پیر، 16 نومبر، 2020

المطففین :6 ، عم پارہ

 سورة المطففین 

چھتیس آیات پر مشتمل سورة المطففین کو سورة التطفیف بھی کہا جاتا ہے۔ حضرت عبد الله بن مسعود رضی الله عنھما فرماتے ہیں کہ یہ مکی سورة ہے۔ حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنھما اور حضرت قتادہ وامام ضحاک رحمھما الله  کے نزدیک یہ مدنی سورة ہے صرف آٹھ آیات مکی ہیں۔

ربط : 

سورة المطففین کا اپنی ماقبل سورة یعنی الانفطار سے لفظی ربط بھی ہے اور معنوی بھی۔ 


لفظی ربط: 


  1. كَلَّا بَلْ تُكَذِّبُوْنَ بِالدِّيْنِ (الانفطار)

 وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِّلْمُكَذِّبِينَ (المطففین)


  1. اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِيْ نَعِيْمٍ (الانفطار)

إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ (المطففین) 



  1. آیت: وَاِنَّ عَلَيْكُمْ لَحٰفِظِيْنَ (الانفطار)

وَمَا أُرْسِلُوا عَلَيْهِمْ حَافِظِينَ (المطففین)


 معنوی ربط: 

پچھلی سورة یعنی الانفطار میں احوال قیامت اور جزا و سزا کا بیان تھا اس سورة یعنی المطففین میں بھی اسی مضمون کے ذکر کی  مزید تفصیل ہے۔ سورة کی ابتداء میں ناپ تول میں برابری اور عدل کا حکم دیا جا رہا ہے جس سے یہ مناسبت واضح ہو رہی ہے کہ محشر کے دن جس طرح الله سبحانہ وتعالی اعمال کی جزا و سزا میں عدل و انصاف سے کام لیں گے اسی طرح دنیا میں تمہیں بھی ناپ تول میں عدل و انصاف کرنا چاہیے۔ 


شانِ نزول: 

حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنھما فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو سب سے پہلے سورة المطففین نازل ہوئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مدینہ والوں کی عادت تھی،  جب کسی سے معاملہ کرتے تو اگر سامان لینا ہوتا تو پورا پورا ناپ تول کر لیتے اور اگر دینا ہوتا تو اس میں کمی کیا کرتے۔ جب یہ سورة نازل ہوئی تو مدینہ والے اپنی اس عادت سے باز آگئے اور ایسے باز آئے کہ آج تک ناپ تول پورا کرنے میں مشہور و معروف ہیں(المعارف) 


اس سورة  میں اُن لوگوں کے لئے بڑی سخت وعید بیان کی گئی ہے جو دُوسروں سے اپنا حق وصول کرنے میں تو بڑی سرگرمی دِکھاتے ہیں، لیکن جب دُوسروں کا حق دینے کا وقت آتا ہے تو ڈنڈی مارتے ہیں۔ اس طرح ڈنڈی مارنے کو عربی میں ’’تطفیف‘‘ کہتے ہیں، اسی لئے اس سورت کا نام تطفیف ہے۔



وَيْلٌ لِّـلْمُطَفِّفِيْنَ (1)


 بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عربی زبان میں طفیف چھوٹی اور حقیر چیز کے لیے بولتے ہیں اور اصطلاح میں تطفیف کا لفظ ناپ تول میں چوری چھپے کمی کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ یہ کام کرنے والا ناپ کر یا تول کر چیز دیتے ہوئے کوئی بڑی مقدار نہیں اڑاتا بلکہ ہاتھ کی صفائی دکھا کر ہر خریدار کے حصے میں سے تھوڑا تھوڑا اڑاتا رہتا ہے اور خریدار بیچارے کو کچھ پتہ نہیں چلتا کہ تاجر اسے کیا اور کتنا گھاٹا دے گیا ہے۔

اگرچہ تطفیف ناپ تول میں کمی کے ساتھ خاص ہے لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ حقدار کو اس کے حق سے کم دینا بھی تطفیف ہے خواہ اس میں ماپ تول ہو یا نہ ہو۔ عموما معاملات کا لین دین انہی دو طریقوں یعنی ماپنے اور تولنے سے ہوتا ہے اور انہی کے ذریعے کہا جا سکتا ہے کہ حقدار کے حق میں کمی نہ کرو اس لیے قرآن و حدیث میں خاص طور پر انہی دو طریقوں کا ذکر ہے۔ اس وعید کا اصل مقصد یہ ہے کہ ہر حقدار کو اس کا حق پورا دیا جائے اس میں کسی قسم کی کمی نہ کی جائے خواہ اس کا تعلق ماپنے سے ہو یا تولنے سے یا گننے سے یا پھر کسی اور طریقے سے، غرض زندگی کے ہر معاملے میں تطفیف حرام ہے۔ 

 حقوق الله میں کسی قسم کی کمی  ہو مثلا نماز، وضو یا کسی اور عبادت میں کمی کرنا یا حقوق العباد میں کمی ہو مثلا مزدور یا ملازم جتنے وقت کا معاہدہ کریں اس میں سے وقت چرانا ، مقررہ وقت میں کام کرنے میں سُستی دکھانا یہ سب تطفیف میں داخل ہے۔ اس برائی کوعام لوگ تو کیا اکثر اہل علم بھی برا نہیں سمجھتے اور مقرر کردہ خدمت یا اپنی ملازمت کے فرائض میں کمی کو گناہ نہیں سمجھتے۔ 


الَّذِيْنَ اِذَا اكْتَالُوْا عَلَي النَّاسِ يَسْتَوْفُوْنَ (2)


جن کا حال یہ ہے کہ جب وہ لوگوں سے خود کوئی چیز ناپ کرلیتے ہیں تو پوری پوری لیتے ہیں۔


وَاِذَا كَالُوْهُمْ اَوْ وَّزَنُوْهُمْ يُخْسِرُوْنَ (3)


 اور جب وہ کسی کو ناپ کر یا تول کردیتے ہیں تو گھٹا کردیتے ہیں۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ناپ کر پورا لینا جرم نہیں۔ یہ جرم صرف اس وقت بنتا ہے جب اپنا حق تو پورا لیا جائے اور دوسروں کو کم دیا جائے۔ پھر اس جرم میں کمی بیشی کی کئی صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی اپنا حق بھی کم لے اور دوسروں کو بھی کم دے۔ بالفاظ دیگر اس کا پیمانہ یا باٹ ہی چھوٹا ہو اسی سے وہ لاتا بھی ہو اور دیتا بھی ہو اور ڈنڈی بھی نہ مارتا ہو۔ اس صورت میں بھی یہ جرم ہے مگر جرم کی شدت کم ہوجاتی ہے۔ دوسری یہ کہ آدمی لیتے وقت پورا یا زیادہ لے اور دیتے وقت کم دے۔ اس صورت میں جرم دگنا بلکہ تگنا ہوجاتا ہے۔ یعنی جب حق وصولنے اور لینے کا وقت ہو تو پورا پورا لینا ، کسی مزدور یا ملازم نے کام کرنے کی تنخواہ یا اجرت ، جو مقرر کر رکھی ہے وہ پوری وصول کرے لیکن کام کرتے ہوئے یعنی حق کی ادائیگی کرتے ہوئے، فرض یا ڈیوٹی انجام دینے  میں سستی ، ٹال مٹول ، اور خیانت کرے اور مکر و فریب سے کام لیتے ہوئے صرف اپنا نفع سوچے دوسروں کے نقصان کی پرواہ نہ کرے۔ 

لین دین کی اصل بنیاد عدل ہے اور قرآن کریم میں بیشمار مقامات پر اس کی سخت تاکید آئی ہے۔ ناپ تول میں کمی و بیشی اتنا بڑا جرم ہے جس کی وجہ سے حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم پر عذاب نازل ہوا تھا۔ اسلام نے مسلمانوں کو عدل سے بھی اگلے درجہ یعنی احسان یا ایثار کی ہدایت فرمائی ہے۔ وہ یہ ہے کہ آدمی اپنا حق لیتے وقت تھوڑے سے کم پر گزاراہ کرلے اور دیتے وقت تھوڑا سا زیادہ دے دے۔ 

چناچہ ایک دفعہ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم مدینہ کی منڈی میں تشریف لے گئے۔ ایک تولنے والا غلہ تول رہا تھا۔ آپ نے اسے ہدایت دی۔

 زِن وارجح

 (نسائی، کتاب البیوع) 

یعنی تول اور تھوڑا سا جھکتا تول۔ 

جس معاشرہ میں ایسا دستور رواج پا جائے اس میں لین دین کا تنازعہ پیدا نہیں ہوسکتا  اور جو شخص زیادہ تول کر دے رہا ہے اسے جب اس کا حق ملے گا تو وہ بھی زیادہ  ہی ملے گا۔ 

حضور کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے ایک ارشاد کا مفہوم ہے: جو لوگ ناپ تول میں کمی کرتے ہیں الله تعالی ان کو قحط میں مبتلا کر دیتے ہیں ، دوسری حدیث کا مفہوم ہے کہ ان کا رزق کم کر دیتے ہیں۔ 

رزق کم کرنے کی کئی صورتیں ہیں۔ 

  1. رزق وافر ہو لیکن کسی بیماری مثلا شوگر ، بلڈ پریشر وغیرہ میں مبتلا ہونے کی وجہ سے کھا نہ سکے۔
  2. ضرورت کے سامان کا قحط پڑجائے۔ 
  3. سامان ضرورت اس قدر مہنگا ہوجائے کہ خریدنا مشکل ہوجائے۔ 


اَلَا يَظُنُّ اُولٰۗئِكَ اَنَّهُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ (4)


 کیا یہ لوگ یہ نہیں سوچتے کہ انہیں زندہ کر کے اٹھایا جائے گا ؟


 لِيَوْمٍ عَظِيْمٍ (5)


 ایک بڑے زبردست دن میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی اگر وہ اس بات پر یقین رکھتے  کہ ہمیں ایک دن الله رب العزت کے سامنے پیش ہو کر ہر قسم کی کمی بیشی کا حساب دینا ہے تو کبھی نہ تو ماپ تول میں کمی کرتے، نہ ہی کسی کے حقوق میں کمی کوتاہی کرتے۔  روز قیامت کو بڑا دن اس وجہ سے کہا گیا کیونکہ اس دن  تمام انسانوں اور جنوں کا حساب الله تعالی  کی عدالت میں بیک وقت لیا جائے گا اور عذاب و ثواب کے اہم ترین فیصلے کیے جائیں گے۔


 يَّوْمَ يَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِيْنَ (6)


جس دن سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

درحقیقت تطفیف کرنے والے روزِ جزا پر ایمان نہیں رکھتے نہ ہی اس بات کا خیال کرتے ہیں کہ ایک دن انہوں نے رب العالمین کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے تمام اعمال کا ناپ تول بھی کروانا ہے ان کے اس تکبر اور سرکشی کا بھی حساب لیا جائے گا پھر الله رب العزت کو کیا جواب دیں گے۔ 

ناپ تول میں کمی کرتے ہوئے ہاتھ کو ہلکی سی جنبش دینا بظاہر تو ایک معمولی سا عمل ہے ایسا کرنے والے کی اس حرکت سے ثابت ہوتا ہے کہ یا تو اسے موت کے بعد زندہ ہونے پر یقین نہیں یا پھر اس بات کی پروا نہیں کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے ۔


ربط آیات: 7 تا 13

پچھلی آیات میں قیامت کے دن الله تعالی کے سامنے کھڑے ہونے اور نیکی بدی کی سزا پانے کا بیان تھا اب یہاں سے نیک اور بد لوگوں کے اُن حالات کا ذکر ہے جو موت کے بعد ان کے اعمال کے مطابق انہیں پیش آئیں گے۔ 


 كَلَّآ اِنَّ كِتٰبَ الْفُجَّارِ لَفِيْ سِجِّيْنٍ (7)


 ہرگز ایسا نہیں چاہیے ! یقین جانو کہ بدکار لوگوں کا اعمال نامہ سجین میں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہاں کلاّ کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ 

  1. حقاً کے معنی میں ہو ۔ اس صورت میں “کلا”  بعد میں آنے والے کلام کی تاکید کے لیے ہوگا مقصد یہ ہوگا کہ پکی اور یقینی بات ہے کہ کفار کے نامۂ اعمال سجین میں محفوظ ہیں۔ 
  2. “کلاّ” برائے ردع  ہو یعنی پچھلے کلام سے انکار کے لیے۔ پچھلی آیت میں الله سبحانہ وتعالی نے فرمایا کہ لوگ دوبارہ زندہ ہو کر رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے اور اپنے اعمال کا بدلہ پائیں گے۔ جب کہ کفار اس جزا و سزا کا انکار کرتے ہیں۔ کلا” سے الله سبحانہ وتعالی انکے اس انکار کو رد کرتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ “ہرگز نہیں” تمہارا یہ انکار درست نہیں؛ بلکہ تم سے تمہارے تمام اعمال کا حساب لیا جائے گا۔ کیوں کہ کفار و فجار کے تمام اعمال سجین میں محفوظ ہیں۔ سجین ایک ایسا دفتر یا رجسٹر ہے جس پر مہر لگی ہوئی ہے۔ ہر عمل اس میں اس طرح محفوظ ہے کہ کسی طرح کی کمی بیشی نہیں ہو سکتی۔ 

 

 وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا سِجِّيْنٌ (8)


 اور تمہیں کیا معلوم کہ سجین (میں رکھا ہوا اعمال نامہ) کیا چیز ہے ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سجین کیا ہے؟ اس میں علماء کے مختلف اقوال ہیں۔ 

سجین سجن سے مشتق ہے جس کے معنے تنگ جگہ میں قید کرنے کے ہیں۔ قاموس میں ہے کہ سجین کے معنے دائمی قید کے ہیں۔ اور سوالیہ انداز سجین کی عظمت اور ہولناکی بیان کرنے کے لیے ہے۔

سجین جہنم کا ایک خاص طبقہ ہے جو ساتویں زمین کے نیچے ہے۔ تنگ وتاریک اور تکلیف دہ جگہ ہے۔ جہاں طرح طرح کی تکالیف، دردو غم ، سزائیں ، سانپ و بچھو ہیں۔ کافر کی موت کے بعد اس کی روح کو اسی سجین میں بند کر دیا جاتا ہے۔ اسی جگہ ان کے اعمال نامے پوری طرح محفوظ ہیں اور نامۂ اعمال والا رجسٹر بھی رکھا ہوا ہے جس طرح جیل خانوں میں تمام قیدیوں کے نام اور جرم کی تفصیل موجود ہوتی ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس جگہ کوئی ایسی جامع کتاب ہو جس میں تمام دنیا کے کفار و فجار کے اعمال لکھدیئے جاتے ہیں۔

بعض کے نزدیک انسان اچھے برے جو بھی اعمال کرتا ہے اس کے اثرات اس کی روح پر اثر انداز ہوتے  ہیں۔ یہ روحیں جب اس دنیا سے جاتی ہیں تو اعمال کے اثرات اپنے ساتھ لے کر جاتی ہیں۔ انہی اثرات کی وجہ سے ہر روح دوسری روح سے مختلف ہوجاتی ہے۔ گویا یہ روحیں ہی اپنے اعمال کی کتاب ہیں جنہیں سجین میں قید کر دیا جاتا ہے۔ 

سجیین کے مقابلے میں علیین ہے جو ساتویں آسمان پر عرشِ الہی کے نیچے ہے۔ نہایت پرلطف اور فرحت بخش جگہ ہے۔  وہاں مؤمنین کی روحیں آرام و سکون سے رہتی ہیں۔ 


كِتٰبٌ مَّرْقُوْمٌ (9)


 وہ ایک لکھی ہوئی کتاب ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مرقوم کے دو معنی ہیں۔ 

پہلا: لکھا ہوا ۔

دوسرا: مختوم یعنی مہر لگا ہوا۔ 

یہاں دوسرا معنی مراد ہے۔ یہ جملہ مقام سجین کی تفسیر نہیں، بلکہ اس سے پہلے جو کتب الفجار آیا ہے اس کا بیان ہے، معنے یہ ہیں کہ کفار و فجار کے اعمالنامے مہر لگا کر محفوظ کردئے جایں گے کہ ان میں کسی کمی بیشی اور تغیر کا امکان نہ رہے گا اور انکے محفوظ کرنے کی جگہ سجین ہے یہیں کفار کی ارواح کو جمع کردیا جائے گا۔ (معارف) 


سوال: جہنم  اور جنت کہاں واقع ہے؟ 

جواب: بیہقی نے حضرت عبداللہ بن سلام سے روایت کیا ہے کہ جنت آسمان میں ہے اور جہنم زمین میں۔ حضرت معاذ بن جبل کی بیان کردہ ایک  روایت کا مفہوم ہے،  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جب پوچھا گیا کہ جہنم کو کہاں سے لایا جائے گا تو آپ نے فرمایا کہ جہنم کو ساتویں زمین سے لایا جائے گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جہنم ساتویں زمین میں ہے وہیں سے بھڑک کر سارے سمندر اور دریا اس کی آگ میں شامل ہوجائیں گے اور جہنم سب کے سامنے آجائے گی۔ (معارف) 



 وَيْلٌ يَّوْمَئِذٍ لِّلْمُكَذِّبِيْنَ (10)


 اس دن بڑی خرابی ہوگی حق کو جھٹلانے والوں کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی  جب انکار کرنے والے، جھٹلانے والے سرکش و بدکار سجین میں داخل ہوں گے وہ دن ان کے لیے بڑی ہلاکت و بربادی کا دن ہوگا۔ 


الَّذِيْنَ يُكَذِّبُوْنَ بِيَوْمِ الدِّيْنِ (11)


 جو جزاء و سزا کے دن کو جھٹلاتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


 وَمَا يُكَذِّبُ بِهٖٓ اِلَّا كُلُّ مُعْتَدٍ اَثِيْمٍ (12)


 اور اس دن کو وہی جھٹلاتا ہے جو حد سے گزرا ہوا گنہگار ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

جھٹلانے والوں کی تکذیب کا بیان ہے۔ یعنی روز جزا کا منکر صرف وہی شخص ہوسکتا ہے جسے نہ اللہ کی قدرت کاملہ پر ایمان ہو نہ اس کی صفت عدل پر اور نہ اس کی حکمت پر، جو شخص اللہ کی ان صفات پر یقین رکھتا ہو وہ قیامت کے دن کا انکار کر ہی نہیں سکتا۔ اور جب اسے روز جزا کا یقین نہیں رہتا تو پھر وہ ہر طرح کے گناہوں پر دلیر ہوجاتا ہے۔

معتد: ایسا شخص جو جاہل ہو۔ جہالت اور اپنے اباء و اجداد کی پیروی میں حد سے بڑھ گیا ہو یہاں تک کہ الله تعالی کو دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر نہ سمجھتا ہو، جیسے عرب بت پرست تھے اور موجودہ دور کے ملحد وغیرہ۔ 

اثیم: وہ شخص جو اپنے نفس کی خواہشات کے پیچھے لگنے والا ہو۔ 


 اِذَا تُتْلٰى عَلَيْهِ اٰيٰـتُنَا قَالَ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ (13)


اسے جب ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہوں تو وہ کہتا ہو کہ : یہ تو پچھلے لوگوں کے افسانے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی قیامت اور روزِ جزا کا انکار وہی شخص کرتا ہے جو انتہائی سرکش ہو۔ جب اس کے سامنے ہماری آیات یعنی قرآن مجید تلاوت کیا جاتا ہے خآس طور پر وہ آیات سنائی جاتی ہیں جن میں قیامت کا ذکر ہے تو وہ تکبر، اپنی حماقت اور جہالت کی وجہ سے کہتا ہے: یہ الله کا کلام نہیں بلکہ پہلے لوگوں کی گھڑے ہوئے خود ساختہ قصے کہانیاں ہیں۔ 


 كَلَّا بَلْ ۫ رَانَ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ (14)


ہرگز نہیں ! بلکہ جو عمل یہ کرتے رہے ہیں اس نے ان کے دلوں پر زنگ چڑھا دیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔ 

یہاں لفظ “کلا جو آیت کے شروع میں ہے اس کو حرف ردع کہتے ہیں جس کے معنی دفع کرنے ڈانٹ ڈپٹ اور تنبیہ کرنے کے ہیں۔ پہلی آیتوں میں کفار کی تکذیب کا ذکر تھا کہ وہ آیات قرآن کو کہانیاں کہ کر جھٹلاتے ہیں۔ اس آیت میں لفظ کلا سے انہیں ڈانٹ کر کہا جارہا ہے  کہ ان جاہلوں نے گناہوں میں مبتلا ہو کر اپنے دلوں کی اس نورانیت اور صلاحیت کو ختم کردیا ہے جس سے حق و باطل پہچانا جاتا ہے اور یہ صلاحیت حق تعالیٰ ہر انسان کی جبلت اور فطرت میں رکھتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ان کی یہ تکذیب کسی دلیل یا عقل وفہم کی بناء پر نہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے دل زنگ آلود ہو چکے ہیں۔ جس طرح زنگ لوہے کو کھا کر مٹی بنا دیتا ہے اسی طرح گناہوں کے زنگ نے ان کے دلوں کو سیاہ کرکے راکھ کر دیا ہے۔ 

اسی آیت کی تفسیر میں حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ کی اس حدیث کا ذکر کرنا مناسب ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مومن بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے اگر اسنے توبہ کرلی اور اس پر نادم ہو کر آگے اپنے عمل کو درست کرلیا تو یہ سیاہ نقطہ مٹ جاتا ہے اور دل اپنی اصلی حالت پر منور ہوجاتا ہے اور اگر اس نے توبہ نہ کی بلکہ اپنے گناہوں میں زیادتی کرتا چلا گیا تو یہ سیاہی اس کے سارے قلب پر چھاجاتی ہے اسی کا نام ران ہے جو اس آیت میں مذکور ہے۔ 



 كَلَّآ اِنَّهُمْ عَنْ رَّبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ (15)


 ہرگز نہیں ! حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ اس دن اپنے پروردگار کے دیدار سے محروم ہوں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی قیامت کے روز یہ کفار و فجار اپنے رب کی زیارت سے محروم رہ جائیں گے؛ کیونکہ ان لوگوں  نے دنیا میں حق کو نہ پہچانا اس لیے اب اپنے رب کی زیارت کے قابل نہ رہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مومنین اور اولیا اللہ کو حق تعالیٰ کی زیارت نصیب ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ آخرت کی نعمتوں میں سب سے بڑی  نعمت اللہ تعالیٰ کا دیدار ہے جو ایمان والوں کو حاصل ہوگی۔

 (اللہ اپنے فضل سے ہمیں بھی اپنا دیدار نصیب فرمائے)

فائدہ - بعض اکابر نے فرمایا ہے  کہ انسان فطرتاً  حق تعالیٰ سے محبت پر مجبور ہے، اسی لئے دنیا کے عام کفار و مشرکین  کتنے ہی کفر و شرک میں مبتلا ہوں اور اللہ جل شانہ کی ذات وصفات کے متعلق باطل عقیدے رکھتے ہوں مگر یہ بات سب میں مشترک ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت و محبت سب کے دلوں میں ہوتی ہے اور اپنے اپنے عقیدے کے مطابق اسی کی جستجو اور رضا جوئی کے لئے عبادتیں کرتے ہیں۔ راستہ غلط ہوتا ہے اس لئے منزل مقصود پر نہیں پہنچتے مگر طلب اسی منزل حق کی ہوتی ہے۔ اس دلیل کی  وجہ  یہ ہے کہ اگر کفار میں حق تعالیٰ کی زیارت کا شوق نہ ہوتا تو زیارت سے محرومی کو ان کی سزا نہ کہا جاتا۔ 


 ثُمَّ اِنَّهُمْ لَصَالُوا الْجَــحِيْمِ (16)


 پھر ان کو دوزخ میں داخل ہونا پڑے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الله سبحانہ وتعالی کے دیدار سے محرومی کے بعد دوسری سزا یہ دی جائے گی کہ ان کو جہنم میں دھکیل دیا جائے گا۔ 


ثُمَّ يُقَالُ هٰذَا الَّذِيْ كُنْتُمْ بِهٖ تُكَذِّبُوْنَ (17)


پھر کہا جائے گا کہ : یہ ہے وہ چیز جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

مطلب یہ ہے کہ جہنم میں داخل کرنے کے بعد ان کو شرمندہ کرنے کے لیے کہا جائے گا کہ یہی ہے وہ عذاب جس کو تم دنیا میں جھٹلایا کرتے تھے۔ اب دیکھ لو اور یقین کرلو۔ 


كَلَّآ اِنَّ كِتٰبَ الْاَبْرَارِ لَفِيْ عِلِّيِّيْنَ (18)


خبردار ! نیک لوگوں کا اعمال نامہ علیین میں ہے۔

۔۔۔۔ 

کلا سے دونوں معنی مراد ہیں۔ 

  1. کلا “ حقا کے معنی میں۔ یعنی پچھلی بات کی تصدیق کے لیے۔ 
  2. کلا” برائے ردع : کیونکہ کفار دنیا میں مؤمنین کو کہتے تھے تمہارے اعمال کا کوئی فائدہ نہیں، یہ بے کار ہیں اور ان کا کوئی اجر نہیں ملے گا۔ الله تعالی ان کے انکار کو رد کرتے ہوئے ڈانٹ کر کہہ رہے ہیں تمہارا یہ انکار ہرگز درست نہیں مؤمنین صالحین کو ان کے نیک اعمال کا بدلہ ضرور بالضرور ملے گا؛ کیونکہ مؤمنین کے نامۂ اعمال علیین میں محفوظ ہیں۔ علیین ساتویں آسمان پر عرش کے نیچے واقع ہے جہاں مؤمنین کی روحیں رہتی ہیں۔ 


وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا عِلِّيُّوْنَ (19)


اور تمہیں کیا معلوم کہ علیین (میں رکھا ہوا اعمال نامہ) کیا چیز ہے ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔

علییون  کیا ہے؟ 


علیّین کے لفظی معنیٰ بالا خانوں کے ہیں۔ یہ اُس جگہ کا نام ہے جہاں مومنوں کی رُوحیں مرنے کے بعد بھیجی جاتی ہیں، اور وہیں پر اُن کا اعمال نامہ بھی رہتا ہے۔

جس طرح سجیین سے مراد جہنم کا ایک تنگ و تاریک خاص طبقہ ہے، جہاں طرح طرح کی تکالیف اور درد والم کے سوا کچھ نہیں اسی طرح علیین ہے جو نیک اور صالحین مؤمنین کے لیے ہے۔ ساتویں آسمان پر عرشِ الہی کے نیچے، نہایت پرلطف اور فرحت بخش جگہ ہے۔  وہاں مؤمنین کی روحیں آرام و سکون سے رہتی ہیں۔ 



 كِتٰبٌ مَّرْقُوْمٌ (20)


وہ ایک لکھی ہوئی کتاب ہے۔

۔۔۔۔۔۔

یہ علییون کی تفسیر نہیں بلکہ کتاب الابرار کا ذکر ہے۔ یعنی نیکو کاروں کی مہر لگائی ہوئی کتاب ہے۔ جو مقام علییون میں ان کے ساتھ موجود ہو گی۔ 


 يَّشْهَدُهُ الْمُقَرَّبُوْنَ (21)


جسے مقرب فرشتے دیکھتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس آیت میں دو قول ہیں 

  1. بیان القرآن میں اس کی تفسیر یہ بیان کی گئی ہے کہ مؤمن کی عزت و تکریم کی وجہ سے مقرب فرشتے شوق سے دیکھتے ہیں۔ حضرت کعب رضی الله عنہ کی ایک روایت کا مفہوم ہے کہ جب فرشتے مؤمن کی روح کو نکال کر لے جاتے ہیں تو ہر آسمان کے مقرب فرشتے اس کے ساتھ ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ ساتویں آسمان پر پہنچ کر اس روح کو دیکھتے ہیں۔ پھر فرشتے کہتے ہیں ہم اس کا اعمال نامہ دیکھنا چاہتے ہیں؛ چنانچہ وہ اعمال نامہ کھول کر دکھایا جاتا ہے۔  مومنوں کا اعمال نامہ چونکہ نیکیوں پر مشتمل ہوتا ہے، اس لئے مقرّب فرشتے اُس کے اِعزاز و اِکرام کے طور پر اُسے دیکھتے ہیں، اور دیکھنے کا مطلب اُس کی نگرانی بھی ہوسکتا ہے۔ 
  2. شھود کا معنی حاضر ہونا اور ہ” کی ضمیر علیون کی طرف لوٹائی جائے۔ اور مقربون سے مراد اولیاء اور صالحین ہوں تو مراد یہ ہے کہ اس مقام علیین پر اولیاء  اور صالحین  کی روحیں حاضر ہوتی ہیں 


ایک اعتراض اور اس کا جواب: 

سوال: بعض احادیث میں بیان کیا گیا کہ مؤمنین کی روحیں جنت میں ہیں۔ 

  1. حضرت عبد الله بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: شھداء کی روحیں الله تعالی کے پاس سبز پرندوں کے پوٹوں میں ہوتی ہیں جو جنت کے دریاؤں میں جہاں چاہتی ہیں سیر کرتی ہیں اور عرش کے نیچے لگے قندیلوں میں رہتی ہیں( اردو مفہوم) 
  2. حضرت کعب بن مالک سے سے روایت ہے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: مؤمنین کی روحیں پرندوں کی شکل میں جنت کے درختوں کے ساتھ لٹکی رہتی ہیں اور قیامت کے دن اپنے اپنے جسموں میں لوٹ آئیں گی۔ 
  3. سورة یٰسین میں ہے قیل ادخل الجنہ اس سے مراد حبیب نجار ہیں جن سے کہا گیا: “جنت میں داخل ہوجاؤ” ان تمام روایات سے معلوم ہوا کہ مؤمنین کی روحیں جنت میں ہوتی ہیں جب کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مؤمنین کی روحیں علیین میں ہوتی ہیں ۔ اسی طرح  آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار کی روحیں سجین میں ہیں جب کہ بعض احادیث میں ہے کہ کفار کی روحوں کو جہنم میں پھینک دیا جاتا ہے۔ بظاہر اس میں تضاد ہے۔ 

جواب: کوئی تضاد نہیں؛ کیونکہ علیون بھی جنت کا ایک حصہ ہے جہاں ارواحِ مؤمنین کا مستقل قیام ہوتا ہے۔ انہیں جنت کے دوسرے حصوں کی سیر کی بھی اجازت ہوتی ہے۔ چنانچہ یہ کہنا کہ ابرار کی روحیں علییون  میں رہتی ہیں یا جنت میں رہتی ہیں ایک ہی بات ہے۔ اسی طرح کفار کی روحیں سجین  میں رہتی ہیں یا جہنم میں ایک ہی بات ہے کیونکہ سجین جہنم کا ہی ایک حصہ ہے۔ 


ربط آیات: 22 تا 28

یہاں سے نیک لوگوں کو ملنے والی نعمتوں کا تذکرہ ہے۔


اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِيْ نَعِيْمٍ (22)


یقین جانو کہ نیک لوگ بڑی نعمتوں میں ہوں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔

یعنی متقین ، نیکو کار لوگ طرح طرح کی نعمتوں اور عیش وآرام میں ہوں گے۔ خوبصورت محلات، گھنے پر سکون باغات، عمدہ اور نفیس لباس ، حوریں اور غلمان ، برق رفتار بہترین سواریاں، پسندیدہ کھانے، لذیذ پھل ، ہمیشہ رہنے والی لذتیں غرض ہر قسم کی نعمتیں موجود ہوں گی جو اس سے پہلے نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہوں گی، نہ کسی کان نے سنی ہوں گی اور نہ کسی ذہن نے کبھی ان کا تصور بھی کیا ہوگا۔ 


 عَلَي الْاَرَاۗئِكِ يَنْظُرُوْنَ (23)


آرام دہ نشستوں پر بیٹھے نظارہ کر رہے ہوں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جن تختوں پر ان کو بٹھایا جائے گا وہ  معمولی نہ ہوں گے بل کہ انتہائی خوبصورت اور منقش ہوں گے، قیمتی جواہرات سے سجے ان عالی شان تختوں کے گرد ریشم کے پردے لٹک رہے ہوں گے اور وہ بادشاہوں کی طرح ان مسندوں  پر بیٹھے نظارہ کر رہے ہوں گے۔ 

ابرار کیا دیکھ رہے ہوں گے اس میں مفسرین کے مختلف قول ہیں۔

  1. وہ جنت کی نعمتوں اور آسائشوں کو دیکھیں گے۔
  2. جہنم میں اپنے مخالفین کو جلتے ہوئے دیکھیں گے، جو دنیا میں ان کی تحقیر کرتے اور مذاق بناتے تھے۔
  3. وہ اپنے رب کو دیکھیں گے اور یہ جنتیوں کے لیے سب سے بڑا انعام ہوگا۔



تَعْرِفُ فِيْ وُجُوْهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِيْمِ (24)


 ان کے چہروں پر نعمتوں میں رہنے سے جو رونق آئے گی، تم اسے صاف پہچان لوگے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جس طرح  دنیا میں انسان کی خوشحالی اور آسودگی کے اثرات اس کے چہرے پر نمایاں ہوتے ہیں اسی طرح قیامت کے دن اہل جنت اپنے تروتازہ چہروں سے صاف پہچانے جائیں گے۔ ان کے چہروں پر نعمتوں کی ترو تازگی اطمینان  اور حسن و جمال  بن کر ظاہر ہو گی، ان کے چہرے چاند کی طرح روشن اور چمک دار ہوں گے۔ 


يُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِيْقٍ مَّخْتُوْمٍ (25)


 انہیں ایسی خالص شراب پلائی جائے گی جس پر مہر لگی ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


خِتٰمُهٗ مِسْكٌ  ۭ وَفِيْ ذٰلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ (26)


 اس کی مہر بھی مشک ہی مشک ہوگی۔ اور یہی وہ چیز ہے جس پر للچانے والوں کو بڑھ چڑھ کر للچانا چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

اگرچہ جنت میں لذیذ اور پاکیزہ  شراب کی نہریں بہتی ہوں گی۔   مگر یہ ایک خاص شراب ہوگی ، جو کستوری کی مہر لگی ہو گی، جس کی خوشبو شراب کے اندر رچی بسی ہوگی۔   ” ختمہ مسک “ کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ پیتے وقت آخری گھونٹ کے ساتھ مشک  جیسی خوشبو آئے۔ یہ دنیا کی شراب کی طرح نہیں ہوگی جو کڑوی اور بدبو دار ہوتی ہے۔ جسے پینے سے سردرد، متلی، بدحواسی، بے ہوشی طاری ہو جاتی ہے اور منہ سے بدبو آتی ہے۔ 

تنافس کے معنی ہیں کسی خاص، پسندیدہ  اور محبوب چیز کو حاصل کرنے کے لئے جھپٹنا اور دوڑنا تاکہ دوسروں سے پہلے اس کو حاصل کرلیا جائے۔

 یہاں جنت کی نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد الله سبحانہ و تعالیٰ  غافل انسان کو اس طرف متوجہ کرتے ہیں کہ تم  جن حقیر دنیاوی چیزوں کومقصد حیات سمجھ کر ایک  دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش میں ہو، یہ ناقص اور فانی نعمتیں اس قابل نہیں۔

اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ دنیا کی حقیر چیزوں کے پیچھے دوڑنے کے بجائے ان ابدی نعمتوں کو حاصل کرنے کے لیے محنت اور مسابقت کریں۔

 

وَمِزَاجُهٗ مِنْ تَسْنِيْمٍ (27)


 اور اس شراب میں تسنیم کا پانی ملا ہوا ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

عَيْنًا يَّشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُوْنَ (28)


جو ایک ایسا چشمہ ہے کہ جس سے اللہ کے مقرب بندے پانی پئیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابرار کی نعمتیں بیان کرنے کے بعد مقربیں کی نعمتوں کا ذکر ہے۔ انہیں جو شراب پلائی جائے گی اس کی ملونی تسنیم سے ہوگی۔ اس شراب یعنی رحیق مختوم میں تسنیم کا شربت بھی ملایا جائے گا۔ مزج الشراب کے معنی شراب میں کوئی چیز ملا دینا کے ہیں ۔ اور جو چیز شراب میں ملائی جائے اسے مزاج کہا جاتا ہے۔ جس طرح دنیا کی شراب میں پانی ملایا جاتا ہے اسی طرح جنت کی شراب میں تسنیم ملا کر دیا جائے گا۔ جو ایک نہایت اعلی اور قیمتی چشمے کا پانی ہے۔ 


تسنیم کی وجہ تسمیہ  میں مفسرین کے مندرجہ ذیل اقوال ہیں۔ 

  1. تسنیم کے معنی بلندی کے ہیں ، اور کسی چشمے کو تسنیم کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بلندی سے بہتا ہوا نیچے آ رہا ہو ۔
  2. تسنیم “ جنت کے ایک چشمے کا نام ہے، جس کا پانی اہل جنت پر اوپر سے گر رہا ہوگا، یعنی وہ رحیق مختوم میں اس چشمے کا پانی ملا کر پئیں گے جو اوپر سے گر رہا ہوگا۔
  3. تسنیم جنت کے ایک چشمے کا نام ہے۔ اُس کا پانی جب اُس شراب میں ملے گا تو اس کے ذائقے اور لطف میں بہت اضافہ کردے گا۔
  4. اس چشمے کا نام تسنیم اس لئے ہے کہ وہ جنت کا سب سے اعلیٰ اور اونچے درجے کا مشروب ہے جو ابرار کو “رحیق مختوم میں آمیزش کے لئے دیا جائے گا اور مقربین کو خالص حالت میں پینے کیلئے ملے گا۔ اس سے مقربین کی شان معلوم ہوتی ہے۔ 

 (والله اعلم) 



ربط آیات: 30  تا 36

پچھلی آیات میں گنہگاروں اور نیکو کاروں کی اخروی جزا کا حال الگ الگ بیان کیا گیا اب ان آیات میں دونوں جماعتوں کے دنیاوی اور اخروی حال کا مجموعی بیان ہے۔ 



اِنَّ الَّذِيْنَ اَجْرَمُوْا كَانُوْا مِنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يَضْحَكُوْنَ (29)


جو لوگ مجرم تھے، وہ ایمان والوں پر ہنسا کرتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان آیات میں الله تعالیٰ نے مؤمنین ، مسلمین کے ساتھ کفار  کے عام رویے کا پورا نقشہ کھینچ دیا ہے۔ دنیا میں کافر ایمان والوں پر ہنستے اور ان کا مذاق بناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کیا حماقت ہے، دنیا کی موجودہ  لذتوں کو چھوڑ کر آخرت کی خیالی جنت، باغات  اور حوروں  کے وعدوں کے پیچھے پڑے ہوئے ہو۔

” کانوا “ اور ” یضحکون “ کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے، یہ صرف مکہ کے مشرکین کی بات نہیں بلکہ ہر دور کے کفار کا مشغلہ ہے۔  آج کے ملحد اور بےدین بھی مسلمانوں کو رجعت پسند، دقیانوسی، تنگ نظر، تاریک خیال اور اس قسم کے طنزیہ خطابات دے کر خوش ہوتے اور اپنے دل کا غبار نکالتے رہتے ہیں۔



وَاِذَا مَرُّوْا بِهِمْ يَتَغَامَزُوْنَ (30)


 اور جب ان کے پاس سے گزرتے تھے تو ایک دوسرے کو آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارے کرتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اور جب اہل حق ان کے سامنے آتے ہیں تو یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کو آنکھوں  سے اشارے کرتے ہیں جس کا مقصد مذاق اڑانے اور تکلیف پہنچانے کے سوا اور کچھ نہیں۔ 


وَاِذَا انْقَلَبُوْٓا اِلٰٓى اَهْلِهِمُ انْقَلَبُوْا فَكِهِيْنَ (31)


 اور جب اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر جاتے تھے، تو دل لگی کرتے ہوئے جاتے تھے۔


وَاِذَا رَاَوْهُمْ قَالُوْٓا اِنَّ هٰٓؤُلَاۗءِ لَضَاۗلُّوْنَ (32)


اور جب ان (مومنوں) کو دیکھتے تو کہتے کہ یہ لوگ یقینا گمراہ ہیں۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہی کفار جب  اپنے ٹھکانوں پر واپس جاتے ہیں تو مومنین کے ساتھ جو تمسخر اور مذاق  کیا تھا آپس میں اس کا ذکر، مزے لے لے کر کرتے ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ ہم نے خوب ان لوگوں کو ذلیل کیا۔ جب مومنین کو دیکھتے ہیں تو بظاہر ہمدردی کے لہجہ میں اور درحقیقت حقارت سے کہتے ہیں کہ یہ بیچارے بڑے سادہ لوح اور بے وقوف ہیں ان کو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گمراہ کردیا ہے۔ اپنے باپ دادا کے مذہب کو چھوڑ کر بھٹک گئے اور نادان ہیں جو اس نئے دین کی خاطر دنیا کی نعمتوں کو چھوڑ بیٹھے ہیں۔ 


وَمَآ اُرْسِلُوْا عَلَيْهِمْ حٰفِظِيْنَ (33)


حالانکہ ان کو ان مسلمانوں پر نگران بنا کر نہیں بھیجا گیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ان آیات میں کفار سے مراد قریش کے سردار یعنی ابوجہل، ولید بن مغیرہ، عاص بن وائل اور ان کے ساتھی مراد ہیں اور مسلمانوں سے مراد حضرت عمار،  خباب، یاسر ، صہیب اور حضرت بلال رضوان الله علیھم اجمعین جیسے غریب اور نادار مسلمان  ہیں۔ 


اللہ سبحانہ وتعالی فرماتے ہیں کہ  یہ کافر لوگ محافظ بنا کر تو نہیں بھیجے گئے انہیں مومنوں کی کیا پڑی ہے، کیوں ہر وقت ان کے پیچھے پڑے ہیں، ان کے اعمال و افعال کی دیکھ بھال رکھتے ہیں اور طعنہ آمیز باتیں بناتے رہتے ہیں؟



ان چار آیات میں کفار کی چار بری حرکتوں کا ذکر ہے۔ 

  1. وہ مسلمانوں  کا مذاق اڑاتے
  2. جب ان کے پاس سے گزرتے تو آنکھوں سے ایک دوسرے کو اشارے کرتے
  3. باتیں بنانے پر خوش ہوتے ہوئے اپنے گھروں کو لوٹتے
  4. جب انہیں دیکھتے تو کہتے یہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ 


ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی پر ہنسنا، مذاق بنانا ، ہوٹنگ کرنا اور تحقیر کرنا درست نہیں۔ یہ سب کفار کی عادات اور طور طریقے ہیں۔ ایسا کرنا کچھ وجوہات کی بنا پر درست نہیں۔

  1. اس سے دوسرے انسان کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے
  2. جو شخص دوسرے پر ہنستا ہے گویا وہ اپنے آپ کو دوسرے سے بہتر سمجھتا ہے اور یہ تکبر کی نشانی ہے۔
  3. وہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا ہے۔ یہ زمانے کا دستور ہے کہ وقت بدلتا رہتا ہےاگر الله چاہے تو اسے بھی اسی حال میں مبتلا کر دے۔ 

 


 فَالْيَوْمَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُوْنَ (34)


آخر ہوگا یہ کہ آج ایمان لانے والے کافروں پر ہنس رہے ہوں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قیامت کے دن معاملہ الٹ ہوجائے گا، اب اہل ایمان کفار پر ہسنتے ہوں گے کہ یہ لوگ کس درجہ احمق تھے کہ خود گمراہ ہونے کے باوجود ہمیں گمراہ کہتے تھے اور واضح دلائل کے باوجود نہ انہوں نے پیدا کرنے والے کا حق پہچانا اور نہ آخرت کی فکر کی۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ دنیا کی زندگی عارضی ہے اس کی لذتوں میں مست رہے۔


عَلَي الْاَرَاۗئِكِ   ۙ يَنْظُرُوْنَ (35)


 آرام دہ نشستوں پر بیٹھے ہوئے دیکھ رہے ہوں گے۔


هَلْ ثُوِّبَ الْكُفَّارُ مَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ (36)


 کہ کافر لوگوں کو واقعی ان کاموں کا بدلہ مل گیا جو وہ کیا کرتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسہریوں پر بیٹھے کافروں کا حال دیکھ رہے ہوں گے کہ واقعی کافروں کو آخرت میں، ان کے دنیا میں کیے گئے اعمال کا پورا پورا بدلہ ملا۔

کفار مکہ مسلمانوں سے ایسی بدسلوکی اپنے دین کی حمایت میں ایک اچھا اورثواب کا کام  سمجھ کر کرتے تھے اور آج تک تمام منکریں یہی سوچ کر ایمان والوں کی تحقیر کرتے ہیں۔ قیامت کے دن ان کافروں کو ان کے اس کار ثواب کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا جب یہی خستہ حال مومن جنت میں اونچی مسندوں پربیٹھے ہوں گے اور وہیں سے ان کافروں کا نظارہ کر رہے ہوں گے۔ پھر ان کا مذاق اڑائیں گے اور ان سے پوچھیں گے کہ بتاؤ احمق دیوانے اور گمراہ تم تھے یا ہم ؟



                مختصر تفسیر عتیق سورہ المطففین


ناپ تول میں کمی کرنے والے کو مطفف کہتے ہیں۔ اس سے ہر وہ شخص مراد ہو سکتا ہے جو دوسروں کا حق مارتا اور اپنے فرائض منصبی میں کوتاہی کرتا ہو۔ 

مطففین کی ہلاکت کے اعلان کے ساتھ سورت کی ابتداء ہو رہی ہے اس کے بعد بتایا کہ یہ لوگ اپنے مفادات پر آنچ نہیں آنے دیتے جبکہ دوسروں کے حقوق کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیتے ہیں۔ اس انسانی کمزوری کی بڑی وجہ قیامت کے احتساب پر یقین کا نہ ہونا ہے اگر عقیدۂ آخرت کو پختہ کر دیا جائے تو اس خطرناک بیماری کا علاج ہو سکتا ہے۔

 پھر اشرار و فجار کا انجام ذکر کر کے بتایا ہے کہ منکرین آخرت درحقیقت انتہاء پسند اور گناہوں کے عادی لوگ ہوتے ہیں۔ ان کے دل گناہوں کی وجہ سے ’’زنگ آلود‘‘ ہو جاتے ہیں۔

 پھر ابرار و اخیار کا قابل رشک انجام ذکر کر کے بتایا کہ جس طرح کافر لوگ دنیا میں ایمان والوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے آج ایمان والے ان کا مذاق اڑائیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

سورۃ البلد:13، عم پارہ

سورۃ البلد    اسماء سورة بلد کا معنی  شہر ہے۔ اس سورت کی پہلی آیت میں   اللّٰہ  تعالیٰ نے  شہر مکہ کی قسم کھائی  ہے اس مناسبت سے اسے ’’سورہ...