منگل، 8 دسمبر، 2020

سورة الاعلی :10، عم پارہ

 سورة الاعلٰی 

اعلیٰ کا معنی ہے سب سے بلند۔ اس سورت کی پہلی آیت میں  یہ لفظ موجود ہے ،اسی مناسبت سے اسے ’’سورۂ اعلیٰ‘‘ کہتے ہیں ۔

انیس آیات پر مشتمل اس سورة کا ایک نام  سَبّح  بھی ہے۔ یہ سورة مکہ میں نازل ہوئی۔

روابط : 

  1. سورة طارق میں ہر جان پر محافظ کا ذکر ہے  اس سورة میں یہ بیان ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس کے نگہبان خود الله تعالی ہیں۔ 
  2. پچھلی سورة میں انسان اور نباتات کی تخلیق کے ابتدائی مرحلے  کا ذکر تھا اور اس سورة میں انتہائی مرحلے کا بیان ہے۔
  3. سورة الطارق میں قرآن مجید کو فیصلہ کن قول کہا گیا اب سورة اعلی میں بھی قرآن مجید کے اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔ 


شانِ نزول : 


جب نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم پر بڑی بڑی سورتیں نازل ہونے لگیں اور غیب سے  بے شمار علوم کا فیضان ہونے لگا تو آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے دل میں خیال آیا کہ کہیں مجھے قرآن بھول نہ جائے۔ الله تعالی نے آپ کی تسلی کے لیے یہ سورة نازل فرمائی۔ 


فضائل سورة اعلٰی:

احادیث میں سورۂ اعلٰی کی فضیلت ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے۔ 


۱-  حضرت نعمان بن بشیر رضی الله عنہ  فرماتے ہیں  : نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم   عید الفطر،عید الاضحی اور جمعہ کی نماز میں  ’’سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى‘‘ اور ’’هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَةِ‘‘ پڑھا کرتے تھے اور جب عید جمعہ کے دن ہوتی تو دونوں  نمازوں  میں  ان سورتوں  کی تلاوت فرماتے تھے۔

( مسلم ،  کتاب الجمعۃ ،  باب ما یقرأ فی صلاۃ الجمعۃ ،  ص۴۳۵ ،  الحدیث: ۶۲(۸۷۸))

(2) حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنھا فرماتی ہیں : نبی  کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم  وتر کی پہلی رکعت میں  ’’سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى‘‘ دوسری رکعت میں  ’’قُلْ یٰۤاَیُّهَا الْكٰفِرُوْنَ‘‘ اورتیسری رکعت میں  ’’قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ‘‘ پڑھا کرتے تھے ۔ 


(ترمذی ،  کتاب الوتر ،  باب ما جاء فیما یقرأ بہ فی الوتر ،  ۲  /  ۱۰ ،  الحدیث: ۴۶۲)

(3)حضرت علی رضی الله عنہ فرماتے ہیں: نبی  کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم  اس سورت ’’سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى‘‘ سے محبت فرماتے تھے۔


( مسند امام احمد ،  ومن مسند علیّ بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ ،  ۱  /  ۲۰۶ ،  الحدیث: ۷۴۲)



 سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى (1)


اپنے پروردگار کے نام کی تسبیح کرو جس کی شان سب سے اونچی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الله تعالی کی ذات کو سمجھنا ہمارے تصور سے باہر ہے۔ وہ اعلی یعنی ہر لحاظ سے بلند و برتر ہے۔ اس کے ساتھ ہمارا ذہنی اور قلبی تعلق صرف اس کے ناموں کے ساتھ ہے۔ ہم انسان اگر اللہ کا ذکر کرنا چاہیں یا اس کی تسبیح وتحمید کرنا چاہیں تو اس کے اسماء کے حوالے سے ہی کرسکتے ہیں۔

سبح اسم ربک کے معنی یہ ہیں کہ اپنے رب کے نام کو  ہر ایسی چیز سے پاک رکھیے  جو اس کی شان کے مطابق نہیں۔ 

اس کے کئی معنے ہو سکتے ہیں اور وہ سب ہی مراد ہیں ۔ 

  1. اللہ تعالی کو ان ناموں سے یاد کرنا چاہیے  جو اس کے لائق ہیں اور ایسے نام اس کی ذات کے لیے استعمال نہ کیے جائیں جو اپنے معنی اور مفہوم کے لحاظ سے اس کے لیے موزوں نہیں۔
  2. ایسے ناموں سے الله سبحانہ وتعالی کو نہیں پکارنا چاہیے جن میں اس کے لیے نقص، گستاخی یا شرک کا کوئی پہلو نکلتا ہو یا جن میں اس کی ذات و صفات اورافعال کے بارے میں کوئی غلط عقیدہ پایا جاتا ہو۔ بہترین طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کے وہی نام استعمال کیے جائیں جو اس نے خود بیان فرمائے ہیں۔
  3. اللہ کے لیے مخلوقات کے نام  یا مخلوقات کے لیے اللہ کے ناموں جیسے الفاظ استعمال نہ کیے جائیں اور اگر کچھ صفاتی نام ایسے ہوں جو اللہ تعالی کے لیے خاص نہیں ہیں بلکہ بندوں کے لیے بھی ان کا استعمال جائز ہے تودھیان رکھنا چاہیے کہ بندے کے لیے ان کا استعمال اس طریقے سے نہ ہو جس طرح اللہ تعالی کے لیے ہوتا ہے۔ مثلاً رؤف ، رحیم ، کریم ، سمیع ، بصیر وغیرہ 
  4. اللہ کا نام ادب اور احترام کے ساتھ لیا جائے ، کسی ایسے طریقے پر یا ایسی حالت میں نہ لیا جائے جو اس کے احترام کے منافی ہو۔ مثلاً ہنسی مذاق میں یا بیت الخلاء میں یا جھوٹی قسم کھاتے ہوئے یا کوئی گناہ کرتے ہوئے۔
  5. الله کا نام ایسے لوگوں کے سامنے بھی ذکر نہیں کرنا چاہیے جو اسے سن کر گستاخی پر اتر آئیں۔
  6. ایسی مجلسوں میں الله  کا نام نہیں لینا چاہیے جہاں لوگ برے کاموں میں مشغول ہوں اور اس کا ذکر سن کر مذاق  اڑائیں۔
  7. ایسے موقع پر بھی الله  کا پاک نام  زبان پر نہیں لانا چاہیے جہاں اندیشہ ہو کہ سننے والا اسے ناگواری کے ساتھ سنے گا۔ 


مسئلہ: جو نام الله تعالی کے لیے خاص ہیں ان پر مخلوق کا نام رکھنا جائز نہیں۔

مثلا احد ، صمد ، رزاق اور رحمان وغیرہ البتہ عبد کے ساتھ ملا کر رکھے جا سکتے ہیں۔ مثلا عبد الاحد، عبد الصمد ، عبد الرحمٰن ، عبد الرزاق وغیرہ  اور ایسے ناموں کو عبد لگائے بغیر پکارنا سخت گناہ کی بات ہے۔ اس لیے خاص احتیاط کرنی چاہیے۔ 


احادیث میں حضرت عقبہ بن عامر جہنی سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدے میں سجان ربی الاعلی پڑھنے کا حکم اسی آیت کی بنا پر دیا تھا۔ 


الَّذِيْ خَلَقَ فَسَوّٰى (2)


جس نے سب کچھ پیدا کیا اور ٹھیک ٹھیک بنایا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان آیات میں الله تعالی کی ان صفات کا ذکر ہے جو کائنات کی تخلیق میں اس کی حکمت اور قدرت کے مشاہدہ سے متعلق ہیں۔ ان میں پہلی صفت خلق ہے خلق کے معنی صرف بنانے کے ہی نہیں بلکہ عدم سے وجود میں لانےکے بھی ہیں  اور یہ کام مخلوق میں سے کسی کے اختیار میں نہیں۔ صرف الله تعالیٰ  کی قدرت کاملہ ہے کہ بغیر کسی سابقہ مادہ کے جب چاہتے ہیں اور جس چیز کو چاہتے ہیں تخلیق کرتے ہیں۔

 دوسری صفت فسویٰ ہے جو تسویہ سے مشتق ہے اور اس کے لفظی معنی برابر کرنے کے ہیں اور مراد یہ ہے کہ الله تعالی نے ہر چیز کو ایک خاص تناسب سے برابر کیا۔ جس کام کے لیے جس چیز کی ضرورت تھی اسے نہایت خوبصورتی اور ترتیب سے بنایا۔ مثلا انسانوں اور جانوروں کے ہاتھ پاؤں اور ان کی انگلیوں کے پوروں میں ایسے جوڑ رکھے اور قدرتی اسپرنگ لگائے کہ وہ ہر طرف موڑے اور تہ کئے جاسکتے ہیں، اسی طرح جسم کے تمام اعضا میں حیرت انگیز تناسب ہے جسم کا ہر حصہ اپنے مناسب ترین مقام پر ہے کہ اسے استعمال کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی۔


وَالَّذِيْ قَدَّرَ فَهَدٰى (3)


اور جس نے ہر چیز کو ایک خاص انداز دیا، پھر راستہ بتایا۔

۔۔۔۔۔۔

قدر تقدیر سے مشتق ہے۔جس کے ایک معنی تو ہر چیز کو خاص اندازے پر بنانا ہے یعنی جس کی جتنی ضرورت ہے اس کے مطابق بنایا۔

 اور دوسرے معنی قضا و قدر یعنی فیصلہ کرنے کے ہیں۔ یعنی ہر چیز کو پیدا کرنے کے بعد اس کے متعلق فیصلہ کر دیا کہ اس نے کیا کام کرنا ہے اور اس کو اسی کام میں لگا دیا۔

یہی وجہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز اپنا وہی کام کر رہی ہے جس کے لیے اس کو بنایا گیا اور جو کام اس کے ذمہ لگایا گیا۔ مثلا سورج،چاند،ستارے،آسمان، تمام جاندار یعنی انسان، حیوان، نباتات، پہاڑ، دریا، سمندرسب اپنے اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ قدر سے یہی تقدیر مراد ہے۔ 

فھدٰی کا مقصد یہ ہے کہ الله تعالی نے جس چیز کو جس کام کے لیے پیدا کیا اسے اس کام کو کرنے کا طریقہ بھی سکھا دیا۔ یہ ہدایت کائنات میں موجود تمام مخلوقات کے لیے ہے۔ خواہ وہ جانور ہوں یا پودے ، آسمانی مخلوق ہو یا زمینی یا پھر پانی کی مخلوق ہو ہر ایک کو کھانے پینے، رہنے سہنے کے طریقے کی ہدایت دے دی جس کے مطابق وہ آرام سے اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔ انسان اور حیوان کو اپنی ضروریات زندگی حاصل کرنے اور دشمن سے محفوظ رہنے کے ایسے عجیب طریقے اور ہنر سکھائے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔


وَالَّذِيْٓ اَخْرَجَ الْمَرْعٰى (4)


اور جس نے سبز چارہ (زمین سے) نکالا۔


 فَجَعَلَهٗ غُثَاۗءً اَحْوٰى (5)


پھر اسے کالے رنگ کا کوڑا بنادیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الله تعالی ہی وہ ذات ہے جس نے زمین سے سرسبز چارہ نکالا۔ اسی کے حکم سے بیج پھوٹ کر پودا بنتا ہے اور وہی زمین سے سبزو تازہ گھاس اور پودے نکالتا ہے۔ پھرالله کی قدرت سے  تھوڑی ہی مدت میں وہ گھاس اور پودے خشک اور سیاہ ہوکر ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔ اس میں انسان کے انجام کی طرف بھی اشارہ ہے کہ انسانی جسم کی شادابی اور خوبصورتی بھی وقت کے ساتھ خشک ہوکرختم ہوجائے گی اور انسانی جسم بھی ایک دن چورا چورا ہو جائے گا۔


ربط آیات: 

پچھلی آیات میں الله تعالی نے اپنی قدرت و حکمت کے چند نمونے پیش کر کے انسان کو اس کے انجام سے خبردار کیا جس سے ثابت ہوا کہ دنیا کی یہ زندگی عارضی اور ختم ہونے والی ہے۔ اس لیے آخرت کی تیاری کرنی چاہیے جو ہمیشہ رہنے والی زندگی ہے۔ جس  کی کامیابی کا دارومدار  اس دنیا میں کیے گئے اعمال و افعال ہیں۔اخروی زندگی کی راہنمائی کے لیے الله تعالی نے قرآن پاک نازل کیا اور نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو قرآن مجید کی تبلیغ کے لیے بھیجا۔ 

اگلی آیات میں نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو اپنا فریضہ ادا کرنے کے لیے ہدایات دینے سے پہلے خوشخبری دی گئی کہ آپ کے لیے آپ کا کام  انتہائی آسان کر دیا گیا ہے۔


 سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسٰٓى (6)


 (اے پیغمبر) ہم تمہیں پڑھائیں گے پھر تم بھولو گے نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الله تعالی فرماتے ہیں کہ آپ اس بات سے پریشان نہ ہوں کہ کہیں آپ کو کچھ بھول نہ جائے بلکہ  ہم آپ کو قرآن مجید پڑھائیں گے اور اسے یاد کروانا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔

۔۔۔۔۔۔

اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ جب آپ پر الله تعالی کا کلام نازل ہوتا اور جبرئیل امین کوئی آیت قرآن سناتے تو آپ کو یہ فکر ہوتی تھی کہ ایسا نہ ہو آیات کے الفاظ  ذہن سے نکل جائیں اسلئے جبرئیل امین کے پڑھنے کے ساتھ ساتھ آپ بھی قرآن مجید کی آیات پڑھتے جاتے تھے۔ اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ اطمینان دلایا کہ وحی کے نزول کے وقت آپ خاموشی سے سنتے رہیں ، ہم آپ کو اسے پڑھوا دیں گے اور وہ ہمیشہ کے لیے آپ کو یاد ہو جائے گا۔ آپ اس بات سے بالکل نہ گھبرائیں کہ اس کا کوئی لفظ آپ بھول جائیں گے۔ 

اس آیت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قرآن جس طرح معجزے کے طور پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا تھا اسی طرح معجزے کے طور پر ہی اس کا لفظ لفظ آپ کے حافظے میں محفوظ بھی کر دیا گیا اور اس بات کا کوئی امکان باقی نہیں رہنے دیا گیا کہ آپ اس میں سے کوئی چیز بھول جائیں ، یا اس کے کسی لفظ کی جگہ کوئی دوسرا ہم معنی لفظ آپ کی زبان مبارک سے ادا ہو ۔


 اِلَّا مَا شَاۗءَ اللّٰهُ    ۭ اِنَّهٗ يَعْلَمُ الْجَـهْرَ وَمَا يَخْفٰى (7)


 سوائے اس کے جسے اللہ چاہے۔  یقین رکھو وہ کھلی ہوئی چیزوں کو بھی جانتا ہے اور ان چیزوں کو بھی جو چھپی ہوئی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔

سوائے اس کے کہ کسی چیز کو اللہ تعالیٰ ہی اپنی حکمت و مصلحت کی وجہ سے آپ کے ذہن سے بھلا دینا چاہے۔ مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو بعض آیات قرآن کو منسوخ فرماتے ہیں اس کا ایک طریقہ تو معروف ہے کہ صاف حکم پہلے حکم کے خلاف آگیا، اور ایک صورت منسوخ کرنے کی یہ بھی ہے کہ اس آیت ہی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سب مسلمانوں کے ذہنوں سے بھلا دیا گیا۔ جیسا کہ نسخ آیات قرآنی کے بیان میں فرمایا مانسخ من ایت اوننسھا یعنی ہم جو آیت منسوخ کرتے ہیں یا آپ کے ذہن سے بھلادیتے ہیں۔

یقینا الله تعالی اونچی آواز میں کہی گئی بات کو بھی جانتا ہے  اور جو بات چھپائی جائے اسے بھی جانتا ہے، اس سے کچھ بھی چھپا ہوا نہیں۔ 



 وَنُيَسِّرُكَ لِلْيُسْرٰى (8)


 اور ہم تمہیں آسان شریعت (پر چلنے کے لیے) سہولت دیں گے۔


 فَذَكِّرْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّكْرٰى (9)


لہذا تم نصیحت کیے جاؤ، اگر نصیحت کا فائدہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔


ﷲ تعالیٰ نے آنحضرت صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کو جو شریعت عطا فرمائی وہ  خود بھی آسان ہے، پھر مزید تسلی دی گئی  کہ ہم اس پر عمل کو بھی آپ کے لئے آسان کردیں گے۔

لہذا آپ نصیحت کرتے رہیں۔  یعنی جب آپ دیکھیں کہ آپ کی نصیحت سے لوگوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے تو ایسے لوگوں کو بار بار وعظ و نصیحت کرتے رہیں۔ اور جو لوگ وعظ و نصیحت سے الٹا اثر لیں، مذاق اڑانے لگیں، یا مخالفت پر اتر آئیں تو ایسے لوگوں کو وعظ و نصیحت سے اجتناب کیجیے۔ 

واضح رہے کہ دعوت و تبلیغ اور چیز ہے اور وعظ و نصیحت اور چیز۔ نبی کی ذمہ داری یہ ہے کہ اللہ کا پیغام سب لوگوں تک پہنچا دے خواہ وہ اسے قبول کریں یا برا مانیں۔ لیکن وعظ و نصیحت صرف ان کے لیے ہے جو اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہو اور جس کے دل میں اللہ کا ڈر ہو۔ جو ڈرتا ہی نہیں اس کے لیے وعظ و نصیحت کچھ معنی نہیں رکھتے۔


سَيَذَّكَّرُ مَنْ يَّخْشٰى (10)


 جس کے دل میں اللہ کا خوف ہوگا، وہ نصیحت مانے گا۔

۔۔۔۔۔۔

یعنی جس شخص کے دل میں الله تعالی  کا خوف اور برے انجام کا ڈر ہو گا اس کو یہ فکر بھی ہو گی کہ کہیں میں غلط راستے پر تو نہیں چل رہا اور وہ  ہی توجہ سے اس شخص کی بات سنے گا، جو اسے ہدایت اور گمراہی کا فرق اور فلاح و سعادت کا راستہ بتا رہا ہو۔


 وَيَتَجَنَّبُهَا الْاَشْقَى (11)


اور اس سے دور وہ رہے گا جو بڑا بدبخت ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔

الَّذِيْ يَصْلَى النَّارَ الْكُبْرٰى (12)


جو سب سے بڑی آگ میں داخل ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایسا شخص جس کے دل میں الله کے ہاں جوابدہی کا ڈر نہیں ہوگا اور نہ ہی اپنی اصلاح کی فکر ہوگی وہ بدنصیب اور بدبخت  نصیحت پر غور کرنے کی بجائے اس سے دور بھاگے گا۔ چنانچہ اسلام قبول نہ کرنے اور ایمان سے محروم رہ جانے کی وجہ سے جہنم میں داخل کیا جائے گا جو دنیا کی آگ سے ستر گنا زیادہ تیز ہے۔ 



 ثُمَّ لَا يَمُوْتُ فِيْهَا وَلَا يَحْيٰي (13)


پھر اس آگ میں نہ مرے گا اور نہ جیے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جہنم کی آگ میں نہ تو وہ مرے گا کہ جان چھوٹ جائے اور نہ ایسی زندگی ہوگی کہ کوئی راحت ہو۔  مسلسل عذاب اور تکلیف کی وجہ سے زندگی موت سے بدتر ہو گی لیکن موت بھی نہ آئے گی کہ مر سکے۔

یہ سزا ان لوگوں کے لیے ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی نصیحت کو بالکل قبول نہ کریں اور مرتے دم تک کافر رہیں ۔ البتہ جو لوگ  دل میں ایمان رکھتے ہوں مگر اپنے برے اعمال کی وجہ سے جہنم میں ڈالے جائیں گے۔ ان کے متعلق احادیث میں آیا ہے کہ جب وہ اپنی سزا بھگت لیں گے تو اللہ تعالی انہیں موت دے دے گا ، پھر ان کے حق میں شفاعت قبول کی جائے گی اور ان کی جلی ہوئی لاشیں جنت کی نہروں پر لا کر ڈالی جائیں گی اور اہل جنت سے کہا جائے گا کہ ان پر پانی ڈالو اور اس پانی سے وہ اس طرح جی اٹھیں گے جیسے پودے پانی پڑنے سے ا گ آتے ہیں ۔


قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى (14)


فلاح اس نے پائی ہے جس نے پاکیزگی اختیار کی۔

۔۔۔۔۔ 

تزکی کا مطلب ہے پاک کرنا اسی سے لفظ زکوة ہے جس کو ادا کرنے سے مال پاک ہو جاتا ہے۔ جس شخص نے اپنا تزکیہ کر لیا وہ کامیاب ہوگیا۔ یعنی جس نے الله کے ذکر سے دل کی میل کچیل کو پاک کیا، نماز پڑھ کر اپنے جسم اور روح کو پاک کیا، اسی طرح زکوة ادا کرکے اپنے مال کو پاک کیا وہی آخرت میں کامیاب ہوگا۔ 


 وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰى (15)


اور اپنے پروردگار کا نام لیا، اور نماز پڑھی۔

۔۔۔۔۔۔

تزکیہ کی مزید وضاحت ہے کہ اپنے رب کو دل میں بھی یاد کرنا اور زبان سے بھی اس کا ذکر کرنا۔ دونوں چیزیں ذکر الہی میں شمار ہوتی ہیں۔ اس کے ساتھ نماز کی پابندی کرنا۔ 

اس میں ہر طرح کی نماز شامل ہے یعنی فرض، سنت،  نفل ، جمعہ اور عید کی نماز وغیرہ۔


 بَلْ تُـؤْثِرُوْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا (16)


لیکن تم لوگ دنیوی زندگی کو مقدم رکھتے ہو۔


وَالْاٰخِرَةُ خَيْرٌ وَّاَبْقٰى (17)


حالانکہ آخرت کہیں زیادہ بہتر اور کہیں زیادہ پائیدار ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔

یعنی تم آخرت کی کامیابی کا سامان تیار نہیں کرتے بل کہ دنیا کی زندگی کو پسند کرتے ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کی کامیابی انسان کے سامنے موجود ہے اور آخرت کی کامیابی اس کی نگاہ سے اوجھل ہے۔ اسی لیے وہ آخرت کو بھلاتے ہوئے، دنیا کی کامیابی کو اہم سمجھتا اور ترجیح دیتا ہے۔ در حقیقت جو لوگ اپنے معاملات کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے آخرت  کو مقدم رکھتے ہیں، وہی کامیاب ہیں۔ دنیا کے عارضی فائدے کوآخرت کے معاملات پر ترجیح دینا سراسر خسارہ ہے۔ اسی نقصان سے بچانے کے لیے الله تعالی نے انبیاء علیھم السلام کو انسانوں کی راہنمائی کے لیے بھیجا، ان انبیاء نے آخرت کی نعمتوں کو ایسے کھول کھول کر بیان کیا گویا وہ نگاہوں کے سامنے ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ جس دنیا کو تم پسند کرتے ہو وہ عارضی اور فنا ہونے والی ہے، اس کی نعمتیں، مال و دولت، حُسن وجوانی عارضی اور ختم ہوجانے والی ہیں۔ آخرت کی نعمتیں جوہمیشہ رہیں گی، کبھی ختم نہ ہوں گی اور جن میں مشقت کا نام و نشان بھی نہیں ہوگا وہ زیادہ بہتر ہیں۔ انہیں حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ 



اِنَّ هٰذَا لَفِي الصُّحُفِ الْاُوْلٰى (18)


یہ بات یقینا پچھلے (آسمانی) صحیفوں میں بھی درج ہے۔


صُحُفِ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰى (19)


ابراہیم اور موسیٰ کے صحیفوں میں۔

۔۔۔۔۔۔۔

یہی مضمون پہلے صحیفوں میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ یعنی تذکیہ اور ہدایت کا اصل جوہر اور خلاصہ یہی ہے کہ انسان آخرت کو دنیا پر ترجیح دے۔ کیونکہ دنیا فانی اور وقتی ہے جبکہ آخرت اس سے کہیں بہتر اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ہدایت کے حوالے سے یہ بنیادی نکتہ پہلے آسمانی صحیفوں میں بھی مذکور تھا، جو نہ کبھی منسوخ ہوا اور نہ بدلا گیا۔

ھذٰا سے مراد یا تو پوری سورة کے مضامین ہیں یا صرف والاخرة خیر و ابقی  ہے۔ 

یہ مضمون ابراھیم علیہ السلام کے صحیفوں میں بھی موجود ہے جن کی تعداد دس ہے اور موسی علیہ السلام کے صحیفوں میں بھی ہے۔ موسی علیہ السلام کے صحیفوں سے توریت مراد ہے یا جو صحیفے توریت سے پہلے نازل کیے گئے وہ مراد ہیں۔ 


               مختصر تفسیر سورہ اعلیٰ


ابتداء میں اللہ تعالیٰ کے ہر عیب و کمزوری سے پاک ہونے کے اعلان کے ساتھ ہی اس کی قدرت کاملہ اور انسانوں پر اس کے انعامات و عنایات کا تذکرہ پھر اس بات کا بیان ہے کہ نبی کو براہِ راست اللہ ہی تعلیم دیتے ہیں جس میں نسیان اور بھول چوک کی کوئی گنجائش نہیں ہے البتہ اگر اللہ تعالی کسی مرحلہ پر قرآن پاک کے کسی حصہ کو منسوخ کرنے کے لئے آپ کے ذہن سے محو کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔

 قرآن کریم سے صحیح معنی میں استفادہ وہی کرسکتا ہے جو اپنے اندر خشیت پیدا کرنے کا خواہش مند ہو اور بدبخت و جہنمی اس قرآن سے فیض حاصل نہیں کرسکتے۔ اپنے نفس کی اصلاح کر کے اسے پاکیزہ بنانے والا کامیاب ہے اور یہ کام وہی کرسکتا ہے جو اللہ کے ذکر اور نماز کا عادی ہو۔ 

اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے اور یہ بات حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہما السلام کی کتابوں میں بھی لکھی ہوئی موجود ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

سورۃ البلد:13، عم پارہ

سورۃ البلد    اسماء سورة بلد کا معنی  شہر ہے۔ اس سورت کی پہلی آیت میں   اللّٰہ  تعالیٰ نے  شہر مکہ کی قسم کھائی  ہے اس مناسبت سے اسے ’’سورہ...