقیم کہا گیا ہے چنانچہ سورة الفاتحہ میں فرمایا : ۔ اهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيمَ ۔ ہم کو سيدھے راستے پر چلا ۔ 

انسان کی استقامت کے معنی سیدھی راہ پر چلنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں۔

جس وقت یہ آیت نازل ہوئی تو ابوجہل کہنے لگا یہ چیز تو ہمارے اختیار میں ہے اگر ہم چاہیں تو سیدھے چلیں اور اگر ہماری مرضی نہ ہو تو نہ چلیں۔ 

اس پر اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت نازل فرمائی۔



وَمَا تَشَاۗءُوْنَ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ (29)


 اور تم چاہو گے نہیں، الا یہ کہ خود اللہ چاہے جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی تمہارا ارادہ اور تمہارا چاہنا وہی ہوتا ہے جس کا اللہ کو پہلے سے ہی علم ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا یہ علم تمہیں اس بات پر مجبور نہیں کرتا کہ تم وہی کام کرو جو پہلے سے اللہ کے علم میں ہے۔  ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ کی توفیق کے ساتھ انسان کی اپنی خواہش اور طلب کا شامل ہونا بہت ضروری ہے۔ کسی انسان کو ہدایت تبھی ملے گی جب وہ خود بھی اس کے لیے ارادہ کرے اور اللہ بھی اسے ہدایت دینا چاہے۔ 

ہر کام اللہ جل شانہ کے حکم اور اس کی توفیق سے ہوتا ہے ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مختصر تفسیر عتیق  “سورة التکویر”


قیام قیامت اور حقانیت قرآن اس کے مرکزی مضامین ہیں۔ قیامت کے دن کی شدت اور ہولناکی  ہر چیز پر اثر انداز ہو گی۔ سورج بے نور ہو جائے گا۔ ستارے دھندلا جائیں گے، پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑتے پھریں گے، پسندیدہ جانوروں کو نظر انداز کر دیا جائے گا، جنگی جانور جو علیحدہ علیحدہ رہنے کے عادی ہوتے ہیں یکجا جمع ہو جائیں گے۔ 

(پانی اپنے اجزائے ترکیبی چھوڑ کر ہائیڈروجن اور آکسیجن میں تبدیل ہو کر) سمندروں میں آگ بھڑک اٹھے گی۔ انسان کا سارا کیا دھرا اس کے سامنے آ جائے گا۔ پھر کائنات کی قابل تعجب حقیقتوں کی قسم کھا کر بتایا کہ جس طرح یہ چیزیں ناقابل انکار حقائق ہیں اسی طرح قرآنی حقیقت کو بھی تمہیں تسلیم کر لینا چاہئے۔

 پھر قرآن کریم کے اللہ رب العزت سے چل کر حضور علیہ السلام تک پہنچنے کے تمام مراحل انتہائی محفوظ اور قابل اعتماد ہونے کو بیان کر کے واضح کر دیا کہ یہ کتاب  دنیا جہاں کے لئے بلا کسی تفریق و امتیاز کے اپنے دامن میں نصیحت و ہدایت کا پیغام لئے ہوئے ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

سورۃ البلد:13، عم پارہ

سورۃ البلد    اسماء سورة بلد کا معنی  شہر ہے۔ اس سورت کی پہلی آیت میں   اللّٰہ  تعالیٰ نے  شہر مکہ کی قسم کھائی  ہے اس مناسبت سے اسے ’’سورہ...