پیر، 16 نومبر، 2020

الطارق: 9 ، عم پارہ

 سورة الطارق


سترہ آیات پر مشتمل اس سورة کا نام سورة الطارق ہے جو اس سورة کی پہلی آیت میں موجود  ہے۔ یہ  سورة مکہ میں نازل ہوئی۔ 


ربط

گزشتہ سورة یعنی سورة البروج کی ابتدا آسمان اور ستاروں کی قسم سے ہوئی اب سورۃ الطارق کی ابتدا بھی ایسی ہی قسموں سے ہو رہی ہے۔ سورة البروج کے آخر میں حفاظت قرآن کا ذکر تھا اس سورة میں آسمان اور انسان کے محافظوں کا ذکر ہے نیز انسان کی حقیقت اور قرآن کی حقانیت بھی بیان کی گئی ہے۔ 


شانِ نزول :- 

ایک دن نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے پاس ان کے چچا ابو طالب تشریف لائے۔ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے ان کی تواضح روٹی اور دودھ سے کی دونوں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ آسمان سے ایک تارہ ٹوٹا اور زمین سے اس قدر قریب ہوگیا کہ اس  کی چمک سے گھر کی ہر چیز روشن ہو گئی۔ ابو طالب گھبرا کر کھڑے ہو گئے اور آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا: یہ کیا تھا؟ ارشاد فرمایا کہ یہ تارا تھا جو کسی شیطان کو مارا گیا۔ یہ الله تعالی کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ ابو طالب یہ سُن کر حیران ہوئے، اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ 


 وَالسَّمَاۗءِ وَالطَّارِقِ (1)


 قسم ہے آسمان کی اور رات کو آنے والے کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس آیت میں الله تعالی نے دو چیزوں کی قسم کھائی ہے۔ 

آسمان کی اور رات کو آنے والے کی ۔ طارق کے معنی رات کو آنے والے کے ہیں، ستارے چونکہ دن کو چُھپے رہتے ہیں اور رات کو ظاہر ہوتے ہیں اس لیے ان  کو طارق کہا گیا ہے اور اسی پر سورة کا نام رکھا گیا ہے۔ 


 وَمَآ اَدْرٰىكَ مَا الطَّارِقُ (2)


اور تمہیں کیا معلوم کہ وہ رات کو آنے والا کیا ہے ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الله تعالی تعظیمِ شان کے لیے سوال کر رہے ہیں کہ آپ کو کیا پتہ طارق کیا ہے؟ 

پھر خود ہی جواب دیا: 


 النَّجْمُ الثَّاقِبُ (3)


چمکتا ہوا ستارا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


قرآن پاک میں جہاں کہیں وما ادراک آیا ہے وہاں بعد میں اس کا بیان بھی لایا گیا ہے یعنی طارق جگمگانے والا روشن ستارہ ہے۔ 

النجم الثاقب سے کون سا ستارہ مراد ہے اس میں بہت سے اقوال ہیں۔ 

  1. اس سے مراد کوئی خاص ستارہ نہیں بلکہ ہر ٹوٹ کر گرنے والا ستارہ، جس سے روشنی پھیلتی ہے،  النجم الثاقب کہلاتا ہے۔ 
  2. اس سے مراد کہکشاں یا ثریا  یعنی ستاروں کا جھرمٹ ہے۔ کیونکہ اس میں بہت سے ستارے ہوتے ہیں جن کی روشنی زیادہ ہوتی ہے اس لیے اسے النجم  کہتے ہیں۔
  3. اس سے مراد زحل ستارہ ہے کیونکہ ثاقب کے معنی بلند، روشن، چمکدار اور سوراخ کرنے والے کے ہیں اور زحل بلند اور روشن بھی ہے اور اس کی روشنی تاریکی میں سوراخ کرتی دکھائی دیتی ہے۔ 


عام ستاروں کی روشنی چاند کی روشنی کی طرح سفید ہوتی ہے جب کہ النجم الثاقب انتہائی چمک دار، تیزی سے سفر کرنے والا ، آگ کی طرح سُرخ رنگ کا ہوتا ہے۔ 

جسے ٹوٹنے والا تارہ بھی کہتے ہیں۔ 

یہاں واحد کا صیغہ استعمال کرکے اس سے جنس مراد لی گئی ہے۔ اور ایسے ستارے سینکڑوں کی تعداد میں فضا میں ٹوٹتے اور پھر ہماری نظروں سے غائب ہوجاتے ہیں۔ نہ وہ دوسرے ستاروں سے ٹکرا کر نظام کائنات کو درہم برہم کرتے ہیں اور نہ زمین پر گر کر زمین پر قیامت برپا کیے رکھتے ہیں۔ البتہ مدتوں بعد کوئی ایسا ستارہ زمین پر گر کر زمین میں گہرے کھڈے بھی ڈال دیتا ہے۔


سوال: ستارے ٹوٹ کر کیوں گرتے ہیں۔

جواب: 

  1. جب کوئی جن یا شیطان اوپر ملاء اعلیٰ کی باتیں سننے کے لیے جاتا ہے تو اس پر ایسا شعلہ دار ستارہ پھینک کر اسے وہاں سے مار بھگایا جاتا ہے۔
  2. یا پھر یہ کہ آسمان کی سجاوٹ ہے۔
  3. یا الله سبحانہ و تعالی اپنی قدرت کی نشانیاں دکھا کر انسان کو خبردار کرتے ہیں۔




 اِنْ كُلُّ نَفْسٍ لَّمَّا عَلَيْهَا حَافِـظٌ (4)


کہ کوئی جان ایسی نہیں ہے جس کی کوئی نگرانی کرنے والا موجود نہ ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ وہ بات ہے جس کے لیے قسم کھائی گئی یعنی جوابِ قسم ہے۔  مقصد یہ ہے  کہ جیسے آسمان پر ستارے ہر وقت محفوظ ہیں مگر رات کے وقت ظاہر ہوتے ہیں،  اسی طرح ہر شخص کے اعمال نامہ اعمال میں اس وقت بھی محفوظ ہیں مگر خاص قیامت کے وقت انہیں ظاہر کیا جائے گا۔ اس لیے انسان کو ان کے ظاہر ہونے کے وقت یعنی قیامت کی فکر کرنی چاہیے۔ 


حافظ کے دو معنی بیان کیے گئے ہیں۔

  1. نگران، یعنی ہر نفس پر  الله تعالی نے نگران فرشتے کراما کاتبین مقرر کر رکھے ہیں جو اس کے تمام اعمال کا حساب لکھتے  ہیں تاکہ اس کو جزا یا سزا دی جا سکے۔ 
  2. محافظ یا نگہبان  یعنی وہ فرشتے جو مشکل یا مصیبت میں انسان کی حفاظت کرتے ہیں سوائے اس مصیبت کے جو اس کے لیے لکھ دی گئی ہو۔


نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے ایک فرمان مبارک کا مفہوم ہے کہ ہر شخص پر تین سو ساٹھ فرشتے مقرر ہیں جو اس کے جسم کے ہر عضو کی حفاظت کرتے ہیں سات فرشتے صرف آنکھ کی حفاظت کے لیے ہیں، اگر یہ فرشتے نہ ہوں تو شیاطین فورا انسان کو اچک کر لے جائیں۔ 


 فَلْيَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ (5)


اب انسان کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اسے کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس آیت میں الله سبحانہ وتعالی کی قدرت کا بیان اور مشرکین کے اس شبہ کا جواب ہے جو شیطان ان کے دل میں ڈالتا ہے۔ شبہ یہ ہے کہ آخر مر کر مٹی میں مل جانے کے بعد انسان کیسے دوبارہ زندہ ہو سکتا ہے جب کہ وہ مٹی کے ذروں میں بدل چکا ہو۔ ان اجزا سے دوبارہ انسان کا بن جانا ناممکن ہے۔ اس کے جواب میں فرمایا کہ انسان اپنی تخلیق کے مراحل کو دیکھے۔ کس طرح الله سبحانہ وتعالی نے اسے پہلی بار دنیا بھر کے مختلف ذرات جمع کرکے، پیدا کیا۔ پھر اسے دیکھنے ، سننے اور عقل سے کام لینے والا بنایا۔ جس نے پہلی بار تمہیں بنایا وہ دوبارہ زندہ کرنے پر بھی مکمل قدرت رکھتا ہے۔ 



 خُلِقَ مِنْ مَّاۗءٍ دَافِقٍ (6)


اسے ایک اچھلتے ہوئے پانی سے پیدا کیا گیا ہے۔


 يَّخْرُجُ مِنْۢ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَاۗئِبِ (7)


جو پیٹھ اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی انسان کو نطفہ سے پیدا کیا گیا جو ایک اچھلنے والا پانی ہے۔ پشت اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے نکلتا ہے۔

مفسرین نے اس کا یہ مطلب بیان کیا ہے کہ نطفہ مرد کی پشت اور عورت کے سینہ سے نکلتا ہے مگر ماہرینِ طب کی تحقیق اور تجربہ یہ ہے کہ نطفہ درحقیقت انسان کے ہر ہر عضو سے نکلتا ہے اور بچے کا ہر عضو اس نطفہ سے بنتا ہے جو مرد و عورت کے اسی عضو سے نکلا ہے۔ البتہ دماغ کو اس معاملے میں سب سے زیادہ دخل ہے۔

 اگر قرآن کریم کے الفاظ پر غور کیا جائے تو ان میں مرد و عورت کی کوئی تخصیص نہیں، صرف اتنا ہے کہ نطفہ پشت اور سینے کے درمیان سے نکلتا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ نطفہ مرد و عورت دونوں کے سارے بدن سے نکلتا ہے اور سارے بدن کی وضاحت آگے پیچھے کے اہم اعضاء سے کردی گئی سامنے کے حصہ میں سینہ اور پیچھے کے حصہ میں پشت سب سے اہم اعضا ہیں۔ ان دونوں کے اندر سے نکلنے کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ سارے بدن سے نکلتا ہے۔


 اِنَّهٗ عَلٰي رَجْعِهٖ لَقَادِرٌ (8)


 بیشک وہ اسے دوبارہ پیدا کرنے پر پوری طرح قادر ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رجع کے معنے لوٹا دینے کے ہیں مطلب یہ ہے کہ جس خالق کائنات نے پہلی بار انسان کو نطفہ سے پیدا کیا ہے وہ اس کو دوبارہ لوٹا دینے یعنی مرنے کے بعد زندہ کردینے پر بھی قدرت رکھتا  ہے۔


 يَوْمَ تُبْلَى السَّرَاۗئِرُ (9)


 جس دن تمام پوشیدہ باتوں کی جانچ ہوگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تبلی کے لفظی معنی امتحان لینے اور آزمانے کے ہیں اور سرائر کے معنی ہیں چھپے ہوئے کام ،  مطلب یہ ہے کہ قیامت کے روز انسان کے تمام عقائد و خیالات اور نیت وعزم جو دل میں پوشیدہ تھی دنیا میں اس کو کوئی نہ جانتا تھا اسی طرح وہ اعمال و افعال جو اس نے چھپ کر کئے دنیا میں کسی کو ان کی خبر نہیں، محشر میں سب کا امتحان لیا جائے گا اور سب کو ظاہر کردیا جائے گا۔ کسی اچھے یا برے عمل کا نتیجہ بھی ایک راز ہوتا ہے جو کبھی کبھار خود انسان پر اس کی زندگی میں ظاہر نہیں ہوتا وہ راز بھی ظاہر کر دیا جائے گا۔ 


 فَمَا لَهٗ مِنْ قُوَّةٍ وَّلَا نَاصِرٍ (10)


 تو انسان کے پاس نہ اپنا کوئی زور ہوگا نہ کوئی مددگار۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی انسان کے پاس اتنی قوت نہ ہوگی کہ وہ الله کے عذاب سے بچ جائے نہ کسی اور طرف اس کو کوئی ایسا مددگار مل سکے گا جو اس کو عذاب سے بچا دے یا اس کے سارے راز کھولنے سے روک دے۔


وَالسَّمَاۗءِ ذَاتِ الرَّجْعِ (11)


 قسم ہے بارش بھرے آسمان کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رجع کے لغوی معنی تو پلٹنے کے ہیں لیکن عربی زبان میں یہ لفظ بارش کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، کیونکہ بارش  بس ایک ہی دفعہ نہیں برستی بلکہ بار بار اپنے موسم میں اور کبھی خلاف موسم پلٹ پلٹ کر آتی ہے اور وقتاً فوقتاً برستی رہتی ہے۔ 

ایک اور وجہ بارش کو رجع کہنے کی یہ بھی ہے کہ زمین کے سمندروں سے پانی بھاپ بن کر اٹھتا ہے اور پھر پلٹ کر زمین پر ہی برستا ہے ۔

بعض نے ذات الرجع کا معنی چکر لگانے والا بھی کیا ہے۔ یعنی قسم ہے اس آسمان کی جو چکر لگانے والا اور گھومنے والا ہے۔ 


 وَالْاَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ (12)


 اور پھوٹ پڑنے والی زمین کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صدع کے معنی کسی چیز کا اس طرح پھٹنا ہے کہ ٹکڑا جدا نہ ہو۔ زمین کو اس لیے ذات الصدع کہا گیا ہے کہ وہ پودوں اور درختوں کی نرم و نازک کونپلوں کو پھٹ کر زمین سے باہر نکلنے کا راستہ دے دیتی ہے۔ اس کے علاوہ زمین سے پانی کے چشمے بھی پھوٹ نکلتے ہیں اور یہ بھی کہ زمین میں پوشیدہ جڑی بوٹیاں، سبزہ وغیرہ ایک خاص وقت یعنی موسم بہار میں ظاہر ہو جاتے ہیں اسی طرح انسان کی پوشیدہ باتیں بھی قیامت کے دن ظاہر ہو جائیں گی۔ 

یہاں بارش اور زمین کے پھٹ پڑنے کی قسم کھانے سے بظاہر یہ اشارہ بھی مقصود ہے کہ بارش کے پانی سے وہی زمین فائدہ اُٹھاتی ہے جس میں اُگنے کی صلاحیت ہو، اسی طرح قرآنِ کریم سے وہی شخص فائدہ اٹھاتا ہے جس کے دِل میں حق کو قبول کرنے کی گنجائش ہو۔


 اِنَّهٗ لَقَوْلٌ فَصْلٌ (13)


 کہ یہ (قرآن) ایک فیصلہ کن بات ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ جواب قسم ہے، یعنی کھول کر بیان کرنے والا ہے جس سے حق اور باطل دونوں واضح ہوجاتے ہیں۔


انه کی ضمیر میں دو قول ہیں۔ 

  1. رجع یعنی مر کر دوبارہ زندہ ہونا دو ٹوک اور یقینی بات ہے۔ 
  2. ضمیر سے قرآن مجید کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی قرآن کریم ایک فیصلہ کن قول ہے جو حق و باطل میں فیصلہ کرتا ہے اور اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں۔ 


وَّمَا هُوَ بِالْهَزْلِ (14)


 اور یہ کوئی مذاق نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی جس طرح آسمان سے بارشوں کا برسنا اور زمین کا پھٹ  کر پودے اور پانی وغیرہ نکالنا کوئی مذاق نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے، اسی طرح قرآن مجید جس چیز کی خبر دے رہا ہے کہ انسان کو پھر اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے ، یہ بھی کوئی ہنسی مذاق کی بات نہیں ہے، بلکہ ایک اٹل حقیقت ہے۔ 


 اِنَّهُمْ يَكِيْدُوْنَ كَيْدًا (15)


بیشک یہ (کافر لوگ) چالیں چل رہے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی یہ کفار قرآن کریم کی دعوت کو شکست دینے کے لیے طرح طرح کی چالیں چل رہے ہیں۔ لوگوں کے دلوں میں طرح طرح کے شبہات ڈال رہے ہیں۔ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم  پر جھوٹے الزام لگا رہے ہیں۔ تاکہ دنیا میں کفر وجاہلیت کی  تاریکی چھائی رہے۔ وہ اپنی پھونکوں سے اسلام کے  چراغ کو بجھانا چاہتے ہیں۔ 


 وَّاَكِيْدُ كَيْدًا (16)


 اور میں بھی اپنی چال چل رہا ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور میں بھی ان کو سزا دینے کے لیے اور دینِ اسلام کو غالب کرنے کے لیے تدبیریں کر رہا ہوں اور ظاہر ہے الله کی تدبیر غالب ہے۔ 

واضح رہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے کافروں کی چال یا خفیہ تدبیر کو  کید کہا،  پھر اس کے رد عمل کو اپنی طرف منسوب فرما کر اس کے لیے بھی کید کا لفظ استعمال فرمایا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کو کسی چال یا خفیہ تدبیر کی ضرورت نہیں ہے۔ 

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اہل عرب کی بول چال کے مطابق ہے۔ وہ کسی بھی کام کے ردعمل کو اسی لفظ سے تعبیر کردیتے ہیں خواہ وہ اچھا ہو یا برا۔ اسے مشاکلہ کہتے ہیں۔ 


 فَمَــهِّلِ الْكٰفِرِيْنَ اَمْهِلْهُمْ رُوَيْدًا (17)


لہذا (اے پیغمبر) تم ان کافروں کو ڈھیل دو ، انہیں تھوڑے دنوں اپنے حال پر چھوڑ دو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکہ کے ابتدائی دور کی سورتوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے لیے یہ ہدایت بار بار آئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کافروں  کے لیے سزا اور عذاب میں جلدی نہ کریں۔ اس وقت  مشرکین ِمکہ  اہل ایمان پر بہت ظلم و ستم کرتے تھے۔ ان آیات کے ذریعے اہل ایمان کو بھی بار بار تسلی دی جاتی اور سمجھایا جاتا کہ ابھی ہم ان لوگوں کو مزید مہلت دینا چاہتے ہیں۔ ابھی انہیں  سزا دینے کا وقت نہیں آیا، جب وقت آئے گا تو ﷲ تعالیٰ ان کو اپنی پکڑ میں لے لے گا۔ چناچہ  ان کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف پر صبر کرتے ہوئے ہمارے فیصلے کا انتظار کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مختصر تفسیر سورة الطارق

اس سورت کا مرکزی مضمون مرنے کے بعد زندہ ہونے کا عقیدہ ہے۔ ستاروں کی قسم کھا کر بتایا کہ جس طرح نظام شمسی میں ستارے ایک محفوظ و منضبط نظام کے پابند ہیں اسی طرح انسانوں کی اور ان کے اعمال کی حفاظت کے لئے بھی فرشتے متعین ہیں۔ 

مرنے کے بعد کی زندگی پر دلیل کے طور پر انسان کو اپنی تخلیق اول میں غور کی دعوت دی اور بتایا کہ جس نطفہ سے انسان بنا ہے وہ مرد و عورت کے جسم کے ہر حصہ (صلب سے پچھلا حصہ اور ترائب سے سامنے کا حصہ مراد ہے) سے جمع ہو کر تیزی کے ساتھ اچھل کر رحم میں منتقل ہو جاتا ہے وہ اللہ اسے دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔ 

آسمان سے پانی برسا کر اور زمین پھاڑ کر غلے اور سبزیاں نکال کر انسانی خوراک کا انتظام کرنے والا اس بات کو بیان کرتا ہے کہ یہ قرآن کریم حق و باطل میں امتیاز پیدا کرنے والی کتاب ہے۔ 

کافر سازشیں کر رہے ہیں اور اللہ ان کا توڑ کر رہے ہیں لہٰذا انہیں مہلت دے دو اور یہ اللہ سے بچ کر کہیں نہیں جا سکیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سورة البروج :8 ۔ عم پارہ

 سورة البروج 

بائیس آیات پر مشتمل سورة البروج مکی سورة ہے۔ 


ربط ماقبل: 

پچھلی سورۃ یعنی الانشقاق میں کفار و مؤمنین کی سزا و جزا کا بیان تھا۔ مؤمنین کے لیے جنت کا وعدہ اور کفار کے لیے جہنم کا ڈراوہ دیا گیا تھا اب اس سورۃ میں بھی انہی مضامین کا بیان ہے۔ 


شانِ نزول 

نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد مکہ میں نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے الله کے حکم سے دعوتِ اسلام کی ابتدا کی۔ لوگ دینِ حق  کی سچائی و بھلائی سے متاثر ہو کردائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے۔ ایمان کی روشنی جب  کفر وشرک پر غالب آنے لگی تو مکہ کے سرداروں کو فکر ہوئی۔ اپنی حکومت اور سرداری بچانے کے لیے انہوں نے دعوتِ اسلام  روکنے کی کوششیں شروع کردیں۔ کفار مکہ  آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم پر اور اسلام قبول کرنے والوں  پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے لگے۔ یہاں تک کہ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔  جب کوئی غریب مسلمان یا غلام اسلام قبول کرتا تو سرداران مکہ اس پر ظلم کی انتہاء کر دیتے۔ مار پیٹ، گالی گلوچ، دھوپ اور کوئلے سے جلانے کی سزائیں ، کوڑے اور نیزے مارنا، اور خواتین کی توہین و مذاق اڑانا عام بات تھی۔ غریبوں اور غلاموں کے علاوہ اگر کوئی صاحبِ حیثیت مسلمان بھی اسلام قبول کر لیتا تو اس کے گھر والے اس سے مال ودولت چھین کر گھر سے نکال دیتے اس ظلم میں سارا خاندان شریک ہوتا۔ مسلمان نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ کر ان مصیبتوں اور تکلیفوں کا حال بیان کرتے تو آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم انہیں تسلیاں  دیتے، ان کی ہمت بندھاتے اور آنے والے اچھے وقت کی خوش خبری سناتے۔ آپ فرماتے کہ جلد ہی اسلام کا غلبہ ہوگا اور مسلمانوں کو امن و امان میسر ہوگا۔ ایک دن  آئے گا جب  دشمنوں سے انتقام و بدلہ لینے کی طاقت و قوت حاصل ہوگی۔ اس وقت کفار و مشرکین ذلیل و خوار ہوں گے۔ یہ سُن کر کفار اور زیادہ مذاق اڑاتے؛ چنانچہ مسلمانوں کو تسلی دینے کے لیے اور کفار کو خبردار کرنے کے لیے  یہ سورة نازل ہوئی۔ جس میں ایک ظالم بادشاہ کے ظلم کا واقعہ اور اس کا انجام  بیان کیا گیا۔ کفار و مشرکین کے لیے اس میں اشارہ اور تنبیہ  ہے کہ ظالم بادشاہ کا جو حال ہوا، وہی تمہارا انجام  ہوگا۔ 


ظالم بادشاہ کا قصہ اور انجام:- 

دنیا میں ایسے کئی واقعات ہوئے جن میں اہل ایمان کو خندق کھود کر آگ میں جلا دیا گیا۔ سند کے لحاظ سے سب سے صحیح ایک کافر بادشاہ کا وہ طویل واقعہ ہے جو صحیح مسلم میں صہیب رضی الله عنہما نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے  روایت کیا ہے۔ 

جس کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی ولادت باسعادت سے ستر سال پہلے  یمن یعنی نجران پر ایک کافر بادشاہ حکومت کرتا تھا، جس کا نام  یوسف ذونواس تھا۔ وہ اپنے آپ کو رب کہلواتا تھا۔ بادشاہ کے پاس ایک کاہن  یعنی جادوگر تھا جو  شیطان  جنوں  اور ستاروں کی مدد سے غیب کی باتیں بتاتا تھا۔ جب وہ کاہن بوڑھا ہوگیا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ میری موت کا وقت قریب ہے، کسی  ذہین، سمجھدار لڑکے کو میری شاگردی میں دیں  تاکہ  مرنے سے پہلے اسے اپنا علم و ہنر  سکھا دوں۔ چنانچہ بادشاہ نے ایک ذہین لڑکا منتخب کرکے کاہن کے پاس بھیج دیا جس کا نام عبداللہ بن تامر تھا۔ لڑکا ہر روز کاہن سے اس کا علم  سیکھنے اس کے پاس جانے لگا۔ راستے میں ایک راہب یعنی عیسائی پادری رہتا تھا جو اس وقت کے صحیح دین پر تھا۔ اس زمانے میں دینِ عیسیٰ علیہ السلام ہی دین حق تھا اس لئے یہ راہب اس وقت کا سچا مسلمان تھا۔ وہ لڑکا یعنی عبد الله بن تامر اس راہب کے پاس سے گزرتا تو اس سے دین کی سچی باتیں سنتا۔ بالاخر ایک دن دین حق کی سچائی سے متاثر ہو کر مسلمان ہوگیا۔  اللہ تعالیٰ نے اس کو ایسا پختہ ایمان عطا فرمایا کہ اس کی خاطر تکلیفیں برداشت کرتا رہا،  صبح کاہن کے پاس جاتے وقت راستے میں راہب کے پاس بیٹھتا جہاں کچھ وقت لگتا۔ کاہن کے پاس دیر سے پہنچتا تو وہ اس کو مارتا تھا اور واپسی پر جب پھر راہب کے پاس بیٹھتا تو گھر واپس جانے میں دیر ہوتی اس پر گھر والے مارتے لیکن  اس نے ان تکلیفوں کی پرواہ نہ کی اور ہر روز راہب کے پاس بیٹھ کر دین کی باتیں سیکھتا رہا۔ 

ایک دن وہ لڑکا گھر سے نکلا، اس نے دیکھا ایک شیر یا بعض روایات میں ہے، ایک  سانپ نے راستہ روکا ہوا تھا، لوگ اس کے خوف سے سخت پریشان تھے۔ اس  نے سوچا آج موقعہ ہے آزما کر دیکھتا ہوں کہ راہب کا دین سچا ہے یا کاہن کا؛ چنانچہ اس نے ایک چھوٹا سا پتھر اٹھایا اور دعا کی : یا الله ! اگر راہب کا دین سچا ہے تو اس پتھر سے اس موذی جانور کو مار دے اور اگر کاہن کا دین سچا ہے تو اس جانور کو نہ مارنا۔ یہ کہہ کر پتھر مارا تو وہ شیر یا سانپ ہلاک ہوگیا۔ سب لوگ بہت  خوش ہوئے اور مشہور ہوگیا کہ اس لڑکے کے پاس کوئی زبردست علم ہے۔ لوگ اپنی تکالیف سے نجات حاصل کرنے کے لیے اس کے پاس آنے لگے۔ جب بھی اس لڑکے  کے پاس کوئی مریض آتا تو وہ اسے دعوتِ توحید دیتا اور اس سے کہتا کہ الله پر ایمان لاؤ کیونکہ شفا الله کے ہاتھ میں ہے وہی تمہیں صحت یاب کرے گا۔ لوگ اسلام قبول کرنے لگے۔ رفتہ رفتہ یہ بات بادشاہ کے دربار تک پہنچ گئی۔ بادشاہ کا ایک وزیر اندھا تھا، اسے جب لڑکے کے بارے میں معلوم ہوا تو وہ بھی اس لڑکے کے پاس جا پہنچا۔ اسے بہت سا مال اور تحائف پیش کیے اور اپنی آنکھوں کا علاج کرنے کی درخواست کی۔ 

لڑکے نے جواب دیا کہ شفا تو الله کے ہاتھ میں ہے میں اس شرط پر علاج کروں گا کہ تم الله  پر ایمان لے آؤ۔ چنانچہ وہ وزیر مسلمان ہو گیا۔ لڑکے نے اس کے لیے دعا کی اور الله کے حکم سے اس کی آنکھیں ٹھیک ہوگئیں۔ دوسرے دن وزیر دربار میں حاضر ہوا تو بادشاہ اس کی آنکھیں دیکھ کر حیران ہوگیا اور پوچھا تمہاری آنکھیں کس نے ٹھیک کی ہیں۔ وزیر نے جواب دیا: میرے رب نے۔

بادشاہ نے کہا: تمہارے رب نے یعنی میں نے۔

وزیر نے جواب دیا: نہیں میرے الله نے جو سب کا رب ہے۔

بادشاہ نے کہا: کیا میرے علاوہ بھی تمہارا کوئی رب ہے؟ 

وزیر نے جواب دیا: ہاں! میرا رب تو وہ الله ہے جس نے ساری مخلوق کو پیدا کیا ہے۔ 

بادشاہ غضب ناک ہوا اور وزیر کو گرفتار کر لیا، اسے  سخت سزا دی اور پوچھنے لگا کہ یہ عقیدہ تجھے کس نے سکھایا ہے۔ سزاؤں سے گھبرا کر  وزیر نے لڑکے کا پتہ بتا دیا۔ بادشاہ نے اس لڑکے بلایا اور اس سے کہا کہ تم میرے کاہن سے علم سیکھ کر بیماروں کا علاج کرتے ہو اور نام کسی اور کا لگاتے ہو ۔ لڑکے نے کہا: میرے ، آپ کے اور کاہن کے ہاتھ میں شفا نہیں بلکہ الله کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہتا ہے شفا یاب کرتا ہے۔ اس پر بادشاہ نے اسے بھی قید میں ڈال دیا اور اسے سزائیں دے کر راہب کا پتہ معلوم کیا۔

راہب اور اس وزیر کے بارے میں اس نے حکم دیا ، اگر یہ مجھے رب نہ مانیں تو ان کو آرے سے چیر دیا جائے۔ اور لڑکے کے متعلق حکم دیا کہ اگر یہ اپنے دین سے باز نہ آئے تو اسے پہاڑ کے اوپر سے نیچے گرا دیا جائے۔ 

جب سپاہی اس لڑکے کو لے کر پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے تو اس نے دعا کی: یا الله ! مجھے ان لوگوں سے بچا لے۔ چنانچہ الله کے حکم سے پہاڑ ہلنے لگا اور سپاہی  گر کر ہلاک ہوگئے، بچہ واپس آگیا۔ بادشاہ نے چند اور لوگوں کو حکم دیا اسے سمندر میں لے جا کر سمجھاؤ کہ اس دین سے باز آ جائے۔ اگر باز نہ آیا تو اسے پانی میں غرق کر دینا۔ لڑکے نے پھر الله تعالی سے دعا کی، طوفان آیا، ساتھ جانے والے ڈوب گئے اور لڑکا صحیح سلامت واپس آگیا ۔ 

پھر لڑکے نے بادشاہ سے کہا اگر تو مجھے مارنا ہی چاہتا ہے تو میں اس کا طریقہ بتاتا ہوں۔ شہر کے تمام لوگوں کو ایک میدان میں جمع کرو، پھر ان کے سامنے میرے ترکش کا ایک تیر لے کر بسم الله رب ھذا الغلام (الله کے نام کے ساتھ جو اس لڑکے کا رب ہے) کہہ کر مارو تو میں مر جاؤں گا۔ 

بادشاہ نے لوگوں کو جمع کیا اور اس لڑکے کو ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا پھر سارے لوگوں کے سامنے اس کے ترکش سے تیر نکال کر بسم الله رب ھذا الغلام کہہ کر اسے مارا جو اس کی کنپٹی پر لگا اس سے خون بہنے لگا ، لڑکے نے اس پراپنا ہاتھ رکھا اور وہیں الله کو پیارا ہو گیا۔

 اس واقعے کو دیکھتے ہی تمام لوگوں نے ایک زبان ہو کر نعرہ تکبیر بلند کیا اور کہنے لگے ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لاتے ہیں۔ یہ سن کر بادشاہ  کو شدید غصہ آیا۔ اس نے خندقیں کھود کر ان میں آگ دہکانے کا حکم دیا۔ چنانچہ  بڑی بڑی خندقیں کھودی گئیں اور انہیں آگ سے بھر دیا۔ بادشاہ اپنے وزیروں اور مشیروں کے ہمراہ ان کے کنارے مسندیں لگا کر بیٹھ گیا۔ پھر ایمان لانے والوں کو لایا گیا اور حکم دیا جو شخص دین اسلام سے نہ پھرے اسے آگ میں پھینک دو۔ 

اللہ تعالیٰ نے ان مؤمنین کو ایسی استقامت بخشی کہ ان میں سے ایک بھی ایمان چھوڑنے پر راضی نہ ہوا اور آگ میں ڈالا جانا قبول کر لیا۔  صرف ایک عورت جس کی گود میں ایک بچہ تھا وہ اس بچے کی وجہ سے  آگ  سے ذرا گھبرائی،  تو چھوٹا سا بچہ بولا کہ اماں جان صبر کرو، کیونکہ آپ حق پر ہیں، الله کا نام لے کر آگ میں کود جاؤ۔ بعد میں وہ آگ اس قدر بھڑک اٹھی کے بادشاہ اور اس کے وزیروں مشیروں کو جو کناروں پر مسندیں لگائے بیٹھے تھے جلا کر راکھ کر دیا۔ 

بعض روایات میں ہے کہ بارہ ہزار لوگوں کو آگ میں ڈالا گیا اور بعض روایات میں اس سے بھی زیادہ تعداد بیان کی گئی ہے۔ 

حضرت عمر رضی الله عنہ کے زمانے میں اس لڑکے یعنی عبد الله بن تامر کی قبر اتفاقا کسی وجہ سے کھودی گئی تو اس کی لاش صحیح سالم اس طرح برآمد ہوئی کہ وہ بیٹھے ہوئے تھے اور ان کا ہاتھ کنپٹی پرتھا جہاں تیر لگا تھا، کسی دیکھنے والے نے ان کا ہاتھ  ہٹایا تو زخم سے خون جاری ہوگیا پھر ویسے ہی رکھ دیا تو بند ہوگیا، ان کے ہاتھ میں ایک انگوٹھی تھی جس پر لکھا ہوا تھا اللہ ربی۔

  یمن کے عامل نے اس واقعہ کی اطلاع حضرت فاروق اعظم کو دی تو آپ نے جواب میں لکھا کہ ان کو انگوٹھی سمیت اسی طرح چھپا دو جیسے پہلے تھے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ 

عبد الله بن تامر کی شہادت کے دن اہل نجران نے دین عیسوی قبول کر لیا تھا اور وہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے زمانے تک اسی دین پر قائم رہے اور بعد میں مسلمان ہوگئے۔ 

سبق : اس واقعے سے یہ سبق ملتا ہے کہ سچ دبانے سے مٹتا نہیں بلکہ اور زیادہ پھیلتا ہے۔ جس طرح کچھ لوگوں کی قربانیوں سے اہل نجران نے دین عیسوی قبول کیا اسی طرح مکہ کے کمزور مسلمانوں کی قربانیاں اہل عرب کی تاریخ بدل دیں گی۔ 


وَالسَّمَاۗءِ ذَاتِ الْبُرُوْجِ (1)


 قسم ہے برجوں والے آسمان کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چار سورتیں ہیں جن کی ابتداء آسمان کے ذکر سے کی گئی ہے۔ الانفطار، الانشقاق، البروج اور الطارق۔ 

سورة البروج کی ابتداء میں چار چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے۔

 آسمان کی صفت بیان کرکے اس کی قسم کھائی، قسم ہے برجوں والے آسمان کی۔ 

بروج سے کیا مراد ہے؟ 

بروج، برج کی جمع ہے۔ بڑے محل یا قلعہ کو برج کہا جاتا ہے۔

اس کے متعلق مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں۔ 

  1. بروج سے مراد بڑے بڑے ستارے ہیں۔
  2. آسمان کے دروازے مراد ہیں۔
  3. بروج سے مراد محلات  ہیں۔ جو آسمان میں پہرہ داروں اور نگراں فرشتوں کے لئے مقرر ہیں
  4. آسمان کے بارہ حصے مراد ہیں جنہیں فلسفیوں نے برجوں کا نام دے رکھا ہے۔ 

پہلی چیز کی قسم اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ جو قادر مطلق ہستی کائنات کے عظیم الشان ستاروں اور سیاروں پر حکمرانی کر رہی ہے اس کی گرفت سے یہ حقیر و ذلیل انسان بچ کر کہاں جا سکتے ہیں ۔


 وَالْيَوْمِ الْمَوْعُوْدِ (2)


 اور اس دن کی جس کا وعدہ کیا گیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسری قسم : یوم موعود سے مراد قیامت کا دن ہے، جزا و سزا کے لئے جس دن کا وعدہ کیا گیا ہے۔

دوسری چیز کی قسم اس وجہ سے کھائی گئی ہے کہ دنیا میں ان لوگوں نے جو ظلم کرنا چاہا کر لیا ، مگر ایک وقت آنے والا ہے جس سے انسانوں کو خبردار کیا جا چکا ہے یعنی قیامت اور اس دن  ہر مظلوم کی داد رسی اور ہر ظالم کی پکڑ ہو گی۔


 وَشَاهِدٍ وَّمَشْهُوْدٍ (3)


اور حاضر ہونے والے کی اور اس کی جس کے پاس لوگ حاضر ہوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تیسری اور چوتھی قسم 

شاہد اور مشہود سے کیا مراد ہے ، اس میں بہت سے اقوال ہیں۔


  1. شاہد سے مراد  جمعہ کا دن اور مشہود سے مراد یوم عرفہ ہے۔
  2. شاہد سے مراد الله سبحانہ و تعالی ہے اور مشہود سے مراد قیامت ہے۔
  3. شاہد سے مراد نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم ہیں اور مشہود سے مراد قیامت ہے۔
  4. شاہد سے مراد نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور مشہود سے مراد آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی امت ہے۔
  5. شاہد سے مراد امت مسلمہ اور مشہود سے مراد پہلی امتیں ہیں۔
  6. شاہد سے مراد اِنسان ہے، اور مشہود سے مراد قیامت کا دِن ہے، کیونکہ ہر اِنسان اُس دن اﷲ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہوجائے گا۔
  7. “شاہد” سے مراد حاضر ہونے والا۔ اور ” مشھود “ جس کے پاس حاضر ہوا جائے۔ لفظوں کے لحاظ سے اس میں وہ سب لوگ شامل ہیں جو کہیں حاضر ہوسکتے ہیں اور مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ اسی طرح وہ تمام چیزیں بھی شامل ہیں جن کا مشاہدہ ہوسکتا ہے یا جن کے پاس کوئی حاضر ہوسکتا ہے۔



تیسری اور چوتھی چیز کی قسم اس لیے کھائی گئی ہے کہ جس طرح ان ظالموں نے ان بے بس اہل ایمان کے جلنے کا تماشا دیکھا اسی طرح قیامت کے روز ساری مخلوق دیکھے گی کہ ان سے اس کا بدلہ کیسے لیا جائے گا۔ 


 قُتِلَ اَصْحٰبُ الْاُخْدُوْدِ (4)


کہ خدا کی مار ہے ان خندق (کھودنے) والوں پر

۔۔۔۔۔۔۔



 النَّارِ ذَاتِ الْوَقُوْدِ (5)


اس آگ والوں پر جو ایندھن سے بھری ہوئی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


یہ جواب قسم ہے۔ 

  قتل بمعنی لعن یعنی کفار پر لعنت کی گئی  ہے۔ ہلاک ہوگئے وہ کھائیوں والے۔ “

” اصحاب الاخدود “ سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے خندقیں کھودیں اور اہل ایمان کو ان خندقوں میں ڈال کر جلایا۔ بظاہر تو وہاں اہل ایمان ہلاک ہوئے تھے لیکن وہ تو کامیاب ہوگئے اور اصل ہلاکت و بربادی ان لوگوں کے حصے میں آئی جنہوں نے مسلمانوں کو ان کے ایمان کی وجہ سے خندقیں کھود کر آگ میں جلایا۔ 

لعنت الله کی رحمت سے دوری اور الله کی سخت ناراضگی کا اظہار ہے۔ ان آیات سے  مکہ کے مظلوم مسلمانوں کو تسلی دی گئی کہ جو کافر آج ان پر ظلم و ستم کر رہے ہیں وہ بھی الله کی لعنت میں گرفتار ہوں گے۔ خواہ دنیا میں ہوں جیسے غزوہ بدر میں ہوئے یا پھر آخرت میں ہوں گے جو کفار کے لیے ثابت ہے۔ 



 اِذْ هُمْ عَلَيْهَا قُعُوْدٌ (6)


جب وہ اس کے پاس بیٹھے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وَّهُمْ عَلٰي مَا يَفْعَلُوْنَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ شُهُوْدٌ (7)


اور وہ ایمان والوں کے ساتھ جو کچھ کر رہے تھے، اس کا نظارہ کرتے جاتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی جب انہوں نے خندقوں میں آگ بھر دی تو ان کے کناروں پر بیٹھ گئے تاکہ مسلمانوں کو جلانے کا تماشہ دیکھیں اور ایمان والوں کو جلتے دیکھ کر خوش ہوں۔ شہود سے مراد نگرانی کرنا بھی ہے اور کفار کی بے رحمی اور سنگ دلی کی طرف بھی اشارہ ہے۔ 


وَمَا نَقَمُوْا مِنْهُمْ اِلَّآ اَنْ يُّؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ (8)


اور وہ ایمان والوں کو کسی اور بات کی نہیں، صرف اس بات کی سزا دے رہے تھے کہ وہ اس اللہ پر ایمان لے آئے تھے جو بڑے اقتدار والا، بہت قابل تعریف ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مطلب یہ ہے کہ ان مسلمانوں کو یہ سزا کسی دنیاوی جرم کی وجہ سے نہیں دی گئی ۔ ان کا قصور صرف الله پر ایمان لانا تھا جو کافروں کو سخت ناگوار گزرا حالانکہ مؤمن تو اس الله پر ایمان لائے جو العزیز یعنی ایسا زبردست ہے کہ ظالموں کو پل بھر میں خاک میں ملا سکتا ہے اور الحمید ہے۔ جس کی ذات میں تمام خوبیاں اور کمالات موجود ہیں۔ ایسی بے مثل صفات والی ذات پر ایمان لانا عقل و دانش کا تقاضا ہے  اور فخر وعزت کا سبب ہے۔ یہ کوئی جرم نہیں تھا جس پر مؤمنوں کو سزا دی گئی۔

ان آیات میں اللہ تعالی کی ان صفات کا ذکر کیا گیا ہے جن کی وجہ  سے صرف الله تعالی کا حق  ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے اور وہ لوگ ظالم ہیں جو اس بات پر بگڑتے ہیں کہ کوئی اس پر ایمان لائے ۔



 الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ  ۭ وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ (9)


 جس کے قبضے میں سارے آسمانوں اور زمین کی سلطنت ہے۔ اور اللہ ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مؤمن اس الله پر ایمان لائے  جو زمین و آسمان کا خالق و مالک ہے۔ الله ہر چیز پر گواہ ہے وہ ظالم کے ظلم اور مظلوم کی مظلومیت سے خوب واقف ہے۔ چنانچہ وہ ضرور مظلوم کی مدد کرے گا اور اسے انصاف و اجر دے گا۔ وہ  دنیا اور آخرت میں ظالم کی پکڑ کرے گا۔ جو جس سلوک کا مستحق ہے اس سے ویسا ہی سلوک کیا جائے گا۔ 


اِنَّ الَّذِيْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوْبُوْا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيْقِ (10)


یقین رکھو کہ جن لوگوں نے مومن مردوں عورتوں کو ظلم کا نشانہ بنایا ہے، پھر توبہ نہیں کی ہے، ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور ان کو آگ میں جلنے کی سزا دی جائے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ان آیات میں ظالموں کی سزا  کا بیان ہے جنہوں نے مسلمانوں کو صرف ان کے ایمان لانے کی وجہ سے اگٓ کی خندق میں ڈال کر جلایا تھا ان کے لیے دو عذاب ہیں۔ 

عذاب جہنم جس کا معنی واضح ہے اور عذاب الحریق کا معنی بھی جلانے کا ہے تو اس سے دو معنی مراد ہو سکتے ہیں۔ 

  1. عذاب الحریق عذاب جہنم کی ہی تاکید اور وضاحت ہے کہ جہنم میں جا کر ان لوگوں کی سزا یہ ہو گی کہ ہمیشہ اسی آگ میں جلتے رہیں گے۔ 
  2. عذاب جہنم میں آخرت کا بیان ہے اور عذاب الحریق دنیا کی سزا ہے۔ جیسا کہ بعض روایات میں ہے جن مؤمنین کو ان لوگوں نے آگ کی خندق میں ڈالا تھا الله تعالی نے ان کو تو تکلیف سے اس طرح بچا دیا کہ آگ کے چھونے سے پہلے ہی ان کی روحیں قبض کرلی گئیں آگ میں مردہ جسم پڑے، پھر یہ آگ اتنی بھڑک اٹھی کہ خندق کی حدود سے نکل کر شہر میں پھیل گئی اور ان سب لوگوں کو جو مسلمانوں کے جلنے کا تماشا دیکھ رہے تھے اس آگ نے جلا دیا۔ صرف بادشاہ یوسف ذونواس بھاگ نکلا اور آگ سے بچنے کے لئے اپنے آپ کو دریا میں ڈال دیا اس میں غرق ہو کر مراد (مظہری) – 


یہ عذاب بھی ان لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے اپنی زندگی میں توبہ نہیں کی یعنی  اس آیت میں گناہ گار  لوگوں کو توبہ کی طرف دعوت دی گئی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی انتہائی شفقت اور اس کا کرم ہے کہ جن لوگوں نے اللہ پر ایمان لانے والوں کو زندہ جلا کر ان کا تماشا دیکھنے کا عظیم گناہ کیا، الله کریم  انہیں  بھی اپنی توبہ اور مغفرت کی طرف متوجہ کر رہے ہیں۔ یعنی اگر کسی نے مرنے سے پہلے توبہ کرلی اور ایمان لے آیا تو اس کا بڑے سے بڑا  جرم  معاف ہوسکتا ہے۔



 اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ ۀ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيْرُ (11)


جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک عمل کیے ہیں، ان کے لیے بیشک (جنت کے) ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ یہ ہے بڑی کامیابی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان آیات میں  مومن مردوں اور عورتوں کو تسلی دی گئی کہ وہ کفار کی ایذا رسانیوں سے گھبرائیں نہیں۔ ان سے پہلے بھی مومنوں پر بڑے بڑے مصائب ڈھائے جاچکے ہیں۔ ان مصائب کو برداشت کرنے کے بدلے میں  انہیں اللہ کے ہاں بے شمار و بے حساب نعمتیں ملنے والی ہیں۔ ان کے لیے باغات تیار ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے؛ کیونکہ یہ نعمتیں ہمیشہ رہنی والی ہوں گی۔ دنیا کے مال و اسباب کی طرح  ان نعمتوں کے چھن جانے  یا ختم ہو جانے کا کوئی  ڈر یا خوف نہیں ہوگا۔


 اِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيْدٌ (12)


حقیقت یہ ہے کہ تمہارے پروردگار کی پکڑ بہت سخت ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔ 

بطش “ وہ پکڑ جس میں تیزی اور سختی پائی جائے۔ رب تعالیٰ کی بطش جسے وہ خود شدید بتارہا ہے، کس قدر سخت ہوگی ؟ 

الله تعالیٰ کی گرفت بہت ہی سخت ہے، جس کو پکڑتا ہے پھر کوئی چھڑا نہیں سکتا، دنیا میں اسے ذلیل و خوار کرتا ہے اور آخرت میں شدید عذاب دیتا ہے۔


 اِنَّهٗ هُوَ يُبْدِئُ وَيُعِيْدُ (13)


وہی پہلی مرتبہ پیدا کرتا ہے اور وہی دوبارہ پیدا کرے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الله تعالی قادرِ مطلق ہے پہلی بار بھی اسی نے پیدا کیا وہ دوبارہ بھی پیدا کرے گا، یہ نہ سمجھنا کہ دنیا میں تمہارے ظلم و ستم پر باز پرس نہیں ہوئی تو مرنے کے بعد بھی نہیں ہوگی لہذا کفار کا یہ شبہ بھی نہ رہا کہ جب ہم نے دوبارہ زندہ ہی نہیں ہونا تو بطش شدید کیسے ہو گی۔ 


وَهُوَ الْغَفُوْرُ الْوَدُوْدُ (14)


 اور وہ بہت بخشنے والا، بہت محبت کرنے والا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان آیات میں الله تعالی اپنی چند عظیم الشان  صفات کا ذکر فرما رہے ہیں۔ 

الغفور یعنی الله تعالی توبہ و استغفار سے بندوں کی طرف متوجہ ہوکر ان  کے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ 

الودود یعنی الله سبحانہ و تعالی اپنے نیک و صالح بندوں سے محبت کرنے والا ہے۔ 


 ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيْدُ (15)


عرش کا مالک ہے، بزرگی والا ہے۔


فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُ (16)


جو کچھ ارادہ کرتا ہے کر گزرتا ہے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی  الله تعالی انسانوں کی  طرح معمولی اور عارضی اقتدار والا  نہیں، بلکہ اس عرش عظیم کا مالک ہے  جو زمین و آسمان اور جو کچھ اس کے درمیان ہے اس  سے بھی بڑا ہے، نہ ہی وہ انسانوں کی  طرح کم ظرف ہے   کہ معمولی سی قدرت ملے تو ظلم پہ اتر آئے  بلکہ وہ بڑی شان ولا ہے اور نہ وہ بےبس ہے کہ مجبور ہو کر اسے اپنے ارادے ترک کرنا پڑیں، بلکہ وہ جو چاہے کر گزرنے والا ہے۔ ایسے زبردست قوت والے پروردگار سے  ہر وقت ڈرتے رہنا چاہیے اور اس کی رحمت کا طلب گار رہنا چاہیے۔

 یاد رہے کہ یہاں ” ذوالعرش “ کے بعد ” المجید “ بھی اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، اس لئے اس پر رفع ہے، یہ ” العرش “ کی صفت نہیں، ورنہ “د” مجرور ہوتا ہے۔



 هَلْ اَتٰىكَ حَدِيْثُ الْجُــنُوْدِ (17)


 کیا تمہارے پاس ان لشکروں کی خبر پہنچی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 فِرْعَوْنَ وَثَمُــوْدَ (18)


فرعون اور ثمود (کے لشکروں) کی ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اصحاب الاخدود کا واقعہ بیان کرنے کے بعد ان آیات میں مؤمنین کی مزید تسلی کے لیے دو اور واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ایک تو فرعون کی ہلاکت کا ذکر  ہے جسے  اپنی سلطنت، حکومت اور لاؤ لشکر پر بڑا گھمنڈ تھا۔ دوسرا قوم ثمود جنہوں نے حضرت صالح علیہ السلام کی نافرمانی کی۔ وہ بھی اپنے آپ کو بہت طاقتور سمجھتے  تھے۔  انہوں نے اپنے مکانات پہاڑوں کے اندر بنا رکھے تھے بلکہ شہروں کے شہر پہاڑوں کے اندر آباد کر رکھے تھے اور کہتے تھے کہ قوت میں ہم سے بڑھ کر اور کون ہوسکتا ہے ؟ مگر جب ان لوگوں نے گھمنڈ میں آکر اللہ کے مقابلے میں سرکشی کی راہ اختیار کی تو اللہ نے انہیں تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔


 بَلِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فِيْ تَكْذِيْبٍ (19)


اس کے باوجود کافر لوگ حق کو جھٹلانے میں لگے ہوئے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سرکش قوموں کی تباہی کے واقعات سننے کے باوجود کفار ان سے نہ تو ڈرتے ہیں نہ عبرت حاصل کرتے ہیں اُلٹا قرآن مجید اور قیامت کو جھٹلانے اور الله کے احکام کی تکذیب میں لگے ہوئے ہیں۔ 


 وَّاللّٰهُ مِنْ وَّرَاۗئِهِمْ مُّحِيْــطٌ (20)


جبکہ اللہ نے ان کو گھیرے میں لیا ہوا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن الله جل جلالہ ہر طرف سے ان کو گھیرے ہوئے ہے، یہ الله کے عذاب سے بچ نہیں سکتے اپنے انجام کو ضرور پہنچیں گے۔


بَلْ هُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِيْدٌ (21)


 (ان کے جھٹلانے سے قرآن پر کوئی اثر نہیں پڑتا) بلکہ یہ بڑی عظمت والا قرآن ہے۔

۔۔۔۔۔۔

فِيْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ (22)


 جو لوح محفوظ میں درج ہے۔

۔۔۔۔۔

مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید کی آیات کو جھٹلانا کفار کی حماقت ہے۔ قرآن کی صداقت میں کوئی شک و شبہ نہیں کیونکہ یہ لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے،  پھر بڑی احتیاط اور حفاظت کے ساتھ  جبرائیل امین کے ذریعے نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم تک پہنچا دیا گیا۔ کفار ان واقعات کی نہیں درحقیقت قرآن مجید کی تکذیب کرتے ہیں حالانکہ یہ قرآن جھٹلانے کی چیز نہیں ہے اور اس میں کسی غلطی یا تحریف کی گنجائش نہیں کیونکہ وہ لوح محفوظ میں ثبت ہے جہاں جن و انس یا شیاطین نہیں پہنچ سکتے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مختصر تفسیر سورة البروج 


اس سورت کے پس منظر کے طور پر احادیث میں ایک واقعہ آتا ہے کہ ایک نوجوان جو شاہی خرچہ پر پل کر جوان ہوا تھا مسلمان ہو گیا، بادشاہ نے اس کے قتل کا فیصلہ کیا، اس نے ایمان کے تحفظ میں اپنی جان قربان کر دی، اس واقعہ سے متاثر ہو کر بادشاہ کی رعیت مسلمان ہو گئی، اس نے خندقیں کھدوا کر ان میں آگ جلا دی اور اعلان کر دیا کہ جو ایمان سے منحرف نہ ہوا اسے خندق پھینک دیا جائے گا، لوگ مرتے مر گئے مگر ایمان سے دستبردار نہ ہوئے۔ قرآن کریم نے ان کی اس بے مثال قربانی اور دین پر ثابت قدمی کو سراہتے ہوئے قسمیں کھا کر کہا ہے کہ اپنی طاقت و قوت کے بل بوتے پر خندقوں میں پھینک کر ایمان والوں کو جلانے والے ان پر غالب ہونے کے باوجود ناکام ہو گئے اور اپنی کمزوری اور بے کسی کے عالم میں خندقوں کے اندر جلنے والے کامیاب ہو گئے۔

 اس سے یہ ثابت ہوا کہ دنیا کا اقتدار اور غلبہ عارضی ہے، اس پر کامیابی یا ناکامی کا مدار نہیں ہے، اصل کامیابی ایمان پر ثابت قدمی میں ہے۔ پھر خیر و شر کی قوتوں کے انجام کے تذکرہ کے ساتھ ہی اللہ کی طاقت و قوت، محبت و مغفرت اور جلال و عظمت کو بیان کر کے مجرموں پر مضبوط ہاتھ ڈالنے کا اعلان کیا اور پھر فرعون اور ثمود کی ہلاکت کے بیان کے ساتھ قرآن کریم کے انتہائی محفوظ ہونے کا اعلان ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الانشقاق :7 ۔عم پارہ

 سورة الانشقاق 

پچیس آیات پر مشتمل اس سورة کو سورة انشقت بھی کہا جاتا ہے اور یہ مکی سورة ہے۔

ربط : 

سابقہ سورتوں کی طرح، اس سورة میں بھی احوالِ قیامت ، حساب کتاب اور جزا و سزا کا ذکر ہے اور غافل انسان کو اپنے گردو پیش کے حالات پر غورو فکر کی دعوت دی گئی ہے۔ تاکہ ان سے عبرت حاصل کرکے ایمان کی دولت سے مالا مال ہو۔ 

سورة الانفطار میں اعمال نامے لکھنے کا ذکر ہے اور سورۃ المطففین میں علیین اور سجین میں اعمال ناموں کی حفاظت کا بیان ہے۔ اب اس سورة یعنی الانشقاق میں قیامت کے دن اعمال نامے ہاتھ میں دئیے جانے کا بیان ہے۔ 



 اِذَا السَّمَاۗءُ انْشَقَّتْ (1)


جب آسمان پھٹ پڑے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

جب قیامت واقع ہو گی تو آسمان پھٹ جائے گا۔ عربی میں پھٹ پڑنے کو ’’انشقاق‘‘ کہتے ہیں، اسی لئے اس سورت کا نام انشقاق ہے۔ 

آسمان  کا یہ حال مختلف سورتوں میں مختلف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔  سورة نبا میں آسمان کے کھولے جانے اور دروازوں میں تقسیم ہو جانے کا بیان ہے۔ سورة التکویر میں کہا گیا کہ آسمان کی کھال کھینچ لی جائے گی۔ سورة الانفطار میں آسمان کے پھٹ جانے کو انفطرت کہا گیا اور اب سورة الانشقاق میں اسی پھٹ جانے کے لیے انشقت کا صیغہ لایا گیا۔ 

سورة الفرقان میں کہا گیا کہ جس دن آسمان بادلوں کے ساتھ پھٹے گا اور فرشتے گروہ درگروہ در گروہ اتارے جائیں گے۔


 وَاَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ (2)


اور وہ اپنے پروردگار کا حکم سن کر مان لے گا، اور اس پر لازم ہے یہی کرے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اذن کا معنی ہے سُن لینا۔ الله جل شانہ آسمان کو پھٹ جانے کا حکم دیں گے۔ وہ اپنے رب کے حکم پر کاربند ہونے کے لیے اپنے کان لگائے ہوئے ہے۔ حکم پاتے ہی فورا اطاعت کرے گا اور پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیگا؛ کیونکہ الله جل شانہ کا بحیثیت خالق ہونے کے حق ہے کہ مخلوق اس کو سنے اور اطاعت کرے۔ 


 وَاِذَا الْاَرْضُ مُدَّتْ (5)


اور جب زمین کو کھینچ دیا جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مد کا مطلب ہے کھینچنا ، لمبا کرنا۔  محشر کے دن زمین پر ساتوں آسمانوں کے فرشتے، ہر طرح کی مخلوق اور انسان و جن سب جمع ہوں گے اس لیے زمین کو کھینچ کر وسیع کر دیا جائے گا۔ بلندی و پستی، پہاڑ اور غار اونچی نیچی جگہیں سب برابر ہو جائیں، کوئی آڑ باقی نہ رہے۔ یعنی زمین کو کھینچ کر اس میں وسعت بھی پیدا کی جائے گی اور اسے ہموار بھی کر دیا جائے گا۔ 

حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت کے روز زمین کو اس طرح کھینچ کر پھیلایا جائے گا جیسے چمڑے (یا ربڑ) کو کھینچ کر بڑا کردیا جاتا ہے، مگر اس کے باوجود میدان حشر جو اس زمین پر ہوگا اس میں ابتداء دنیا سے قیامت تک کہ تمام انسان جمع ہوں گے تو صورت یہ ہوگی کہ ایک آدمی کے حصہ میں صرف اتنی زمین ہوگی جس پر وہ اپنے دونوں پاؤں رکھ سکے گا۔ (المعارف) 


وَاَلْقَتْ مَا فِيْهَا وَتَخَلَّتْ (4)


اور اس کے اندر جو کچھ ہے وہ اسے باہر پھینک دے گی اور خالی ہوجائے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پہلے آسمان کے پھٹنے کا ذکر ہے پھر زمین کا۔ جو کچھ زمین کے پیٹ میں ہے خواہ وہ مدفون خزانے  ہوں یا انسانوں کے مردہ جسم ، وہ سب اگل کر باہر نکال دے گی۔ اندر سے خالی ہو جائے گی اور محشر کے لئے ایک نئی زمین تیار ہوگی جو بالکل  صاف اور سیدھی ہوگی۔



وَاَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ (5)


 اور وہ اپنے پروردگار کا حکم سن کر مان لے گی، اور اس پر لازم ہے کہ یہی کرے (اس وقت انسان کو اپنا انجام معلوم ہوجائے گا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی زمین بھی الله جل جلالہ کے حکم پر کان لگائے ہوئے ہے۔ جو بھی حکم ہو گا وہ اس کا انکار نہیں کر سکے گی بلکہ اس کو مان لے گی۔ 


 ٰٓیاَيُّهَا الْاِنْسَانُ اِنَّكَ كَادِحٌ اِلٰى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلٰقِيْهِ (6)


 اے انسان ! تو اپنے پروردگار کے پاس پہنچنے تک مسلسل کسی محنت میں لگا رہے گا، یہاں تک کہ اس سے جا ملے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

کدح کے معنے کسی کام میں پوری جدوجہد اور اپنی توانائی صرف کرنے کے ہیں، اس آیت میں چند چیزیں بیان کی گئی ہیں۔ 

  1. یہ کہ ہر انسان کے دل میں ایک خواہش پیدا ہوتی ہے جسے پورا کرنے کے لیے محنت کرتا ہے اور وہ کام ابھی مکمل بھی نہیں ہوتا،  کوئی اور خواہش یا خواہشیں اس کے دل میں پیدا ہوجاتی ہیں۔ پھر وہ ان خواہشات کی تکمیل کے لیے کمر کس لیتا ہے اور اسی طرح اس کی تمام زندگی بیت جاتی ہے۔ مسلمان ہو یا کافر،  شریف اور نیک انسان ہو یا چور ، امانت دار ہو یا دھوکے باز ہر شخص خوب جدو جہد سے جسمانی و ذہنی مشقت کرکے ہی اپنا مقصد حاصل کرتا ہے۔ 
  2. غور کیا جائے تو انسان کی ہر طرح کی اچھی یا بری ، محنت و مشقت کا انجام اور انتہا موت ہے یعنی وہ اسی منزل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ الی ربک میں اسی بات کی طرف اشارہ ہے۔ 
  3. موت کے بعد ہر شخص نے اپنے رب کے پاس حاضر ہونا اور اپنے تمام اچھے یا برے اعمال کا حساب دینا ہے۔ یہ بات عقل و عدل کے اعتبار سے بھی نہایت ضروری ہے کہ ہر شخص کو اس کے اعمال کے مطابق جزا یا سزا دی جائے۔
  4. فملقیہ کی ضمیر کو اگر کدح کی طرف لوٹایا جائے تو مراد یہ ہوگی کہ جو جدوجہد انسان یہاں کر رہا ہے اپنے رب کے پاس پہنچ کر اس کا بدلہ پائے گا۔ 



 فَاَمَّا مَنْ اُوْتِيَ كِتٰبَهٗ بِيَمِيْنِهٖ (7)


پھر جس شخص کو اس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَّسِيْرًا (8)


 اس سے تو آسان حساب لیا جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔

ان آیات میں مومنوں  کا حال بیان فرمایا ہے کہ ان کے نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیئے جائیں  گے۔ ان سے بہت آسان حساب لے کر جنت کی بشارت دے دی جائے گی اور وہ اپنے گھر والوں کے پاس خوش خوش واپس لوٹیں گے۔ 

آسان حساب یہ ہے کہ جس کی نیکیوں کا پلڑا بھاری نکلا اس سے اس کی برائیوں کے متعلق کرید کرید کر یہ سوال نہیں کیا جائے گا کہ تم نے فلاں برا کام کیوں کیا تھا ؟ کیا تمہارے پاس اس کے لیے کوئی عذر ہے ؟ بلکہ اس کی خطاؤں سے درگزر کیا جائے گا۔

اور یہ کہ ایمان والوں  کے تمام اعمال رب العالمین  کے سامنے پیش ہوں گے مگر ان کے ایمان کی برکت سے ان کے ہر عمل کی پرسش نہیں ہوگی۔ اسی کا نام حساب یسیر ہے۔ کیونکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ جس شخص سے اس کے اعمال کا پورا پورا حساب لیا گیا وہ ہرگز عذاب سے نہ بچے گا۔

یا آسان حساب کی ایک صورت یہ ہوگی کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہے گا تھوڑی نیکی کا ثواب بہت زیادہ عطا فرما دے گا۔ 

غرض اللہ تعالیٰ جس طرح چاہے گا حساب آسان کر دے گا، مگر شرط یہ ہے  کہ آدمی ہر طرح کے ظاہری اور باطنی شرک یعنی ریا سے پاک ہو۔ اس حال میں اگر گناہ گار توبہ کیے بغیر بھی مرگیا تو اللہ  سے رحمت اور آسان حساب کی امید ہے۔


 وَّيَنْقَلِبُ اِلٰٓى اَهْلِهٖ مَسْرُوْرًا (9)


 اور وہ اپنے گھر والوں کے پاس خوشی مناتا ہوا واپس آئے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مطلب یہ ہے کہ حساب کتاب میں کامیابی سے بہت خوش ہوگا اور اپنے اہل کو خوشخبری سنائے گا۔ 

اس کے اہل کون ہوں گے۔  دو معنے ہو سکتے ہیں، یا تو گھر والوں سے مراد جنت کی حوریں ہیں جو وہاں اس کے اہل ہوں گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ دنیا میں جو اس کے اہل و عیال تھے محشر کے میدان میں جب حساب کے بعد کامیابی ہوگی عادت کے مطابق اس کی خوشخبری سنانے ان کے پاس جائے گا۔ 

 مفسرین  نے دونوں معنی مراد لیے ہیں۔  


 وَاَمَّا مَنْ اُوْتِيَ كِتٰبَهٗ وَرَاۗءَ ظَهْرِهٖ (10)


لیکن وہ شخص جس کو اس کا اعمال نامہ اس کی پشت کے پیچھے سے دیا جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فَسَوْفَ يَدْعُوْا ثُبُوْرًا (11)


 وہ موت کو پکارے گا۔


وَّيَصْلٰى سَعِيْرًا (12)


 اور بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان آیات میں کفار کی سزا کا بیان ہے کہ ان کے نامہ اعمال ان کو پیٹھ کے پیچھے سے دئیے جائیں گے اور وہ گھبرا کر موت و ہلاکت کو پکاریں گے جس طرح دنیا کی مصیبت میں انسان موت کو پکارتا ہے۔ 

سوال : سورۃ الحاقۃ میں فرمایا گیا ہے کہ مجرموں کا نامہ اعمال ان کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اور یہاں ارشاد ہوا ہے کہ اس کی پیٹھ کے پیچھے دیا جائے گا، بظاہر تضاد ہے ؟

جواب :

کوئی تضاد یا تعارض نہیں، نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں ہی دیا جائے گا۔ 

وہ اس طرح کہ ان مجرموں کے ہاتھ  پیٹھ پیچھے بندھے ہوں گے۔ اس لیے پیٹھ پیچھے بائیں ہاتھ میں نامہ اعمال دئیے جائیں گے۔ 

یا یہ کہ بایاں ہاتھ پشت کی طرف نکال دیا جائے گا اور اس میں نامہ اعمال تھما دیا جائے گا۔ 

بائیں ہاتھ میں اعمال نامہ پکڑنے کے بعد اسے اپنا  انجام نظر آنے لگے گا لہذا وہ موت کو پکارے گا اور مرنے کی کوشش کرے گا مگر اسے موت میسر نہ ہوگی۔ انسان اس دنیا میں مرنے پر مجبور ہے لیکن اُس دنیا میں جینے پر مجبور ہوگا۔ وہ انہی خیالوں میں پڑا ہوگا کہ جہنم اسے اپنے قبضے میں لے لے گی اور وہ  خود بخود اس میں گرپڑے گا۔


 اِنَّهٗ كَانَ فِيْٓ اَهْلِهٖ مَسْرُوْرًا (13)


 پہلے وہ اپنے گھر والوں کے درمیان بہت خوش رہتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کافر کے عذاب کی وجہ یہ بتائی کہ وہ  دنیا میں آخرت سے بے فکر، اپنی خواہشات میں مگن، اپنے گھر والوں کے درمیان بڑا خوش تھا۔ جب کہ ایک مؤمن  کو عیش وآرام میں بھی آخرت کی فکر ضرور لگی رہتی ہے۔ 


اِنَّهٗ ظَنَّ اَنْ لَّنْ يَّحُوْرَ (14)


اس نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ وہ کبھی پلٹ کر (اللہ کے سامنے) نہیں جائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حار کا معنی ہے گھوم پھر کر اسی جگہ واپس آجانا جہاں سے چلا تھا۔ 

دنیا میں کافر  کا خیال تھا کہ بس یہی زندگی ہے، نہ تو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا ہے نہ ہی واپس لوٹںا اور نہ  اس سے کوئی حساب لیا جائے گا۔ 


 بَلٰٓى  ڔ اِنَّ رَبَّهٗ كَانَ بِهٖ بَصِيْرًا۔ (15)


 بھلا کیوں نہیں ؟ اس کا پروردگار اسے یقینی طور پر دیکھ رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

حالانکہ اس کی پیدائش سے لے کر اس کی موت تک کے تمام کاموں پر اللہ کی نظر تھی۔ اس کی روح کہاں سے آئی، بدن کس کس چیز سے بنا، پھر پیدا ہو کر وہ کیا اور کیسے کام کرتا رہا۔ مرنے کے بعد اس کی روح کہاں ہے اور بدن کے اجزاء بکھر کر کہاں کہاں پہنچے۔ یہ سب باتیں اللہ تعالی کی نگاہ میں تھیں۔ اور یہ بات اللہ کی حکمت اور انصاف کے خلاف ہے کہ جیسے اعمال وہ کر رہا تھا اس کو نظر انداز کردیتا اور اس سے کوئی مؤاخذہ نہ کرتا۔


فَلَآ اُقْسِمُ بِالشَّفَقِ (16


 اب میں قسم کھاتا ہوں شفق کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان آیات میں الله تعالی نے چار چیزوں کی قسم کھائی ہے۔ 

پہلی چیز شفق ہے یعنی وہ سرخی جو سورج غروب ہونے کے بعد آسمان کے مغربی کنارے پر ہوتی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ شفق وہ سیاہی ہے جو سفیدی کے غائب ہوجانے کے بعد ظاہر ہوتی ہے اور بعض کہتے ہیں شفق کے اصل معنی رقت یعنی پتلا پن کے ہیں۔ اسی سے شفقت کا لفظ نکلا ہے جس کے معنی دل کی نرمی کے ہیں۔ جب شفق کے اصل معنی یہ ہیں تو اس سے سرخی کی بجائے سفیدی مراد لینا بہتر ہے۔ اس کے بعد رات شروع ہوجاتی ہے،  جو انسان کے حالات میں ایک بڑی تبدیلی کی ابتدا  ہے۔ یعنی روشنی مدہم ہو رہی  ہے اور اندھیرا چھا رہا  ہے۔


وَالَّيْلِ وَمَا وَسَقَ (17)


اور رات کی اور ان تمام چیزوں کی جنہیں وہ سمیٹ لے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسری قسم رات کی ہے جو اس تبدیلی  کو مکمل کر دیتی ہے اور وہ تمام چزیں جو رات کی تاریکی کے اندر جمع ہوتی ہیں۔ 

تیسری قسم وسق کی ہے جس کے اصل معنی جمع کرلینے کے ہیں۔ اگر اس کے عام معنی  مراد لئے جائیں تو اس میں کائنات کی تمام اشیاء شامل  ہیں جو رات کی تاریکی میں چھپ جاتی ہیں یعنی حیوانات، نباتات، جمادات، پہاڑ اور دریا وغیرہ 

اور جمع کرلینے کی مناسبت سے یہ معنی  ہو سکتے ہیں کہ وہ چیزیں جوعام طور پر دن کی روشنی میں منتشر اور پھیلی ہوئی رہتی ہیں،  رات کے وقت وہ سب سمٹ کر اپنے اصل  ٹھکانوں میں جمع ہوجاتی ہیں۔ 

انسان، حیوان ، چرند ، پرند اپنے گھروں اور گھونسلوں میں جمع ہوجاتے ہیں۔ سامانِ زندگی کے کاروبار کو سمیٹ دیا جاتا ہے۔


 وَالْقَمَرِ اِذَا اتَّسَقَ (18)


 اور چاند کی جب وہ بھر کو پورا ہوجائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چوتھی چیز جس کی قسم کھائی گئی وہ چاند  ہے یہ بھی وسق سے مشتق ہے جس کے معنے جمع کرلینے کے ہیں۔

 قمر یعنی چاند کے اتساق سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنی روشنی کو جمع کرلے۔

اذا اتسق کا لفظ چاند کے مختلف اطوار اور حالات کی طرف اشارہ ہے۔ شروع میں  ایک نہایت باریک قوس کی شکل میں رہتا ہے پھر اس کی روشنی روز کچھ ترقی کرتی ہے یہاں تک کہ مکمل چودھویں کا چاند ہوجاتا ہے۔


 لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ (19)


 کہ تم سب ایک منزل سے دوسری منزل کی طرف چڑھتے جاؤ گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شفق، رات اور چاند کی قسم کھانے کا مقصد جوابِ قسم کے مضمون کی وضاحت و تاکید  ہے، جیسے یہ ساری چیزیں ﷲ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل ہوتی رہتی ہیں، ان کی قسم کھا کر یہ فرمایا گیا ہے کہ اِنسان بھی ایک منزل سے دوسری منزل تک سفر کرتا رہے گا، یہاں تک کہ ﷲ تعالیٰ سے جا ملے گا۔

مراد یہ ہے کہ اے انسانو! تم ہمیشہ ایک حال میں نہیں رہو گے بلکہ ایک کے بعد ایک سیڑھی چڑھتے رہو گے۔ انسان اپنی تخلیق سے لے کر موت تک ایک حال میں نہیں رہتا۔ پہلے بچہ تھا، پھر جوان ہوا، پھر ادھیڑ عمر اور آخر بڑھاپے نے آ لیا، پھر موت کا مزہ چکھا، اس کے بعد قبر بھی آخری منزل نہیں ، وہاں کے مختلف حالات سے گزرنے کے بعد میدان حشر کے حالات سے گزرنا ہوگا۔ جہاں طے ہوگا کہ ابدی کامیابی ہوگی یا  ناکامی ۔ چنانچہ انسان کو چاہیے کہ دنیا میں اپنے آپ کو ایک مسافر خیال کرے۔ اپنے اصلی وطن اور ابدی ٹھکانے کی تیاری میں زندگی بسر کرے۔ 

لترکبن میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں۔

کچھ کے نزدیک دنیا میں پیدائش سے موت اور موت سے حشر تک کے حالات مراد ہیں اور کچھ کے نزدیک یہ ہے کہ تم سابقہ امتوں کے طور طریقوں پر ضرور بالضرور چلو گے اور بعض کے نزدیک یہ نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے لیے معراج کی بشارت ہے کہ آپ ضرور ایک آسمان سے دوسرے آسمان پر چڑھیں گے یا دنیا میں آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی فتح و کامیابی کی طرف اشارہ ہے  یا آخرت میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے بلند و اعلی مقامات کا تذکرہ ہے۔ 


 فَمَا لَهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ (20


پھر ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایمان نہیں لاتے ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی ان روشن اور واضح نشانیوں کے باوجود سب کچھ سننے، دیکھنے اور جاننے کے بعد بھی یقین کیوں نہیں کرتے۔ خود ان کی ذات میں طرح طرح کی تبدیلیاں ہو رہی ہیں، اسی طرح کائنات کی تبدیلیوں کو بھی ہر روز دیکھتے ہیں اس کے باوجود الله تعالی کی ذات پر ایمان نہیں لاتے۔ 


وَاِذَا قُرِئَ عَلَيْهِمُ الْقُرْاٰنُ لَا يَسْجُدُوْنَ۔ (21)


اور جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے تو وہ سجدہ نہیں کرتے ؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مراد یہ ہے کہ جب قرآن مجید کے احکام ان کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں تو بجائے ماننے کے تکبر کرتے ہوئے انکار کر دیتے ہیں اور ان کے سامنے سر جھکانے کی بجائے الٹا اس کو جھٹلاتے ہیں۔ 


سوال: و اذا قری علیھم القرآن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی قرآن مجید پڑھا جائے تو سجدہ کرنا چاہیے، کیونکہ کفار کی مذمت کی گئی ہے کہ جب ان پر  قرآن مجید پڑھا جاتا ہے تو وہ سجدہ نہیں کرتے؟ 


جواب: 

  1. سجدہ اور سجود کے معنی لغت میں جھکنے کے ہیں اور یہ اطاعت شعاری اور فرمانبرداری کے معنی میں لیا جاتا ہے۔  اس جگہ سجدہ سے مراد سجدہ اصطلاحی نہیں بلکہ اللہ کے سامنے اطاعت کیساتھ جھکنا ہے، جسکو خشوع و خضوع کہتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ جب قرآن مجید پڑھا جائے تو دل میں عاجزی اور جھکاؤ اختیار کیا جائے۔ 
  2. القرآن سے مراد پورا قرآن نہیں بل کہ قرآن مجید کی وہ مخصوص آیات ہیں جن پر سجدہ لکھا ہوا ہے اور جن کو پڑھا جائے تو پڑھنے اور سننے والے پر سجدہ واجب ہو جاتا ہے۔ 


اہم بات: یہ سجدہ کی آیت ہے، یعنی اس آیت کو جب عربی میں تلاوت کیا جائے تو پڑھنے اور سننے والے پر سجدہ تلاوت واجب ہوجاتا ہے۔ 


 بَلِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا يُكَذِّبُوْنَ (22)


 بلکہ یہ کافر لوگ حق کو جھٹلاتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سچ تو یہ ہے کہ کافر لوگ حق کو جھٹلاتے ہیں۔ اس آیت کے الفاظ میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ کفر اور تکذیب باہم مترادف نہیں بلکہ الگ الگ معنی رکھتے ہیں۔ 

 کفر کے لغوی معنی چھپانے کے ہیں۔  کسی انسان کا ” کفر “ یہ ہے کہ اس کی فطرت کے اندر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی معرفت سے متعلق جو گواہیاں رکھی ہیں، وہ جانتے بوجھتے ان گواہیوں کو چھپا دے اور لوگوں کے سامنے ان کا اقرار و اظہار نہ کرے۔ 

جبکہ تکذیب سے مراد اللہ تعالیٰ کی ان آیات کو جھٹلانا ہے جو انسانی فطرت میں موجود گواہیوں کو اجاگر کرنے کے لیے اس کی طرف سے نازل ہوئیں۔ اس لحاظ سے کفر اور تکذیب دو الگ الگ جرم  ہیں اور کفر کے مقابلے میں تکذیب بڑا جرم ہے۔


 وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا يُوْعُوْنَ۔ (23)


 اور جو کچھ یہ جمع کر رہے ہیں، اللہ کو خوب معلوم ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی یہ لوگ الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے متعلق جو کفر و عداوت اپنے سینوں میں جمع رکھتے اور چھپاتے ہیں ، الله تعالی اسے خوب جانتا ہے۔


فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ۔ (24)


اب تم انہیں ایک دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان کے غرور و تکبر کی یہ حالت ہے کہ سب کچھ سمجھنے کے بعد بھی کفر سے باز نہیں آتے تو اے نبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم آپ انہیں درد ناک عذاب کی بشارت سنا دیجیے۔ 


سوال: بشارت  تو خوشی کی خبر پر سنائی جاتی ہے، پھر یہاں درد ناک عذاب کو بشارت کیوں کہا گیا ہے؟ 

جواب: 

کفار کی نافرمانی اور مسلسل ضد و تکبر کی وجہ سے بطور زجر و استہزاء  انہیں دردناک عذاب کی خبر دی جا رہی ہے۔ 


اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمْ اَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُوْنٍ (25)


البتہ جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور انہوں نے نیک عمل کیے ہیں، ان کو ایسا ثواب ملے گا جو کبھی ختم نہیں ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آخر میں مؤمنین  اور نیک اعمال کرنے والوں کو نہ ختم ہونے والے بے حساب اجروثواب اور انعامات کی خوش خبری دی گئی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مختصر تفسیر عتیق سورة الانشقاق 

قیامت کے خوفناک مناظر اور عدل و انصاف کے مظہر ’’بے رحم احتساب‘‘ کے تذکرہ پر یہ سورت مشتمل ہے۔

 آسمان پھٹ جائیں گے اور زمین پھیل کر ایک میدان کی شکل اختیار کر لے گی اور اللہ کے حکم پر گوش بر آواز ہوں گے۔ انسان کو جہد مسلسل اور مشقت کے پے در پے مراحل سے گزر کر اپنے رب کے حضور پہنچنا ہو گا۔ دائیں ہاتھ میں نامۂ اعمال کا مل جانا محاسبہ کے عمل میں نرمی اور سہولت کی نوید ہو گی جبکہ پیٹھ کی طرف سے بائیں ہاتھ میں نامۂ اعمال کا ملنا کڑے محاسبہ اور ہلاکت کا مظہر ہو گی۔

 اس کے باوجود بھی یہ لوگ آخر ایمان کیوں نہیں لاتے اور قرآن سن کر سجدہ ریز کیوں نہیں ہو جاتے۔ درحقیقت ان تمام جرائم کے پیچھے عقیدۂ آخرت اور یوم احتساب کے انکار کا عامل کار فرما ہے۔ ایسے افراد کو درد ناک عذاب کی بشارت سنادیجئے۔ اس سے وہی لوگ بچ سکیں گے جو ایمان اور اعمال صالحہ پر کاربند ہوں گے ان کے لئے کبھی منقطع نہ ہونے والا اجرو ثواب ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سورۃ البلد:13، عم پارہ

سورۃ البلد    اسماء سورة بلد کا معنی  شہر ہے۔ اس سورت کی پہلی آیت میں   اللّٰہ  تعالیٰ نے  شہر مکہ کی قسم کھائی  ہے اس مناسبت سے اسے ’’سورہ...