منگل، 22 دسمبر، 2020

سورة الفجر :12، عم پارہ

 سورة الفجر

تیس آیات پر مشتمل یہ سورة بالاتفاق  مکی ہے۔ سورة کا نام “الفجر”  ہے کیونکہ اس سورة کی ابتداء الفجر سے ہو رہی ہے۔

شانِ نزول:

اس سورة میں کفار کے مختلف شبھات کو دور کیا گیا ہے۔ کافروں کا خیال تھا کہ بندوں  کی نیکیوں یا  گناہوں سے الله تعالی کو نہ تو کوئی فائدہ ہے نہ کوئی نقصان ۔ اس لیے قیامت، روز جزا اور حساب کتاب کی کیا ضرورت ہے۔ الله تعالی نے واضح طور پر بتا دیا کہ یہ دنیا دارالعمل ہے۔عمل ختم ہونے کے بعد  اس کا بدلہ ضرور دیا جائے گا۔اس کے لیے قیامت ضرور قائم ہوگی۔ 

ربط : 

سورة الفجر کا ماقبل سورة سے لفظی ربط بھی ہے اور معنوی بھی۔

لفظی ربط: 

پچھلی سورة یعنی الغاشیہ میں تھا۔

لِسعیھا راضیة 

اب سورة الفجر میں ہے۔ 

راضیةً مرضیةً 

سورة الغاشیہ میں تھا۔


فَيُعَذِّبُهُ اللَّهُ الْعَذَابَ الْأَكْبَرَ

الفجر میں ہے۔

لَّا یُعَذِّبُ عَذَابَہٗۤ اَحَدٌ

ربط معنوی 

سورة الغاشیہ کی طرح اس سورت میں بھی قیامت اور جزا و سزا  کا بیان ہے۔ کفار کی عبرت کے لیے بعض سرکش قوموں کے عذاب و سزا کا ذکر ہے اور ایمان والوں کے لیے تسلی اور جنت کا وعدہ ہے۔    

۔۔۔۔۔۔۔۔

سورت کی ابتدا ء پانچ قسموں سے ہو رہی ہے۔ یہ قسمیں جواب قسم کے مضمون کو پختہ کرنے کے لیے ہیں جو محذوف ہے یعنی تم ضرور دوبارہ زندہ کرکے اٹھائے جاؤ گے۔ ہر قسم جوابِ قسم سے مناسبت رکھتی ہے۔

وَ الۡفَجۡرِ ۙ﴿۱﴾

قسم ہے فجر کے وقت کی۔

۔۔۔۔

سب سے پہلی قسم فجر کی ہے۔ اس میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں ۔

۱- روزانہ کی صبح مراد ہے۔

۲- یوم النحر یعنی قربانی کا دن مراد ہے کیونکہ یہ بڑا متبرک دن ہے اور لوگوں کے اکٹھا ہونے کی وجہ سے میدانِ حشر کا نمونہ ہے۔

۳- ماہ ذوالحج کی پہلی صبح مراد ہے۔

۴۔ ماہ محرم کی پہلی صبح مراد ہے کہ اس سے سال کا آغاز ہوتا ہے۔

جمہور مفسرین کے نزدیک والفجر سے روزانہ کی صبح مراد ہے اور جواب قسم کے ساتھ بھی اس کی مکمل مناسبت ہے۔ رات کے وقت ہر طرف سناٹا ہوتا ہے، مخلوق پر نیند اور آرام طاری ہوتا ہے جو بالکل موت کے مشابہ ہے، لیکن جونہی صبح کی ابتداء ہوتی ہے ہر طرف شور برپا ہو جاتا ہے۔

پہلا صور پھونکنے سے دنیا کی ہر چیز فنا ہو جائے گی اور پوری دنیا پر سناٹا چھا جائے گا پھر دوسرا صور پھونکا جائے گا،  لوگ قبروں سے نکلیں گے اور ہر طرف زبردست شور برپا ہو جائے گا۔

    

وَ لَیَالٍ عَشۡرٍ ۙ﴿۲﴾

اور دس راتوں کی۔

۔۔۔۔۔

الله تعالی نے دوسری قسم  دس راتوں  کی کھائی ہے۔ 

دس راتوں سے کیا مراد ہے؟

اس میں مفسرین کے کئی قول ہیں۔

۱۔ اس سے محرم کے مہینے کی پہلی دس راتیں مراد ہیں کیونکہ وہ بڑی بابرکت ہیں ، خاص طور پر دس محرم یعنی عاشورا کی رات۔

۲۔ رمضان المبارک کی پہلی دس راتیں۔

۳۔ رمضان المبارک کی آخری دس راتیں ، کیونکہ ان میں لیلة القدر واقع ہے اور رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم خود بھی عبادت کے لیے جاگتے اور گھر والوں کو بھی بیداری کا حکم دیتے ۔

۴۔ سال کی متفرق راتیں مراد ہیں۔ پانچ وہ راتیں جن میں لیلة القدر کا امکان ہے چھٹی عید الفطر کی رات، ساتویں عرفہ کی رات، آٹھویں یوم النحر کی رات، نویں ستائیسویں رجب، دسویں پندرہویں شعبان کی رات۔

۵۔ اکثر مفسرین کی رائے ہے کہ اس سے مراد ذوالحجہ کی پہلی دس راتیں ہیں کیونکہ حدیث مبارکہ میں ان کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ 

حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ نے آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد نقل کیا ہے جس کا مفہوم ہے کہ عبادت کرنے کے لیے عشرہ ذوالحجہ تمام دنوں سے افضل ہے ۔ہر دن کا روزہ ایک سال کے برابر اور ہر رات کی عبادت لیلة القدر کی عبادت کے برابر ہے۔ 

(معارف)

      

وَّ الشَّفۡعِ وَ الۡوَتۡرِ ۙ﴿۳﴾

اور جفت اور طاق کی۔

۔۔۔

تیسری  قسم شفع کی اور چوتھی الوتر کی ہے۔ 

شفع اور وتر سے کیا مراد ہے؟

شفع کے لغوی معنے جوڑ کے ہیں جس کو اردو میں جفت کہتے ہیں اور وتر کے معنے طاق اور اکیلے کے ہیں۔ قرآن کریم کے الفاظ میں یہ تعین  نہیں کیا گیا کہ اس جفت اور طاق سے کیا مراد ہے۔ اس لیے ائمہ تفسیر کے اس میں   بے شمار اقوال  ہیں۔

البتہ ایک حدیث مرفوع جو ابوالزبیر نے حضرت جابر  رضی الله عنھم سے روایت کی ہے اس کا مفہوم  ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے والفجر ولیال عشر کے متعلق فرمایا کہ فجر سے مراد صبح اور عشر سے مراد عشرہ نحر ہے (اور یہ عشرہ ذی الحجہ کا پہلا ہی عشرہ ہوسکتا ہے جس میں یوم نحر شامل ہے)اور فرمایا کہ وتر سے مراد  عرفہ کا دن اور شفع سے مراد یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) ہے۔

 

وَ الَّیۡلِ اِذَا یَسۡرِ ۚ﴿۴﴾

اور رات کی جب وہ چل کھڑی ہو ۔ ( ٣ ) ( کہ آخرت میں جزا و سزا ضرور ہوگی )

۔۔۔۔۔

پانچویں قسم کا بیان ہے۔ الله تعالی نے ڈھلتی ہوئی رات کی عظمت ظاہر کرنے کے لیے اس کی قسم کھائی ہے کیونکہ جب رات ڈھلتی ہے تو الله تعالی کی رحمت اور تجلی کا نزول ہوتا ہے۔ احادیث میں اخیر شب کے  بہت برکات و فضائل  بیان ہوئے  ہیں۔ 

ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے۔ جب تہائی رات باقی ہوتی ہے تو الله تعالی آسمانِ دنیا پر تشریف لاتے ہیں، فرماتے ہیں کوئی ہے اپنے گناہوں کی معافی مانگنے والا کہ میں اس کے گناہ معاف کروں، کوئی ہے روزی کا طالب کہ میں اسے روزی دوں، کوئی ہے حاجت مانگنے والا کہ میں اس کی حاجت پوری کروں ۔ 


ہَلۡ فِیۡ ذٰلِکَ قَسَمٌ لِّذِیۡ حِجۡرٍ ؕ﴿۵﴾

ایک عقل والے ( کو یقین دلانے ) کے لیے یہ قسمیں کافی ہیں کہ نہیں؟

۔۔۔۔

حجر کے معنی ہیں روکنا اور منع کرنا ہے۔انسانی عقل بھی انسان کو غلط کاموں سے روکتی ہے اس لیے عقل کو بھی حجر کہا جاتا ہے۔ ان پانچ چیزوں کی قسمیں کھانے کے بعد الله تعالی نے ایک خاص انداز سے غافل انسانوں کو غور و فکر کی دعوت دی ہے۔ دنوں اور راتوں کا حوالہ  اس لئے دیا گیا  کہ عرب کے کافر لوگ بھی ان کو مقدس اور بابرکت سمجھتے تھے اور  یہ  برکت   بھی ﷲ تعالیٰ نے پیدا فرمائی۔ یہ تمام اشیاء  ﷲ تعالیٰ کی قدرت اور حکمت کی دلیل  ہیں، اسی قدرت اور حکمت کا تقاضا ہے کہ اعمال کی جزا کے لیے ایک مقرر دن ہو ، جس دن الله تعالی  نیک و فرمانبردار  لوگوں کو اِنعام دے اور   ظالموں، نافرمانوں کو سزا دے۔ چنانچہ اس سورۃ میں انہیں دونوں باتوں کو کھول کر  بیان کیا گیا۔ 

ربط آیات: 

پچھلی آیات میں چند چیزوں کی قسم کھا کر  عقل والوں کو قیامت کے قائم ہونے کا یقین دلایا گیا اب اگلی آیات میں تین قوموں پر الله کے عذاب کا بیان کرکے یہ ثابت کیا گیا کہ الله تعالی دنیا کی طرح  آخرت میں بھی کافروں کو  عذاب  دینے پر قادر ہے 

اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍ ۪ۙ﴿۶﴾

کیا تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے پروردگار نے عاد کے ساتھ کیا سلوک کیا ۔

اِرَمَ ذَاتِ الۡعِمَادِ ۪ۙ﴿۷﴾

اس اونچے ستونوں والی قوم ارم کے ساتھ

۔۔۔

سب سے پہلے قوم عاد پر عذاب کا ذکر ہے۔ ان آیات میں قوم عاد کو ارم بھی کہا گیا ہے۔ ارم ان  کے دادا  کا نام ہے، قوم عاد کے  دو طبقے تھے ایک عاد اولی اور دوسرا عاد اُخری۔ قوم عاد کی جس شاخ کا یہاں ذکر ہے، اُس کو عاد اِرم  یعنی عاد اولی کہا جاتا ہے۔   

بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ ارم سے شہر ارم مراد ہے۔ جو عاد کے بیٹے شداد نے بنایا تھا۔ شداد اپنے زمانے کا ایک زورآور بادشاہ تھا جس نے اپنی طاقت سے بہت سے ممالک پر قبضہ کر لیا تھا۔ طاقت، دولت اور تکبر کے نشے میں اس نے خدائی کا دعوی کر دیا۔ الله تعالی نے ان سرکشوں  کی ہدایت کے انبیاء کو بھیجا ۔ شداد نے جب جنت کا ذکر سنا تو اس نے کہا یہ کونسی بڑی بات ہے ہم دنیا میں جنت تعمیر کر لیتے ہیں ۔ چنانچہ یمن کے جنگلوں میں شہرِ ارم کی بنیاد رکھی اور وہاں  تین سو سال تک جنت کی تعمیر ہوتی رہی۔ سونے چاندی کے محل بنائے گئے جنہیں  یاقوت و جواہرات سے سجایا گیا۔ ہر قسم کے پھل پھول اور باغات لگائے گئے ۔ خوبصورت  نہریں نکالی گئیں۔ جب یہ زبردست جنت تیار ہوگئی تو شداد اپنے وزیروں مشیروں کے ہمراہ اس کے معائنے کو نکلا ۔ ابھی اس میں داخل بھی نہیں ہوا تھا کہ عذاب الہی آسمانی بجلی کی کڑک کی صورت میں آ پڑا اور سب وہیں ہلاک ہو گئے، شہر بھی تباہ ہو گیا۔ شداد کی عمر نو سو سال تھی۔ 

ذات العماد سے کیا مراد ہے؟ اس میں کئی قول ہیں

۱۔وہ خود بہت لمبے،  بلند وبالا قد و قامت رکھتے تھے۔ 

۲- انہوں نے اونچی ستونوں والی بلند و بالا عمارتیں  بنانی  شروع کی تھیں۔

 ۳- جب وہ سفر کرتے تھے تو اپنے خیمے نصب کرنے کے لیے بہت اونچی اور مضبوط لکڑیاں استعمال کرتے تھے جیسے وہ ستون ہیں۔

 

الَّتِیۡ لَمۡ یُخۡلَقۡ مِثۡلُہَا فِی الۡبِلَادِ ۪ۙ﴿۸﴾

جس کے برابر دنیا کے ملکوں میں کوئی اور قوم پیدا نہیں کی گئی ؟

۔۔۔۔

قوم عاد کی دوسری صفت یہ تھی کہ وہ بہت طاقت اور قوت والے تھے۔ یعنی ایسی طویل القامت قومیں  دنیا میں اس سے پہلے پیدا نہیں کی گئیں اور نہ ان کے بعد اتنے لمبے ، مضبوط اور طاقتور لوگ  پیدا کیے گئے۔ الله تعالی  نے انکے لمبے  قد اور ڈیل ڈول ساری قوموں سے زیادہ ہونا تو واضح فرما دیا مگر ان کی  پیمائش  بتانا ضرورت سے زائد کام تھا اس کو چھوڑ دیا۔ 

           

وَ ثَمُوۡدَ الَّذِیۡنَ جَابُوا الصَّخۡرَ بِالۡوَادِ ۪ۙ﴿۹﴾

اور ثمود کی اس قوم کے ساتھ کیا کیا جس نے و ادی میں پتھر کی چٹانوں کو تراش رکھا تھا؟ ( ٥ )

۔۔۔۔۔

دوسری قوم ثمود تھی جسے عاد ثانی بھی کہا جاتا ہے۔یہ بھی بڑی زبردست قوم تھی۔  جن کی طرف  حضرت صالح علیہ السلام کو بھیجا گیا۔  اللہ نے انہیں  پتھر تراشنے کی طاقت دی تھی۔  یہ لوگ پہاڑوں کو تراش کر  نہایت خوبصورت مکان تیار کر لیتے تھے، پہاڑوں کے اندر  پتھر  تراش تراش کر  شہر بنا رکھے تھے۔ ان  کا ٹھکانہ وادی القریٰ تھا جو مدینہ اور تبوک کے راستے میں  ہے۔ یہ بھی آخرت کے منکر اور اللہ کے باغی تھے۔ بدکاری اور بت پرستی کی وجہ سے اللہ تعالی نے انہیں زلزلے اور چیخ کے عذاب سے تباہ کردیا۔ 


وَ فِرۡعَوۡنَ ذِی الۡاَوۡتَادِ ﴿۪ۙ۱۰﴾

اور میخوں والے فرعون کے ساتھ کیا کیا؟

۔۔۔

تیسری قوم جس پر عذاب کا ذکر کیا گیا وہ قوم فرعون ہے جسے الله نے سمندر میں غرق کر دیا تھا۔

ذی الاوتاد  سے کیا مراد ہے؟ 

فرعون کو ذی الوتاد کہنے  میں کئی قول ہیں۔ 

۱-اس سے فرعون کی مضبوط عمارتیں یعنی اہرام مصر  وغیرہ  مراد ہیں۔

۲- فرعون  کی فوجوں کو میخوں سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ انہی کی وجہ سے  اس کی سلطنت مضبوطی سے  قائم تھی۔  

۳- اس سے مراد فوجوں کی کثرت بھی ہو سکتی ہے کیونکہ  لشکر جہاں بھی جا کر ٹھہرتے  تھے وہاں ہر طرف ان کے خیموں کی میخیں ہی لگی نظر آتی تھی۔

۴-فرعون کو میخوں والا اس لئے کہا گیا کہ وہ لوگوں کو سزا دینے کے لئے اُن کے ہاتھ پاوں میں میخیں گاڑ دیا کرتا تھا۔

 

الَّذِیۡنَ طَغَوۡا فِی الۡبِلَادِ ﴿۪ۙ۱۱﴾

یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے دنیا کے ملکوں میں سرکشی اختیار کر لی تھی۔

۔۔۔

اس آیت میں ان قوموں کی سرکشی کا بیان ہے جو الله کی توحید و حاکمیت کے منکر تھے ۔ جن کا  تکبر ، سرکشی ، شہوت پرستی اور عیاشی آخری حدوں کو چھو رہی تھی اور جواسی دنیا کی زندگی کو سب کچھ سمجھتے تھے،  نہ  آخرت پر یقین رکھتے تھے نہ اعمال کی جزا و سزا پر۔ ان  کی ضد اور لاپروائی نے انہیں عدل و انصاف، صداقت و پارسائی سمیت ہر بھلائی سے دور کر دیا تھا۔ انہیں اپنی عقل ، نام نہاد ترقی  اور تدبیر  پر ناز تھا۔   الله کے احکام کی نافرمانی ، انبیاء کی توہین اور شریعت کا مذاق اڑانا ان کے نزدیک معمولی بات تھی۔ 

فَاَکۡثَرُوۡا فِیۡہَا الۡفَسَادَ ﴿۪ۙ۱۲﴾

اور ان میں بہت فساد مچایا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔

ان سب باتوں کو ایک ہی جملے میں بیان کر دیا کہ  ان کا فساد حد سے  بڑھ گیا، یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر و شرک اور اس کی مخلوق پر ظلم و ستم  میں انہوں نے   ساری حدیں توڑ دیں۔ 


فَصَبَّ عَلَیۡہِمۡ رَبُّکَ سَوۡطَ عَذَابٍ ﴿۱۳﴾ۚ ۙ

چنانچہ تمہارے پروردگار نے ان پر عذاب کا کوڑا برسا دیا

۔۔۔۔۔۔ 

الله تعالی نے ان قوموں کو سزا دینے کے لیے ان پر عذاب کا کوڑا برسا دیا۔جس طرح کوڑا جسم کے تمام اطراف پر پڑتا اور چاروں طرف لپٹ جاتا ہے اسی طرح ان پر ہر طرف سے عذاب آیا۔ اپنی سرکشی کی وجہ سے  یہ قومیں عذاب کا شکار ہوئیں اور دنیا سے ان کا نام و نشان مٹ گیا۔


اِنَّ رَبَّکَ لَبِالۡمِرۡصَادِ ﴿ؕ۱۴﴾

یقین رکھو تمہارا پروردگار سب کو نظر میں رکھے ہوئے ہے۔

۔۔۔

مرصاد ، مرصد  کا مطلب ہے انتظار کی جگہ یا گھات لگانے کی جگہ۔ یعنی ایسا بلند مقام جہاں سے چھپ کر کوئی دور دور تک دیکھ سکے اور نگرانی کر سکے۔ یہ تشبیہ کے طور پر ہے، مطلب یہ ہے کہ انسان کے تمام افعال و اعمال اور حرکات و سکنات ہر وقت الله تعالی کی نگاہ میں ہیں۔ وہی  سب کو جزا و سزا دینے والا ہے اور وہ خود انسان کی نگاہ سے اوجھل ہے۔

ربط آیات:

گذشتہ آیات میں مختلف نافرمان قوموں پر عذاب کا ذکر کیا گیا۔ کفار کو چاہیے تھا کہ یہ سن کر واقعات سے عبرت حاصل کرتے اور ایسے کام نہ کرتے جن کی وجہ سے الله کا عذاب نازل ہوتا ہے۔ لیکن وہ سبق  حاصل کرنے کی بجائے مال و دولت کی محبت میں گرفتار ہیں۔ اگلی آیات میں کافروں اور نافرمانوں کے اسی رویے کا بیان ہے۔           

فَاَمَّا الۡاِنۡسَانُ اِذَا مَا ابۡتَلٰىہُ رَبُّہٗ فَاَکۡرَمَہٗ وَ نَعَّمَہٗ ۬ ۙ فَیَقُوۡلُ رَبِّیۡۤ اَکۡرَمَنِ ﴿ؕ۱۵﴾

لیکن انسان کا حال یہ ہے کہ جب اس کا پروردگار اسے آزماتا ہے اور انعام و اکرام سے نوازتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ : میرے پروردگار نے میری عزت کی ہے ۔

۔۔۔

کافر  دنیا  اور مال کی محبت میں اس طرح مبتلا ہیں کہ بس اسی کو اپنی زندگی کا حاصل سمجھتے ہیں، حالانکہ دنیا میں رزق کی کشادگی  اور تنگی اللہ کے نزدیک مقبول یا مردود ہونے کی علامت نہیں ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کسی کو  خوب  مال و دولت اور صحت و تندرستی سے نواز دے  تو شیطان اس کو  خوش فہمی میں  مبتلا کر دیتا ہے۔  وہ سمجھنے لگتا ہے کہ یہ میری ذاتی صلاحیت ،  عقل وفہم، کوشش اور  محنت   کا لازمی نتیجہ ہے جو مجھے ملنا ہی چاہئے اور  میں اسی  کا مستحق ہوں۔

 دوسرے یہ کہ ان چیزوں کے حاصل ہونے سے وہ یہ سمجھنے لگتا ہے  کہ میں اللہ کے نزدیک بھی مقبول اور پسندیدہ  ہوں اگر مردود ہوتا تو وہ مجھے یہ نعمتیں کیوں دیتا۔

وَ اَمَّاۤ اِذَا مَا ابۡتَلٰىہُ فَقَدَرَ عَلَیۡہِ رِزۡقَہٗ ۬ ۙ فَیَقُوۡلُ رَبِّیۡۤ اَہَانَنِ ﴿ۚ۱۶﴾

اور دوسری طرف جب اسے آزماتا ہے اور اس کے رزق میں تنگی کردیتا ہے تو کہتا ہے کہ : میرے پروردگار نے میری توہین کی ہے ۔

۔۔۔

اسی طرح جب کسی انسان پر رزق میں تنگی اور فقر وفاقہ آ جائے  تو وہ الله سے جھگڑنے اور ناراض ہونے لگتا ہے کہ  مجھ پر یہ تنگی کیوں ؟ میں تو  انعام و اکرام کا مستحق تھا مجھے بےوجہ ذلیل و حقیر کردیا۔  حالانکہ دنیا میں مال ودولت اور رزق کی زیادتی بھی آزمائش ہے اور فقر و فاقہ اور رزق کی تنگی بھی آزمائش ہے۔ درحقیقت ہر حال میں یہی دیکھا جاتا ہے کہ انسان نعمتوں پر الله تعالی کا شکر اور مصائب پر صبر کیسے کرتا ہے۔  

   یہاں انسان سے مراد اصل میں تو کافر انسان ہے جو اللہ تعالیٰ کے متعلق جو چاہے خیال باندھ لے مگر  عام  معنی کے اعتبار سے ہر وہ مسلمان بھی اس میں شامل ہے جو  ایسا سوچتا اور سمجھتا ہے۔(المعارف)


کَلَّا بَلۡ لَّا تُکۡرِمُوۡنَ الۡیَتِیۡمَ ﴿ۙ۱۷﴾

ہرگز ایسا نہیں چاہیے ۔  صرف یہی نہیں بلکہ تم یتیم کی عزت نہیں کرتے ۔

۔۔۔

ان آیات میں  فرمایا! “کلا “ یعنی تمہارا یہ خیال بالکل غلط اور بےبنیاد ہے کہ مال و دولت اور دنیا کی آسائش عزت کی وجہ ہے اور مصیبت اور تنگ دستی ذلت کی وجہ ہے،  بلکہ انسان کے اعمال پر اس کی عزت اور ذلت کا دارومدار ہے۔ 

اب یہاں سے ان اعمال کا بیان ہے جو انسان کی ذلت ، مردودیت اور  ناپسندیدہ ہونے کی علامت ہیں اور الله کی ناراضگی اور عذاب کی وجہ ہیں۔

سب سے پہلا عمل جو عزت اور رزق میں کمی کی وجہ  ہے وہ یہ ہے کہ تم یتیم کا اکرام نہیں کرتے، اس کے سر پر شفقت کا ہاتھ نہیں رکھتے۔ چاہیے تھا کہ  ایسا  کمسن جو باپ کے بعد مصیبتوں کا شکار ہے تم  اس  کی  ضروریات کا خیال رکھتے اور اس کے حقوق ادا کرتے، اُلٹا  تم اس سے اس قدر بے نیاز ہو  کہ اسے قابل توجہ ہی نہیں سمجھتے۔     


وَ لَا تَحٰٓضُّوۡنَ عَلٰی طَعَامِ الۡمِسۡکِیۡنِ ﴿ۙ۱۸﴾

اور مسکینوں کو کھانا کھلانے کی ایک دوسرے کو ترغیب نہیں دیتے ۔

۔۔۔

تمہاری دوسری برائی یہ ہے کہ  تم خود بھی یتیموں، مسکینوں کا خیال نہیں رکھتے اور  دوسروں کو بھی اس طرف متوجہ نہیں  کرتے،  بل کہ الٹا یہ کہتے ہو کہ الله نے اسے یتیم کرتے وقت رحم نہیں کیا تو ہم کیوں اس پر شفقت کریں۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو لوگ یتیم اور مسکین کو دینے کی قدرت نہیں رکھتے انہیں چاہیے کہ وہ دوسروں کو ان کی مدد کرنے کی ترغیب دیں۔  

وَ تَاۡکُلُوۡنَ التُّرَاثَ اَکۡلًا لَّمًّا ﴿ۙ۱۹﴾

اور میراث کا مال سمیٹ سمیٹ کر کھا جاتے ہو ۔

۔۔۔

تیسری بری عادت یہ ہے کہ تم بجائے اس کے کہ یتیم اور فقیر کا حق ادا کرو اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دو، الٹا تم ان کا مال کھا جاتے ہو۔ جب تم میں سے کوئی مر جاتا ہے اور اس کے بچے چھوٹے ہوں تو تم ان کا مال ہڑپ لیتے ہو اور معصوم بچوں اور عورتیں کو  وراثت میں  ان کا حصہ نہیں دیتے بلکہ ان کا مال انہیں دینے  کی بجائے خود خوب دل کھول کر عیاشی اور فضول خرچی کرتے ہو۔    

وَّ تُحِبُّوۡنَ الۡمَالَ حُبًّا جَمًّا ﴿ؕ۲۰﴾

اور مال سے بے حد محبت کرتے ہو۔

۔۔۔

چوتھی بری خصلت یہ ہے کہ تم مال سے بہت زیادہ محبت کرتے ہو۔ لالچ میں مبتلا ہو اور  مال کی بہت زیادہ   حرص رکھتے ہو۔  یہی حرص حق تلفی، جھوٹ، چوری ، خیانت، رشوت ، مکرو فریب اور دھوکے کی وجہ ہے۔اسی مال کی محبت میں تم قتل وغارت  سے بھی گریز نہیں کرتے۔ 

مال کو محبوب بنانے کی بجائے اگر تم الله کی فرمانبرداری ، صداقت، امانت، پرہیزگاری ، خیرات اور صلہ رحمی اختیار کرو تو وہ دنیا اور آخرت میں تمہارے لیے عزت کا سبب ہے۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو سمجھ لو کہ عاد و ثمود اور فرعون پر جس عذاب کا کوڑا برسا تھا وہ تمہارے لیے بھی تیار ہے۔ 

  

کَلَّاۤ اِذَا دُکَّتِ الۡاَرۡضُ دَکًّا دَکًّا ﴿ۙ۲۱﴾

ہرگز ایسا نہیں چاہیے ۔ جب زمین کو کوٹ کوٹ کر ریزہ ریزہ کردیا جائے گا ۔

۔۔۔

ہرگز نہیں تم یہ نہ سمجھو کہ تمہیں تمہارے ان برے اعمال کی سزا نہیں دی جائے گی بلکہ ضرور دی جائے گی۔ الله تعالی اس بات پر بالکل قادر ہے۔ 

ان آیات میں عذاب و سزا اور اس کے وقت کا بیان ہے۔ جب زمین ٹکرے ٹکڑے کر کے ریزہ ریزہ کر دی جائے گی۔ یہ پہلے صور کے وقت ہوگا۔ زلزلہ قیامت کی وجہ سے زمین زیر و زبر ہو جائے گی، عمارتیں، پہاڑ اور درخت وغیرہ سب ٹوٹ پھوٹ جائیں گے اور زمین بالکل ہموار کر دی جائے گی۔ دکا دکا تاکید ہے یعنی زلزلہ ایک کے بعد ایک مسلسل آتا رہا گا۔


وَّ جَآءَ رَبُّکَ وَ الۡمَلَکُ صَفًّا صَفًّا ﴿ۚ۲۲﴾

اور تمہارا پروردگار اور قطاریں باندھے ہوئے فرشتے ( میدان حشر میں ) آئیں گے ۔

۔۔۔

یعنی آئے گا آپ کا رب اور فرشتے صف بصف مراد میدان حشر میں آنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے آنے کی کیا شان ہوگی اس کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، یہ متشا بہات میں سے ہے اور فرشتوں کا صف بصف آنا بظاہر ہے۔


وَ جِایۡٓءَ یَوۡمَئِذٍۭ بِجَہَنَّمَ ۬ ۙ یَوۡمَئِذٍ یَّتَذَکَّرُ الۡاِنۡسَانُ وَ اَنّٰی لَہُ الذِّکۡرٰی ﴿ؕ۲۳﴾

اور اس دن جہنم کو سامنے لایا جائے گا ، تو اس دن انسان کو سمجھ آئے گی اور اس وقت سمجھ آنے کا موقع کہاں ہوگا؟ 

۔۔۔

 جہنم کو لائے جانے کا کیا مطلب ہے اور کس طرح میدان حشر میں لائی جائے گی اس کی حقیقت تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ظاہر یہ ہے کہ جہنم جو اب ساتویں زمین کی تہ میں ہے اس وقت وہ بھڑک اٹھے گی اور سمندر سب آگ ہو کر اس میں شامل ہوجائیں گے اس طرح جہنم  محشر کے میدان  میں سب کے سامنے آجائے گی۔

اس جگہ تذکر سے  سمجھ میں آجانا یا نصیحت ہو جانا مراد ہے یعنی کافر کو اس روز سمجھ آئے گی کہ مجھے دنیا میں کیا کرنا چاہئے تھا اور میں نے کیا کیا۔ مگر اس وقت یہ سمجھ میں آنا بے کار ہوگا کیونکہ عمل اور اصلاح  کا زمانہ گزرچکاہوگا۔  آخرت دارالعمل نہیں بلکہ دارالجزا ہے۔


یَقُوۡلُ یٰلَیۡتَنِیۡ قَدَّمۡتُ لِحَیَاتِیۡ ﴿ۚ۲۴﴾

وہ کہے گا کاش میں نے اپنی زندگی کے لیے کچھ آگے بھیج دیا ہوتا۔

۔۔۔

یعنی اس وقت انسان کو معلوم ہوجائے گا کہ میری اصل زندگی تو یہ ہے جو  اَب شروع ہوئی ہے۔ میں خواہ مخواہ دنیا کی زندگی کو اصل زندگی سمجھتا رہا جو اس اصل زندگی کی تمہید تھی۔یہاں اسی نصیحت یا سمجھ میں آ جانے  کا بیان ہے۔  وہ تمنا کرے گا کہ کاش میں دنیا میں کچھ نیک عمل کرلیتا اور آخرت کی زندگی کے لیے اچھے اعمال کرکے ان کا اجر آگے بھیج دیتا جو اس ابدی زندگی میں میرے کام آ جاتے۔


فَیَوۡمَئِذٍ لَّا یُعَذِّبُ عَذَابَہٗۤ اَحَدٌ ﴿ۙ۲۵﴾

پھر اس دن الله کے برابر کوئی عذاب دینے والا نہیں ہوگا۔

۔۔۔

لیکن اب سب بے کار ہے۔ اب جبکہ کفر و شرک کی سزا سامنے آگئی اب اس تمنا سے کچھ فائدہ نہیں اب تو عذاب اور پکڑ کا وقت ہے اور اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے  برابر کوئی پکڑ نہیں ہوسکتی۔


وَّ لَا یُوۡثِقُ وَ ثَاقَہٗۤ اَحَدٌ ﴿ؕ۲۶﴾

اور نہ اس کے جکڑنے کی طرح کوئی جکڑنے والا ہوگا۔

۔۔۔

اس لیے کہ اس روز تمام اختیارات صرف ایک اللہ کے پاس ہوں گے، دوسرے کسی کو اس کے سامنے رائے دینے یا آنکھ اٹھانے کی جرات  نہیں ہوگی۔ حتی کہ اس کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش تک نہیں کرسکے گا۔ ایسے حالات میں کافروں کو جو عذاب ہوگا اور جس طرح وہ اللہ کی قید وبند میں جکڑے ہوں گے، اس کا یہاں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔مطلب یہ ہے کہ جیسا اللہ تعالیٰ کے پاس  مخلوق کو عذاب دینے کا  غلبہ اور قدرت  ہے کسی اور  کو نہیں ہوسکتی۔


یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ ﴿٭ۖ۲۷﴾

( البتہ نیک لوگوں سے کہا جائے گا کہ ) اے وہ جان جو ( اللہ کی اطاعت میں ) چین پاچکی ہے ۔

۔۔۔۔

یہاں مومن کی روح کو نفس مطمئنہ کہہ کر  بلایا   گیا ہے۔ مطمئنہ کے لفظی معنے ساکنہ کے ہیں۔ مراد وہ نفس ہے جو اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی اطاعت سے سکون وقرار پاتا ہے اور  ذکر الله   چھوڑنے  سے بےچینی محسوس کرتا ہے اور یہ وہی نفس ہوسکتا ہے جو ریاضت ومجاہدہ  کرکے اپنی بری عادتیں  اور برے اخلاق   دور کرچکا ہو۔ اطاعت حق اور ذکر اللہ اس کا مزاج اور شریعت اس کی طبیعت بن جاتی ہے ۔


ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً ﴿ۚ۲۸﴾

اپنے پروردگار کی طرف اس طرح لوٹ کر آجا کہ تو اس سے راضی ہو ، اور وہ تجھ سے راضی ۔

۔۔۔۔۔

یعنی لوٹ جاؤ اپنے رب کی طرف، لوٹنے کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا پہلا مقام بھی رب کے پاس تھا اب وہیں واپس جانیکا حکم ہورہا ہے، اس سے اس روایت کی تقویت ہوتی ہے جس میں یہ ہے کہ مومنین کی ارواح انکے اعمالناموں کے ساتھ علیین میں رہیں گی اور علیین ساتویں آسمان پر عرش رحمن کے سایہ میں کوئی مقام ہے۔ کل ارواح انسان کا اصلی ٹھکانہ و مستقر  وہی ہے وہیں سے روح لا کر انسان کے جسم میں ڈالی جاتی ہے اور پھر موت کے بعد وہیں واپس جاتی ہے۔)المعارف(

حضرت عبادہ ابن صامت کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا ہے  جس کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملنے کو پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنے کو پسند کرتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے اللہ بھی اس سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے یہ حدیث سن کر حضرت صدیقہ عائشہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا کہ اللہ سے ملنا تو موت ہی کے ذریعہ ہوسکتا ہے لیکن موت تو ہمیں یا کسی کو بھی پسند نہیں، آپ نے فرمایا یہ بات نہیں، حقیقت یہ ہے کہ مومن کو موت کے وقت فرشتوں کے ذریعہ اللہ کی رضا اور جنت کی بشارت دیجاتی ہے جس کو سن کر اس کو موت زیادہ محبوب ہوجاتی ہے۔ اسی طرح کافر کو موت کے وقت عذاب اور سزا سامنے کردی جاتی ہے اسلئے اس کو اس وقت موت سے بڑھ کر کوئی چیز بری اور مکروہ معلوم نہیں ہوتی 

(رواہ البخاری ومسلم، مظہری) 

یہ بات اس سے موت کے وقت بھی کہی جائے گی ، قیامت کے روز جب وہ دوبارہ اٹھ کر میدان حشر کی طرف چلے گا اس وقت بھی کہی جائے گی ، اور جب اللہ کی عدالت میں پیشی کا موقع آئے گا اس وقت بھی کہی جائے گی ہر مرحلے پر اسے اطمینان دلایا جائے گا کہ وہ اللہ کی رحمت کی طرف جا رہا ہے ۔ یہی مفہوم ہے راضیة مرضیہ کا۔ 

فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ ﴿ۙ۲۹﴾

اور شامل ہوجا میرے ( نیک ) بندوں میں ۔

۔۔۔۔۔

وَ ادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ ﴿۳۰﴾

اور داخل ہوجا میری جنت میں ۔

۔۔۔۔

نفس مطمئنہ کو مخاطب کرکے یہ حکم ہوگا کہ میرے خاص بندوں میں شامل ہوجا اور میری جنت میں داخل ہوجا۔

 اس آیت میں پہلے اللہ کے صالح اور مخلص بندوں میں شامل ہونیکا حکم ہے پھر جنت میں داخل ہونیکا۔

 اس میں اشارہ یہ پایا جاتا ہے کہ جنت میں داخل ہونا اس پر موقوف ہے کہ پہلے اللہ کے صالح مخلص بندوں کے زمرہ میں شامل ہو، ان سب کے ساتھ ہی جنت میں داخل ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو دنیا میں صالحین کی صحبت ومعیت اختیار کرتا ہے یہ علامت اس کی ہے کہ یہ بھی انکے ساتھ جنت میں جائے گا۔

جنت کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کرکے میری جنت فرمایا جو بڑا اعزازو اکرام ہے اور اس میں اشارہ پایا جاتا ہے کہ جنت میں صرف یہی نہیں کہ ہر طرح  کی راحتیں جمع ہیں اور دائمی ہیں بلکہ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا مقام ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔


               مختصر تفسیر عتیق سورہ فجر

ابتداء میں پانچ قسمیں کھا کر اللہ  تعالی نے کافروں کی گرفت کرنے اور عذاب دینے کا اعلان کیا ہے پھر اس پر واقعاتی شواہد پیش کرتے ہوئے قوم عاد و ثمود و فرعون اور ان کی ہلاکت کا بیان ہے۔ 

پھر مشقت اور تنگی میں اور راحت و وسعت میں انسان کی فطرت کو بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ آرام و راحت میں اترانے اور تکبر  میں مبتلا ہونے لگتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اس لائق تھا تبھی تو مجھے یہ نعمتیں ملی ہیں اور تکلیف اور تنگی میں اللہ کی حکمت پر نظر کرنے کی بجائے اللہ پر اعتراضات شروع کر دیتا ہے۔ 

پھر یتیموں اور مسکینوں کی حق تلفی اور حب مال کی مذمت کی ہے۔ اس کے بعد قیام قیامت اور اس کی سختی و شدت بیان کرنے کے بعد بیان کیا کہ جب اللہ تعالیٰ فیصلہ کرنے لگیں گے، فرشتے صف بندی کر کے کھڑے ہو جائیں گے اور جہنم کو لا کر کھڑا کر دیا جائے گا اس وقت کافروں کو عقل آئے گی اور وہ نصیحت حاصل کرنے کی باتیں کریں گے جب وقت گزر چکا ہو گا اس وقت اللہ ایسا عذاب دیں گے کہ کوئی بھی ایسا عذاب نہیں دے سکتا اور مجرموں کو ایسے جکڑیں گے کہ کوئی بھی اس طرح نہیں جکڑ سکتا۔

 اللہ کے وعدوں پر اطمینان رکھنے والوں سے خطاب ہو گا اپنے رب کی طرف خوش و خرم ہو کر لوٹ جاؤ اور ہمارے بندوں میں شامل ہو کر ہماری جنت میں داخل ہو جاؤ۔

۔۔۔۔۔۔


منگل، 8 دسمبر، 2020

سورة الاعلی :10، عم پارہ

 سورة الاعلٰی 

اعلیٰ کا معنی ہے سب سے بلند۔ اس سورت کی پہلی آیت میں  یہ لفظ موجود ہے ،اسی مناسبت سے اسے ’’سورۂ اعلیٰ‘‘ کہتے ہیں ۔

انیس آیات پر مشتمل اس سورة کا ایک نام  سَبّح  بھی ہے۔ یہ سورة مکہ میں نازل ہوئی۔

روابط : 

  1. سورة طارق میں ہر جان پر محافظ کا ذکر ہے  اس سورة میں یہ بیان ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس کے نگہبان خود الله تعالی ہیں۔ 
  2. پچھلی سورة میں انسان اور نباتات کی تخلیق کے ابتدائی مرحلے  کا ذکر تھا اور اس سورة میں انتہائی مرحلے کا بیان ہے۔
  3. سورة الطارق میں قرآن مجید کو فیصلہ کن قول کہا گیا اب سورة اعلی میں بھی قرآن مجید کے اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔ 


شانِ نزول : 


جب نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم پر بڑی بڑی سورتیں نازل ہونے لگیں اور غیب سے  بے شمار علوم کا فیضان ہونے لگا تو آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے دل میں خیال آیا کہ کہیں مجھے قرآن بھول نہ جائے۔ الله تعالی نے آپ کی تسلی کے لیے یہ سورة نازل فرمائی۔ 


فضائل سورة اعلٰی:

احادیث میں سورۂ اعلٰی کی فضیلت ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے۔ 


۱-  حضرت نعمان بن بشیر رضی الله عنہ  فرماتے ہیں  : نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم   عید الفطر،عید الاضحی اور جمعہ کی نماز میں  ’’سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى‘‘ اور ’’هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَةِ‘‘ پڑھا کرتے تھے اور جب عید جمعہ کے دن ہوتی تو دونوں  نمازوں  میں  ان سورتوں  کی تلاوت فرماتے تھے۔

( مسلم ،  کتاب الجمعۃ ،  باب ما یقرأ فی صلاۃ الجمعۃ ،  ص۴۳۵ ،  الحدیث: ۶۲(۸۷۸))

(2) حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنھا فرماتی ہیں : نبی  کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم  وتر کی پہلی رکعت میں  ’’سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى‘‘ دوسری رکعت میں  ’’قُلْ یٰۤاَیُّهَا الْكٰفِرُوْنَ‘‘ اورتیسری رکعت میں  ’’قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ‘‘ پڑھا کرتے تھے ۔ 


(ترمذی ،  کتاب الوتر ،  باب ما جاء فیما یقرأ بہ فی الوتر ،  ۲  /  ۱۰ ،  الحدیث: ۴۶۲)

(3)حضرت علی رضی الله عنہ فرماتے ہیں: نبی  کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم  اس سورت ’’سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى‘‘ سے محبت فرماتے تھے۔


( مسند امام احمد ،  ومن مسند علیّ بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ ،  ۱  /  ۲۰۶ ،  الحدیث: ۷۴۲)



 سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى (1)


اپنے پروردگار کے نام کی تسبیح کرو جس کی شان سب سے اونچی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الله تعالی کی ذات کو سمجھنا ہمارے تصور سے باہر ہے۔ وہ اعلی یعنی ہر لحاظ سے بلند و برتر ہے۔ اس کے ساتھ ہمارا ذہنی اور قلبی تعلق صرف اس کے ناموں کے ساتھ ہے۔ ہم انسان اگر اللہ کا ذکر کرنا چاہیں یا اس کی تسبیح وتحمید کرنا چاہیں تو اس کے اسماء کے حوالے سے ہی کرسکتے ہیں۔

سبح اسم ربک کے معنی یہ ہیں کہ اپنے رب کے نام کو  ہر ایسی چیز سے پاک رکھیے  جو اس کی شان کے مطابق نہیں۔ 

اس کے کئی معنے ہو سکتے ہیں اور وہ سب ہی مراد ہیں ۔ 

  1. اللہ تعالی کو ان ناموں سے یاد کرنا چاہیے  جو اس کے لائق ہیں اور ایسے نام اس کی ذات کے لیے استعمال نہ کیے جائیں جو اپنے معنی اور مفہوم کے لحاظ سے اس کے لیے موزوں نہیں۔
  2. ایسے ناموں سے الله سبحانہ وتعالی کو نہیں پکارنا چاہیے جن میں اس کے لیے نقص، گستاخی یا شرک کا کوئی پہلو نکلتا ہو یا جن میں اس کی ذات و صفات اورافعال کے بارے میں کوئی غلط عقیدہ پایا جاتا ہو۔ بہترین طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کے وہی نام استعمال کیے جائیں جو اس نے خود بیان فرمائے ہیں۔
  3. اللہ کے لیے مخلوقات کے نام  یا مخلوقات کے لیے اللہ کے ناموں جیسے الفاظ استعمال نہ کیے جائیں اور اگر کچھ صفاتی نام ایسے ہوں جو اللہ تعالی کے لیے خاص نہیں ہیں بلکہ بندوں کے لیے بھی ان کا استعمال جائز ہے تودھیان رکھنا چاہیے کہ بندے کے لیے ان کا استعمال اس طریقے سے نہ ہو جس طرح اللہ تعالی کے لیے ہوتا ہے۔ مثلاً رؤف ، رحیم ، کریم ، سمیع ، بصیر وغیرہ 
  4. اللہ کا نام ادب اور احترام کے ساتھ لیا جائے ، کسی ایسے طریقے پر یا ایسی حالت میں نہ لیا جائے جو اس کے احترام کے منافی ہو۔ مثلاً ہنسی مذاق میں یا بیت الخلاء میں یا جھوٹی قسم کھاتے ہوئے یا کوئی گناہ کرتے ہوئے۔
  5. الله کا نام ایسے لوگوں کے سامنے بھی ذکر نہیں کرنا چاہیے جو اسے سن کر گستاخی پر اتر آئیں۔
  6. ایسی مجلسوں میں الله  کا نام نہیں لینا چاہیے جہاں لوگ برے کاموں میں مشغول ہوں اور اس کا ذکر سن کر مذاق  اڑائیں۔
  7. ایسے موقع پر بھی الله  کا پاک نام  زبان پر نہیں لانا چاہیے جہاں اندیشہ ہو کہ سننے والا اسے ناگواری کے ساتھ سنے گا۔ 


مسئلہ: جو نام الله تعالی کے لیے خاص ہیں ان پر مخلوق کا نام رکھنا جائز نہیں۔

مثلا احد ، صمد ، رزاق اور رحمان وغیرہ البتہ عبد کے ساتھ ملا کر رکھے جا سکتے ہیں۔ مثلا عبد الاحد، عبد الصمد ، عبد الرحمٰن ، عبد الرزاق وغیرہ  اور ایسے ناموں کو عبد لگائے بغیر پکارنا سخت گناہ کی بات ہے۔ اس لیے خاص احتیاط کرنی چاہیے۔ 


احادیث میں حضرت عقبہ بن عامر جہنی سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدے میں سجان ربی الاعلی پڑھنے کا حکم اسی آیت کی بنا پر دیا تھا۔ 


الَّذِيْ خَلَقَ فَسَوّٰى (2)


جس نے سب کچھ پیدا کیا اور ٹھیک ٹھیک بنایا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان آیات میں الله تعالی کی ان صفات کا ذکر ہے جو کائنات کی تخلیق میں اس کی حکمت اور قدرت کے مشاہدہ سے متعلق ہیں۔ ان میں پہلی صفت خلق ہے خلق کے معنی صرف بنانے کے ہی نہیں بلکہ عدم سے وجود میں لانےکے بھی ہیں  اور یہ کام مخلوق میں سے کسی کے اختیار میں نہیں۔ صرف الله تعالیٰ  کی قدرت کاملہ ہے کہ بغیر کسی سابقہ مادہ کے جب چاہتے ہیں اور جس چیز کو چاہتے ہیں تخلیق کرتے ہیں۔

 دوسری صفت فسویٰ ہے جو تسویہ سے مشتق ہے اور اس کے لفظی معنی برابر کرنے کے ہیں اور مراد یہ ہے کہ الله تعالی نے ہر چیز کو ایک خاص تناسب سے برابر کیا۔ جس کام کے لیے جس چیز کی ضرورت تھی اسے نہایت خوبصورتی اور ترتیب سے بنایا۔ مثلا انسانوں اور جانوروں کے ہاتھ پاؤں اور ان کی انگلیوں کے پوروں میں ایسے جوڑ رکھے اور قدرتی اسپرنگ لگائے کہ وہ ہر طرف موڑے اور تہ کئے جاسکتے ہیں، اسی طرح جسم کے تمام اعضا میں حیرت انگیز تناسب ہے جسم کا ہر حصہ اپنے مناسب ترین مقام پر ہے کہ اسے استعمال کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔


وَالَّذِيْ قَدَّرَ فَهَدٰى (3)


اور جس نے ہر چیز کو ایک خاص انداز دیا، پھر راستہ بتایا۔

۔۔۔۔۔۔

قدر تقدیر سے مشتق ہے۔جس کے ایک معنی تو ہر چیز کو خاص اندازے پر بنانا ہے یعنی جس کی جتنی ضرورت ہے اس کے مطابق بنایا۔

 اور دوسرے معنی قضا و قدر یعنی فیصلہ کرنے کے ہیں۔ یعنی ہر چیز کو پیدا کرنے کے بعد اس کے متعلق فیصلہ کر دیا کہ اس نے کیا کام کرنا ہے اور اس کو اسی کام میں لگا دیا۔

یہی وجہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز اپنا وہی کام کر رہی ہے جس کے لیے اس کو بنایا گیا اور جو کام اس کے ذمہ لگایا گیا۔ مثلا سورج،چاند،ستارے،آسمان، تمام جاندار یعنی انسان، حیوان، نباتات، پہاڑ، دریا، سمندرسب اپنے اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ قدر سے یہی تقدیر مراد ہے۔ 

فھدٰی کا مقصد یہ ہے کہ الله تعالی نے جس چیز کو جس کام کے لیے پیدا کیا اسے اس کام کو کرنے کا طریقہ بھی سکھا دیا۔ یہ ہدایت کائنات میں موجود تمام مخلوقات کے لیے ہے۔ خواہ وہ جانور ہوں یا پودے ، آسمانی مخلوق ہو یا زمینی یا پھر پانی کی مخلوق ہو ہر ایک کو کھانے پینے، رہنے سہنے کے طریقے کی ہدایت دے دی جس کے مطابق وہ آرام سے اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔ انسان اور حیوان کو اپنی ضروریات زندگی حاصل کرنے اور دشمن سے محفوظ رہنے کے ایسے عجیب طریقے اور ہنر سکھائے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔


وَالَّذِيْٓ اَخْرَجَ الْمَرْعٰى (4)


اور جس نے سبز چارہ (زمین سے) نکالا۔


 فَجَعَلَهٗ غُثَاۗءً اَحْوٰى (5)


پھر اسے کالے رنگ کا کوڑا بنادیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الله تعالی ہی وہ ذات ہے جس نے زمین سے سرسبز چارہ نکالا۔ اسی کے حکم سے بیج پھوٹ کر پودا بنتا ہے اور وہی زمین سے سبزو تازہ گھاس اور پودے نکالتا ہے۔ پھرالله کی قدرت سے  تھوڑی ہی مدت میں وہ گھاس اور پودے خشک اور سیاہ ہوکر ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔ اس میں انسان کے انجام کی طرف بھی اشارہ ہے کہ انسانی جسم کی شادابی اور خوبصورتی بھی وقت کے ساتھ خشک ہوکرختم ہوجائے گی اور انسانی جسم بھی ایک دن چورا چورا ہو جائے گا۔


ربط آیات: 

پچھلی آیات میں الله تعالی نے اپنی قدرت و حکمت کے چند نمونے پیش کر کے انسان کو اس کے انجام سے خبردار کیا جس سے ثابت ہوا کہ دنیا کی یہ زندگی عارضی اور ختم ہونے والی ہے۔ اس لیے آخرت کی تیاری کرنی چاہیے جو ہمیشہ رہنے والی زندگی ہے۔ جس  کی کامیابی کا دارومدار  اس دنیا میں کیے گئے اعمال و افعال ہیں۔اخروی زندگی کی راہنمائی کے لیے الله تعالی نے قرآن پاک نازل کیا اور نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو قرآن مجید کی تبلیغ کے لیے بھیجا۔ 

اگلی آیات میں نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو اپنا فریضہ ادا کرنے کے لیے ہدایات دینے سے پہلے خوشخبری دی گئی کہ آپ کے لیے آپ کا کام  انتہائی آسان کر دیا گیا ہے۔


 سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسٰٓى (6)


 (اے پیغمبر) ہم تمہیں پڑھائیں گے پھر تم بھولو گے نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الله تعالی فرماتے ہیں کہ آپ اس بات سے پریشان نہ ہوں کہ کہیں آپ کو کچھ بھول نہ جائے بلکہ  ہم آپ کو قرآن مجید پڑھائیں گے اور اسے یاد کروانا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔

۔۔۔۔۔۔

اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ جب آپ پر الله تعالی کا کلام نازل ہوتا اور جبرئیل امین کوئی آیت قرآن سناتے تو آپ کو یہ فکر ہوتی تھی کہ ایسا نہ ہو آیات کے الفاظ  ذہن سے نکل جائیں اسلئے جبرئیل امین کے پڑھنے کے ساتھ ساتھ آپ بھی قرآن مجید کی آیات پڑھتے جاتے تھے۔ اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ اطمینان دلایا کہ وحی کے نزول کے وقت آپ خاموشی سے سنتے رہیں ، ہم آپ کو اسے پڑھوا دیں گے اور وہ ہمیشہ کے لیے آپ کو یاد ہو جائے گا۔ آپ اس بات سے بالکل نہ گھبرائیں کہ اس کا کوئی لفظ آپ بھول جائیں گے۔ 

اس آیت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قرآن جس طرح معجزے کے طور پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا تھا اسی طرح معجزے کے طور پر ہی اس کا لفظ لفظ آپ کے حافظے میں محفوظ بھی کر دیا گیا اور اس بات کا کوئی امکان باقی نہیں رہنے دیا گیا کہ آپ اس میں سے کوئی چیز بھول جائیں ، یا اس کے کسی لفظ کی جگہ کوئی دوسرا ہم معنی لفظ آپ کی زبان مبارک سے ادا ہو ۔


 اِلَّا مَا شَاۗءَ اللّٰهُ    ۭ اِنَّهٗ يَعْلَمُ الْجَـهْرَ وَمَا يَخْفٰى (7)


 سوائے اس کے جسے اللہ چاہے۔  یقین رکھو وہ کھلی ہوئی چیزوں کو بھی جانتا ہے اور ان چیزوں کو بھی جو چھپی ہوئی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔

سوائے اس کے کہ کسی چیز کو اللہ تعالیٰ ہی اپنی حکمت و مصلحت کی وجہ سے آپ کے ذہن سے بھلا دینا چاہے۔ مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو بعض آیات قرآن کو منسوخ فرماتے ہیں اس کا ایک طریقہ تو معروف ہے کہ صاف حکم پہلے حکم کے خلاف آگیا، اور ایک صورت منسوخ کرنے کی یہ بھی ہے کہ اس آیت ہی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سب مسلمانوں کے ذہنوں سے بھلا دیا گیا۔ جیسا کہ نسخ آیات قرآنی کے بیان میں فرمایا مانسخ من ایت اوننسھا یعنی ہم جو آیت منسوخ کرتے ہیں یا آپ کے ذہن سے بھلادیتے ہیں۔

یقینا الله تعالی اونچی آواز میں کہی گئی بات کو بھی جانتا ہے  اور جو بات چھپائی جائے اسے بھی جانتا ہے، اس سے کچھ بھی چھپا ہوا نہیں۔ 



 وَنُيَسِّرُكَ لِلْيُسْرٰى (8)


 اور ہم تمہیں آسان شریعت (پر چلنے کے لیے) سہولت دیں گے۔


 فَذَكِّرْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّكْرٰى (9)


لہذا تم نصیحت کیے جاؤ، اگر نصیحت کا فائدہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔


ﷲ تعالیٰ نے آنحضرت صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کو جو شریعت عطا فرمائی وہ  خود بھی آسان ہے، پھر مزید تسلی دی گئی  کہ ہم اس پر عمل کو بھی آپ کے لئے آسان کردیں گے۔

لہذا آپ نصیحت کرتے رہیں۔  یعنی جب آپ دیکھیں کہ آپ کی نصیحت سے لوگوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے تو ایسے لوگوں کو بار بار وعظ و نصیحت کرتے رہیں۔ اور جو لوگ وعظ و نصیحت سے الٹا اثر لیں، مذاق اڑانے لگیں، یا مخالفت پر اتر آئیں تو ایسے لوگوں کو وعظ و نصیحت سے اجتناب کیجیے۔ 

واضح رہے کہ دعوت و تبلیغ اور چیز ہے اور وعظ و نصیحت اور چیز۔ نبی کی ذمہ داری یہ ہے کہ اللہ کا پیغام سب لوگوں تک پہنچا دے خواہ وہ اسے قبول کریں یا برا مانیں۔ لیکن وعظ و نصیحت صرف ان کے لیے ہے جو اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہو اور جس کے دل میں اللہ کا ڈر ہو۔ جو ڈرتا ہی نہیں اس کے لیے وعظ و نصیحت کچھ معنی نہیں رکھتے۔


سَيَذَّكَّرُ مَنْ يَّخْشٰى (10)


 جس کے دل میں اللہ کا خوف ہوگا، وہ نصیحت مانے گا۔

۔۔۔۔۔۔

یعنی جس شخص کے دل میں الله تعالی  کا خوف اور برے انجام کا ڈر ہو گا اس کو یہ فکر بھی ہو گی کہ کہیں میں غلط راستے پر تو نہیں چل رہا اور وہ  ہی توجہ سے اس شخص کی بات سنے گا، جو اسے ہدایت اور گمراہی کا فرق اور فلاح و سعادت کا راستہ بتا رہا ہو۔


 وَيَتَجَنَّبُهَا الْاَشْقَى (11)


اور اس سے دور وہ رہے گا جو بڑا بدبخت ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔

الَّذِيْ يَصْلَى النَّارَ الْكُبْرٰى (12)


جو سب سے بڑی آگ میں داخل ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایسا شخص جس کے دل میں الله کے ہاں جوابدہی کا ڈر نہیں ہوگا اور نہ ہی اپنی اصلاح کی فکر ہوگی وہ بدنصیب اور بدبخت  نصیحت پر غور کرنے کی بجائے اس سے دور بھاگے گا۔ چنانچہ اسلام قبول نہ کرنے اور ایمان سے محروم رہ جانے کی وجہ سے جہنم میں داخل کیا جائے گا جو دنیا کی آگ سے ستر گنا زیادہ تیز ہے۔ 



 ثُمَّ لَا يَمُوْتُ فِيْهَا وَلَا يَحْيٰي (13)


پھر اس آگ میں نہ مرے گا اور نہ جیے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جہنم کی آگ میں نہ تو وہ مرے گا کہ جان چھوٹ جائے اور نہ ایسی زندگی ہوگی کہ کوئی راحت ہو۔  مسلسل عذاب اور تکلیف کی وجہ سے زندگی موت سے بدتر ہو گی لیکن موت بھی نہ آئے گی کہ مر سکے۔

یہ سزا ان لوگوں کے لیے ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی نصیحت کو بالکل قبول نہ کریں اور مرتے دم تک کافر رہیں ۔ البتہ جو لوگ  دل میں ایمان رکھتے ہوں مگر اپنے برے اعمال کی وجہ سے جہنم میں ڈالے جائیں گے۔ ان کے متعلق احادیث میں آیا ہے کہ جب وہ اپنی سزا بھگت لیں گے تو اللہ تعالی انہیں موت دے دے گا ، پھر ان کے حق میں شفاعت قبول کی جائے گی اور ان کی جلی ہوئی لاشیں جنت کی نہروں پر لا کر ڈالی جائیں گی اور اہل جنت سے کہا جائے گا کہ ان پر پانی ڈالو اور اس پانی سے وہ اس طرح جی اٹھیں گے جیسے پودے پانی پڑنے سے ا گ آتے ہیں ۔


قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى (14)


فلاح اس نے پائی ہے جس نے پاکیزگی اختیار کی۔

۔۔۔۔۔ 

تزکی کا مطلب ہے پاک کرنا اسی سے لفظ زکوة ہے جس کو ادا کرنے سے مال پاک ہو جاتا ہے۔ جس شخص نے اپنا تزکیہ کر لیا وہ کامیاب ہوگیا۔ یعنی جس نے الله کے ذکر سے دل کی میل کچیل کو پاک کیا، نماز پڑھ کر اپنے جسم اور روح کو پاک کیا، اسی طرح زکوة ادا کرکے اپنے مال کو پاک کیا وہی آخرت میں کامیاب ہوگا۔ 


 وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰى (15)


اور اپنے پروردگار کا نام لیا، اور نماز پڑھی۔

۔۔۔۔۔۔

تزکیہ کی مزید وضاحت ہے کہ اپنے رب کو دل میں بھی یاد کرنا اور زبان سے بھی اس کا ذکر کرنا۔ دونوں چیزیں ذکر الہی میں شمار ہوتی ہیں۔ اس کے ساتھ نماز کی پابندی کرنا۔ 

اس میں ہر طرح کی نماز شامل ہے یعنی فرض، سنت،  نفل ، جمعہ اور عید کی نماز وغیرہ۔


 بَلْ تُـؤْثِرُوْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا (16)


لیکن تم لوگ دنیوی زندگی کو مقدم رکھتے ہو۔


وَالْاٰخِرَةُ خَيْرٌ وَّاَبْقٰى (17)


حالانکہ آخرت کہیں زیادہ بہتر اور کہیں زیادہ پائیدار ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔

یعنی تم آخرت کی کامیابی کا سامان تیار نہیں کرتے بل کہ دنیا کی زندگی کو پسند کرتے ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کی کامیابی انسان کے سامنے موجود ہے اور آخرت کی کامیابی اس کی نگاہ سے اوجھل ہے۔ اسی لیے وہ آخرت کو بھلاتے ہوئے، دنیا کی کامیابی کو اہم سمجھتا اور ترجیح دیتا ہے۔ در حقیقت جو لوگ اپنے معاملات کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے آخرت  کو مقدم رکھتے ہیں، وہی کامیاب ہیں۔ دنیا کے عارضی فائدے کوآخرت کے معاملات پر ترجیح دینا سراسر خسارہ ہے۔ اسی نقصان سے بچانے کے لیے الله تعالی نے انبیاء علیھم السلام کو انسانوں کی راہنمائی کے لیے بھیجا، ان انبیاء نے آخرت کی نعمتوں کو ایسے کھول کھول کر بیان کیا گویا وہ نگاہوں کے سامنے ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ جس دنیا کو تم پسند کرتے ہو وہ عارضی اور فنا ہونے والی ہے، اس کی نعمتیں، مال و دولت، حُسن وجوانی عارضی اور ختم ہوجانے والی ہیں۔ آخرت کی نعمتیں جوہمیشہ رہیں گی، کبھی ختم نہ ہوں گی اور جن میں مشقت کا نام و نشان بھی نہیں ہوگا وہ زیادہ بہتر ہیں۔ انہیں حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ 



اِنَّ هٰذَا لَفِي الصُّحُفِ الْاُوْلٰى (18)


یہ بات یقینا پچھلے (آسمانی) صحیفوں میں بھی درج ہے۔


صُحُفِ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰى (19)


ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں۔

۔۔۔۔۔۔۔

یہی مضمون پہلے صحیفوں میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ یعنی تذکیہ اور ہدایت کا اصل جوہر اور خلاصہ یہی ہے کہ انسان آخرت کو دنیا پر ترجیح دے۔ کیونکہ دنیا فانی اور وقتی ہے جبکہ آخرت اس سے کہیں بہتر اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ہدایت کے حوالے سے یہ بنیادی نکتہ پہلے آسمانی صحیفوں میں بھی مذکور تھا، جو نہ کبھی منسوخ ہوا اور نہ بدلا گیا۔

ھذٰا سے مراد یا تو پوری سورة کے مضامین ہیں یا صرف والاخرة خیر و ابقی  ہے۔ 

یہ مضمون ابراھیم علیہ السلام کے صحیفوں میں بھی موجود ہے جن کی تعداد دس ہے اور موسی علیہ السلام کے صحیفوں میں بھی ہے۔ موسی علیہ السلام کے صحیفوں سے توریت مراد ہے یا جو صحیفے توریت سے پہلے نازل کیے گئے وہ مراد ہیں۔ 


               مختصر تفسیر سورہ اعلیٰ


ابتداء میں اللہ تعالیٰ کے ہر عیب و کمزوری سے پاک ہونے کے اعلان کے ساتھ ہی اس کی قدرت کاملہ اور انسانوں پر اس کے انعامات و عنایات کا تذکرہ پھر اس بات کا بیان ہے کہ نبی کو براہِ راست اللہ ہی تعلیم دیتے ہیں جس میں نسیان اور بھول چوک کی کوئی گنجائش نہیں ہے البتہ اگر اللہ تعالی کسی مرحلہ پر قرآن پاک کے کسی حصہ کو منسوخ کرنے کے لئے آپ کے ذہن سے محو کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔

 قرآن کریم سے صحیح معنی میں استفادہ وہی کرسکتا ہے جو اپنے اندر خشیت پیدا کرنے کا خواہش مند ہو اور بدبخت و جہنمی اس قرآن سے فیض حاصل نہیں کرسکتے۔ اپنے نفس کی اصلاح کر کے اسے پاکیزہ بنانے والا کامیاب ہے اور یہ کام وہی کرسکتا ہے جو اللہ کے ذکر اور نماز کا عادی ہو۔ 

اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے اور یہ بات حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہما السلام کی کتابوں میں بھی لکھی ہوئی موجود ہے۔

سورۃ البلد:13، عم پارہ

سورۃ البلد    اسماء سورة بلد کا معنی  شہر ہے۔ اس سورت کی پہلی آیت میں   اللّٰہ  تعالیٰ نے  شہر مکہ کی قسم کھائی  ہے اس مناسبت سے اسے ’’سورہ...